Mard e Abresham by Bano Qudsiya - PDF

Mard e Abresham by Bano Qudsiya - PDF
 

امی گزر گیا کیا ہوتا ہے؟
میری امی نے بڑے بھول پن سے کہا۔۔۔۔”گزر گیا ۔۔۔یعنی چلا گیا۔۔۔یہ دیکھو ایسے۔۔۔۔۔“ وہ ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں چلی گئیں۔

مردِ ابریشم بانو قدسیہ کی بہت خوبصورت تحریر ہے۔ایک دن اشفاق صاحب نے مجھ سے کہا کہ قدسیہ تم شہاب صاحب پر ایک مضمون لکھ دو۔اس دور میں اشفاق صاحب اور بانو صاحبہ اپنا ایک رسالہ ”داستان گو” کے نام سے شائع کرتے تھے۔جسمیں بانو صاحبہ افسانے،آپ بیتی،مضمون لکھا کرتی تھیں۔اشفاق صاحب نے شہاب صاحب کی شخصیت پر مضمون لکھنے کو کہا تو انہیں سمجھ نہیں آیا کہ وہ کیا لکھیں کیونکہ وہ شہاب صاحب کی شخصیت کے بارے میں جو کچھ جانتی تھیں وہ ایسا نہ تھا کہ مضمون لکھا جائے۔ وہ لکھتی ہیں کہ ”جس انسان کے پاس ناواقفیت کی انڈیکس موجود ہو ،اس سے آپ یہ توقع نہ رکھئیے کہ وہ آپکو سیر حاصل قسم کا مضمون دے سکتا ہے

اس کتاب میں بانو صاحبہ نے شہاب صاحب کا مشاہدہ پیش کیا ہے جو کہ تیس سال کی رفاقت پر مشتمل رہا۔اس کتاب میں انھوں شہاب صاحب کی شخصیت کا ذکر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ وہ کیسے انسان تھے،انکی زندگی کتنی متوازن رہی۔ایک اعلٰی پر فائز ہونے کے باوجود بھی کبھی کسی کو یہ محسوس ہونے نہ دیا کہ وہ کتنے قدآور ہیں۔انھوں کبھی کسی کو نصیحت نہیں کی،کسی کو سرزنش نہیں کیا،کبھی کسی کو ٹوکا نہیں،کوئی تکبر،کوئی غصہ،کوئی انکار کچھ نہیں تھا،ان سے کوئی بات پوچھی جاتی بہت خوبصورتی سے رہنمائی کرتے۔

انسانوں سے بہت محبت تھی انہیں،اللہ سے رشتہ ہی اور تھا۔اس کتاب میں بانو صاحبہ نے اپنا اٹھائیس سال پرانا مضمون تحریر کیا ہے۔وہ لکھتی ہیں کہ نجانے کہ شہاب بھائی ایسا کون ہنر آتا تھا کہ وہ سب میں گھلے ملے بھی رہتے اور الگ تھلگ بھی ،وہ ایسا دینے والا ہاتھ تھے کہ کسی پتا ہی نہ چلتا تھا انکی عبادات انکا اللہ سے رشتہ اس سے امید اور ہی طرح کی تھی ۔وہ لکھتی ہیں کہ ” آپ شہاب صاحب کو بہتر طور جان سکتے جس نے اپنے چہرے پر ماسک پہن رکھا ہے اور اسے پہننے کے بعد اسے اتارنے کا ڈھنگ بھول چکا ہو۔

شہاب صاحب مجسم دعا تھے،انکے گزر جانے کے عین تیسرے دن مجھے ایک جواب مل گیا جو پچاس سال پہلے میں اپنی ماں سے پوچھا تھا”امی گزر گیا کیا ہوتا ہے۔۔۔لڑکیاں کہتی ہیں میرا باپ گزر گیا ہے۔۔۔

اسمیں اشفاق صاحب اور شہاب صاحب کی دوستی،محبت کی ایسی مثال نظر آئے گی جو کہیں نہیں ملتی۔اس کتاب میں اشفاق صاحب کا ایک مضمون ہے ”چندن کا پیڑ“بھی شامل ہے،یہ مضمون بہت خوبصورت ہے جہاں لبوں پہ مسکراہٹیں در آئی ہیں وہیں اس کے اختتام پر ڈھیروں آنسو بھی تھے۔







Post a Comment (0)
Previous Post Next Post