"کبھی کبھی سب کچھ ایک کُھلی کتاب کی طرح ہمارے سامنے ہوتا ہے، مگر ہم جان بوجھ کر انجان بنے رہتے ہیں، کیونکہ ہم اپنے کمفرٹ زون سے نکلنا نہیں چاہتے۔ ہم روز کی تکلیف سہہ لیں گے، لیکن ذرا سی کوشش سے اُس تکلیف کی جڑ نہیں کاٹیں گے۔"
- پتّھر کردو آنکھ میں آنسو از مصباح مُشتاق یہ کہانی ہے ایک معصوم اور محبّت کرنے والی لڑکی ادیوا کی۔ جو لاڈلی اور اکلوتی ہونے کے باوجود بہت سلجھی ہوئی طبیعت کی مالک ہے۔ اور جو صفان علی کی محبّت میں گرفتار ہو کر اس سے شادی کر لیتی ہے۔
ادیوا کی بینائی میں صرف صفان بس جاتا ہے۔ لیکن کچھ ہی عرصے میں گھر والے صفان کے کان بھر کے اسے ادیوا کے خلاف کر کے علیحدگی کروا دیتے ہیں۔ اس کہانی میں لکھاری نے ہمارے سسرالی معاشرے پہ بہت اچھّے سے روشنی ڈالی ہے کہ کس طرح گھر والے بہوؤں کیلئے مشکلات کھڑی کرتے ہیں جس میں شوہر حضرات بھی گھر والوں کا ساتھ دیتے ہیں۔
خاص کر وہ بہوؤیں جو بیٹے کی پسند سے اس عہدے پہ براجمان ہوئی ہوں وہ ناقابلِ برداشت ٹہرائی جاتی اور ہمارے مرد حضرات تو خیر ٹہرے ہی کچّے کانوں کے۔
لیکن ہماری عورتیں وفاداری کے نام پہ ہر کام کر کے بھی بے مراد ہی رہتی ہیں۔ ساتھ ہی دوسری طرف یہ کہ التجائیں کبھی بھی بے ظرف لوگوں سے نہیں کی جاتیں۔ جیسے ادیوا نے اپنی انا کو رگیدتے بار بار اور طلاق کے بعد بھی بے ظرف صفان سے واپس جُڑ جانے کی التجائیں کی۔ اس کی محبّت اس کا اس قدر جنون بن گئی کہ وہ بلکل کھوکلی ہوگئی۔
لیکن آخر میں وہ جو ایک اسکالر کا درس سننے گئی ان کی باتیں اس کے ٹوٹے دل میں روشنی کی راہ بنانے کا سبب بن گئی اور جو آنسو پتھر بن کر اس کی آنکھ میں قید بہتا رہتا تھا اور اس کی بینائی لے گیا تھا جب وہ پتھر ہوگیا تو اس کی بینائی اسے لوٹا دی گئی۔
بطور لکھاری کی پہلی تحریر کے کافی اچّھی تحریر رہی اور موضوع بھی دلچسپ ہے لیکن ناپختگی کی وجہ سے کہانی میں کمی رہی۔ اور ساتھ ہی اقتباسات نے محفل ہی لوٹ لی۔ لیکن سب سے اچھی بات یہ رہی کہ یہ کوئی پہلی کتاب تھی کسی نئی لکھاری کی جس میں املا کی غلطیاں نہیں تھیں۔