Khamoshi Episode 18

 

Khamoshi novel

قسط نمبر 18
از قلم:
عشنا کوثر سردار
اقصیٰ سحر
ماہ نور نعیم
فاطمہ نور
رابعہ امجد
صبا جرال
ماورہ طلحہ
اقراء اسلم
خدیجہ عطا
مہوش ملک
سیّدہ فرحین نجم
کوثر ناز
عائشہ تنویر
وہ اپنی پہلی والی حالت میں واپس لوٹ آئے تھے
" اچھا دادا جی شب بخیر "
میں بھی دادا جی اجازت لیتا اٹھ گیا تھا
آج ایک راز سے پردہ اٹھ گیا تھا عالم صاحب کی وجہ سے میری ایک الجھن دور ہو گئی تھی میں بہت پرسکون ہو کر لیٹ گیا کافی دنوں بعد سکون کی نیند آئی تھی
آج اتوار تھا لہذا میں گھر پر ہی تھا اج میری نظر کیٹی پر تھی کسی نا کسی طرح مجے اسے ٹھکانے لگانا تھا وہ ناشتے پہ دادا جی کے قدموں میں بیٹھی دودھ پی رہی تھی کبھی کبھی سر اٹھا کر مجے دیکھ لیتی اس کی انکھوں میں اج ایسا کویی خاص تاثر نہی تھا جو مجھے چونکا دیتا نارمل بلیوں کی طرح ہی وہ اج کل حرکتیں کر رہی تھی اب اس کے پیچھے کیاوجہ تھی یہ مجے سمج نہی ارہی تھی
۔دادا جی ناشتے کے بعد کہیں باہر چلے گیے تھے میں کچن سے ناشتہ لینے گیا تو کرم دین وہاں کچھ کام کر رہا تھا
ریان بابو کچھ چاہیے اپ کو ،وہ کام چھوڑ کر مجے دیکھنے لگا
۔میں نے پہلو بدلا اب میں اسے کیا بتاتا،اپ عالم صاحب کے لیے ناشتہ لینے ایے ہیں نا ،اس کی بات پر میں چونکا وہ مسکرا رہا تھا میرک چوری پکڑی گیی تھی ۔۔تمہیں کیسے پتا چلا ۔۔۔میں اگے ہو کہ ناشتہ ٹرے میں رکھنے لگا تو اس نے ٹرے میرے ہاتھ سے لے لی اور خود رکھنے لگا
اپ جب چوری چوری پچھلی سیڑھیوں سے جا رہے تھے تو میں نے دیکھ لیا تھا، اور پھر اپ کے افس جانے کے بعد میں دیکھ بھی ایا تھا اور مل بھی ایا تھا ان سے۔۔۔انہوں نے مجے سب کچھ بتا دیا۔۔کرم دین نے ٹرے مجے پکڑاتے ہویے بتایا
"ویسے ایک بات بتاوں اس کیٹی پہ تو مجھے شروع دن سے ہی شک تھا اس کی حرکتیں شروع دن سے ہی انوکھی اورعجیب تھیں ویسے اب جب مجھے پتا چل گیا کہ یہ بلی نہی کویی جادوگرنی ہے تومجھے بہت ڈر لگتا اس سے۔۔۔اور میری تو روح کانپ جاتی ہے جب میں سوچتا ہوں کہ یہ پورا پورا دن میرے اگے پیچھے پھرتی تھی اگر یہ میرے ساتھ کچھ کر دیتی تو" ۔۔۔۔کرم دین کا چہرہ پسینہ پسینہ ہو رہا تھا مجھے ہنسی اگیی،
"تمہیں ڈرنے کی کویی ضرورت نہی میں ہوں نا یہاں" میں نے اسے تسلی دی تو وہ کچھ ریلکس ہوا۔۔۔۔"اچھا اب ہم نے اس کیٹی کو راستے سے ہٹانا اور اس کے لیے کچھ سوچو۔۔میری بات پر وہ واقعی سوچ میں پڑھ گیا۔۔۔۔پھر اچانک بولا ۔۔۔لو یہ کونسا مشکل کام ہے میں اس کے دودھ میں زہر ڈال دوں گا۔۔۔اس کی تجویز پر میں خود سوچ میں پڑھ گیا ۔۔۔۔کیا اس سے کچھ ہو گا۔۔۔میں نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھتے ہویے پوچھا تو اس اثبات میں سر ہلا دیا ۔۔۔"اچھا ٹھیک ہے میں عالم صاحب سے بات کرتا ہوں"
