مجھے نہیں پتہ عالمی ادب میں اس ناول کا کیا مقام ہے. لیکن جہاں تک اس ناول کو پڑھ کر مجھے کیسے لگا ؟ پڑھتے سمے ان لمحات میں یوں لگا جیسے میں اسی اجتماعی معاشرے میں جی رہا ہوں جہاں اس ناول کو سیٹ کیا گیا ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں ایک آمر مجلس حکمران ہے جہاں انفرادی سوچ، خوشی اور فیصلے کا وجود تک ختم کر دیا گیا ہے۔ جہاں "ہم"سب کچھ ہے اور "میں" کا کوئی وجود نہیں .جہاں جدید زمانے میں کی تمام ایجادات اور سہولیات کا خاتمہ کر دیا گیا ہے یا ہو چکا ہے (وجہ نامعلوم جو اس ناولیں نہیں بتائی گئی).
ایک ایسا معاشرہ جہاں کی سب سے بڑی ایجاد موم بتی ہو اور اس موم بتی کو معاشرے میں رائج کرنے کے لیے چالیس سال کوشش کرنی پڑی ہو۔ جہاں پر نئے لفظ ،نئی سوچ اور نئی چیز کی ایجاد کی پرزور مخالفت کی جاتی بلکہ اسے معاشرے کے اجتماعی مفاد کے خلاف جان کر عموماً کڑی سے کڑی سزا سے گزارا جاتا۔ جہاں تمام انسان اپنے نام کے بجائے چند ہندسوں کی مجموعے سے پکارے جاتے اور یہی ان کی پہچان ہوتی جہاں محبت جیسے لطیف جذبے کو کوئی جگہ نہ ملتی تھی۔
لیکن حالات جتنے بھی تلخ ہوں سخیاں جتنی بھی زیادہ ہوں زندگی نے آگے بڑھنا ہے نئی راہیں دوبارہ نکال لی جا سکتی ہیں ۔یہاں بھی زندگی تمام تر نامساعد حالات کے باوجود نئی کروٹ لے لیتی ہے ۔ نئی امید جنم لیتی ہے۔ نیا سورج طلوع ہوتے دکھتا ہے
اصف فرخی صاحب کا ترجمہ کمال کا ہے ناول مختصر ہے تقریبا ایک سو بیس صفحات کا ہے۔لیکن یہ پرتاثر ناول شاید آج کل آؤٹ آف پرنٹ ہے۔
This BOOK is only aavilable in Hard Form.