بانو قدسیہ کی تحریریں ہمیشہ دل کو چھو جانے والی ہوتی ہیں، اور "راجہ گدھ" ان کا سب سے نمایاں اور یادگار کام ہے۔ ✍️: صبا عطااللہ
یہ ناول بانو قدسیہ کی تحریر کا اعلیٰ نمونہ ہے، جو ان کے فلسفے اور گہری بصیرت کو بیان کرتا ہے۔ کہانی کا آغاز ایک ایم اے کی جماعت کے تعارفی لیکچر سے ہوتا ہے، جہاں "حرام اور حلال" کے فلسفے کو عمدگی سے بیان کیا گیا ہے۔
حلال و حرام کی اہمیت
بانو قدسیہ نے حلال و حرام کے فرق کو صرف رزق تک محدود نہیں رکھا بلکہ انسانی سوچ، بینائی، سماعت، وقت، رابطوں، رویوں اور روح تک پھیلایا ہے۔ حلال رزق انسان کے اندر اچھے خیالات پیدا کرتا ہے، جبکہ حرام رزق انسان کو نفسیاتی، جذباتی اور ذہنی بیماریوں میں مبتلا کرتا ہے۔ بانو قدسیہ نے یہ واضح کیا کہ حرام رزق انسان کو دیوانگی میں مبتلا کرتا ہے، جو نسل در نسل پیچھا کرتی ہے، اور اس کا انجام بھی حرام طریقے (خود کشی) سے ہوتا ہے۔
انسان کی حقیقت
بانو قدسیہ کے مطابق انسان نور اور آگ کے درمیان ایک تضاد ہے۔ انسان ایک آئینہ ہے، جو زندگی میں شامل ہر چیز کا عکس بن جاتا ہے۔ انسان اللہ کی واحد مخلوق ہے جو سوچ کے ذریعے اپنی ذات کو ارتقا کی منزلیں طے کروا سکتی ہے۔ مگر بقاء کے لیے اختیار کی گئی حرام راہیں انسان کو تباہی کی طرف لے جاتی ہیں۔
راجہ گدھ کی تشبیہ
ناول میں راجہ گدھ کی زندگی کو انسانی مردار خواہشات سے تشبیہ دی گئی ہے۔ پرندے اللہ کی پیاری مخلوق ہیں، جو انسان کو صبح سویرے ذکر الہٰی کا پیغام دیتے ہیں، مگر راجہ گدھ ایک ایسا کردار ہے جو شکار نہیں کرتا بلکہ مردار کھاتا ہے۔ اس کی اشتہا ایسی ہے کہ یہ پیٹ بھر کر کھاتا ہے، پھر قے کرتا ہے اور پھر کھاتا ہے، اور آخرکار اسی بھوک سے مرجاتا ہے۔
اختتام
کہانی کا اختتام ایک ایسے جنون پر کیا گیا ہے جو حلال رزق سے پروان چڑھتا ہے، جس میں فنا ہو کر انسان دیوانگی نہیں عرفان پاتا ہے۔
رائے
میں آپ کو کسی کردار کے متعلق نہیں بتاؤں گی کیونکہ یہ ہر پڑھنے والے کا حق ہے کہ وہ اس ناگزیر شاہکار کو خود پڑھے۔ جو لوگ پہلے ہی یہ کتاب پڑھ چکے ہیں، وہ بتائیں کہ کونسا کردار آپ کو سوالیہ نشان نظر آتا ہے؟ 🥀
اس عمدہ تجزیے کے ذریعے بانو قدسیہ کے ناول "راجہ گدھ" کی گہرائی اور معنی کو سمجھنا آسان ہوگیا ہے، اور یہ بتاتا ہے کہ کیوں یہ ناول ان کی بہترین تخلیقات میں شمار ہوتا ہے۔