مـــاثـیــــــل (قصہ بُت سازوں کا) Sulphite_2
قسط_نمبر_46
نور_راجپوت
میں ویلنیسا اسکے نام کردوں۔۔!
الیکشن کے دن قریب تھے۔۔ سید جبیل صاحب ایک اہم میٹنگ میں تھے۔۔۔یہاں ان کے علاقے کی اور بھی پارٹیز موجود تھیں۔۔ سید جبیل ہر بار الیکشن جیت جاتے تھے اس بار مخالف پارٹی انہیں ہرانے کی پوری طرح کوشش کر رہی تھی۔۔ سید جبیل کی اپنے علاقے اور وہاں کے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے کی گئی کوششوں کا ذکر کیا جارہا تھا جب مخالف پارٹی کا ایک آدمی اٹھا۔۔۔
”یہ لوگوں کی فلاح کے لیے کیا کام کریں گے جب یہ اپنے ہی خاندان کے لوگوں کو نہیں سنبھال سکے۔۔ ان کی اپنی اولاد جانے کیا کیا کر رہی ہے۔۔۔ یہ دیکھیں ذرا۔۔۔“
اور پھر سمینار روم کی اسکرین پر ایک ویڈیو ابھری تھی۔۔۔ جہاں ادھم کو دیکھا جا سکتا تھا۔ وہ اپنے حواسوں میں نہیں تھا۔۔۔اور وہ اس طرح ڈرگز لے رہا تھا جیسے یہ اس کا مشغلہ ہو۔۔۔ سید جبیل کے چہرے پر کئی سائے آکر گزر گئے۔۔۔ انہوں نے ایسا نہیں سوچا تھا۔۔
وہاں موجود ہر شخص اب انہیں استہزائیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔ ان پر تبصرے کیے جا رہے تھے۔۔ ان کی پرورش پر انگلی اٹھائی جا رہی تھی۔
”نشئی تو آپ کے اپنے گھر میں گھوم رہے ہیں جبیل صاحب۔ پہلے ان کا علاج کروائیں بعد میں علاقے کے لوگوں کے لیے کچھ کیجیے گا۔۔“ جملے ایسے تھے جو انہیں سلگا رہے تھے۔ وہ جبڑے بھینچے سب سنتے رہے۔۔ انہیں ادھم جبیل سے یہ امید نہیں تھی۔
✿••✿••✿••✿
اگلے ایک گھنٹے میں پورے سوشل میڈیا پر ایک ہی خبر گردش کر رہی تھی۔۔۔جبیل خاندان کے خلاف۔۔۔۔ جبیل خاندان کا وارث ایک نشئی تھا۔۔۔ یہ خبر سب نے دیکھی تھی۔۔ حاد نے، دائمہ نے گھر میں سب نے یہاں تک کہ خود ادھم جبیل نے بھی۔۔ پتا نہیں اور کون کون سی کہانیاں بنائی جارہی تھیں۔۔۔
سید جبیل کو نیچے دکھانے کے چکر میں سوشل میڈیا نے وبال مچا دیا تھا۔۔۔
“کہاں ہے وہ حاد جبیل جو لوگوں کو درس دیتا ہے۔۔۔ اسے چاہیے اپنے گھر سے شروع کرے۔۔۔“
ادھم جبیل کے ساتھ ساتھ وہ بھی رگڑا گیا تھا۔۔۔ اس کے ہسپتال کے اندر جانے اور باہر جانے کی جو پکچرز لی گئی تھیں وہ بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی تھیں۔
”کیا ادھم جبیل پاگل ہے؟؟ جبیل خاندان کیا چھپا رہا ہے؟ کیا پاگل خانے میں ادھم جبیل کا علاج چل رہا ہے۔۔۔؟؟“
اس طرح کے بہت سے سوال تھے۔۔ سید جبیل کا بی پی ہائی ہوچکا تھا۔
ایسی صورتحال میں اگر کوئی کام آس سکتا تھا تو صرف حاد جبیل۔۔۔
”یہ ادھم کے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟؟ کیوں خاندان کی عزت داؤ پر لگا رہا ہے۔۔“ سید جبیل نے اسے فون کیا تھا۔
”بابا میں ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔۔۔“ اس نے چہرے پر ہاتھ پھیرتے کہا۔ وہ اب سوشل میڈیا سے ویڈیوز ڈیلیٹ کررہا تھا۔ اس نے اے آئی اسسٹنٹ کو کمانڈ دی تھی۔ ویڈیو کہاں سے پوسٹ ہوئی تھی یہ بھی پتا چل گیا تھا۔
”اس سے دو ٹوک بات کرو برخوردار۔۔۔میں یہ سب برداشت نہیں کر سکتا۔۔ ہماری پارٹی کو کتنا بڑا نقصان ہوا ہے تم جانتے بھی ہو۔۔۔؟؟“ وہ اپنا غصہ اس پر نکال رہے تھے۔۔ اور ایسے حکم دے رہے تھے جیسے وہ سب ٹھیک کردے گا۔
”بابا آپ ریلیکس ہوجائیں۔۔میں سب ٹھیک کردوں گا۔۔۔“ اس نے انہیں ریلیکس کرنے کی کوشش کی۔
”اور یہ تم کس خوشی میں ہسپتال کے چکر لگاتے ہو؟؟ کون داخل ہے وہاں؟؟ تم کیوں اپنے کردار کو مشکوک بنا رہے ہو۔۔؟؟“ ان کی پستول کا رخ اب حاد کی طرف آگیا تھا۔
”وہی لڑکی ہے داخل وہاں جسے ادھم کے پاس بھیجا گیا تھا تاکہ وہ سدھر کر واپس آسکے۔۔۔“ اس کا لہجہ ایسا تھا کہ سید جبیل کئی لمحے کچھ بول ہی نہیں پائے۔ دونوں جانب گہری خاموشی چھاگئی تھی۔
”تو تم اس کی دیکھ بال کیوں کر رہے ہو۔۔۔ تمہارے اور ادھم کے بیچ کیا چل رہا ہے۔۔؟؟“
سید جبیل گھاک آدمی تھے۔۔۔ ادھم کا واپس آنا۔۔۔۔ حاد کا پچھلے چھ مہینوں سے اسلام آباد رہنا۔۔۔ ادھم کا اسلام آباد جانا۔۔۔ اس کا ٹھیک ہونا اور اب پھر سے ڈرگز لینا۔۔۔ کچھ ایسا ضرور تھا جس سے وہ ناواقف تھے۔
”سیاہ سفید کی جنگ۔۔۔“ اس نے عجیب سے لہجے میں کہا۔
”کیا کہہ رہے ہو؟؟“ سید جبیل الجھے۔۔
”بابا آپ سیاست سنبھالیے۔۔ باقی سب میں سنبھال لوں گا۔۔“ اس نے انہیں تسلی دیتے فون بند کردیا۔
”ادھم جبیل۔۔۔۔ تمہیں میں نے ایک اور موقع دیا تھا تاکہ تم سچ جان سکو۔۔۔ تم نے کوشش ہی نہیں۔۔۔ تمہیں میں نے موقع دیا تاکہ تم تحقیق کر سکو۔۔۔ تم نے گنوا دیا۔۔۔افسوس۔۔۔“ اس نے اسکرین پر چلتی اس کی ویڈیو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔ اور پھر لیپ ٹاپ بند کردیا۔۔۔ ادھم کا کچھ پتا نہیں تھا۔ کچھ دیر پہلے وہ دائمہ کو لاہور کی فلائٹ میں بٹھا کر آیا تھا۔۔۔ ادھم جبیل کی ویڈیو دیکھ کر وہ کافی اپ سیٹ تھی۔۔اور واپس جانا چاہتی تھی۔۔ سعد ابھی یہیں تھا۔۔۔وہ ایک دو دن بعد واپس جانے والا تھا۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا اسے اب ہسپتال جانا تھا۔
✿••✿••✿••✿
ایمان کو آج چار مہینے ہوگئے تھے یہاں داخل ہوئے۔۔۔اور سلمی بیگم کے لیے غائب ہوئے اسے چھ مہینے ہوگئے تھے۔ اس کا ایمان سے نکاح نہیں ہوا تھا۔۔ اس نے ادھم کو جھنجھوڑنے کے لیے کہا تھا۔۔ وہ دیکھنا چاہتا تھا ادھم اپنے دکھوں سے باہر نکل کر کچھ دیکھتا ہے یا نہیں۔۔۔