میں کھانا لے کر گیا تو وہ تسبیح کر رہے تھے میں نے سلام کیا جس کا انہوں نے سر کے اشارے سے جواب دیا میں نے ٹرے ان کے سامنے رکھی اور بیٹھ گیا وہ کچھ دیر تک تسبیح کے دانے گراتے رہے اور پھر اسے تکیے کہ اوپر رکھ کر میری طرف متوجہ ہویے
کیسے ہو ۔۔۔انہوں نے پوچھا تو میں بغور ان کا چہرہ دیکھنے لگا کتنا نور تھا ان کے چہرے پر پیشانی بھی چمک رہی تھی ۔۔۔۔میں ان کی طرف دیکھنے میں اتنا مگن ہو گیا کہ ان کی بات بھی بھول گیا انہوں نے ہاتھ لہرایا میرے سامنے تو میں چونکا اور تھوڑی شرمندگی بھی ہویی
"میں ٹھیک ہوں اپ کیسے ہیں"۔
"الله کا کرم ہے"،
"وہ میں نے اپ سے ایک بات کرنی تھی"
میں کچھ جھجک رہا تھا اپنی بات کہتے ہویے
"ارے بولو بھیی بولو
"مجے کیٹی کے بارے میں بات کرنی ہے کیٹی جب تک زندہ رہے گی ہم کچھ نہی کر سکتے توکیوں نا ہم کیٹی کو مار دیں" کرم دین کہہ رہا تھا کہ اس کے دودھ میں زہر ملا دیتے ہیں" ، میری بات پر ان کہ چہرے پر مسکراہٹ اگیی
"کیٹی کویی بلی نہی ہے جو زہر سے مر جایے گی یہ تو مسکن ہے کیی بد روحوں کا ۔۔اور وہ تو پہلے ہی مری ہویی ہیں اس لیے زہر سے کچھ نہی ہو گا۔۔۔اس بلی کو مارنا کویی اسان کام نہی ہے یہ بہت ہی مشکل کام ہے۔۔۔۔اس کے لیے الله کے کلام سےکام لینا ہو گا اس کے ذریعے اس بلی کو ختم کریں گے ہم ورنہ تو یہ ہم سب کو ہی ختم کر دے گی۔۔۔اور فرض کرو اگر ہم اس کو زہر دیتے ہیں تو اس سے یہ بلی مرے گی وہ بد روحیں پھر ازاد ہو جاییں گی اور الٹا ہمیں نقصان پہنچاییں گی اور اس بلی میں جو بری طاقتیں ہیں وہ بھی زور پکڑ لیں گی۔۔۔اور اس طرح ہمارے لیے بہت مشکل ہو جائے گی ہمیں اس بلی کو ان تمام طاقتوں اور بد روحوں سمیت ختم کرنا ہوگا
•••••••••••••••••
"تم اپنی اس سوچ کو کس قدر بڑھانا چاہتے ہو ریان بیٹا؟ تم کس پر یقین کر رہے
ہو یا کرنا چاہتےہو۔ تم جانتے ہو کہ سچ کیا ہے مگر آنکھیں بند کرنا چاہتے ہس اور ایسا کر کے تم اپنا نقصان کرو گے۔" وقت ملتے یہ میں دادی اماں جی پاس پہنچا تھا اور ان کی بات نے مجھے اور الجھا دیا تھا۔
"میں سمجھ نہیں پا رہا دادی اماں آئینہ مجھ سے جھوٹ کیوں بولنا چاہے گی؟ جبکہ اس جا مقصد صرف مجھے مارنا اور ساتھ لے جانا ہے؟۔" میں اپنی جگہ بہت الجھا ہوئ دکھائ دیا تھا جب دادی نے میری طرف بغور دیکھا تھا۔
"تمہیں شواہد ڈھونڈنے ہیں تو جاکر ڈھونڈو اس کے لئے تم میرے پاس کیوں آئے ہو؟۔" دادی نے معاملات سلجھانے سے جیسے ہاتھ کھیچ لیا تھا۔ میں نے الجھ کر ان کی طرف دیکھا تھا۔
"دادی اماں میں الجھ رہا ہوں، آئینہ حمزہ نے کیوں کہا کہ وہ زندہ ہے اور ایفا حمزہ مر چکی ہے؟ ایسا کر کے اسے کیا حاصل ہوگا؟۔"
دادی نے ایک گہری سانس لیتے ہوئے چائے بنا کر کہ میری طرف بڑھایا تھا اور پرسکون لہجے میں بولیں تھیں۔
"تمہیں ایفا حمزہ ہر کتنا یقین ہے؟"
اور میں نے فوراً نفی میں سر کو ہلایا تھا۔
"بات یقین کی نہیں ہے دادی اماں، مجھے ایفا پر یقین ہے میں ایفا سے محبت کرتا ہوں اور ۔۔"
