Maseel (مـــاثـیــــــل ) Episode 47 by Noor Rajput

Maseel novel by noor rajput

مـــاثـیــــــل (قصہ بُت سازوں کا) Sulphite_2
قسط_نمبر_47
نور_راجپوت
واپسی کا سفر
ایمانے رابرٹ واپس جاچکی تھی۔ وہ ہسپتال میں اکیلی رہ گئی۔۔ اس کی میڈیکیشن چل رہی تھی۔۔ اسے ابھی بھی وقت پر دواء لینی ہوتی تھی۔۔ جب سے ایمان ہوش کی دنیا میں لوٹی تھی حاد ایک بار بھی اس کے سامنے نہیں آیا تھا۔۔ ڈاکٹر مہک ایک دو بار ایمان سے ملنے آئی تھی۔۔۔ اس کے مطابق ڈاکٹر مہک ہی اسے وہاں لائی تھی اور اس کا علاج بھی ڈاکٹر مہک نے ہی کروایا تھا۔۔۔۔ کبھی کبھی ایمان کھڑے کھڑے کہیں گم ہوجاتی تھی۔۔۔ وہ کہرے کے پار سے نکل تو آئی تھی پر ابھی تک اسے اپنے اردگرد دھند محسوس ہوتی تھی۔۔۔۔ اسے ابھی دواؤں کی ضرورت تھی۔
ابھی بھی ڈاکٹر مہک اس سے ملنے آئی تھی۔۔ وہ دونوں بالکونی میں کھڑی تھیں۔
”تم نے آگے کا کیا سوچا ہے؟؟“ اسے یوں گم سم کھڑے دیکھ کر ڈاکٹر مہک نے پوچھا۔ اس کی آواز پر وہ چونکی۔۔۔اور پھر آہستہ سے بولی۔
”نہیں جانتی۔۔۔ جہاں تخلیق کی ندی مجھے لے جائے۔۔۔“ وہ بس اتنا ہی کہہ پائی۔
”مزید کچھ دنوں تک تمہیں چھٹی مل جائے گی۔۔۔گھر کب جاؤ گی؟؟“ ڈاکٹر مہک نے گہرا سانس لیتے پوچھا۔
گھر کے نام پر ایمان نے اسے یوں دیکھا جیسے کہہ رہی ہو۔۔۔
”کیا میرا کوئی گھر ہے۔۔۔؟؟“ لیکن وہ کہہ نہ پائی۔۔۔ بس خاموشی سے کھڑی رہی۔
”تمہاری ماں کتنا پریشان ہوں گی۔۔۔۔“ ڈاکٹر مہک کی آواز ابھری۔۔۔ وہ کچھ نہ بولی۔۔۔۔ تصور کے پردے پر سلمی بیگم کا عکس لہرایا۔۔۔
ماضی میں کیا ہوا۔۔ کس نے کیا کیا۔۔ کس نے کیا کہا۔۔۔ وہ کچھ یاد نہیں رکھنا چاہتی تھی۔۔ وہ بس اس کہرے سے نکلنا چاہتی تھی۔۔۔
اگلے دو دن اس نے پورے ہسپتال کا دورہ کیا۔۔۔ وہاں مریضوں کی حالت اس سے کئی گنا خراب تھی۔۔۔یہ وہ مریض تھے جنہیں کسی قسم کی کمی نہیں تھی۔۔۔سونے کے چمچ لے کر پیدا ہونے والے لوگ۔۔۔
وہ کیوں پاگل ہوئے تھے؟؟ اس کا جواب صرف وہی جانتے تھے۔۔۔ وہ وہاں آنے والی پہلی لڑکی تھی جو اتنی جلدی حواس کی دنیا لوٹ آئی تھی۔۔
وہ لڑکیوں کو چیختے چلاتے دیکھ رہی تھی۔۔۔اور اس کا خود سے یہی سوال تھا۔۔۔ ”کیا میں بھی ایسی ہی تھی؟؟“
جواب کا سوچ کر وہ جھرجھری سے لیتی۔۔۔
تیسرے دن وہ اپنے کمرے میں تھی جب ڈاکٹر مہک آئی۔۔
”چلو ایمان۔۔۔ تیار ہوجاؤ۔۔۔تمہارا بھائی تمہیں لینے آیا ہے۔۔۔“
اس نے ایک جھٹکے سے پلٹ کر دیکھا۔۔۔
”بھائی۔۔۔۔؟؟“ اس کے لب ہولے سے پھڑپھڑائے۔
✿••✿••✿••✿
آج اس کی ہسپتال سے کلیئرنس ہونی تھی۔۔۔حاد جلدی جلدی کام نبٹا رہا تھا۔۔۔ وہ فائل ہاتھ میں تھامے کھڑا تھا جب اس کا فون بجنے لگا۔۔۔ ڈاکٹر مہک کا فون تھا۔
”وہ آرہا ہے اسے لینے۔۔“ ڈاکٹر مہک کی آواز ابھری۔
”کون۔۔۔؟؟“ اس کی پیشانی پر لکیریں ابھریں۔
”ایمان کا بھائی۔۔۔ارمان بن عبداللہ۔۔۔میں نے اسے ہسپتال کا اڈریس دے دیا ہے وہ کبھی بھی پہنچ جائے گا۔۔۔“
”ٹھیک ہے۔۔۔“ اس نے فون بند کردیا۔۔۔ دل پر بوجھ سا آگرا تھا۔۔۔ وہ جارہی تھی۔۔۔ اس پر حاد کا اب کوئی حق نہیں تھا۔۔ وہ لڑکی جسے اس نے اپنی بیوی کے رشتے سے یہاں داخل کروایا تھا۔۔۔جسے اس نے اپنا پورا وقت دیا تھا۔۔۔جو اس کی موجودگی سے بھی ناواقف تھی۔۔۔وہ آج واپس جارہی تھی۔۔
طے یہ ہوا تھا کہ ڈاکٹر مہک اسے لے جائے گی اور پھر سلمی بیگم کو فون کرکے بلایا جائے گا۔۔۔اور ان کی بیٹی انہیں سونپ دی جائے گی۔۔۔ لیکن ارمان اس سے پہلے ہی ڈاکٹر مہک تک پہنچ گیا تھا۔
”ایمان کا تو کوئی بھائی نہیں تھا۔۔۔پھر تم کون ہو؟؟“
وہ گہری نظروں سے اسے جانچ رہی تھی۔
”سوتیلا بھائی ہوں میں اس کا۔۔۔“ وہ کافی سنجیدہ تھا۔ ایمان سے تین سال چھوٹا ارمان کہیں سے بھی اس سے چھوٹا نہیں لگ رہا تھا۔۔۔ وہ مضبوط جسامت کا اونچا لمبا لڑکا تھا۔
”ایمان کے والد نے دو شادیاں کی تھیں؟؟“ ڈاکٹر مہک حیران ہوئی۔ ارمان کچھ نہ بولا۔
”اتنے دنوں سے تم کہاں تھے؟؟؟“ وہ اب تلخ ہوئی۔۔۔ایک جوان بھائی کے ہوتے ہوئے بھی کوئی اسے ڈھونڈنے نہ آیا۔ کیسی عجیب فیملی تھی۔ وہ اب بھی خاموش رہا۔۔ شاید وہ کسی ذہنی پریشانی سے گزر رہا تھا۔۔