ایک بار پہلے بھی اس نے بنا سچ جانے ایمان کو چھوڑ دیا تھا۔۔۔۔۔ آج بھی اس نے سچ جاننے کی زحمت ہی نہیں کی۔
”حاد جبیل کا نکاح ایمان سے کیسے ہو سکتا تھا؟؟“ اس نے یہ جاننے کی کوشش ہی نہ کی۔۔
وہ تیز تیز قدم بڑھاتا ہسپتال کی راہداری میں آگے بڑھ رہا تھا۔ اس نے ہسپتال میں ایمان کا اور اپنا رشتہ یہی ظاہر کروایا تھا کہ وہ اس کی وائف ہے۔۔۔ ٹھیک ہوجانے کے بعد چاہے وہ اس کی شکل نہ دیکھتی لیکن فی الوقت اس کی سیکیورٹی ضروری تھی۔۔۔ وہ نہیں چاہتا تھا کوئی اس کے اور ایمان کے کردار پر بات کرے۔۔ وہ نہیں چاہتا تھا یہ خبر ہسپتال سے باہر جائے کہ اندر کون داخل ہے۔۔۔؟؟
وہ ہر ممکن کوشش کر رہا تھا سب ٹھیک کرنے کی۔۔۔ اس کے سیشنز ہوتے تھے۔۔ وہ چلا جاتا واپس آجاتا۔۔ کبھی آنلائن لیتا۔۔ لاہور اور اسلام آباد جہاں جہاں اسپیشل اسکول بن رہے تھے وہ ان پر پوری توجہ دے رہا تھا۔۔۔
لیکن وہ آج بھی ٹھیک سے سو نہیں پاتا تھا۔
”ذہانت جب چالاکی میں بدلنے لگے تو انسان شیطان بننے میں زیادہ وقت نہیں لیتا۔۔۔“
یہ جملہ اسے چین سے جینے نہیں دیتا تھا۔۔۔ اور وہ خواب اسے سونے نہیں دیتا تھا۔۔۔ ایمان نے اسے عبدل سمجھا تھا۔۔ وہ خواب اسے بار بار نظر آتا تھا۔۔۔ جہاں دلدل میں دھنستے ہوئے وہ اسے مدد کے لیے پکارتی تھی۔
”وہ کیسے مدد نہ کرتا؟؟“
جب ایمان اسے ملی تھی اور ڈاکٹر مہک کے کلینک پر تھی اور عبدل کا اسے فون آیا تھا کہ وہ حاد بن کر ایک دن گزارنا چاہتا تھا۔۔ تب خطرہ اتنا بڑھ گیا تھا کہ حاد کو اگلے دن ویلنسیا جانا پڑا۔۔۔ وہ دو دن وہاں رہا۔۔ دو دن بعد جب وہ لوٹا تو اس نے شدت سے خواہش کی تھی کہ ایمان ٹھیک ہو۔۔۔وہ پاگل نہ ہو۔۔۔
لیکن جب وہ لوٹا تو اسے زنجیر سے بیڈ کے ساتھ باندھا گیا تھا۔۔کیونکہ وہ ہوش میں آتے ہی وہ خود کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتی تھی۔
پچھلے چار مہینوں سے وہ اس کی دیکھ بھال کر رہا تھا۔۔ اب اس کی حالت میں سدھار آرہا تھا کہ ادھم یہاں آگیا۔۔۔
وہ اسے کچھ دن ادھم تو کیا سب سے دور رکھنا چاہتا تھا تاکہ وہ جلدی ٹھیک ہو سکے۔۔
جیسے ہی وہ ایمان کے کمرے کے سامنے پہنچا اس نے گلاس ونڈو سے اندر کا منظر دیکھا۔۔۔
کمرے میں ایک گول میز کے گرد دو کرسیاں رکھی تھیں۔۔۔ایک پر وہ بیٹھی تھی اور سامنے والی پر ڈاکٹر بیٹھا۔۔
”کیسا محسوس کر رہی ہیں آپ؟؟“ ڈاکٹر اس سے سوال کر رہا تھا۔۔۔
اب وہ رنگوں سے، لوگوں سے خوفزدہ نہیں ہوتی تھی۔۔۔اب وہ بلاوجہ ہنستی روتی بھی نہیں تھی۔۔۔ البتہ کسی سے بات بھی نہیں کرتی تھی۔۔۔خاموشی سے بیٹھی رہتی۔۔ بالکل خاموش۔۔۔۔ جانے کیا سوچتی تھی۔۔۔
ڈاکٹر نے مزید اس سے کچھ سوال کیے۔۔۔ایک دو پر اس نے گردن ہلائی تھی باقیوں پر ایسے ری ایکٹ کیا جیسے سنا ہی نہ ہو۔۔ ڈاکٹر جب باہر آیا تو حاد اسے وہیں مل گیا۔
”کانگریچولیشنز مین! اس کی حالت میں اب سدھار آرہا ہے۔۔۔“
اور حاد کے دل نے پہلی بار خوشی محسوس کی تھی۔ اس کی آنکھوں میں، اس کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری تھی۔
”تھینک یو ڈاکٹر۔۔۔“ اس نے ڈاکٹر کا دل سے شکریہ ادا کیا۔۔۔ایک پل کو وہ سب کچھ بھول گیا تھا۔۔ سارے دکھ ساری پریشانیاں۔۔۔۔ یاد رہا تو بس اتنا کہ ایمانے ٹھیک ہورہی تھی۔
✿••✿••✿••✿
دو دن وہ شام کو جب ہسپتال واپس آیا تو ایمان کے کمرے کے باہر کھڑی ہستی کو دیکھ کر ساکت رہ گیا۔۔۔۔
”مام۔۔۔۔“ اس کے لبوں سے پھسلا تھا۔ سفید رنگ کے کپڑوں میں ملبوس ام حانم اسے گلاس ونڈو سے دیکھ رہی تھی۔
وہ تیزی سے ان کی جانب بڑھا۔۔۔
”مام آپ یہاں۔۔۔“ وہ ان کے گلے لگ جانا چاہتا تھا پر اس وقت اسے اپنی ماں کوسوں دور نظر آئی۔
”آئیے مسٹر جبیل صاحب! میں آپ کا ہی انتظار کر رہی تھی۔۔۔“
وہ وہیں رک گیا۔۔۔ اس کے قدم ساکت ہوگئے۔۔ وہ وہاں اس کی ماں بن کر نہیں آئی تھی۔۔ وہ ایک عورت بن کر آئی تھی دوسری عورت کے لیے۔۔۔۔وہ سراپہ سوال تھی۔
”تو یہ ہے وہ لڑکی۔۔۔۔“ حانم کو آج بھی یاد تھا جب وہ طوفانی رات میں اس سے ملنے آیا تھا۔۔ ماضی کے ورقے تیزی سے پلٹنے لگے۔۔۔۔ وہ ان کی گود میں سر رکھے لیٹا تھا۔
”کیا ہوا ہے حاد؟؟ پریشان کیوں ہو۔۔“ اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ماں نے محبت سے پوچھا۔
”کیونکہ وہ مجھے پریشان کرتی ہے۔۔۔“
بالوں میں انگلیاں پھیرتا ان کا ہاتھ رک گیا۔۔۔ پہلے ہی ان کا دل کسی انہونی کی خبر دے رہا تھا۔۔ کیونکہ حاد تقریباً پندرہ سولا سال بعد ان کی گود میں سر رکھ کر لیٹا تھا۔۔۔پہلی بار اسے کسی سہارے کی ضرورت محسوس ہوئی تھی۔۔۔پہلی بار وہ اتنا پریشان ہوا تھا۔
”کون۔۔؟؟ کون پریشان کرتی ہے“
حانم نے دھڑکتے دل کے ساتھ پوچھا۔
”وہی۔۔ ام ایمان۔۔۔ ایمانے۔۔۔ She Haunts Me..“
وہ یوں شکایت کرتا بالکل بچہ لگ رہا تھا۔
”وہ مجھے سونے نہیں دیتی ہے۔۔ اس کے الفاظ میرا پیچھا نہیں چھوڑ رہے ہیں۔۔ پہلی بار میں فوکس نہیں کر پا رہا ہوں۔۔ میں اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔۔۔ پلیز عبدل سے کہیں کہ وہ ایمانے کو سمجھائے وہ میرا پیچھا چھوڑ دے۔۔“
وہ کسی سحر کے زیراثر بول رہا تھا۔۔ حانم کی پیشانی پر لکیریں نمودار ہوئیں۔۔
”ذہانت جب چالاکی میں بدلنے لگے تو انسان شیطان بننے میں زیادہ وقت نہیں لیتا۔۔“
اس کے الفاظ مسلسل گونجتے تھے۔۔۔
وہ تو سچائی کے راستے پر چل رہا تھا۔۔ اس نے کبھی کسی کا برا نہیں چاہا تھا۔۔ وہ تو اللہ والا تھا۔۔ وہ تو شیطان کے خلاف جنگ لڑ رہا تھا۔۔۔وہ کیسے شیطان بن سکتا تھا؟؟
