قاضی عبدالستار کی نثر میں محبت کا رنگ غالب ہے۔ انھیں فقط تاریخی ناول لکھنے پر ہی دسترس حاصل نہیں بلکہ وہ عام کہانی کو بھی خاص انداز میں تحریر کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے کہانیاں خود ان کے قلم سے نکلنے کو بےتاب ہوتی ہیں کیونکہ وہ ان کا حق ادا کرنا اچھی طرح سے جانتے ہیں۔
زیر نظر تبصرہ ان کے ایک شہرۂ آفاق ناول "پہلا اور آخری خط" پر ہے جوکہ پہلی بار 1954 میں لکھنئو سے شائع ہوا۔ ناول کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کا ترجمہ قاضی صاحب کی حیات میں ہی سات زبانوں میں ہوا اور تراجم کے ساتھ ساتھ اس نے مختلف نام حاصل کیے۔
یہ داستان ہے اودھ کی پر جلال حویلیوں کی، جہاں کے مکین بظاہر تو جلال اور دبدبے کے مالک تھے لیکن ان کے دل ناخوش تھے۔ ہر کردار کی اپنی ایک داستان ہے جسے جاننے کے بعد اس کردار سے انسیت فطری ہے۔
کہانی کا مرکزی کردار جاوید ہے جو اپنی ماں کے حکم پر پہلی بار اپنے (دُور کے) ماموں سے ملنے جاتا ہے۔ جاوید جوکہ ماموں کی بیمار پرسی کے لیے جاتا ہے خود عشق کا مریض بن جاتا ہے اور ماموں کی بیٹی شمی سے محبت کر بیٹھتا ہے۔ شمی کی خوبصورتی ماہتاب کی روشنی کو بھی مات دیتی ہے. قاضی صاحب نے اسے اتنے دلفریب انداز میں بیان کیا ہے کہ قاری کا تخیل خودبخود اس پری رخ کی تصویر بُن لیتا ہے۔
جو انسان جتنا خاموش ہو اس کے اندر اتنا ہی طوفان ہوتا ہے۔ شمی کی زندگی بھی ایسی ہی تھی۔ وہ ایک ایک کر کے اپنے پورے خاندان کو کھو دیتی ہے۔ یوں اس کے اندر کی ویرانی اور بڑھ جاتی ہے۔ اودھ کی پر جلال حویلیاں جو کبھی ان مکینوں سے آباد ہوا کرتی تھیں رفتہ رفتہ اپنی شان کھو دیتی ہیں۔
قاضی صاحب کی منظر نگاری کی میں پرستار ہوں اور ہر بار ان سے کچھ نیا سیکھنے کو ملتا ہے۔ ناول میں پنجابی زبان کے بھی بیشتر جملے موجود ہیں لیکن وہ تھوڑی پرانی طرز کی پنجابی ہے۔ میں پنجابی سے واقف ہوں اس کے باوجود مجھے ایسے جملوں کے اردو ترجمے پڑھنے کی ضرورت پیش آئی ( جوکہ صفحے کے آخر میں قاری کی آسانی کے لیے لکھے گئے تھے)
ناول کا نام مجھے بےحد پسند آیا اور اس کی وجۂ تسمیہ جاننے کےلئے میں بےتاب تھی۔ میرا مشورہ ہے کہ آپ بھی اس خوبصورت ناول کو ضرور پڑھیں اور اس کی وجۂ تسمیہ جانیں۔