”اگر ایمان تک پہنچنا ہے تو میرے سوالوں کے جواب دو۔۔۔“
ارمان نے نظریں اٹھا کر ڈاکٹر مہک کو دیکھا۔
”آپ اس کا پتہ جانتی ہیں؟ آپ نے ان کی مدر کو کیوں نہیں بتایا۔۔۔؟؟“ وہ اب حیران ہوا۔
”وہ اس کنڈیشن میں نہیں تھی۔ پہلے جو میں نے پوچھا ہے وہ بتاؤ۔۔۔“
”میری ماں نے کبھی ہمیں اسٹپ مدر اور ان کے بچوں سے نہیں ملنے دیا۔۔۔لیکن کچھ مہینے پہلے وہ اس دنیا سے گزر گئیں۔۔۔ اور میرے فادر ذہنی طور پر بیمار ہیں۔۔۔ انہوں نے ہمیشہ اپنی پہلی بیوی اور بچوں سے نفرت کی ہے۔۔۔ لیکن کچھ دن پہلے جب میں ان سے ملنے گیا تو انہوں نے میرا گریبان پکڑ کر مجھے خود سے قریب کیا اور میرے کان میں ایک سرگوشی کی۔۔۔ وہ بس ایک ہی نام لے رہے تھے۔۔۔۔ ایمان۔۔۔۔ایمان۔۔۔“ وہ پل بھر کو رکا۔۔۔جیسے خود کو کمپوز کر رہا ہو۔
”اس سے پہلے مجھے بھی کبھی اپنی سوتیلی بہنوں میں دلچسپی نہیں ہوئی ۔۔۔میں اکلوتا ہوں۔۔۔ میں نے کبھی بہنوں کا نہیں سوچا لیکن اس روز میری حالت عجیب سی ہوگئی۔۔۔امی کے جانے کے بعد اور ابو کو اس حال میں دیکھ کر مجھے اکیلے پن کا احساس ہوا۔۔۔ پھر جب میں اپنی سوتیلی ماں سے ملا تو مجھے ایمان کا پتا چلا۔۔ انہوں نے مجھے اس ہسپتال کا بتایا۔۔۔وہ یہاں سے غائب ہوئی تھی۔ اب آپ مجھے بتائیں وہ کہاں ہے تاکہ میں اسے گھر لے جاسکوں۔۔۔“
اس کی پوری بات سن کر ڈاکٹر مہک نے گہرا سانس لیتے کرسی سے ٹیک لگائی اور پھر فون اٹھا کر حاد کا نمبر ملایا۔۔۔ ارمان پہلو بدل کر اسے دیکھنے لگا۔
✿••✿••✿••✿
حاد کو فون پر بتانے کے بعد وہ اسے لے کر ہسپتال آئی تھی۔وہ اسے کاؤنٹر پر ویٹ کرنے کا کہہ کر اندر چلی گئی۔
”آپ مسز ایمان کے کیا لگتے ہیں؟؟“ سارا سٹاف ایمان کو جاننے لگا تھا۔۔ کاؤنٹر پر کھڑی لڑکی نے اس سے پوچھا تھا۔
”بھائی ہوں۔۔۔سوتیلا۔۔“ لفظ سوتیلا اس نے آہستہ سے کہا تھا۔
”تو آپ اسے کیوں لے جانے آئے ہیں؟؟ مجھے لگا تھا وہ اپنے ہسبنڈ کے ساتھ جائے گی۔۔“ ہسبنڈ کے نام پر ارمان کی تیوری چڑھی۔۔۔ سلمی بیگم سے وہ مشارب کے بارے میں سب سن چکا تھا۔۔۔کیسے وہ طلاق دے کر مکر گیا تھا۔
”وہ اپنے ہسنڈ کے ساتھ کیوں جائے گی؟؟“ اس نے الٹا سوال کیا۔ مصنوعی غیرت جاگ گئی تھی۔۔ شاید اسے ایمان کی اتنی پرواہ ہو بھی نا لیکن ایک مرد ہونے کی حثیت سے اسے یہ گوارہ نہیں تھا کہ اس کے خاندان کی لڑکی کے ساتھ کوئی ایسی گھنونی حرکت کرے۔
”کیوں انہوں نے ہی ایمان کا اتنا خیال رکھا۔۔ اگر وہ نہ ہوتے تو ایمان کبھی ٹھیک نہ ہوپاتی۔۔۔“
”کیا وہ ایمان سے ملنے یہاں آتا رہا ہے۔۔۔؟؟“
اس سوال پر لڑکی نے ارمان کو یوں دیکھا جیسے وہ ایمان کا بھائی نہیں کوئی اجنبی ہو جسے کچھ علم نہیں تھا۔۔ سچ تو یہ تھا وہ کچھ نہیں جانتا تھا۔
لیکن ارمان نہیں جانتا تھا یہاں ایمان صرف ایمان نہیں تھی وہ مسز جبیل تھی۔۔ جبیل خاندان کی بہو۔۔ حاد جبیل کی وائف۔۔۔
”وہ تو ابھی بھی یہیں ہے۔۔۔ وہ سامنے۔۔۔“ لڑکی نے ہاتھ سے اشارہ کیا۔۔۔ راہداری کے پاس حاد کھڑا تھا۔۔ وہ فون پر کسی سے بات کر رہا تھا اور اس کے ساتھ سعد کھڑا تھا۔۔ وہ ہاتھ میں پکڑی فائل کو غور سے دیکھ رہا تھا۔۔
ایمان کا بائیو ڈیٹا چیک کر رہا تھا۔۔۔ ارمان غصے سے حاد کی جانب لپکا۔۔۔ اس نے قریب جا کر جھٹکے سے اس کا رخ اپنی جانب موڑا۔۔۔ یہ اتنا اچانک ہوا تھا کہ سعد اسے دیکھ ہی نہ پایا۔۔۔اگلے ہی لمحے ارمان نے زوردار مکا بنا کر اسے مارا۔۔۔پر اس کا ہاتھ ہوا میں ہی معلق ہوگیا۔
”میں فون سن رہا ہوں۔۔“ اس نے ارمان کے ہاتھ کو جھٹکا دیتے فون کی جانب اشارہ کیا۔ اور پھر دوبارہ فون کی طرف متوجہ ہوگیا۔ سعد تیزی سے اس کی جانب لپکا اور اس نے ارمان کو پکڑ کر پیچھے کیا۔
کون ہو تم؟؟ اور تمہاری ہمت کیسے ہوئی ہاتھ اٹھانے کی۔۔؟؟“ سعد غصے سے پھنکارا۔ جبکہ ارمان اپنے سامنے کھڑے حاد جبیل کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔۔۔
اس سے کون واقف نہیں تھا۔۔ وہ خود اس کے سیشنز لیتا تھا۔۔۔ وہ مشارب حسن نہیں تھا۔۔۔ تو پھر وہ کون تھا؟؟
حاد فون پر ایسے ہی مصروف تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
کچھ دیر بعد فون بند کرتا وہ ان کی جانب متوجہ ہوا۔