وہ جانے کتنی راتوں کا جاگا تھا کہ کچھ دیر بعد گہری نیند سوگیا۔۔ جبکہ حانم پریشانی سے اس کے بالوں کو سہلاتے سامنے گلاس ونڈو پر بہتی بارش کو دیکھ رہی تھی۔
آخر ایسا کونسا راز تھا ایسا کون سا کام تھا اور ایسا کون سا انسان تھا جس نے حاد جبیل کو پریشان کر دیا تھا۔۔۔؟؟
اور آج وہ اس راز کو جاننے آگئی تھیں۔۔۔ اس کا بیٹا اس کے سامنے کھڑا تھا۔۔۔ کسی ماں نے اپنے بچے کی تربیت پر اتنا فوکس نہیں کیا ہوگا جتنا ام حانم نے کیا تھا۔۔۔ کسی بچے نے اتنا نہیں سہا ہوگا جتنا حاد جبیل نے سہا تھا۔۔ یہ ام حانم سے بہتر کون جانتا تھا۔
”مسٹر جبیل آپ نے نکاح کرلیا اور مجھے خبر ہی نہیں۔۔۔“
وہ اس کی ماں تھی۔۔ کہاں وار کرنا تھا اچھے سے جانتی تھی۔
”مام میں آپ کو سب بتاتا ہوں۔۔“ وہ پھر سے ان کی جانب بڑھا۔ کچھ بھی ہوجاتا وہ اپنی ناں کو ناراض نہیں کر سکتا تھا۔
”کیا تمہیں وہ نصحیت یاد ہے جو میں نے تمہیں کی تھی؟؟“ وہ اب پوچھ رہی تھی۔
”کتنے بھی بڑے بن جاؤ یہ مت بھولنا کہ تم ایک ابن آدم ہو۔۔۔ کبھی کسی انسان کو خود سے کم تر مت سمجھنا۔۔۔“
حاد نے اپنی ماں کے الفاظ دہرائے۔
”کیا تم نے کسی کو اپنے سے کم تر سمجھا۔۔۔؟؟“ وہ اب پوچھ رہی تھی۔
”نہیں۔۔۔۔“ اس نے ایک لفظی جواب دیا۔
”تو پھر مجھے سب سچ بتاؤ۔۔۔“ اس نے کہا تو حاد نے اثبات میں گردن ہلادی۔
✿••✿••✿••✿
کچھ دیر بعد وہ ان کے سامنے سر جھکائے بیٹھا تھا کسی مجرم کی طرح۔۔۔۔ وہ اپنے ماں باپ کی کہانی سے واقف تھا۔۔ اس نے عورت ذات کو ہمیشہ عزت دی، فاصلہ رکھا۔ اس کا دل کبھی کسی کے لیے نہیں دھڑکا۔۔۔وہ عام انسانوں کی طرح پیار محبت میں نہیں پڑنا چاہتا تھا۔۔۔ پر محبت پر کس کا زور؟؟
”وہ مجھے ہمیشہ سے اچھی لگتی تھی لیکن اُس پر میرا دل اُس دن مجھ سے باغی ہوگیا جب میں نے اسے مارکیٹ میں دیکھا۔۔ وہ کھانے پینے کا سامان لے رہی تھی۔۔ خریداری کے بعد وہ ایک بینچ پر بیٹھ گئی۔ اسے بھوک لگی تھی اس نے کھانے کے لیے بریڈ نکالے اور پھر اچانک رک گئی۔۔ اس نے ہاتھ کی انگلیوں پر گنتی کی۔۔ اسکے پاس پانچ دن کے بریـڈ تھے۔۔ یقینا وہ ناشتے کے لیے لائی تھی پر اگر وہ ابھی کھا لیتی تو اسکے پاس ایک دن کا ناشتہ کم پڑ جاتا۔۔۔۔ وہ کتنی ہی دیر سامنے رکھے سامان کو گھورتی رہی جو مشکل سے پانچ دن کا تھا۔۔ پھر اس نے ایک گہری سانس لی اور ایک جوس کا ڈبہ نکال کر جوس پینے لگی۔ وہ وہاں بینچ پر پورا گھنٹہ بیٹھی رہی۔۔۔اس نے مزید کچھ نہیں کھایا۔۔ جانے وہ کن خیالوں میں گم تھی یہاں تک کہ ابرآلود موسم برسنے لگا۔۔ وہ اٹھ کر چل پڑی۔۔ تبھی اس نے دیوار کے پاس کھڑے ایک چھوٹے سے بچے کو دیکھا۔۔ یقینا وہ بھوکا تھا۔۔ اس کے قدم رک گئے۔۔۔ وہ آگے نہیں بڑھ پائی۔۔ وہ جیسے پتھر کی ہوگئی۔۔ اس نے اپنے تھیلے کو ہاتھ لگایا جس میں اس کا تھوڑا سا سامان تھا۔۔ وہ بچہ سامنے سڑک کی دوسری جانب شیشے کے اُس پار رکھے کھانے پینے کی اشیاء کو حسرت سے تک رہا تھا۔۔۔ وہ اسکی جانب بڑھی اور جا کر اپنے بیگ سے بریڈ کے دو پیکٹ نکال کر اس بچے کو دے دیے۔۔ بچے کی آنکھوں میں پہلے حیرت اور پھر تشکر کے جذبات ابھرے۔۔۔ اسکی آنکھوں میں نمی تھی۔
”تم بھیگ جاؤ گے۔۔میرے پاس چھاتہ نہیں ہے۔۔۔ یہ لے لو۔۔“ اس نے اپنے کندھوں پر پڑی موٹی شال اتار کر اس بچے کو دے دی۔ پتہ ہے وہ شال اسے کتنی عزیز تھی۔ پھر اس نے اپنے بیگ سے والٹ نکالا۔۔ جو اس وقت بالکل خالی تھا۔۔ میں نے اسکے چہرے پر موت جیسا دکھ دیکھا۔۔ اسکے پاس کسی کو دینے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا۔۔ وہ تیزی سے وہاں سے بھاگتی چلی گئی۔۔ جیسے سب اسکا مذاق اڑا رہے ہوں کہ اسکے پاس دینے کو کچھ بھی نہیں ہے۔۔ کیا وہ اتنی غریب ہے۔۔۔؟؟
اور اس روز میرا دل چاہا تھا میں پوری دنیا اس لڑکی کے قدموں میں رکھ دوں۔۔ مم۔۔ میں ویلنیسا اسکے نام کردوں۔۔!!“
وہ سانس لینے کو رکا۔۔ گلے میں آنسوؤں کا گولا اٹک گیا تھا۔۔وہ سامنے بیٹھی اس عورت کو بتا رہا تھا جو پوری دنیا میں اس کے لیے سب سے زیادہ قابل احترام تھی۔ وہ خود پر ضبط کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ تبھی کمرے کا دروازہ جھٹکے سے کھلا اور ایک وحشت زدہ آواز ابھری تھی۔
”مسٹر جبیل جلدی چلیں۔۔ پیشنٹ بےقابو ہوگئی ہے۔۔“ اور وہ تیزی سے نرس کے پیچھے بھاگتا چلا گیا۔ سیاہی اور سفیدی کے درمیان بھٹکتی لڑکی کی جانب۔۔۔۔
اس سے حالت پہلے سے بہتر تھی پھر اچانک پتا نہیں کیا ہوا تھا۔۔۔
حانم نے اپنے اس بیٹے کو پہلی بار کسی لڑکی کے لیے یوں بھاگتے دیکھا تھا۔۔ وہ بیٹا جو عجیب تھا۔۔۔
”عورت کو اندھیروں کی دنیا میں دھکیلنے والا مرد کبھی پرسکون نہیں رہ سکتا۔۔۔ یہ بالکل ایسا ہے جیسے وہ مرد اپنے سینے میں خود چھرا گھونپ لے۔۔۔ جو سینے میں چبھا رہتا اور ہر سانس کے ساتھ تکلیف دیتا ہے۔۔۔“
وہ جس تیزی سے نرس کے پیچھے بھاگا تھا اسے دیکھتے ہوئے پیچھے کرسی پر بیٹھی حانم ہولے سے مسکرائی تھی۔
”آرجے نہیں سکون سے جی پایا تو تم کیسے جی پاؤ گے۔۔۔؟؟“وہ بس سوچ کر رہ گئی تھی۔
✿••✿••✿••✿