"اور یہ کیسی محبت ہے جو اس یقین کو متزلزل کر رہی ہے؟ تم جس لڑکی سے محبت کرتے ہو اس کے وجود کی نفی کر رہے ہو۔ جس نے کئ بار تمہیں موت کے منہ سے نکالا تم اسی پر شک کر رہے ہو۔ محبت ایسی ہوتی ہے؟۔" دادی اماں نے مجھے دیکھا تھا اور میں خاموش رہا تھا۔
"تمہیں ایفا حمزہ سے محبت ہے یا کتنی محبت ہے یا یہ کہ ایفا حمزہ زندہ ہے کہ نہیں۔ ان تمام سوالوں کے جواب خود تمہیں تمہارے اندر ملیں گے اگر ایک بار تم اپنے دل سے ہوچھوں گے تو۔ " دادی اماں نے مجھے جانے کیا سمجھانا چاہا تھا۔ میں نے ان کی سمت سلجھ کر دیکھا تھا۔
"مگر دادی اماں!۔"
"تم یقین سے خالی ہو رہے ہو ریان الحق اور مجھے ڈر ہے تمہارا یہ کھوکھلا پن ایفا حمزہ کو بھی خالی کر دے گا۔" دادی نے افسوس کیا تھا اور میں چونکا تھا۔
"آپ کیا کہہ رہی ہیں دادی اماں؟ پلیز کھل کر کہئے! میں گتھیاں سلجھانا چاہتا ہوں مگر اور الجھ رہا ہوں۔ یہ کیا ہے سب؟ میں جانتا ہوں ان باتوں کا کوئ سرا آپ کے ہاتھ ہے پلیز مجھے کھل کر بتائیے۔" میں نے ان سے درخواست کی تھی آنہوں نے لمحہ بھر کو خاموشی سے میری طرف دیکھا تھا سرو مدھم لہجے میں گویا ہوئی تھیں۔
"میں تمہیں بتانا نہیں چاہتی تھی۔ میں چاہتی تھی تم اس کی کھوج خود کرو اور ایفا حمزہ کا یقین کرو مگر اب مجھے لگ رہا ہے تمہیں آگاہ کرنا ضروری ہے کیونکہ تمہارا گمراہ ہونا اور آئینہ حمزہ کی باتوں پر یقین کرنا ایفا حمزہ کے لئے خطرہ کا باعث ہو گا اور مجھے ایفا کی فکر ہی سو میں اسے نقصان پہنچتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی ۔ تم اپنی بے وقوفی میں ایفا کے لئے نقصان کا باعث بنو گے۔" دادی اماں کسی قدر خفا دکھائ دیں تھیں۔
"کیا مطلب دادی اماں؟ آپ کیا کہہ رہی ہیں؟ میں ایفا کو نقصان کیوں پہنچاؤں گا؟ میں ایفا سے محبت کرتا ہوں۔ " میں نے الجھ کر کہا تھا اور تب دادی اماں نے میری طرف دیکھا تھا۔
"آئینہ حمزہ مر چکی ہے یہ اس وقت کی سب سے بڑی سچائ ہے چاہے تم اس کا یقین کرو نہ کرو مگر آئینہ چاہتی ہے تم ایفا کی سچائ پر شک کرو، تمہارا شک کرنا اور گمراہ ہونا ایفا کی مثبت روحانی طاقتوں کے خاتمہ کا باعث بنے گا۔ آئینہ یہ بات جانتی ہے تبھی وہ اس کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ اس نے تمہارے دماغ میں شک کے یہ بیج اسی لئے بویا۔ تمہارا شک جس قدر مضبوط اور پختہ ہوگا، آئینہ حمزہ کی منفی طاقتوں کا اتنا ہی عروج ہوگا اور آئینہ حمزہ کی طاقتیں ایفا حمزہ کی مثبت طاقتوں کے خاتمے کا باعث بنے گی۔ تم ایفا حمزہ کو کمزور کرنے کا باعث بنو گے، تمہارے باعث وہ ان طاقتوں کو کھو دے گی۔ اس شک کا آغاز تم کر چکے ہو۔ اب آگے کیا ہوگا اس کی بارے میں تم طے کرو گے۔ آئینہ حمزہ نے تمہیں گمراہ کرکے کہانی تمہارے ہاتھ سونپ دی ہے۔ تم یقین کے معاملے میں کمزور ثابت ہوئے ہو۔ مجھے ڈر ہے تم ایفا کے لئے کسی نقصان کا باعث نہ بن جاؤ۔" دادی اماں نے مجھے آگاہ کرتے ہوئے اپنے خدشے کا بھرپور اظہار کیا تھا اور میں کپ شلف پر رکھ کر ان کی سمت ایک نظر دیکھ کر باہر نکل آیا تھا۔