”جی اب بولیں۔۔۔ ہاتھ کی بجائے زبان سے کام لیں۔۔“ وہ پرسکون تھا۔۔ غصہ کہیں دور دور بھی نہیں تھا۔
”تم میری بہن کے شوہر تھے نا؟؟“ اس کے پوچھنے کا انداز ایسا تھا کہ حاد نے ابرو اچکا کر اسے دیکھا۔ جبکہ سعد کو وہ ریلیکس رہنے کا اشارہ کرچکا تھا۔
”ام ایمان۔۔۔ وہ میری بہن ہے۔۔“
”اوہ۔۔۔“ وہ بس اتنا ہی کہہ پایا۔
”ڈاکٹر مہک ابھی اسے لے آئیں گی آپ اسے لے جا سکتے ہیں۔۔۔“
ارمان حیران تھا۔۔ یہ سب کیا ہورہا تھا وہ نہیں جانتا تھا۔
اچانک حاد کی نظر سامنے سے آتی ڈاکٹر مہک پر پڑی۔۔ ایمان ان کے ساتھ تھی۔
”ہو سکے تو اپنی بہن سے کبھی میرا ذکر مت کرنا۔۔ “ اس نے ارمان کو تلقین کی۔
”لیٹس گو سعد۔۔۔“ اس نے ایک آخری نظر ایمان پر ڈالی۔۔۔اور وہ دونوں تیز تیز قدم اٹھاتے خارجی دروازے کی جانب بڑھ گئے۔۔۔ارمان حیرت سے انہیں جاتے دیکھ رہا تھا۔
✿••✿••✿••✿
وہ جس نے اپنی پوری زندگی مردوں سے دھوکا کھاتے گزاری تھی وہ ارمان کو اپنے سامنے دیکھ کر حیران ہوئی تھی۔۔۔ کہنے کو تو وہ اس کا سوتیلا بھائی تھا لیکن بیٹا تو عبداللہ شہاب کا تھا۔۔ کسی فنکشن پر اگر ان کا آمنا سامنا ہوجاتا تو ایمان نے اس کی آنکھوں میں اپنے لیے ہمیشہ ہی اجنبیت دیکھی تھی اور کبھی کبھی اسے محسوس ہوتا تھا جیسے وہ اس سے شدید نفرت کرتا ہو۔۔۔ شاید اس کی وجہ بھی عبداللہ شہاب تھے۔
”مجھے دے دیں۔“ ارمان نے آگے بڑھ کر نرس کے ہاتھ سے چھوٹا سا بیگ تھام لیا جس میں کچھ ضروری سامان تھا۔
”ان کا خیال رکھیے گا۔ اسٹریس اور پریشانی سے بہت دور“ ڈاکٹر مہک نے تاکید کی۔ ارمان نے بس سر ہلادیا۔۔۔ وہ ایمان سے نظریں نہیں ملا پارہا تھا۔۔ جبکہ ایمان کی نظریں اسی پر جمی تھیں۔
مرد کے مضبوط سہارے کو ترسنے والی ایمان جو خود کو مضبوط ظاہر کرتی تھی ،جسے کسی مرد کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ اپنے بھائی کو ،چاہے وہ سوتیلا ہی سہی، یوں اپنے آس پاس دیکھ کر ساکت رہ گئی تھی۔ اس کی آنکھوں میں نمی ابھرنے لگی تھی۔
”چلیں۔۔۔؟؟“ اس نے پہلی بار ایمان سے نظریں ملائیں۔۔۔وہ اس سے چھوٹا تھا۔۔ پر بھائی چھوٹا بھی ہو تو بڑا ہی لگتا ہے۔۔۔ ایسے ہی وہ اسے بڑے بھائیوں کی طرح ٹریٹ کر رہا تھا۔۔ چہرے پر حد درجہ سنجیدگی تھی۔
وہ اس کا بازو تھامتے اسے لے کر باہر کی جانب بڑھ گیا۔ ڈاکٹر مہک نے ایک گہرہ سانس فضا میں خارج کیا اور انہیں تب تک دیکھتی رہی جب تک وہ لوگ دروازے سے باہر نہیں نکل گئے۔
✿••✿••✿••✿
سلمی بیگم اور حمیزہ اسے دیکھتے ہی پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھیں۔۔۔۔ ارمان نے انہیں اپنے آنے کی اطلاع کردی تھی۔ انہوں نے ایمان کے استقبال کے لیے بہت ساری تیاریاں کی تھیں۔۔۔ سلمی بیگم نے یہ سوال نہیں کیے کہ وہ اتنے مہینے کہاں رہی تھی۔۔ اور نہ ارمان نے بتایا تھا۔۔۔ اس کا بتانے کا ارادہ بھی نہیں تھا۔۔۔ لیکن ایمان کی جسمانی حالت سے وہ جان گئی تھیں کہ وہ جہاں بھی رہی تھی مشکل میں رہی تھیں۔
ایمان ان سے مل کر خوش تو ہوئی تھی لیکن وہ زیادہ وقت خاموش ہی رہی۔۔۔
”یہ ایمان آپی کی دوائیاں ہیں۔۔ یہ صبح لینی ہے اور یہ رات میں۔۔ خیال رکھنا۔۔“ ارمان حمیزہ کو اس کی دواؤں کی روٹین بتا رہا تھا۔
سلمی بیگم پہلے سے بھی زیادہ کمزور اور بیمار لگ رہی تھیں۔۔ حمیزہ میں بھی پہلے جیسی شوخی شرارت نہیں رہی تھی۔ حالات نے ان سب کو وقت سے پہلے بڑا کردیا تھا۔
”کہاں سے ملی وہ آپ کو؟؟“ حمیزہ نے دوائیوں کو گھورتے پوچھا۔۔۔ وہ کہیں کھوئی کھوئی سی تھی۔
”جہاں بھی تھی محفوظ تھی۔۔“ وہ ہولے سے مسکایا۔
وہ ہوبہو عبداللہ شہاب کی کاپی تھا۔ حسن اور ذہانت میں ان کا پیکر۔۔۔ پر کوئی نہیں جانتا کہ ارمان کی فطرت عبداللہ شہاب جیسی تھی یا نہیں۔
✿••✿••✿••✿
دنیا گول ہے۔۔ اس نے سنا تھا آج جان لیا۔۔ وہ جہاں سے چلی تھی وہیں واپس آگئی تھی۔۔۔سرخ ٹائیلوں والے صحن کا وہ گھر جہاں سے اس نے لمبی اڑان بھری تھی۔۔۔ آج پھر سے وہ وہیں پر تھی۔۔۔ لیکن اس بار وہ مزید ٹوٹ پھوٹ گئی تھی۔
وہ واشروم میں آئینے کے سامنے کھڑی تھی۔۔۔ کچھ دیر پہلے اس نے شاور لیا تھا۔۔ پورا واش بیسن اس کے بالوں سے بھرا پڑا تھا۔۔۔ وہ سر کو ہاتھ لگا رہی تھی اور اس کے بال اتر کر ہاتھ میں آرہے تھے۔۔۔