اس دن ایمان بےطرح روئی تھی۔۔۔ اس کے گرد چھایا جمود جیسے ٹوٹ گیا تھا۔۔۔ ٹھہرے پانی میں ہلچل مچ گئی تھی۔۔۔وہ اتنا روئی کہ اسے چپ کروانا مشکل ہوگیا تھا۔۔۔وہ چیخ چیخ کر روئی تھی۔۔ حاد اور حانم دونوں اسے دیکھ رہے تھے۔۔ اسے گلے لگانے والا کوئی نہیں تھا۔۔ پھر حانم نے اسے گلے لگایا تھا۔۔۔ اس کی چیخوں سے پورا ہسپتال جیسے گونج اٹھا تھا۔۔۔ اس راہداری میں دائیں بائیں جتنے بھی کمرے تھے سب موجود مریض گلاس ونڈو کے پاس آکھڑے ہوئے تھے۔۔۔ وہ سہمے ہوئے راہداری میں جھانک کر دیکھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ آخر اتنا کون رویا تھا۔۔۔۔ اور پھر اس رات وہ سکون آور دواؤں کے بنا ہی سوگئی تھی۔
”اب وہ جلد ٹھیک ہوجائے گی۔۔۔“ حانم وہیں تھیں۔۔ وہ حاد کے ساتھ کھڑی تھی۔ یہ بات سن کر جلتے تپتے حاد کو سکون ملا تھا۔
”وہ تمہیں اب کبھی نہیں دیکھے گی۔۔۔جیسے تم اس کے لیے ہو ہی نہیں۔۔۔ اپنی سزا کے لیے تیار ہو؟؟“
لیکن اگلی بات سنتے ہی اس کا سکون غارت ہوا۔
”میری سزا اسی دن شروع ہوگئی تھی جب میں نے اسے ادھم کو اپنانے کے لیے کہا تھا۔۔۔“ اس کے تاثرات اب سپاٹ ہوچکے تھے۔
”تم نے ابھی تک اس کا درد دیکھا ہے حاد۔۔۔۔تم وہ فیز نہیں دیکھ پاؤ گے جہاں تم اس کے لیے Exist ہی نہیں کرتے۔۔۔ مرد اپنی پسندیدہ عورت کی جدائی سہہ لیتا ہے پر اس کی بےنیازی نہیں۔۔۔“
”میں چاہتا ہوں وہ بس ٹھیک ہوجائے اور وہ بنے جو وہ چاہتی ہے۔۔۔وہ دنیا فتح کرے۔۔“ اس نے سنجیدہ لہجے میں جواب دیا۔ حانم نے رخ موڑ کر اسے دیکھا۔۔۔
”اللہ کرے ایسا ہی ہو۔۔۔ اور میں اس دن کا انتظار کروں گی جب تم خود میرے پاس آؤ گے اپنی عرضی لے کر۔۔۔“
وہ خوشگوار سے لہجے میں کہتی وہاں سے پلٹ گئی۔۔۔۔۔ وہ انہیں جاتا دیکھ رہا تھا۔۔ اس کی ماں ایک ایسے فیز سے گزری تھی۔۔۔ وہ یہ بھی جانتا جانتا تھا سب کی کہانیاں الگ ہوتی ہیں۔۔۔پر وہ آنے والے کل سے ناواقف تھا۔
✿••✿••✿••✿
”آپ نے ایسا کیوں کیا بھائی؟؟“ وہ دونوں اسکرین کے آمنے سامنے موجود تھے۔ ادھم کی حالت ٹھیک نہیں تھی۔۔
”آپ جانتے ہیں آپ کی ایک ویڈیو نے ہمارے خاندان کی عزت داؤ پر لگادی ہے۔۔“ وہ اب اس سے شکوہ کر رہی تھی۔
”لک دائمہ۔۔۔ میں اپنی مرضی سے جینے کا عادی ہوں۔۔ میں سالوں پہلے بھی اس sick معاشرے سے اسی لیے چلا گیا تھا۔۔۔ یہاں ہم جیسے لوگ سکون سے سانس بھی نہیں لے سکتے۔۔۔“
”بھائی یہ پاکستان ہے۔۔۔“ وہ احتجاجاً بولی۔
”اسی لیے مجھے نہیں پسند۔۔۔ مطلب میں اپنی مرضی سے ڈرگز نہیں لے سکتا۔۔۔ اور پلیز میں کسی صفائی کے موڈ میں نہیں ہوں۔۔“ وہ بےزار تھا۔ اکتایا ہوا۔ اس کی آنکھیں سرخ تھیں۔۔ چہرے سے وہ بیمار دکھائی دے رہا تھا۔
”میں صرف وجہ جاننا چاہتی ہوں۔۔ آپ نے ایسا کیوں کیا۔۔۔؟؟“ وہ اب تک وہیں اٹکی تھی۔
”تم کیا کرتی اگر تم اپنی محبت کو پاگل خانے میں قید پاتی؟؟ اور تمہارے پاس کوئی آپشن نہ ہوتا کہ تم اسے دوبارہ اپنا سکو۔۔۔؟؟“
وہ اب سوال گو تھا۔
”آپ نے اسے اپنانے کے لیے کیا کیا؟؟ آپ نے آپشن ڈھونڈا۔۔؟؟“ ایک پل کو تو وہ خاموش ہوگئی تھی لیکن پھر کچھ دیر بعد بولی۔
”وہ کسی اور کی وائف ہے۔۔۔“ وہ تڑپ کر بولا تھا۔
”بتایا تھا آپ نے کہ ایما کی شادی ہوچکی۔۔۔۔“ وہ بولتے بولتے ٹھٹک گئی۔۔۔اور پھر دھواں دھواں ہوتے چہرے کے ساتھ ادھم کو دیکھنے لگی۔۔۔ ”ایما کا پورا نام کیا ہے؟؟“ وہ زرد چہرے کے ساتھ پوچھنے لگی۔
”ام ایمان۔۔۔“ اور دائمہ کو لگا سانس جیسے سینے میں ہی اٹک گیا ہو۔۔ اس نے کاؤنٹر سے پتا کیا تھا کہ حاد نے جس لڑکی کو وہاں داخل کروایا تھا اس کا نام ام ایمان تھا۔۔۔اسے اب سمجھ آیا تھا ادھم اسے وہاں دیکھ کر غائب ہوا تھا۔۔۔۔۔
وہ دونوں اب ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ ادھم جانتا تھا وہ حاد کو پسند کرتی تھی۔۔
وہ دونوں بہن بھائی دو ایسے لوگوں کی محبت میں گرفتار تھے جو ان کی دسترس سے بہت دور تھے۔
”تو کیا حاد اس سے شادی۔۔۔؟؟“ وہ اب پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی جو اب بھی اپنے حواسوں میں نہیں تھا۔ دائمہ نے گہرا سانس لینے کی کوشش کی اور پھر اسکرین بند کردی۔۔۔ وہ مزید کچھ نہیں بول سکتی تھی۔۔ وہ نیچے بیڈ سے ٹکائے بیٹھی تھی۔۔۔
اس کے ذہن میں جو خیال آیا تھا وہ یہی تھا کہ ”ایمان کے پاگل ہونے کی وجہ کیا تھی؟؟“
ایک لڑکی اور ایک ہی خاندان کے دو لڑکے۔۔۔
ایک اس کا بھائی تھا اور ایک محبوب۔۔۔۔
کیا تھا اس لڑکی میں ایسا۔۔۔۔۔؟؟؟
✿••✿••✿••✿
ایمانے رابرٹ
اگلے دن وہ اٹھی تو کافی فریش تھی۔۔ اسے رات والا واقعہ یاد نہیں تھا۔۔۔جو نرس اس کے لیے ناشتہ لائی تھی ایمان نے اس کی باتوں کا جواب بھی دیا تھا۔۔ اس نے ناشتہ بھی کیا تھا۔۔۔وہ باہر کھلا آسمان دیکھنا چاہتی تھی۔۔ اس کے کہنے پر نرس اسے بالکونی میں لائی تھی۔۔
کتنا وقت گرز گیا تھا اسے آسمان کو دیکھے ہوئے۔۔۔بلکہ اس کے پار موجود ہستی کو پکارے ہوئے۔۔۔
وہ چہرہ اٹھا کر آسمان کے اس پار اسے ڈھونڈتی رہی۔۔۔۔
” اللّٰہ۔۔۔۔“ اتنے مہنیوں بعد وہ اپنے حواسوں میں لوٹی تھی جو اسے پکار پاتی۔۔۔۔ وہ روشنی کی تلاش میں اندھیرے سے روشناس ہوئی تھی۔۔۔اور اس نے اس اندھیرے میں وہ سب کچھ دیکھا تھا جو عام لوگ نہیں دیکھ پاتے۔۔۔
کچھ دیر وہ بالکونی میں رہی۔۔ بالکل خاموش۔۔۔ آس پاس دیکھتی ہوئی۔۔۔
اسے جو پہلا خیال آیا تھا وہ اللہ کا تھا۔۔ نہ سلمی بیگم تھی نہ حاد تھا نہ کوئی ماثیل تھا۔۔۔۔
اس کنڈیشن کو صرف وہی سمجھ سکتے ہیں جو اس سے گزرے ہوں۔۔۔۔
”میں واپس آگئی ہوں۔۔۔“ اس نے چہرہ اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے اپنے خالق کو اپنا پیغام پہنچایا تھا کہ وہ اندھیروں کی لڑائی جیت آئی تھی۔۔۔۔
