اس کتاب بارے کوئی بات کرنا یا رائے دینا مشکل امر ہے۔ کتاب کسی خاص پلاٹ کو لے کر نہیں چلتی اور نہ ہی کوئی مخصوص کہانی ہے اس کی۔ لیکن ایک بات بہر حال طے ہے کہ خالد جاوید اپنے قاری کے ضبط کا پورا پورا امتحان لیتے ہیں ۔ کوئی بھی وقوعہ یا بات جسے ایک عام سے پیرائے میں آرام سے بیان کیا جا سکتا ہے اس کو ایک سے ایک کریہہ انداز میں کہہ جاتے ہیں اور انداز یوں بے ساختہ اور پر اثر ہوتا ہے کہ قاری کو ابکائی سی محسوس ہونے لگتی ہے
۔
چند اقتباس ملاحظہ فرمائیں
۔
محبت ہمیشہ مغالطوں میں پھنسی رہتی ہے۔ اسے کبھی یہ پتا نہیں ہوتا کہ اسے جانا کس سمت میں ہے۔محبت کی لکیریں ہمیشہ بھنور بناتی ہیں۔ نفرت اور ہوس بہتر ہیں کہ یہ بہرحال کبھی وہم اور مغالطوں کا شکار نہیں ہوتے۔ان کے کھیل،ان کے اصول اور قواعد واضح اور شفاف ہیں۔وہ ٹھوس طریقے سے اپنے ضابطے،اپنے حقوق اور فرائض پہچانتے ہیں
۔
نفرت کا مقابلہ نفرت سے کیا جا سکتا ہے آنسوؤں سے نہیں
۔
درس گاہ کے سامنے بیٹھنا کسی خانقاہ یا درگاہ کے سامنے بیٹھنے سے زیادہ بہتر ہے
۔
"میری آنکھوں میں دھواں سا بھرنے لگا ہے. شاید آنسو آ رہے ہیں، ہاں واقعی آنسو ہی تھے. میں نے انھیں اپنی شہادت کی انگلی پر لے کر زبان پر چکھا. یہ بڑے ذلیل اور کمینے آنسو تھے. ان میں نمک ہی نا تھا. نمک تک سے خالی، حد درجہ کے بے شرم اور ڈھیٹ. ان آنسوؤں سے کیا بھلا ہو سکتا تھا. ماضی ایک بڑی قربانی مانگتا تھا. ماضی کے بارے میں سوچنا ایک نئی حماقت تھی، مگر یہ حماقت ہر شخص بار بار کرتا رہے گا. کیونکہ اس کی پہلی حماقت تو یہی تھی کہ وہ پیدا ہوا. میرا اولین گناہ یہی تھا کہ میں نے پیدا ہونے سے انکار نہیں کیا. ورنہ میں عدم میں تو بہت مزے میں تھا