گزرا وقت کتنا خوبصورت پرافسوں اور اداسی کی ایک عجیب سی دھند میں لپٹا نظر اتا ہے بعض تحریریں ہوتی ہیں جنہیں پڑھتے وقت پڑھنے والے پہ ناسٹلجیا کا دورہ پڑا رہتا ہے۔امراؤ جان کی حقیقی کہانی کی تلاش سے شروع ہونے والا خواب سراب بقول امراؤ جان آوارگی میں ہمیں کتنے زمانوں کی سیر کروا گیا یہ سفر ہمیں سردار جہان بیگم جہاندار ہینگا کمو سے ملواتا ہوا شہبا، سبیلا اور شنیلہ خانم جیسے خوابناک کرداروں تک لے گیا۔
شہبا اور سبیلہ کیا گریس فل اور خوبصورت کردار ہیں کہ بے اختیار قاری ان کی چاہت میں مبتلا ہوا چلا جاتا ہے سبیلا کے ساتھ گھومتے گھماتے جہاں لکھنو کے شاندار ماضی کی جادوئی جھلک جا بجا نظر اتی ہے وہیں لکھنوی کھانوں نشست برخاست اور بول چال کا الگ اور خوبصورت ذائقہ زبان پر گُھلتا چلا جاتا ہے۔مثلا محرم کے عشرہ کی روایار کا بیان بہت سنا اور پڑھا ہوگا پر اس قدر تفصیلی اور خوبصورت بیان پھر بیچ بیچ میں مرثیوں کی خوبصورت جوڑ واہ سبحان اللہ کیا کہنے۔کم ہی ایسی تحریریں ہوتی ہیں جو جس تہذیب اور معاشرت کو بیان کر رہی ہوتی ہیں وہ اس کا حقیقی عکس اپ کی انکھوں میں جگا سکیں۔
پر یہاں بیان اس قدر حقیقی اور خوبصورت ہے کہ اپ خود کو اسی ماحول اور زمانے میں سانس لیتا ہوا محسوس کرتے ہیں خوف سراپ اس لحاظ سے ایک مکمل ناول ہے جو اول سے اخر تک اپ کو اپنی حصار میں لیے رکھتا ہے۔ انیس اشفاق کے تینوں ناولوں، پری ناز اور پرندے، دکھیارے اور خواب سراب میں تین چیزیں مشترک ہیں۔ لکھنؤ ، ناسٹلجیا اور موت۔ جہاں لکھنؤ کا بیان آپ کے دل سے ایک ہوک اٹھاتا ہیں وہاں ہر موت کے ساتھ آپ کے دل کا ایک ٹکڑا کے سا جاتا ہے۔
کسی بھی لکھاری کا اپنے وطن اور اپنے آبائی شہر کے لیے سب سے بڑا ٹریبیوٹ یہی ہو سکتا ہے کہ وہ اس کی مٹ چکی یا مٹتی جا رہی (اس ناول میں لکھنوی تہذیب اور ثقافتی ورثے کی آہستہ رو تباہی دل چیر کے رکھ دیتی) تہذیب کو ڈاکومنٹ کر جائے اور یقیناً انیس شفاق اپنی اس ناول کے ذریعے اس امتحان میں بڑی حد تک کامیاب ہوئے ہیں۔
This Novel is Only available in Book Form.