میں سرا ڈھونڈنے آیا تھا اور مزید الجھ گیا تھا۔ میں سمجھ نہیں پا رہا تھا سچ کیا تھا۔ وہ جو دادی اماں بتا رہی تھیں؟ یا وہ جو آئینہ حمزہ بتا رہی تھی؟
میں نے گاڑی کی سمت بڑھنے سے قبل سامنے دیکھا تھا جہاں ایفا حمزہ کسی نوجوان کے ساتھ کھڑی کچھ ڈسکس کر رہی تھی۔ میں اس کی طرف بڑھا تھا۔
ایفا اسی لمحے میری طرف متوجہ ہوئ تھی اور بولی تھی۔
"اچھا ہوا ریان تم یہاں آگئے میں تمہیں ڈاکٹر یلماز شاہ سے ملوانس چاہتی تھی۔ یہ میرے بہت اچھے دوست ہیں حال میں ہی نیویارک سے یہاں اپنی کسی ریسرچ کے سلسلے میں آئے ہیں۔ آج بس اتفاقاً ملاقات ہو گئ ان سے اور مجھے لگا یہ ہماری کوئ مدد ضرور کر سکتے ہیں۔ انہوں نے یو ایس اے میں ایسے کئ کیسز پر کام کیا ہے جو آئینہ کے کیس سے ملتے جلتے تھے۔ ان کا بہت تجربہ تو نہیں مگر یہ نوجوان با صلاحیت
psychiatrist
کے طور پر ابھر کر سامنے آے ہیں ساتھ ہی انھیں spirits سے رابطہ اور انھیں کنٹرول اور ہینڈل کرنے کا بھی کافی تجربہ ہے۔ کہ کتابیں لکھی ہیں اس نے مجھے لگا ہم ڈاکٹر یلماز شاہ کی اہلیت اور مہارت کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔" ایفا حمزہ بولی تھی اور میں اسے دیکھ کر رہ گیا تھا۔ ڈاکٹر یلماز نے میری طرف ہاتھ بڑھایا تھا میں نے بے دلی سے ہاتھ ملایا تھا۔
"ایفا آئ ہیو ٹو گو۔ میں لیٹر بات کرونگا تم سے۔" میں بولا تھا اور پھر مڑ کر چلتے ہوئے باہر نکل آیا تھا۔
میرا ذہن بے طرح الجھ رہا تھا۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں سوچوں میں الجھتا حویلی پہنچا ایفا میری محبت، میں اس پر شک نھیں کر سکتا تھا ، مگر نجانے کیوں میں گمراہ ھو گیا تھا آیْینہ نے جھوٹ کا ایسا نقشہ کھینچا کہ میں واقعی یہ سوچنے پر مجبور ھو گیا کہ کھیں آیینہ زندہ تو نھیں؟؟؟
مگر میرے ایسا کرنے سے ایفا کی پاور کم ھو سکتی تھی اف یہ میں کیا کر رھا تھا؟ دادی نے مجھے فری ہینڈ دیا تھا کہ میں اپنی عقل کا استعمال کر کے، اپنی محبت کو سوچوں مگر یہ کیسی محبت تھی؟؟؟
میرا دماغ کھولنے لگا اب آیْینہ میرے سامنے آی بھی تو میں اسکی کسی بات کا یقین نھیں کروں گا چاھے میری ذات کو کتنا بڑا ھی نقصان کیوں نہ اٹھانا پڑے میں خود کو ریلیکس کرنے لگا اپنے کمرے میں پہنچ کر بیڈ پر گر سا گیا میں نے اپنی آنکھیں بند کیں تو چھم سے ایفا کا چہرہ میری نگاھوں کے سامنے آ گیا میں بے اختیار مسکرا کر اٹھ بیٹھا اچانک میری نگاہ بیڈ سے نیچے پڑی تو میں چونک پڑا زمین پر بیڈ سے ایک لکیر کمرے سے آگے جا رھی تھی میں حیران ھو گیا کہ کیا کوی زخمی ھے؟؟؟
