Thanda Gosht by Saadat Hassan Manto - pdf

Thanda Gosht by Saadat Hassan Manto

 سعادت حسن منٹو کی تحریریں ہمیشہ سے متنازعہ اور چونکا دینے والی رہی ہیں۔ ان کی کتابوں کا آغاز اس پیراگراف سے ہوتا ہے:


"اگر آپ ان افسانوں کو برداشت نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ زمانہ ناقابلِ برداشت ہے_ میں تہذیب و تمدن کی اور سوسائٹی کی چولی کیا اتاروں گا جو ہے ہی ننگی - - - -!! میں اسے کپڑے پہنانے کی کوشش بھی نہیں کرتا اس لیے کہ یہ میرا کام نہیں، درزیوں کا کام ہے _"

(سعادت حسن منٹو)


منٹو کو پڑھنا ایک الگ ہی تجربہ ہے۔ ان کی تحریروں نے مجھے بھی متجسس کر دیا اور ان کی کتابوں کا مطالعہ شروع کرنے پر مجبور کیا۔ چاہے آپ نے منٹو کو پہلے پڑھا ہو یا نہ پڑھا ہو، ان کا نام آپ کے لیے نیا نہیں ہوگا۔ میرا منٹو کو پڑھنے کا پہلا تجربہ تھا، اور میں نے انہیں دو وجوہات کی بنا پر پڑھا۔ پہلی وجہ یہ کہ میں مختلف لکھاریوں کو پڑھنے کی کوشش کر رہی تھی، اور دوسری وجہ وہ مشہور مقولہ تھا:


"جو منٹو کو پڑھتے ہیں ان کا علاج ناممکن ہے۔"


یہ لائن اتنی بار سنی تھی کہ منٹو کو پڑھنے کا اشتیاق مزید بڑھ گیا۔ آخرکار، جب میں نے منٹو کو پڑھا، تو میرے ذہن میں یہ سوال اٹھا کہ کیا وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ منٹو کو پڑھنے والوں کا علاج ممکن نہیں، انہوں نے خود منٹو کو پڑھا ہے یا محض سنی سنائی باتوں پر یقین کرتے ہیں؟ کیونکہ جو لوگ یہ بات کہتے ہیں، اگر وہ حقیقتاً منٹو کو پڑھتے تو شاید خود شرمندہ ہوتے کہ کیسے اور کیوں وہ ایسی باتیں کہتے رہے۔


منٹو نے پہلے پیراگراف میں جو کہا، وہ بالکل ٹھیک ہے۔ انہوں نے کچھ بھی ایسا نہیں لکھا جو معاشرے کی حقیقت نہ ہو۔ لیکن یہ حقیقتیں ایسی ہیں جو جانتے ہوئے بھی ہضم کرنا مشکل ہیں، ایسی حقیقتیں جنہیں چھپانے میں ہی عافیت سمجھی جاتی ہے۔


میں یہ نہیں کہتی کہ منٹو نے غلط لکھا ہے، لیکن ان کی تحریریں ایسی ہیں جنہیں پڑھنے کا مشورہ میں ہر کسی کو نہیں دوں گی۔ اگر آپ اتنے مضبوط اعصاب کے مالک ہیں کہ آپ ان کی تحریریں پڑھ سکیں اور ان میں بیان کی گئی سچائیوں سے متزلزل نہ ہوں، تو ضرور پڑھیں۔





Post a Comment (0)
Previous Post Next Post