اسے سمجھ نہ آیا وہ روئے یا ہنسے۔۔۔ اس نے غور سے اپنے چہرے کو دیکھا۔۔۔ جہاں ذرا سی بھی رونق نہیں تھی بلکہ آنکھوں کے نیچے ہلکے اور گالوں پر چھائیاں پڑ چکی تھیں۔ اس کی آنکھیں جیسے اندر کو دھنس گئی تھیں۔ہونٹ نیلے ہوچکے تھے۔
”اسٹریس اور ڈپریشن“ ایسی بیماریاں ہیں جو انسان کو ذہنی طور پر ہی نہیں بلکہ جسمانی طور پر بھی بری طرح کھا جاتی ہیں۔
اپنے آپ کو آئینے میں دیکھ کر اس کی آنکھیں لبالب آنسوؤں سے بھرنے لگیں۔۔۔ اس سے پہلے وہ پھر سے کسی ڈپریشن کا شکار ہوتی اس نے گہرے سانس لے کر خود کو نارمل کرنے کی کوشش کی۔
یہ وہ ام ایمان نہیں تھی جو اپنی محنت اور ذہانت کی بدولت اسپین پڑھنے گئی تھی۔۔۔وہ جس کے کالمز بہت مشہور تھے۔۔۔وہ جو نئی نئی چیزوں پر ریسرچ کرتی تھی۔۔۔ وہ جس نے زندگی کو زیرو سے شروع کرکے سو پر لا کھڑا کیا تھا۔۔۔ وہ آج پھر زیرو پر بھی تھی۔۔۔
کوئی ہمیں یہ کیوں نہیں سکھاتا کہ جب زندگی ہمیں سو سے زیرو پر لا کر پٹخ دے تو زیرو سے کیسے شروع کریں۔۔۔۔؟؟؟؟
زیرو سے شروع کرنا آسان ہوتا ہے لیکن سو سے زیرو پر آکر دوبارہ شروع کرنا سب سے مشکل۔۔۔
پہلے وہ ذہین و فطین ام ایمان تھی جس نے اپنی محنت سے اعتماد حاصل کیا تھا۔۔۔اسے وقت لگا۔۔۔اس نے بہت کچھ سہا۔۔۔اور اپنی زندگی کو سہل کرہی لیا تھا۔۔۔
اب وہ ام ایمان پہلے والی ایمان نہیں تھی۔۔۔ وہ اب طلاق یافتہ، پاگل خانے میں داخل رہنے والی لڑکی تھی۔۔۔ اب کیسے وہ زندگی سہل کرتی؟؟
منہ ہاتھ دھو کر وہ وضو کرتی باہر نکل آئی۔ باہر حمیزہ بیڈ پر بیٹھی اس کا انتظار کر رہی تھی۔۔۔
”جلدی کریں آپی! کھانا ٹھنڈہ ہورہا ہے۔۔ میں نے آپ کی فیورٹ ڈش بنائی ہے۔۔۔“
اسے تین دن ہوچکے تھے واپس آئے۔۔۔سلمی بیگم اور حمیزہ پہلے کی طرح نارمل رہنے کی کوشش کر رہی تھیں لیکن وہ پہلے جیسی نہیں رہی تھی۔۔
”میں بس نماز پڑھ لوں۔۔۔“ وہ زبردستی مسکرائی۔
بھیگے چہرے کے گرد اس نے بڑا سا دوپٹہ لپیٹا اور جائے نماز بچھا کر اس پر کھڑی ہوگئی۔
چھ مہینے۔۔تقریباً چھ مہینے گزر گئے تھے وہ اللہ کے حضور نہیں جھکی تھی۔۔۔وہ پاگل تھی۔۔۔اور پاگلوں کو نماز کا کیا پتا ہوتا ہے۔۔۔اسے تو ہوش ہی نہیں تھا۔۔۔
اب جب ہوش آیا تھا تو سمجھ نہیں آرہا تھا شروع کہاں سے کرے۔۔۔ حمیزہ اسے چھوڑ کر کمرے سے باہر نکل گئی۔۔۔
وہ بت بنے جائے نماز پر کھڑی رہی۔۔۔۔ اس کی نـظریں سجدے کی جگہ بنے مینار پر جمی تھیں۔۔ اس نے نیت باندھنے کی کوشش کی لیکن سمجھ نہ آیا کی کیا بولے کیا پڑھے۔۔۔۔
اس کی آنکھیں پھر سے آنسوؤں سے بھرگئیں۔۔۔ وہ کھڑے کھڑے رونے لگی تھی۔۔۔ وہ اپنی بےبسی پر رورہی تھی۔ اس نے خود کر پھر سے کہرے میں قید پایا تھا۔۔۔ چاروں جانب اندھیرا تھا۔۔۔سرد پن۔۔۔۔ وہ اب کانپ رہی تھی۔
”اللہ اکبر۔۔۔!!“ جیسے ایک جھماکہ ہوا۔۔۔ یوں لگا تیز روشنی چاروں جانب پھیل گئی ہو۔
”اللہ سب سے بڑا ہے۔۔۔“
اسے یاد آنے لگا تھا۔۔۔ اس کے ہاتھ خودبخود تکبیر کے لیے اٹھے۔۔۔سب جیسے آٹومیٹک ہونے لگا۔۔۔۔
وہ رب کائنات کے سامنے کھڑی تھی۔۔۔پھر کیسے ممکن تھا وہ اسے مایوس لوٹا دیتا۔۔
وہ اب سورہ فاتحہ پڑھ رہی تھی اور اس کا وجود سسکیوں کی زد میں تھا۔۔۔ اسے لگا جیسے اس نے زندگی میں پہلی بار نماز ادا کی ہو۔۔۔۔ اس حق سے جس حق سے اسے ادا کرنے کا کہا گیا ہے۔
وہ اب سجدے میں تھی۔۔۔ کہرہ اب ہٹ رہا تھا۔۔۔ دور بھاگ رہا تھا۔۔۔۔ اس کے وجود سے سیاہی دھل رہی تھی۔
کچھ لوگ کہتے ہیں ڈپریشن میں عبادت کرنی چاہیے۔
کچھ کہتے پیں ڈپریشن میں عبادت کام نہیں آتی۔۔۔ دوسری بات بالکل ٹھیک ہے۔۔۔ یہ تب کام آتی ہے جب ہم Healing کی طرف بڑھتے ہیں۔۔۔ جب ہمارا دماغ یہ سمجھ لیتا ہے کہ اب اسے Heal ہونا ہے۔
ہیلنگ پروسیس۔۔۔۔ ایک خطرناک پروسیس!!
✿••✿••✿••✿
حصہ دوئم
قصہ بت شکنوں کا
جہاں بتوں کو توڑا گیا، خود کو جوڑا گیا۔
"Healing yourself is connected with healing others." - Yoko Ono.
ایک سال بعد
دیوار پر بڑا سی پینٹنگ لگی تھی جس پر واضح الفاظ میں یوکو کا یہ جملہ لکھا تھا جبکہ جملے کے پس منظر میں جو پینٹگ تھی وہ واضح نہیں تھی۔ کچھ عجیب سی شبیہات تھیں۔
