Khoj (کھوج) by Najam Ud Din Ahmed - Review

Khoj by Najam Ud Din Ahmed - Review


کھوج۔۔۔نجم الدین احمد

انسان خسارے میں ہے اور کیا ہی خسارے میں ہے کہ تمام زندگی جیسے اپنی چاہ اور سچی طلب جان کر زندگی کھپا ڈالتا ہے تو آخر میں کہیں جا کر جان پاتا ہے کہ ساری عمر جس کی کھوج کی وہ تو ایک سراب تھا اور جسے اس کا مقصود ہونا تھا وہ تو اسے بن چاہے ہی مل گیا تھا (سسی چندا، چنداسسی).
۔
شہزاد بہاولپور کی مضافاتی بستی حمایتیاں میں پلا بڑھا۔ ماں باپ کا لاڈلہ۔ساری عمر شیریں فرہاد، ہیر رانجھا، لیلہ مجنوں اور خصوصاً سسی پنوں کی داستانِ عشق سن سن کر جوان ہوا۔
شہزاد کی یہ چاہ کہ وہ گمنام ہو کر نہ مرے اسے سسی کے حقیقی مدفن (روایات بتاتی ہیں کہ سندھ اور بلوچستان میں سسی پنوں کے ساتھ مختلف مقامات پر سات مدفن یا مزار ہیں) کی تلاش میں نکلتا ہے اپنی چاند جیسی سنگترے کی کاشوں جیسے ہونٹوں کی مالک شوخ و چنچل چندا کو چھوڑ کر گھر سے باہر قدم رکھتا ہے تو اسے معلوم نہیں ہوتا کہ سسی کے مزار کا سفر سسی کی چاہ کے سفر میں بدل جائے گا۔ اب اس سفر میں شہزاد کہاں کہاں کی خاک چھانتا ہے ،کس کس در کو کھٹکھٹاتا ہے اور اس دوران کون سی عجیب غریب کردار اور واقعات سامنے آتے ہیں یہی داستان پڑھنے سوچنے سمجھنے لائق ہے

"کھوج" اردو میں اپنی طرز کا ایک خوبصورت اضافہ ہے تمام کردار اور واقعات پانی کی لہروں کی طرح بہتے چلے جاتے ہیں بعض واقعات اور مناظر کا بیان تو اس قدر خوبصورت اور جاندار ہے لگتا ہے جیسے یہ سب کچھ پڑھنے والے کی آنکھوں کے سامنے رونما ہو رہا ہے۔پڑھتے سمے جی چاہتا ہے کہ انسان پنوں کے قلعے، چاند دیو کے مندر یا بھمبور کے نزدیک سسی کے باغ میں ڈیرے ڈال لے۔

کیا یہ جیون ایک سراب ہے؟ جس میں انسان جو ہے اس کو چھوڑ کر اس کی کھوج میں نکلتا ہے جس کے بارے میں خود اس کی بھی یقین نہیں کہ اس کی مراد کوئی حقیقی وجود بھی رکھتی ہے۔اور پھر جب وہ اس مقام پہ پہنچتا ہے جہاں سراب (زندگی) حقیقت (موت) سے ملتا ہے تو انسان جان پاتا ہے کہ کاش۔۔۔۔۔۔۔۔
۔
نجم الدین احمد سے پہلا تعارف کاف کا بر لبی ساحل کے توسط سے ہوا جہاں انہوں نے مورا کامی کو بہترین انداز میں اردو کا لب میں ڈالا تھا یہ میرے خیال میں ان کا پہلا ناول ہے اور ایک رائٹر کے لیے کیا ہی شاندار آغاز ہے۔

This Book is Only Available in Hard Form.



Post a Comment (0)
Previous Post Next Post