جب چھوٹے ہوا کرتے تھے تو گھر میں بھائی مختلف ڈائجسٹ اور میگزین لایا کرتے تھے۔ ان میں ایک سسپنس ڈائجسٹ بھی ہوا کرتا تھا جس میں اکثر مرحوم علی سفیان آفاقی صاحب کے سفر نامے ہوا کرتے تھے ۔ یہ سب سفر نامے ہم گھر والوں سے چھپ کہ پڑھا کرتے (کیونکہ اچھے بچے ڈائجسٹ نہیں پڑھتے ایسا تب سمجھا جاتا تھا۔تو ہم اچھے نہیں تھے تو چھپ چھپا کر پڑھ ہی لیتے تھے)۔
پھر ایف ایس سی میں تارڑ صاحب سے پہلا تعارف پیار کا پہلا شہر سے ہوا( سچ تو یہ ہے اس وقت بھی مجھے یہ ناول سے زیادہ ایک سفرنامہ لگا تھا) تو تارڑ صاحب ہمارے کچی عمر کے پکے پیار ٹھہرے۔ تب سے لیکر ان کے لکھے کئی ناولوں سمیت ان کے مختلف سفرنامے جیسا کہ اندلس میں اجنبی، نکلے تیری تلاش میں ، نیو یارک کے سو رنگ، پتلی پیکنگ کی ، ویت نام تیرے نام ، منہ ول کعبہ شریف، غار حرا میں ایک رات، دیوسائی اور یہ خانہ بدوش پڑھ ڈالے
۔
خانہ بدوش تارڑ صاحب کا افغانستان سے شروع کر سوئٹزرلینڈ تک تقریباً نو ممالک کا سفر نامہ ہے ۔افغانستان، ایران ترکی ، شام ، لبنان ، مصر روم اور سوئٹزرلینڈ کا یہ سفرنامہ حیرت ناک واقعات اور کرداروں کی ایک دنیا لئے ہوئے ہے۔ آج کل کے اس ڈسٹریکشن سے بھرے وقتوں میں بھی یہ سفرنامہ آپ کو اپنے قابو میں کر کے پڑھوانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
یہ سفر نامہ پڑھتے وقت احساس ہوتا ہے کہ دنیا کتنی بدل گئی ہے۔ گئے زمانوں میں بھلے ٹرانسپورٹ کے ذرائع اتنے جدید اور تیز نہیں تھے لیکن ایک ملک سے دوسرے جانا کتنا آسان اور سہل تھا۔ راستے کی چھوٹی بڑی مشکلات تو تھیں پر لوگوں کی اکثریت کے دل کشادہ تھے تو یہ راہ کی مشکلیں کچھ زیادہ مشکل نہیں لگا کرتی تھیں۔ اب تو ذرائع آمدورفت میں آسانیوں کے ساتھ سب انسان اپنی اپنی ذات کے حصار میں سکڑتے جا رہے ہیں۔ سفر پہ قدغنیں جہاں بڑھتی جا رہی ہیں وہیں ایک ملک سے دوسرے کا سفر ناممکن حد تک مشکل ہوتا جا رہا ہے
۔
تارڑ صاحب کے سفر نامے سے جہاں آپ بہت کچھ نیا جان پاتے ہیں وہیں اس سفر میں ملنے والے عجیب و غریب کردار بھی اپنے آپ میں الگ طرح کے ہوتے ہیں۔تارڑ صاحب کے سفرناموں کی خاص بات یہ ہے کہ پڑھتے سمے بے اختیار دل مچل اٹھتا کہ سب کچھ تیاگ کر بیگ اٹھائیں اور نکل پڑیں ان دیکھی دنیا کے لئے۔پر پھر اپنی جیب کی پتلی حالت دکھتی تو بندہ سوچتا چلو کتاب کے ذریعے ہی کابل ، ہرات، تہران ،ارض روم دمشق ، بیروت ، وینس، سکندریا گھوم آتے ہیں