اس نے اپنے دل کو کبھی اتنا خوش محسوس نہیں کیا تھا۔
وہ کافی دیر وہاں موجود رہی۔۔۔ اس نے اپنی داہنی کلائی دیکھی تو اس پر ایک نشان پڑا ہوا تھا۔ شروع شروع میں اس کی حالت اتنی تشویش ناک تھی کہ اس کی کلائی کو بیڈ کے ساتھ باندھا گیا تھا۔۔۔ تاکہ وہ خود کو نقصان نہ پہنچا سکے۔۔۔
”مجھے یہاں کون لایا تھا؟؟“ اس نے اب نرس سے سوال پوچھا۔
”ڈاکٹر مہک۔۔۔“ اس نے وہی نام بتایا جو حاد نے اسے بتانے کو کہا تھا۔
اسے اب کمزوری محسوس ہورہی تھی۔۔ وہ واپس کمرے میں آگئی۔۔ بیـڈ پر لیٹی رہی۔۔۔ خاموشی سے چھت کو گھورتی رہی۔۔۔ جانے کب وہ سوگئی۔۔۔
اس کے سونے کے بعد وہ وہاں آیا تھا۔۔۔
”آج مس ایمان نے باتیں بھی کی ہیں۔۔۔ اس نے یہاں لانے والا کا نام بھی پوچھا۔۔۔وہ آج کافی بہتر لگ رہی تھی۔۔۔“
برس اب اسے رپورٹ دے رہی تھی۔
”بس کچھ دن اور۔۔۔۔ پھر وہ نارمل ہوجائے گی۔۔۔“
حاد کے لیے جہاں یہ خوشی کی خبر تھی وہیں جدائی کا پروانہ بھی تھا۔۔۔ وہ گہرا سانس فضا میں خارج کرتا گلاس ونڈو سے ہٹ گیا۔۔۔
وہ شام تک سوتی رہی۔۔۔اور دوبارہ اٹھی تو جھٹکے سے اٹھ بیٹھی۔۔۔ اس کے کمرے میں بیڈ سے کچھ فاصلے پر رکھی کرسی پر ایک عورت بیٹھی تھی۔۔۔
خوبصورت۔۔۔ سحر انگیز۔۔۔ کوئی پینتالیس سالا وہ عورت اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔
پہلے اسے لگا کوئی ڈاکٹر ہوگی۔۔۔
”ہیلو ایمانے۔۔۔۔ اب کیسا محسوس ہورہا ہے۔۔۔؟؟“ وہ اسے یوں دیکھ رہی تھی جیسے برسوں سے جانتی ہو۔ ایمان کے چہرے پر شناسائی کے کوئی رنگ نہیں ابھرے۔۔۔وہ اسے نہیں جانتی تھی۔
”کیا میں تمہیں یاد ہوں۔۔۔۔؟؟“ وہ ایسے پوچھ رہی تھی جیسے ایمان اس سے پہلے ملی ہو۔
ایمان نے نفی میں سر ہلایا۔
”میں ایمانے رابرٹ ہوں۔۔۔۔“ اس نے اپنا تعارف کروایا۔
وہ پاؤں کو چھوتے جارجٹ کے گاؤن میں تھی۔۔ سر کے بال اونچے جوڑے میں بند تھے۔ اس کا چہرہ صاف تھا۔ اور ایک اونی سکارف اس کی گردن کے گرد لپٹا تھا۔۔۔ جوانی میں وہ عورت کتنی حسین رہی ہوگی۔
”یہ دیکھو۔۔۔“ اس نے موبائل کی اسکرین ایمان کے سامنے کی۔ یہ وہ ویڈیو تھی جو عبدل کے دوست جان نے بنائی تھی اور جب ریسا ہال میں اس کا آخری دن تھا تب جان نے یہ ویڈیو پبلک کرکے اس کا کافی تماشہ بنایا تھا۔۔۔
ایمان کو اپنے سر میں درد اٹھتا محسوس ہوا تھا۔۔ اس نے بےساختہ اپنا سر پکڑا تھا۔۔ اسے اب آہستہ آہستہ یاد آرہا تھا۔۔۔ویلنیسا، یونیورسٹی، ریسا ہال وہ کافی شاپ جہاں بیٹھ کر وہ کالمز لکھتی تھی اور وہ پاگل عورت جو اکثر بس اسٹاپ پر نظر آتی تھی۔ ایک دن وہ بریڈ جوس لے کر اس کے پاس گئی تھی۔ ایمان نے اسے بریڈ اور جوس دیا تھا۔ وہ پہلے تو ایمان کو گھورتی رہی تھی اور پھر اس سے دونوں چیزیں جھپٹ لیں۔
”تمہیں یہ سب کیسا لگتا ہے؟؟“ ایمان نے سوال کیا تھا۔۔ عورت جس کے بالوں کو بےترتیبی سے کاٹا گیا تھا اس نے حیرت سے ایمان کو دیکھا۔۔۔البتہ وہ کچھ باتیں سمجھتی تھی۔ وہ کچھ دیر اسے دیکھتی رہی اور پھر بریڈ کھانے لگی۔
”اس ظاہری دنیا میں پاگل کا کردار ادا کرنا کیسا لگتا ہے۔۔؟؟ میں جانتی ہوں تمہاری حقیقی دنیا کچھ اور ہے۔۔۔“ وہ جو کئی پہروں سے بھوکی ہونے کی وجہ سے بریڈ پر ٹوٹ پڑی تھی ایمان کی بات سن کر جیسے وہ ساکت ہوئی۔۔ اس نے ایمان کو یوں دیکھا جیسے وہ نہیں بلکہ ایمان پاگل ہو۔۔
وہ پھر ہنسی۔۔ اور ہنستی چلی گئی۔۔ اور اسکی ہنسی غصے میں بدل گئی۔۔
”گو ٹو ہیل۔۔۔“ اس نےہاتھ میں پکڑا بریڈ اور جوس ایمان پر دے مارا اور گالیاں دیتی وہاں سے چلی گئی۔
ویڈیو ختم ہوچکی تھی۔۔۔ ایمان کے چہرے پر الجھن تھی۔ اتنے عرصے بعد کیوں؟؟ اس ویڈیو کا کیا مقصد۔۔۔؟؟ وہ اب سامنے بیٹھی خوبرو عورت کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔
”یہ میں ہوں۔۔۔۔“ اس عورت نے ویڈیو والی اس پاگل عورت کی جانب اشارہ کیا جسے ایمان نے بریڈ اور جوس دیا تھا۔ ایمان ساکت نگاہوں سے اسے دیکھی گئی۔۔ اس کے چہرے پر بےیقینی تھی۔۔۔۔
”میں ایمانے رابرٹ ہوں اور میں پچھلے کافی سالوں سے پاگل کا کردار ادا کر رہی تھی۔۔یعنی پاگل تھی۔“
دو ایمانے ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھی تھیں۔
”تم نے کہرے کے اس پار کی دنیا دیکھی ہے نا۔۔ہاں تم نے دیکھی ہے۔۔ میں پچھلے پندرہ سالوں سے کہرے کے اس پار اکیلی تھی۔۔۔قید تھی۔۔ کوئی میری مدد کو نہیں آیا۔۔۔“
اس کی آنکھیں نم تھیں۔۔ وہ گود میں دونوں ہاتھ رکھے بیٹھی تھی۔۔ اس کے ہاتھوں میں واضح کپکپاہٹ تھی۔ ایمان خاموشی سے دیکھ اور سن رہی تھی۔
”پندرہ سال۔۔۔ پندرہ سال میں نے اکیلے گزارے ہیں ایمانے! پندرہ سال میں اس کہرے میں بھٹکتی رہی۔۔۔“ وہ رونا نہیں چاہتی تھی پر آنسوں اس کی پلکوں کی باڑ توڑ کر باہر نکلنے کو تیار تھے۔
”میرا جرم یہ تھا کہ میں نے بےوفائی کی تھی۔۔ عبداللہ شہاب سے۔۔۔۔ایک حسین اور ذہین شخص سے۔۔۔“
وہ اب اپنے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی۔۔ اور ایمان پر گویا ایک دھماکہ ہوا تھا۔
ہاں یہ وہی ایمانے رابرٹ تھی جو چوبیس سال پہلے عبداللہ شہاب سے ملی تھی۔۔۔ آرٹ اگزیبشن میں۔۔۔اور پھر چلی گئی تھی۔۔۔ عبداللہ شہاب نے ایمانے نام کی کتاب لکھی تھی۔۔۔ ایمانے اور اپنی کہانی لکھی تھی۔۔ لیکن اس کہانی کو بھی اس سے چھین لیا گیا تھا۔۔۔
