آج کل کی نوجوان نسل کا یہ المیہ ہے کہ اگر انہیں کوئی چہرہ پسند آ جائے تو اس چہرے کو اپنی سوچوں پر اس قدر حاوی کر لیتے ہیں کہ کچھ وقت کے بعد انہیں ہر جگہ وہی چہرہ نظر آنے لگتا ہے اور وہ اسے محبت کا نام دے دیتے ہیں۔ یہ خود فریفتگی ہو سکتی ہے مگر محبت ہرگز نہیں۔ یہ وقتی ہوتی ہے اور کچھ عرصے بعد ختم ہو جاتی ہے۔ آج کل ہر جذبے اور تعلق کو محبت کا نام دے دیا جاتا ہے۔
اس کتاب میں بھی ایک ایسی نوجوان لڑکی کی کہانی بیان کی گئی ہے جسے ایک لڑکے سے حادثاتی ٹکراؤ کے نتیجے میں ایک طوفانی قسم کی محبت ہو جاتی ہے۔ اس محبت کے حصول کے لئے وہ اپنی اور اپنی بیوہ ماں کی عزت اور قربانیوں کو ٹھوکر مارتے ہوئے اس نام نہاد محبت کے پیچھے نکل کھڑی ہوتی ہے۔ اس محبت کے حصول کی کتنی بڑی قیمت اسے چکانی پڑتی ہے،
اور اس ڈولتی ہوئی محبت کی ناؤ کو قائم و دائم رکھنے کے لئے وہ کس طرح ایک معصوم لڑکی کی عزت اور زندگی کو داؤ پر لگا دیتی ہے، یہ سب آپ کو یہ کہانی پڑھ کر معلوم ہوگا۔ محبت کا یہ بحر بیکراں جب تھمتا ہے تو تب پتہ چلتا ہے کہ کتنی تباہی ہوئی ہے اور کس کس کی تباہی ہوئی ہے۔ ایسی محبتیں نہ صرف افراد بلکہ معاشروں کی تباہی کا باعث بنتی ہیں۔
اس کہانی میں عائشہ کا کردار بہت متاثر کن ہے۔ یہ ایک مثبت کردار ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے اوپر توکل کرنے والے اور اپنے سے جڑے رہنے والے لوگوں کو کبھی رسوا نہیں کرتا۔ اور وہ کس طرح ان کی مدد کرتا ہے، ان کا دامن تھامے رکھتا ہے، یہ بھی آپ کو یہ کہانی پڑھ کر معلوم ہوگا۔ یہ چھوٹی سی کتاب اپنے اندر ایک بڑا سبق لئے ہوئے ہے جسے آج کل کی نوجوان نسل کو سیکھنے کی بہت ضرورت ہے۔