دیوار کے سامنے پینٹنگ سے تھوڑا نیچے ایک بڑا سا میز رکھا تھا اور دیوار کے ساتھ کرسی تھی۔۔۔ میز پر لیپ ٹاپ کھلا ہوا تھا اور وہ کرسی پر وہ براجمان تھی۔۔۔ وہ میز پر جھکی ایک نوٹ بک میں کچھ لکھ رہی تھی۔۔۔۔
دیکھنے سے یہ کمرہ ایک آفس لگ رہا تھا جس کے بائیں جانب بڑا سا ایکویریم رکھا تھا۔۔ جس کا سائز کافی بڑا تھا۔ تقریبا چھ فٹ چوڑائی اور چار فٹ اونچائی تھی۔ اس میں نہ صرف مچھلیاں تھیں بلکہ بہت سارے آبی پودے بھی تھے۔ دیکھنے میں یہ پورا ایکوسسٹم لگتا تھا۔۔۔ اسے بائیوڈائیورسٹی پسند تھی۔۔۔ اس لیے یہ ایکویریم اس کے کمرے میں تھا۔
جبکہ بائیں جانب دیوار گیر گلاس ونڈو تھی جس کے پردے ہٹے ہوئے تھے اور ہلکی ہلکی بوندی گلاس ونڈو پر بہہ رہی تھیں۔
”ہیلنگ پروسیس سب سے خطرناک پروسیس ہے۔۔“
اس نے واضح گہرے لفظوں میں لکھا۔۔ تبھی دروازے پر دستک ہوئی اور وہ چونک سی گئی۔
”یہ پیشنٹ آپ سے ملنا چاہتی ہے۔۔“
نرس کے ساتھ ایک لڑکی کھڑی تھی۔۔ بیس اکیس سال کی لڑکی جس کا وزن کافی زیادہ تھا۔
لڑکی نے خالی خالی نظروں میز کی دوسری جانب بیٹھی شخصیت کو دیکھا۔۔۔ وہ اسے دیکھ کر مسکائی۔
”آؤ۔۔بیٹھو۔۔۔“ اس کی آواز سن کر وہ لڑکی ہولے ہولے قدم اٹھاتی اس کی جانب بڑھی۔ نرس وہیں کھڑی تھی۔۔۔وہ مریضہ کو چھوڑ کر نہیں جا سکتی تھی۔
”آپ جائیں۔۔۔“ اس نے نرس سے کہا۔
”لیکن۔۔۔“ برس نے کچھ کہنا چاہا۔
”میں سنبھال لوں گی۔۔“ اس کے انداز میں اعتماد تھا۔ نرس تذبذ کا شکار دروازہ کھول کر باہر نکل گئی جبکہ لڑکی اس کے سامنے کرسی پر بیٹھ گئی۔
”بارش پسند ہے؟؟“ اس نے گلاس ونڈو کی جانب دیکھتے پوچھا جس کے شفاف شیشے پر بارش کی بوندیں طلسماتی ماحول بنا رہی تھیں۔
”نہیں۔۔۔“ لڑکی سر جھکائے بیٹھی تھی۔۔۔اس کے ہاتھ گود میں رکھے تھے اور وہ دونوں ہاتھوں کو آپس میں مسل رہی تھی۔
”کوئی بارش کو کیسے نا پسند کر سکتا ہے؟؟“ وہ اپنی جگہ اسے اٹھ کھڑی ہوئی۔ نوٹ بک ویسے ہی کھلی رکھی تھی۔ وہ ونڈو کی جانب بڑھی اور پھر اس نے قریب پہنچ کر ہاتھ بڑھا کر ونڈو کو دائیں جانب سرکا دیا۔۔۔۔
تیز ہوا کے جھونکے کے ساتھ ہوا بارش کی بوندیں اندر داخل ہوئیں۔۔ اس نے آنکھیں بند کرکے اسے محسوس کیا۔ لڑکی ویسے ہی بیٹھی تھی۔
"Rain Cleans Our Aura"
”یہ ہماری چمک بڑھاتی ہے۔۔۔ ہمیں صاف کرتی ہے۔۔“
وہ بارش کی بوندوں کو محسوس کرتے کہہ رہی تھی۔
”لیکن یہ خوفناک ہوتی ہے۔۔۔اکیلے پن کا احساس دلاتی ہے جب جب بارش ہوتی ہے میرا دل اداس ہوجاتا ہے۔۔“
لڑکی بول رہی تھی وہ خاموشی سے اسے سننے لگی۔۔۔ کچھ دیر وہ وہیں کھڑی رہی۔۔۔ پھر ونڈو بند کرتے ایکویریم کے پاس رکھے ایک شیلف کی جانب بڑھی جس پر کچھ کتابیں ترتیب سے رکھی تھیں۔۔ اس نے لائٹر اٹھا کر ایک خوبصورت سے کینڈل جلائی جو کانچ کے جار میں تھی جس کا رنگ گہرا سبزی مائل تھا۔۔
اچانک دھواں اٹھا اور پھر پورے کمرے میں ایک عجیب سی خوشبو پھیل گئی۔۔۔یہ عام خوشبو نہیں تھی۔۔۔
یہ ویسی خوشبو تھی جیسی کسی جنگل سے گزرتے وقت محسوس ہوتی ہے جب بارش ہورہی ہو۔۔۔
نیچر کی خوشبو۔۔۔
”تمہارا نام کیا ہے؟؟“ اس نے لڑکی سے سوال کیا۔
”سدرہ۔۔۔“ لڑکی نے خوشبو کو اپنے اندر اتارتے جواب دیا۔۔۔اس نے ایسی خوشبو پہلے کبھی نہیں سونگھی تھی۔
”سدرہ کیا کرتی ہو؟؟“ وہ اب کسی کتاب کا معائنہ کرتے پوچھ رہی تھی۔
”کچھ بھی نہیں۔۔۔“ لڑکی کو اپنا آپ ریلیکس ہوتا محسوس ہوا۔
”کمال کرتی ہو پھر تو۔۔۔ کیونکہ میرا کچھ کرے بنا گزارا نہیں ہوتا۔۔۔“ وہ ہولے سے مسکائی۔
”میں نے کل ڈاکٹر علوی کے کلینک پر آپ کا سیشن لیا تھا۔۔۔“
لڑکی اب خودبخود بتانے لگی تھی۔
”میں پچھلے چھ مہینوں سے ڈاکٹر علوی سے سیشنز لے رہی ہوں۔۔۔“
ڈاکٹر علوی شہر کا جانا مانا سائکولوجسٹ تھا۔
”لیکن مجھے جتنا آپ کے ایک سیشن سے اچھا محسوس ہوا ہے اتنا کبھی نہیں ہوا۔۔۔“
وہ بیس اکیس سال کی لڑکی نفسیاتی تھی جسے اس کے گھر والے سائیکولوجسٹ کے پاس بھیج رہے تھے۔
”آپ نے ایک بات کہی تھی کہ ہیلنگ پروسیس سب سے خطرناک ہے۔۔۔ایسا کیوں ہے؟؟“
”پہلے مجھے یہ بتاؤ تم سائیکولوجسٹ کے پاس کیوں جارہی ہو۔۔۔؟؟“