”مجھے اس شخص سے محبت ہوگئی تھی پر میں نہیں جانتی تھی وہ شادی شدہ تھا۔۔ جب مجھے پتا چلا تو مجھے برا لگا۔۔ اس شخص کی سوچ باقیوں سے الگ تھی۔ میں نہیں چاہتی تھی وہ اپنی پہلی بیوی سے بےوفائی کرے۔۔۔اگر وہ اس سے کر سکتا تھا تو پھر میری کیا حیثیت تھی؟؟؟ وہ رشتوں میں بندھنے کا قائل نہیں تھا۔۔۔ پھر میرے منگیتر نے میرے سامنے شرط رکھی کہ اگر میں چاہتی ہوں کہ عبداللہ شہاب وہ مقابلہ جیتے تو مجھے اسے بتانا ہوگا کہ ہم جلد شادی کر رہے ہیں۔۔ مجھے لگا تھا عبداللہ جیت جائے گا تو اس کا ایک نام ہوگا۔۔ اسے وہ سب کچھ ملے گا جو وہ چاہتا ہے۔۔ پر ایسا نہیں ہوا۔۔۔میرے منگیتر نے مجھے دھوکا دیا۔۔ عبداللہ کو ہرا دیا گیا۔۔میں واپس آگئی۔۔ میری شادی ہوگئی لیکن میرا دل باغی ہوچکا تھا۔۔۔ہر وقت کچوکے لگاتا کہ میں بےوفا ہوں۔۔۔ پانچ سال میری شادی چلی پھر ٹوٹ گئی۔۔۔چار سال میں اپنے دماغ سے لڑتی رہی۔۔۔میں پاکستان واپس جانا چاہتی تھی۔۔۔ عبداللہ کے پاس۔۔ میں نے اپنے ریسورسز سے پتا لگایا تو مجھے خبر ملی کہ عبداللہ شہاب دوسری شادی کرچکا تھا۔۔۔۔ مرد کی فطرت میں انتظار کم ہی ہے۔۔۔ اسے دوسری عورت مہیا ہو تو وہ آسانی سے بےوفا ہوجاتا ہے۔۔۔“
آنسوں پلکوں کی باڑ توڑتا اس کی گود میں گرا تھا۔۔۔۔
ایمان جیسے ہی ٹرانس سے باہر نکلی۔۔۔ ایمانے رابرٹ کی باتوں نے سحر قائم کردیا تھا۔۔۔ اسے باہر بادل گرجنے کی آواز سنائی دی تھی۔۔۔ اور پھر بارش کی۔۔۔۔ اسلام آباد کا موسم آج کل ایسا ہی تھا۔۔ کبھی بھی برسنے کو تیار۔۔۔۔ ایسی ہی بارش اس کے اندر بھی ہورہی تھی۔
” میں نے کب ذہنی توازن کھویا پتا ہی نہیں چلا۔۔ میری اپنی بیٹی مجھ سے نفرت کرتی تھی۔۔۔اور پھر۔۔۔۔ میں اس کہرے میں کہیں گم ہوگئی۔۔ جس کے پار گہرا اندھیرا تھا۔۔۔کوئی نہیں آیا۔۔۔ اور پھر۔۔۔۔تم آئی۔۔ تم آئی ایمانے۔۔۔۔“
اس نے چہرہ اٹھا کر اب ایمان کو دیکھا تھا۔
”کسی نے کہرے کے پار جھانکنے کی کوشش نہیں کی تھی۔۔۔ صرف تم نے کی۔۔۔ تم نے کھوج کی اس دنیا کی۔۔۔پوشیدہ دنیا کی۔۔ جہاں سب کا کردار الگ ہوتا ہے۔۔۔“ وہ اسے یوں دیکھ رہی تھی جیسے ایمان اس کی محسن ہو۔
”اس ظاہری دنیا میں پاگل کا کردار ادا کرنا کیسا لگتا ہے۔۔؟؟ میں جانتی ہوں تمہاری حقیقی دنیا کچھ اور ہے۔۔۔“
”تمہارے ان لفظوں نے میرے گرد چھائے جمود میں دراڑ ڈال دی تھی۔۔۔۔اس رات میں ایک مال میں گھس گئی۔۔۔میں نے خود کو آئینے میں دیکھا۔۔۔ میں نے دیکھا اور میں حیران رہ گئی۔۔ یہ میں نہیں تھی۔۔ پھر میں نے اس کہرے سے نکلنے کی کوشش کی۔۔۔ میں کوششیں کرتی رہی۔۔ جب تھوڑا کامیاب ہوئی تو تمہیں بہت ڈھونڈا۔۔ میں اس کافی شاپ پر گئی جہاں تم اکـثر بیٹھتی تھی۔۔۔ پھر تمہاری یونیورسٹی۔۔۔ مجھے تم کہیں نہیں ملی۔۔۔ میں شاید پھر سے کہرے کے پیچھے گم جاتی جب ایک رات مجھے وہ ملا۔۔۔ ایک خاص شخص۔۔۔۔ وہ سیاہ ہـڈی پہنے ہوئے تھا۔۔۔ فٹ پاتھ پر بیٹھا تھا۔۔اس رات طوفانی بارش ہوئی تھی۔۔ میں ہر آتے جاتے شخص کو پکڑ لیتی اور پوچھتی کہ تمہاری پوشیدہ دنیا کونسی ہے۔۔۔؟؟ مجھے لگتا تھا شاید ایسے تم مجھے مل جاؤ۔۔۔ پر تم نہیں ملی۔۔۔ لیکن وہ مل گیا۔۔۔
میں اس کے پاس گئی اور اس سے یہی سوال پوچھا۔۔۔۔
اس نے چہرہ اٹھا کر مجھے دیکھا۔۔۔ اس کی گرے آنکھوں میں کچھ کھو دینے کا ملال تھا۔۔ میں اس کے پاس بیٹھ گئی۔۔ وہ نوجوان لڑکا باقیوں سے الگ لگا تھا مجھے۔۔۔ اس نے کہا،
”ہم تخلیق کی ندی میں بہتے پتے ہیں۔۔۔ یہ ندی ہمیں ہمارے صحیح ٹھکانے پر لے جائے گی۔۔ مجھے۔۔۔تمہیں۔۔۔ ہم جیسوں کو۔۔۔خاص لوگوں کو، سلفائٹس کو۔۔۔“
اس رات میں روپڑی تھی۔۔ میں روئی بہت روئی۔۔۔چیخ چیخ کر روئی۔۔۔۔ طوفانی رات میں جب پورا آسمان رو رہا تھا۔۔۔میں روتی رہی۔۔۔۔ ایسے لگ رہا تھا پوری کائنات رو رہی ہو۔۔۔ اس گرے آنکھوں والے لڑکے نے مجھے چپ کروایا۔۔۔ میں نے اس کی گرے آنکھوں میں تکلیف دیکھی تھی۔ میں نے اس سے اس کے اکیلے ہونے کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا۔
”میرا وجود میرے اپنوں کے لیے تکلیف کا باعث ہے۔۔ میں جس کو چھو لوں وہ مر جاتا ہے، پتھر ہوجاتا ہے۔۔۔ میں نے اپنے جان سے پیاروں کو ہمیشہ کھویا ہے۔۔۔“
ایمان سانس روکے اسے سن رہی تھی۔
”نہیں ہم جہنم میں نہیں ہیں۔۔۔بلکہ تخلیق کی ندی میں بہہ رہے ہیں۔۔۔ یہ ندی تمہیں صحیح ٹھکانے پر لے جائے گی۔۔“
ایمان کے ذہن میں جھماکہ سا ہوا تھا۔۔۔ اسے وہ پرچی یاد آئی تھی۔۔۔ وہ جیکٹ بھی۔۔۔۔ اس کا دل تیزی سے دھڑکا تھا۔
وہ سب لوگ جنہوں نے
درد کو چُنا
جنہوں نے لب سی لیے
اف تک نہ کی
وہ سب لوگ جو بھٹکتے رہے
کہرے کے اس پار
بالکل اکیلے۔۔۔۔
وہ جنہوں نے اندھیرے کو
بہت قریب سے دیکھا
وہ جو تنہا رہے
اپنی سوچ میں
اپنی ذات میں
وہ جنہوں نے سب سہا
وہ جنہوں نے قریب سے دیکھا
موت کو۔۔۔۔روح کی موت کو
وہ سب لوگ
جن کو عطا کیا گیا
خاص ہونا۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ سب لوگ تخلیق کی ندی میں بہہ رہے ہیں
اور یہ ندی انہیں صحیح ٹھکانے پر لے جائے گی۔
✿••✿••✿••✿
”ایمانے تم عام نہیں ہو۔۔۔ میں یہاں صرف تمہیں یہ بتانے آئی تھی کہ تم عام نہیں ہو۔۔ میں نے زندگی کے بہت سال ضائع کردیے۔۔۔ میں تمہیں سمجھانے آئی ہوں تم مت کرنا۔۔۔ تمہیں ابھی بڑے کام کرنے ہیں۔۔ظاہری پوشیدہ دنیا کو جاننا ہے۔۔۔ تمہی ایک خاص شخص کا ساتھ دینا ہے۔۔۔“
ایمانے رابرٹ نے اس کے ہاتھ تھام لیے تھے۔
”عبداللہ شہاب میرا باپ ہے۔۔۔ کیا آپ جانتی ہیں۔۔ میں نہیں جانتی انہوں نے مجھ سے اتنی نفرت کیوں کی۔۔۔“
