**راکھ**
📝: مستنصر حسین تاڑڑ
چار چیزیں ہیں جو ہر دسمبر میں مجھے بلاتی ہیں: ان میں سے ایک شکار ہے، قادر آباد کے آس پاس، اور وادی سوات کا ایک سلیٹی منظر ہے، کامران کی بارہ دری سے لگ کر بہتا ہوا دریائے راوی ہے، اور چوک چکلہ ہے۔
**راکھ** کی کہانی کا تانا بانا انہی چار چیزوں کے گرد بنا گیا ہے۔ یہ جگہیں گواہ ہیں راکھ کے کرداروں کی کہی اور ان کہی داستانوں کی، ان کی اندرونی اور بیرونی جنگوں کی، اور ان کے راکھ ہونے کی۔
کتاب کے شروع سے لے کر تیسرے حصے تک آپ کو کہانی کی سمجھ نہیں آتی۔ یوں لگتا ہے کہ گہرا فلسفہ بیان کیا گیا ہے، کرداروں کی ادھوری اور سمجھ میں نہ آنے والی کہانیاں ہیں۔ کوئی سرا ہاتھ نہیں آتا۔ مگر جونہی آپ آخری حصے میں داخل ہوتے ہیں، کہانی آپ کو جکڑنا شروع کر دیتی ہے۔ کردار اپنی روداد خود سنانے لگتے ہیں، چاہے پھر وہ تاریخ کی جبریت کی واردات ہوں یا سماجی اور مذہبی مسائل۔ چاہے وہ بے راہ روی کی داستانیں ہوں یا محبت کے ہزار چہرے، اور آپ کو ہوش تب آتا ہے جب آپ خود بھی ان کرداروں کے ساتھ راکھ ہو چکے ہوتے ہیں۔ کیونکہ یہ کہانی ہے راکھ ہونے کی۔
وہ راکھ جو چہرے پر مل دی جاتی ہے، اور جن کے چہرے راکھ سے اٹے ہوتے ہیں، وہ راکھ کو دیکھ نہیں سکتے۔ انہیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ ان کے چہروں پر راکھ ملی ہوئی ہے۔ ان کے نین نقش اب وہ نہیں رہے، ان کی شباہت بدل چکی ہے۔ سب ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں، ایک دوسرے کے راکھ سے اٹے ہوئے چہرے دیکھتے ہیں، لیکن بولتے نہیں، ایک دوسرے کو بتاتے نہیں، پوچھتے نہیں۔ اسی کو تو خاموشی کی سازش کہتے ہیں۔
**راکھ** ایک ایسی کہانی ہے جو قارئین کو گہرے فلسفے، کرداروں کی پیچیدگیوں، اور انسانی جذبات کی دھند میں لے جاتی ہے، اور بالآخر انہیں بھی راکھ کی حقیقت سے آشنا کرتی ہے۔