”سب کہتے ہیں میں نفسیاتی ہوں، ڈپریشن اور اسٹریس کی مریضہ، میں نے سو سائیڈ کی کوشش بھی کی تھی۔۔۔“
وہ شرمندگی سے سرجھکائے بیٹھی تھی۔ اسے سن کر افسوس ہوا۔
”اور تم نے ایسا کیوں کیا سدرہ۔۔۔؟؟“ وہ اب ایک کتاب اٹھائے واپس اپنی کرسی کی جانب بڑھی۔ لڑکی کچھ نہ بولی۔گمرے میں گہری خاموشی چھاگئی۔۔۔
اور اس خاموشی میں گلاس ونڈو پر پڑتی بارش کی بوندوں کی آواز واضح سنائی دے رہی تھی۔۔۔ خاموشی کا لمبا وقفہ آیا اور پھر لڑکی کی سسکیوں کی آواز سنائی دی۔۔۔وہ اپنی جگہ بیٹھی ہچکیوں سے رو رہی تھی۔۔ اس نے اسے روکا نہیں۔۔ چپ نہیں کروایا رونے دیا۔۔۔جب وہ روچکی تو پھر بولی۔۔۔
”میں گھر میں سب سے چھوٹی ہوں۔۔۔گھر کا ماحول شروع سے عجیب تھا۔۔ میرے سارے بہن بھائی بہت ذہین ہیں۔۔ سب بڑی بڑی پوسٹوں پر کام کر رہے ہیں۔۔ میں بچپن سے عجیب ہوں۔۔مجھے چوٹ لگتی تھی تو میں کبھی نہیں روئی۔۔۔ماما کے پاس میرے لیے ٹائم نہیں ہوتا تھا۔۔ پاپا مجھ سے پیار کرتے تھے لیکن وہ بزی ہوتے تھے۔۔ ماما پاپا کی آپس میں کم بنتی تھی۔۔۔ ایک بار میں اسکول میں کھیلتے کھیلتے گر گئی اور میری کلائی کی ہڈی ٹوٹ گئی۔۔ لیکن میں روئی نہیں۔۔۔ میں گھر آکر چھپ گئی کہ ماما پاپا کو پتا چلے گا تو لڑائی ہوگی۔۔۔مجھے بہت درد ہوا۔۔ ساری رات میں چھپی رہی۔۔۔اور پھر بےہوش ہوگئی۔۔۔ اس کے بعد کچھ نارمل نہیں رہا۔۔۔میں اپنی ماما سے مزید دور ہوگئی۔۔ میں اکیلی ہوگئی۔۔پڑھائی پر دھیان نہیں دیا جاتا تھا۔۔ فیل ہونے لگی۔۔۔ سارے بہن بھائیوں میں میں سب سے نالائق نکلی۔۔۔جب جب مجھے بھوک لگتی میں بہت کھاتی۔۔ آہستہ آہستہ مجھے اسٹریس ہونے لگا۔۔۔ ہارمونز کا اشو ہوگیا۔۔۔اور پھر میرا ویٹ بڑھ گیا۔۔ ماما کو میرے اس جسم سے نفرت ہے۔۔۔اسے اپنی باقی پرفیکٹ بیٹیاں پسند ہیں میں نہیں۔۔“
وہ سانس لینے کو رکی۔۔۔
”انٹر کے بعد میں اپنے کمرے میں قید ہوگئی۔۔۔ اکیلی رہتی۔۔ بس کھانا کھاتی اور فون یوز کرتی رہتی۔۔ ابھی بھی یہی روٹین ہے۔۔ گھر میں لڑائیاں بڑھتی گئیں۔۔۔ہمیشہ وجہ میں بنتی۔۔ مجھے پینک اٹیک آنے لگے۔۔۔ مجھے سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔۔۔ اور پھر پاپا ہمیشہ کے لیے چلے گئے۔۔۔مجھے لگتا ہے وہ میری وجہ سے مرے ہیں۔۔۔“
وہ کسی احساس جرم کا شکار تھی۔۔۔ایسا جرم جو اس نے کیا بھی نہیں تھا۔۔
”پاپا نے مرنے سے پہلے بڑے بھیا کو میری زمہداری دے دی۔۔۔مجھے بس یہی لگتا ہے پاپا میری وجہ سے مرے ہیں۔۔ میں نے خودکشی کی کوشش کی لیکن بچ گئی۔۔۔ بھیا تب سے مجھے سائیکولوجسٹ کے پاس بھیج رہے ہیں۔۔۔میں جم بھی جاتی ہوں۔۔۔ڈاکٹرز نے کہا ہے میرا ویٹ کم نہ ہوا تو مجھے بہت نقصان ہوگا۔۔ اور پھر۔۔۔۔“
وہ پھر سے رکی۔
”وہ شخص جس سے میں نے محبت کی وہ دھوکے باز نکلا۔۔۔وہ میرے جذبات سے کھیلتا رہا۔۔۔اور دوسری لڑکیوں سے بھی۔۔ میں اب جینا نہیں چاہتی کیونکہ اس دنیا میں میری کوئی جگہ نہیں ہے۔۔۔ یہ دنیا ہم جیسوں کے لیے نہیں ہے۔۔۔“
وہ دکھی تھی۔۔۔حد درجہ دکھی۔
”چلو میں تمہیں ایک کہانی سناتی ہوں۔۔“
وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ میز پر رکھا ریموٹ اٹھا بٹن دبایا تو ایکویریم کے اوپر موجود دیوار پر اسکرین روشن ہوگئی۔ پروجیکٹر آن تھا۔
”تم نے پوچھا تھا نا کہ ہیلنگ پروسیس خطرناک کیوں ہے۔۔ چلو میں بتاتی ہوں۔۔ “ اس نے اسکرین کی جانب اشارہ کیا جس پر ایک بڑی سی تتلی بنی تھی۔
”یہ ایک تتلی ہے۔۔۔دیکھنے میں کتنی خوبصورت ہے نا۔۔۔اس کے لائف سائیکل کے بارے میں جانتی ہو؟؟“
وہ اب تتلی کو دیکھتے پوچھ رہی تھی جبکہ لڑکی حیرانی سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔ کچھ سمجھ نہیں آیا تھا۔
”ایک تتلی کا لائف سائیکل انڈے ، لاروا (کیٹرپلر) ، پیوپا (کریسلیس) اور امیگو (بالغ) ریاستوں پر محیط ہے۔