وہ اسے آگاہ کر رہی تھی۔۔ جبکہ ایمانے رابرٹ بہت پہلے جان گئی تھی جس شخص نے اسے اندھیروں میں بھیجا تھا اس کی بیٹی نے ہی اسے باہر نکالا تھا۔
”شاید اس وجہ سے۔۔۔“ ایمانے رابرٹ نے اپنی گردن سے اسکارف اتارا۔۔ اس کی گردن پر دائیں جانب کندھے سے ذرا اوپر ایک سفید نشان تھا۔۔ایک برتھ مارک۔۔۔۔جس میں کسی قسم کی چمک نہیں تھی لیکن وہ واضح نظر آتا تھا۔ ایمان حیرت سے اسے تکنے لگی۔۔۔اس کی گردن پر بھی ایسے ہی چھوٹے چھوٹے دو نشان تھے۔۔۔تو یہ وجہ تھی عبداللہ شہاب کی اپنی بیٹی سے نفرت کی کہ وہ ایمانے رابرٹ جیسی تھی۔۔۔۔ آہ عبداللہ شہاب۔۔۔!!
✿••✿••✿••✿
”کیا تم کبھی بارش میں نہائی ہو؟؟“
”نہیں مجھے بھیگنا نہیں پسند۔۔۔“
”چلو آج بھیگ کر دیکھتے ہیں۔۔۔“ وہ اس کا ہاتھ تھام کر کمرے سے باہر لے آئی۔۔۔۔ایمان باہر جانے سے، باہر کی دنیا دیکھنے سے گریزاں تھی۔۔۔ وہ ڈر رہی تھی۔۔ ابھی بھی خوفزدہ تھی کہ جانے لوگ اسے دیکھ کر کیسی باتیں کریں گے۔۔۔۔ وہ ابھی تک اس خوف کے زیراثر تھی۔۔
ایمانے رابرٹ اس کا ہاتھ تھامے راہداری سے گزر رہی تھی۔۔۔ گلاس ونڈو سے جھانکتے چہرے انہیں جاتے دیکھ رہے تھے۔
ایمان کبھی دائیں دیکھتی تو کبھی بائیں۔۔۔ کتنے لوگ کہرے کے پار قید تھے۔۔ کوئی انہیں بچانے کیوں نہیں آیا تھا؟؟
وہ چلتی جارہی تھی۔۔۔ لیکن اس کا ذہن جانے کہاں بھٹک رہا تھا۔۔ کسی نے انہیں روکنے کی کوشش نہ کی۔۔ کیونکہ یہ سب حاد کی مرضی سے ہورہا تھا۔۔
ہسپتال کی چوکھٹ سے قدم باہر نکالتے وقت اس کے قدم رک گئے۔۔۔ اس کے چہرے پر خوف واضح تھا۔۔۔
”گرے آنکھوں والا لڑکا کہتا ہے ہم جب تک اپنے ڈیمنز یعنی اپنے خوف سے نہیں لڑیں گے جیت نہیں پائیں گے۔۔۔“
ایمانے نے اسے دیکھتے کہا۔۔۔اور وہ باہر نکل آئی۔۔۔باہر بارش برس رہی تھی۔۔۔ لوگ آجارہے تھے۔۔ زیادہ رش نہیں تھا۔۔ پھر بھی اس نے کتنے مہینوں بعد یہ سب دیکھا تھا۔
سامنے ہی گاڑی کھڑی تھی۔۔ وہ اسے لے کر گاڑی تک آئی دروازہ کھول کر اسے بٹھایا۔۔۔ اور خود بھی بیٹھ گئی۔۔۔ڈرائیونگ سیٹ پر کوئی پہلے ہی بیٹھا تھا۔۔
”کیا ہم وہاں جا سکتے ہیں جہاں کوئی نہ ہو۔۔۔؟؟“
ایمانے رابرٹ نے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے شخص سے درخواست کی۔ گاڑی چل پڑی۔۔۔ گلاس ونڈو سے بہتا پانی۔۔۔ وہ چمکتی آنکھوں سے سب دیکھ رہی تھی۔۔۔
کچھ دیر بعد گاڑی نسبتاً ایک سنسان جگہ پر تھی۔۔۔ چاروں جانب پہاڑ تھے۔۔ یہاں سے پہاڑی راشتہ شروع ہورہا تھا۔۔۔رات کے اس پہر یہاں ٹریفک کم تھی۔۔ وہ دونوں باہر نکل آئیں۔۔۔۔ جبکہ وہ وہیں بیٹھا رہا۔۔۔ گاڑی کی ہیڈ لائٹس آن تھیں۔۔۔
”اس لمحے کو جیو ایمانے۔۔۔یہ پھر نہیں آئے گا۔۔۔“
وہ اس سے کہہ رہی تھی۔۔۔ اور ایمان شاید پہلی بار بارش میں بھیگی تھی۔۔۔ اس نے دونوں بازو پھیلا دیے۔۔۔ وہ اب بازو پھیلائے کھڑی تھی، پھر اس نے آسمان کی جانب منہ کیا۔۔
”میں جیت گئی ہوں۔۔۔ میں نے کر دکھایا۔۔۔“ وہ زور سے چلائی۔۔۔ پھر وہ آنکھیں بند کرکے آہستہ آہستہ گھومنے لگی۔
”میں نے تخلیق کی ندی کو پالیا۔۔۔۔“ وہ خوشی سے چلا رہی تھی۔۔۔وہاں اسے دیکھنے والا کوئی نہیں تھا سوائے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا گرے آنکھوں والے حاد کے۔۔۔۔
جو زندگی میں پہلی بار اتنا خوش ہوا تھا البتہ اس کی چمکتی آنکھوں میں نمی تھی۔
”کیا مجھے اسے ریکارڈ کرنا چاہیے۔۔۔“ اسسٹنٹ اے آئی کی آواز گونجی تھی۔
”نہیں۔۔۔“ اس نے منع کردیا۔
”شاید آپ اسے یہ کل کو دکھانا چاہیں کہ جب اس نے اپنے اندھیروں میں روشنی ڈھونڈی تھی تو کیسے سیلیبریٹ کیا تھا۔۔“ اس کی آواز ابھی بھی گونج رہی تھی جسے صرف حاد سن سکتا تھا۔
”ہاں پھر کرلو۔۔۔“ اس نے مسکرا کر اجازت دی۔
دو ایمانے پوشیدہ دنیا کا راز جان جانے پر خوشی سے جھوم رہی تھیں۔
✿••✿••✿••✿
جاری ہے۔
(ماثیل کی یہ قسط سب سے خاص ہے۔۔۔میرے دل کے بہت قریب۔۔۔ تو آپ لوگوں نے کیا سوچا ہے؟؟ اس دنیا میں موجود ہونے کا اپنا کردار آپ کب تک جان پائیں گے؟؟ کب تک آپ لوگ اسی ظاہری دنیا میں کہرے کے پیچھے پھنسے رہیں گے؟؟ کب آپ لوگ اپنے اندھیروں کو ہرائیں گے؟؟
مجھے انتظار رہے گا)
آپ کو یہ قسط کیسی لگی؟
کو منٹ سیکشن میں اپنی قیمتی رائے کا اظہار ضرور کریں۔
Maseel Previous Episodes
Maseel Episode 45 Maseel episode 44 Maseel Episode 43 (part 02) Maseel Episode 43 (part 01) Maseel Episode 42 (part 02) Maseel Episode 42 (part 01) Maseel Episode 41(part 02) Maseel Episode 41(part 01) Maseel Episode 40 (part 02)
Maseel Episode 40(part 01) Maseel novel episode 39 (part 02) Maseel episode 39 (part 01) Maseel episode 38 Maseel episode 37 Maseel episode 36 Maseel episode 35 Maseel episode 34 Maseel episode 33 Maseel episode 31 Maseel episode 30 Maseel episode 29 Maseel episode 28 Maseel episode 27 Maseel episode 25 Maseel episode 24 Maseel episode 22 Maseel episode 20 Maseel episode 18 Maseel episode 14 Maseel episode 13 (part 02) Maseel episode 13(part 01) Maseel episode 11&12 Maseel episode 10 Maseel episode 09 Maseel episode 08 Maseel episode 07 Maseel episode 06 Maseel episode 05 Maseel episode 04 Maseel episode 03 Maseel episode 02 Maseel episode 01
More Novels by Noor Rajput
👉Sulphite Novel: Click here!
