Mera Dagistan (میرا داغستان) by Rasool Hamza Tof - pdf

Mera Dagistan by Rasool Hamza Tof

 

میرا داغستان

مصنف: رسول حمزہ توف


1923 میں داغستان کے پہاڑوں کے دامن میں مقیم ایک معمر شاعر حمزہ سداسا کے گھر میں تیسرے بیٹے رسول کا جنم ہوا۔ کون جانتا تھا کہ داغستان کی گلیوں میں گھومنے والا یہ لڑکا اپنے والد سے بھی زیادہ ترقی کرے گا اور جس کے قلم سے نکلی نظمیں دنیا بھر کا سفر طے کریں گی۔


آوار زبان میں لکھی گئی اس کتاب کی صنف کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ اس میں قصے بھی ہیں اور کہانیاں بھی، شاعری بھی ہے اور شاعروں کی زندگی بھی، لوک داستانیں بھی ہیں تو کہیں مزے مزے کی حکایتیں بھی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے قاری ایک نگاہ سے مصنف کے میدان ماضی اور دوسری سے حال و استقبال کی سیر دیکھ رہا ہے۔ اس میں سدا کا علم و فنون اور شاعری کی عمارتیں ہیں۔ نقشے نئے نئے خاکے ڈال رہے ہیں۔ ان طلسمات کو دیکھ کر عقل رسا حیران ہے اور اسی عالم میں ایک شاہراہ پر نظر پڑتی ہے جس کا عنوان سرزمینِ داغستان ہے۔ 


رسول کے پاس ادب و مطالب کا وافر ذخیرہ ہے جو قاری کو اس طرح محو کرتا ہے کہ جدھر وہ جھک جائے، ادھر ہی جھک جائیں۔ یہ کوئی ناول نہیں ہے لیکن اس میں حمزہ اور ابوطالب جیسے بہت سے کردار نظر آتے ہیں۔ اس میں کوئی دوشیزہ نہیں جس کا حسن حوروں کو مات دے یا جس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیئے جائیں لیکن اس میں رسول کا داغستان ہے، جس کا حسن نظروں کو خیرہ کرتا ہے اور نگاہ بار بار اسے دیکھنے کی تمنا کرتی ہے۔ جس کا شباب کبھی نہ ختم ہونے والا ہے۔


یہ کتاب نئے لکھاریوں کے لئے ایک مشق ہے کہ کس طرح لکھیں اور کیا لکھیں۔ مصنف کی طبع آزمائی کا زور فقط چند مطالب تک محدود نہیں ہے۔ مضامین عاشقانہ، گلگشت مستانہ، بلند و بالا پہاڑوں کی چوٹیاں، سدا کی صحت بخش بوٹیاں اس کا موضوعِ سخن ہیں۔ اور ان تمام رنگوں میں اس نے لطافت اور نازک خیالی کو اس درجے تک پہنچایا ہے کہ قاری عش عش کر اٹھے اور جو نظرباز تجربے کی عینک سے دیکھ رہے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ مصنف کو اس فن میں مہارت حاصل ہے۔ رسول حمزہ کا محبوب نظر اس قدر بااثر ہے کہ مجھے بھی داغستان سے محبت ہو گئی ہے اور اسے دیکھنے کی تمنا ہے۔


"تمہیں بھی ہو جائے گی الفت اس سے

اک نظر تم میرا محبوب نظر تو دیکھو"




Post a Comment (0)
Previous Post Next Post