تتلیاں ایک وقت میں بہت سارے انڈے دیتی ہیں۔۔۔ انڈے لاورے بن جاتے ہیں۔۔ یعنی کیٹرپلر۔۔۔ اس اسٹیج میں وہ صرف کھاتے ہیں۔۔۔ ان کا کام بس کھانا ہوتا ہے۔۔تاکہ وہ اسے اگلے فیز کے لیے اسٹور کرسکیں۔۔۔ یہ اتنا کھاتے ہیں کہ چار سے پانچ بار ان کی شیڈنگ ہوتی ہے اور یہ اپنے سائز سے سو گنا بڑھ جاتے ہیں۔۔۔ یہ ایک پریشر والا فیز ہوتا ہے۔۔۔ اور یہ خطرناک ہے کیونکہ چند ایک کیٹرپلر ہی اگلے فیز کے لیے بچ پاتے ہیں۔۔۔۔یہ خیال کیا جاتا ہے کہ تتلی کی زندگی میں کیٹرپلر کا مرحلہ سب سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے کیونکہ اموات کی شرح بہت زیادہ ہوتی ہے۔ کیٹرپلر موسمی حالات، بیماری، پرجیویوں اور شکاریوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔۔۔“
سدرہ کو سمجھ نہ آیا وہ اسے بائیولوجی کیوں پڑھارہی تھی۔ اسکرین پر تتلی کا لائف سائیکل بنا ہوا تھا۔
”اگلا فیز پیوپا ہوتا ہے۔۔۔یہ ٹرانزیشن فیز کہلاتا ہے۔ جب کیٹرپلر مکمل بالغ ہو جاتا ہے اور کھانا چھوڑ دیتا ہے، تو یہ ایک پیوپا بن جاتا ہے. تتلیوں کے پیوپا کو کریسالس بھی کہا جاتا ہے۔ اسپیشیز کے مطابق، پیوپے شاخ کے نیچے، پتوں کے اندر یا زیر زمین دفن ہوجاتے ہیں۔۔ کس لیے؟؟ ٹرانزیشن کے لیے۔۔۔تتلی بننے کے لیے۔۔۔ یہ مرحلہ چند ہفتوں، ایک ماہ یا اس سے بھی زیادہ عرصہ تک جاری رہ سکتا ہے۔ کچھ اسپیشیز میں یہ مرحلہ دو سال تک رہتا ہے۔ باہر سے ایسا لگتا ہے کہ کچھ نہیں ہو رہا ہے لیکن اندر بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ خاص خلیے جو لاروا میں موجود تھے اب تیزی سے بڑھ رہے ہوتے ہیں۔۔۔ وہ بالغ تتلی کی ٹانگیں، پر، آنکھیں اور دوسرے حصے بن جاتے ہیں۔۔۔۔ ایک مکمل خوبصورت تتلی۔۔۔!!
پتا ہے تتلی کی لائف سائیکل کا یہ فیز کیا سکھاتا ہے؟؟ خود کو مکمل کرنے کے لیے کبھی کبھی چھپنا پڑتا ہے۔۔۔ غائب ہونا پڑتا ہے۔۔۔ “
سدرہ نے ناسمجھی کے عالم میں اسے دیکھا۔
”کیٹرپلر ہماری ٹین ایج ہے۔۔۔جب ہم پر بہت پریشر ہوتا ہے۔۔ بلوغت کا، خوابوں کا، پڑھائی کا، کرئیر کا۔۔۔۔ ہم سے بہت کم لوگ ٹین ایج میں سروائیو کر پاتے ہیں۔۔۔۔
ٹین ایج میں ہم بری طرح ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں۔۔۔ بروکن ہوتے ہیں ہم۔۔۔۔
لیکن ہم ٹین ایج سے ڈائریکٹ بالغ نہیں ہوجاتے۔۔۔ درمیان میں ایک ٹرانزیشن فیز آتا ہے۔۔۔ بالکل پیوپا کی طرح۔۔۔
جہاں اگر ہمیں خود کو ہیل کرنا ہے ایک مکمل انسان بننا ہے، اپنے آپ کو پریشر سے نکالنا ہے تو ٹرانزیشن فیز میں جانا پڑتا ہے۔۔۔ پیوپا کی طرح چھپنا پڑتا ہے۔۔۔تاکہ ہم نشونما پاسکیں۔۔۔اور یہ ہیلنگ فیز ہے۔۔۔ کوئی مدد نہیں کر سکتا جب تک ہم خود ہیل نہ ہونا پائیں۔۔۔ خود کی مدد نہ کر پائیں۔۔۔ تو اس کے لیے ہمیں الگ ہونا پڑتا ہے۔۔۔دنیا کی بھیڑ سے۔۔۔ خود کو پہچاننا پڑتا ہے۔۔۔ ہم بالکل ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں۔۔ اور ہمارے سارے ٹکڑے مل کر ایک نئے وجود کو جنم دیتے ہیں۔۔۔۔
اور میں نے ہیلنگ پروسیس کو خطرناک اس لیے کہا کہ ہم vulnerabile ہوتے ہیں۔۔۔ ٹوٹے ہوتے ہیں، تھکے ہوتے ہیں، کسی غلط انسان کے ہاتھ لگ جائیں تو مرجاتے ہیں۔۔۔۔۔ جن اندھیروں سے نکل کر آتے ہیں وہ اندھیرے پیچھا کرتے ہیں۔۔۔ کہرے کے پار سے نکلنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔۔۔ ڈگمگا جاتے ہیں۔۔۔ گر جاتے ہیں۔۔۔لیکن اٹھنا پڑتا ہے۔۔ ہیلنگ ضروری ہے۔۔۔ بہت ضروری۔۔۔ اور اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے خود کے ساتھ رہنے کی عادت ڈالی جائے۔۔۔سہاروں کو تلاش کرتے رہیں گے تو کبھی سائیکل مکمل نہیں کر پائیں گے۔۔۔ “
سدرہ اب ہونق بنی اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ بات کو ایسے سمجھائے گی۔
”تمہارے بھائی کتنی ہی کوشش کرلیں، تم کتنے ہی سیشن کیوں نہ لے لو۔۔۔جب تک تم خود نہیں چاہو گی ہیل نہیں کر پاؤ گی۔۔۔“
اس نے مسکرا کر سدرہ کی جانب دیکھا۔
”میں کوشش کرتی ہوں لیکن مجھ سے نہیں ہوتا۔۔۔میں تھک جاتی ہوں۔۔۔رزلٹس نہیں ملتے۔۔۔ نہ ذہنی طور پر نہ جسمانی طور پر۔۔۔“ وہ بےبسی سے بولی۔
”کس نے کہا ٹرانزیشن آسان ہوتی ہے؟؟ سب سے تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہے یہ۔۔۔ گرنا اٹھنا پھر گرنا، اکتا جانا۔۔۔ کبھی کبھی سالوں لگ جاتے ہیں۔۔۔ لیکن ثابت قدمی ضروری ہے۔۔۔جب تک تم خود کہرے سے نہیں نکلنا چاہو گی کوئی تمہاری مدد نہیں کر پائے گا۔۔۔!!“