👉The Medium Novel:Click here!
👉Volverine Novel:Click here!
👉Hinave Novel: Click here!
That was osm... Brilliant no word to explain the feeling..
ReplyDeleteyeh such mein buhat khas ha...
ReplyDeleteKhas bohot khas as an old reader kahani prh k bech bech m mje ilm hua k kafi writers se inspired hn ap noor apne unki story ka part b mention kia but this novel is sulphite it self apne isko jesy explain kia wo apki appreciation h gud work
ReplyDeleteKya bat hai Mam kamal kar diya❤️
ReplyDeleteIt's really excellent.. kya naik mard ki wish krna gunah ha... Naik mard ki khwaish mn hm bht pgl ho jty. Same situation here. By the way thank you, it's really very nice
ReplyDeleteEpisode 47 kb aye gha?
ReplyDeleteSuperb 🥰🥰🤞
ReplyDeleteNext episode?
ReplyDeletegoood
ReplyDeletenext episode ?
ReplyDeleteNext Episode will be Uploaded within a week, Inshallah
ReplyDeletem ne aaj tak bht novels prhy hn sb ki story prh k dil krta tha k ending sad ho acha ho ga but isy prh k the best ka word zehan m aya and i really want happy ending of it. By the way ye real story p bni h ya fictional h means khud se bnai i really wanna know plz tell! ok. have a good day.
ReplyDeletenext episode???
ReplyDeleteNext episode
ReplyDelete
ReplyDeleteThe next episode is being written, and Insha'Allah it will be uploaded once it's ready. Stay tunned🔔
Hum apni zindgi k posheeda maqsad ko kese jan skte hain?
ReplyDeleteApne Dil se poochein kyunke Dil mein Allah rehta ha Jo humare posheeda maqasid ke bare mein jaanta ha hum bhi ye maqsib Apne bare mein jaan kar hadil karsakte hain
DeleteKia hr koi apni zindgi k andheron se niklne me kamyab ho skta hai?
ReplyDeleteJee , har wo shaks kamiyab ho sakta ha Jo kabhi haar na mane hamesha Koshish karta rahe aur har woh shaks Jo Allah
DeleteNext episode ???
ReplyDeleteNext kb aygi ?
ReplyDeleteNext episode??
ReplyDeleteالسلام علیکم،
ReplyDeleteمجھے امید ہے کہ آپ سب خیریت سے ہوں گے۔ میں آپ سب کو اطلاع دینا چاہتی ہوں کہ اگلی قسط کی اشاعت میں کچھ تاخیر ہو گئی ہے کیونکہ مصنفہ نور راجپوت صاحبہ مصروف ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آپ سب کو شدت سے اگلی قسط کا انتظار ہے، اور ہم آپ کے صبر اور تعاون کی بہت قدر کرتے ہیں۔
ہماری پوری کوشش ہے کہ جلد از جلد نئی قسط آپ تک پہنچائیں۔ اس دوران، آپ نور راجپوت صاحبہ کے سابقہ ناولز پڑھ سکتے ہیں جن کے لنکس اوپر دیے گئے ہیں۔
آپ کے صبر اور حمایت کے لیے شکریہ۔
میں اِس ناول کو ابھی ریڈ کر رہی ہوں میں خود کسی اندھیرے میں قید ہُوں مجھے اُس سے نکلنے کا راستہ نہیں مل رہا میں نہیں جانتی یہاں کون ہے جہاں سب کو نبیلہ نظر آتی ہے میں خود کے پیشن کو کھو چکی ہُوں میں بیکار ہو چکی ہوں مجھے سمجھ نہیں آتا میرا زندہ
Deleteکرہنے کا مقصد ۔۔۔
Next episode please 🙏
ReplyDeleteI can't wait any more....
Kch stories prrh k Dil krta
ReplyDeleteThey never ends,and it's just like that.
please i am waiting and i can not wait any more please noor rajpoot please upload another ep pleaze
ReplyDeleteNext epi plz😢
ReplyDeleteMam plz apni masroofiaat mai sy thora time Nikal lien ab to SBR ko bhi sbr nai a rha plz plz try to understand 😭😅
ReplyDeleteWhere I can get 47 episode of maseel ....
ReplyDeletenext episode plzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzz😭😭😭😭😭😭😭😭😭😭😭😭😭{{{(>_<)}}}≧ ﹏ ≦
ReplyDeleteNext episode kb aye gi. 4 June sy w8 kr rhi hun. Eid b guzar gai ha. Ab to a jani chyee
ReplyDeleteNext episode
ReplyDeleteBht mushkil h intezar krna...pta nai kab ay ga next...or ata b itna thora sa hai..
ReplyDeletenext ep plz
ReplyDeleteالسلام علیکم! کیسے ہیں آپ سب؟؟ کیسی گزری عید اور موسم کیسا ہے آپ کی طرف ؟؟
ReplyDeleteعید کی مصروفیات کی وجہ سے ماثیل کی قسط نہیں آئی۔۔ اب عید گزر چکی ہے۔۔۔ قسط پر کام ہو رہا ہے جلد پوسٹ ہوگی۔
نور راجپوت
Wa Alaikum salam warehmatullah.... we are eagerly waiting admn
ReplyDeleteWa Alaikum Assalam please admin now I can't patience please jaldi upload kr dain. Thank you.
ReplyDeleteAb to publish kr do next episode
ReplyDeleteNext episode plzz
ReplyDeleteNext episode k wait mein pichli episode bhool chuki hai🙂
ReplyDeleteYe to koi bt na hui itny itny din wt kn kry jb koi or novel start kr diya phrkia faida apki episode upload krny ka pura month ho gaya
ReplyDeleteMain abhi tk Sulphite mn b aur is novel mn b in nishanat ka mtlab samajny syy qasir hun. Otherwise whole novel is just master piece. Kuch acha prhny ko milta hai.
ReplyDeletewonderful ya epi parh kay jo feel hua hai wo main bata nhi sakti finaly emany theek ho h
ReplyDeleteMa velensia usky Naam ker doo to much 🥰🥰🥰🥰
ReplyDelete