میرے ساتھ ایک مسئلہ ہے۔ مجھے کوئی کتاب پسند آ جائے تو میں اس کے بارے میں وہ سب کہہ نہیں پاتا جو فیلنگز میرے اندر ہی اندر اس کتاب بارے ہوتی ہیں۔ عین وہی حالت ہوتی ہے جو پہلے پہلے پیار کے وقت ایک اناڑی عاشق کی ہوتی۔ جو چاہ کر بھی اپنی پسندیدگی کا اظہار نہیں کر پاتا اور بالفرض کچھ بولتا بھی ہے تو وہ الفاظ اسے نہیں ملتے جو اس کے جذبے کی شدت کو اس کے محبوب تک پہنچا سکے ۔ سلو انکل کی سالوں پہلے ریکیمنڈ کی گئی یہ کتاب بھی ویسی ہی ایک کتاب ہے
کرواہا راج(غفران منزل) ، بڑے کنور صاحب، کنور رانی انکی بیٹی رخشندہ ، بیٹے پی چو اور ان کے دوستوں ڈائمنڈ، گنی، سلیم، حفیظ احمد، کرسٹابل ، شہلارحمن اور زینت حفیظ جیسے ات رنگی کرداروں سے بھری یہ داستاں ایک خوبصورت سفر ہی ہے جسے چاھ کر بھی میں الفاظ کی صورت میں بیان نہیں کر پا رہا۔ بس یوں سمجھیں کہ پڑھتے وقت ایک عجیب سا ناسٹلجیا گھیرے رہا مجھے۔ من میں ایک عجیب اداس اور میٹھی سی کسک اٹھتی رہی۔ ہر کردار اپنے آپ میں ایک عجیب دکھ، ایک گھمبیرتا سے جوجتا دکھا ۔ وہ کردار کہ جو چاہ کر بھی اپنے من کی شدتوں سے انہیں آگاہ نہیں کر پاتے جن کا ان جذبوں سے آشنا ہونا اشد ضروری ہے۔
اودھ کی وہ تہذیب جو ہندوستان بھر میں ادب و آداب ، شاعری اور رقص کی محفلوں، اپنے نفاست اور خوبصورتی کے لحاظ سے بے مثال ہے وہ اپنے آخری دنوں پہ ہے۔ اور ہندوستان کی تقسیم اس بے مثال سوسائٹی کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی ۔ اس سب کا بیان آپ کو یوں اداس کرتا ہے جیسے اس ہندوستانی تمدن کے سورج کے ساتھ ساتھ ہی آپ کا دل غم کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبتا جاتا ہے
سلو انکل نے قراۃالعین حیدر کی تصویر ٹویٹر پہ شئیر کی تھی تو میں نے ان کی خوبصورتی کو سراہا تھا۔ تب انہوں نے کہا کہ "میرے بھی صنم خانے" پڑھ کے آؤ تو تمہیں اندازہ ہو گا یہ خوبصورت عورت خوبصورت رائٹر بھی ہے۔ آج لمبے عرصے بعد یہ کتاب پڑھ کر اندازہ ہوا کہ وہ اتنے غلط بھی نہیں تھے۔ تھینک یو سر مجھے ایک خوبصورت کتاب ریکیمنڈ کرنے کے لئے۔ آپ جہاں بھی ہوں خوش ہوں۔