20 Comments

  1. this episode was very short , we wait for it so much but what we get??very short ep

    ReplyDelete
  2. Healing process....we teenagers badly need it😭😭

    ReplyDelete
  3. When next episode will come

    ReplyDelete
  4. Episode got uploaded after like a month and took 3,4 mins to read it...very short and unnecessary plots included

    ReplyDelete
  5. What next episode will come..This episode very short

    ReplyDelete
  6. Next episode kb aay ga?

    ReplyDelete
  7. plz tell us date and time of next ep

    ReplyDelete
  8. Abdul kha h??

    ReplyDelete
  9. Abdul ko emany k sth he lana plz Haad k sth nh!!

    ReplyDelete
  10. no ema suits with haad .maseel should die bc of his health or he should marry his first love

    ReplyDelete
    Replies
    1. But eman ko adham k Sath aana chaye adhm ko seedy rastt pr chlny k bd

      Delete
  11. Haad suits with emany and Abdul with heasel Malik

    ReplyDelete
  12. yes u r right
    haad suits with eman
    abdul suits with heasel
    maseel should die 😁

    ReplyDelete
  13. next kb tk ay giii

    ReplyDelete
  14. Saad suits withh🙈🙈🙈🙈Daimaaaaaaa!!!lol😁

    ReplyDelete
  15. BTW...
    "The suspense you wanted to create didn’t happen. What I was thinking was exactly what was happening. If something new had happened, it would have been more enjoyable."
    Overall the info you gave was superb!!🌺

    ReplyDelete
  16. Next episode

    ReplyDelete
  17. Next episode???

    ReplyDelete
  18. Next Episode (Episode 48) has been uploaded.

    ReplyDelete
Post a Comment
Previous Post Next Post