آخر کون میرے کمرے میں آیا تھا میں اٹھ کر اسکا تعاقب کرنے گا میری حیرت کی انتہا نہ رھی جب میں نے دیکھا کہ خون کی یہ لکیر اوپر عالم صاحب کے کمرے میں داخل ھو رھی تھی میں گھبرا اٹھا خدایا خیر کرنا میرے دل کو دھڑکا لگا میرا اندیشہ یقین میں بدل گیا عالم صاحب مصلے پر بے ھوش پڑے تھے ان کے قریب ھی پڑی کیٹی تڑپ رھی تھی جیسے وہ بھت تکلیف میں ھومیں نے پاس رکھا، پانی کا جگ اٹھا کر، ہتھیلی میں پانی ڈال کر عالم صاحب کے چہرے پر چھڑکا جلد ھی وہ ھوش میں آکر اپنے ھواس درست کرنے لگے میں نے کیٹیی کو بغور دیکھا اس کی گردن پر خون کی ایک دھانی نما لکیر تھی اور اس میں سے عجیب سا دھواں نکل رھا تھا
بھت ٹھیک وقت پر پہنچے ھو ریان بیٹا اگر کچھ دیر اور نہ آتے اور میں یونھی کیٹی کے ساتھ بے ھوش پڑا رھتا، تو تم سے کبھی نہ مل پاتا انھوں نے اپنا گلا مسلتے ھوےْ کہا مگر ھوا کیا تھا؟؟؟میں ابھی تک شاک کے عالم میں تھا کیٹی کی خرخراہٹ، اسکی درد بھری آواز میری برداشت سے باہر تھی اسکی کھلتی بند ھوتی آنکھوں میں عجب احساس مجھے کچوکے لگا رھا تھا پہلے دن کی طرح، معصوم آنکھیں، میرا دل تڑپانے کا باعث بن رھی تھیں بے اختیار میری آنکھوں میں آنسو آ گےْ یہ کیٹی کے آخری لمحات ھیں عالم صاحب کی آواز مجھے چونکا گیْ پلیز مجھے تفصیل سے بتایْیں، آخر ھوا کیا تھا؛؛؛ میری بے چینی بھانپ کر وہ ہنستے ھوےْ بولے
"بدی کا انجام ہمہشہ برا ھوتا ھے ریان بیٹا!" میں معمول کی طرح آنکھیں بند کیےْ، اپنے خاص ورد میں مشغول تھاکہ اچانک ایک درد بھری آواز نے مجھے آنکھیں کھولنے پر مجبور کر دیا میری سامنے آیْینہ کھڑی تھی کھلے، ھوا میں لہراتے بال، سرخ خون میں ڈوبی آنکھیں اس کے کاندھے پر کیٹی بیٹھی تھی اس کی آنکھیں بھی سرخ انگارہ ھو رھی تھیں آیْینہ بلکل وحشی لگ رھی تھی یوں لگ رھا تھا کہ جیسے وہ بھت تکلیف میں ھونے کے ساتھ ساتھ، بے انتہا غصے میں ھو اس نے مجھے کہا کہ میں اپنا عمل بند کر دوں، بصورت دیگر وہ مجھے جان سے مار دے گی میں نے اپنا عمل جاری رکھا یکدم مجھے اپنی پیٹھ میں شدید درد کا احساس ھوا، جو بڑھتے بڑھتے میرے پورے بدن میں سرایْیت کر گیا آیْینہ سامنے کھڑی مجھے گھور رھی تھی میں حالات کے مطابق، خاص ورد ساچنے لگا کہ ایک منٹ کے ھزارھویں حصے میں کیٹی نے مجھ پر حملہ کر دیا جیسے ھی وہ حصار سے ٹکرای، چیخ مارتی ھویْ دور جا گری کربناک چیخوں سے میرا دل بند ھوا جا رھا تھا
عمل کی شدت اختیار کرنے سے آیْینہ اور کیٹی کے ساتھ ساتھ اس حویلی میں موجود ساری بد راحیں باوْلی ھوے جا رھی تھیں آیْینہ میرا کچھ نھیں بگاڑ سکتی تھی یہ سوچ کر میں تھوڑا سا ڈھیلا پڑا، اور یہی میری بھول تھی اس نے اس شدت سے میری طرف کچھ پھینکا کہ میں بے ھوش ھو گیا آخری احساس یہ تھا کہ آیْینہ کیٹی کو اکیلا چھوڑ کر یہاں سے بھاگ گیْ تھی اب اس کا نشانہ تم ھو ریان اتنا کہ کر عالم صاحب خاموش ھو گےْ
"آیْینہ! آیْینہ کہاں ھے اب؟ میرے منہ سے سرسراتی ھوی آواز نکلی"
"وہ بھت تکلیف میں ھے اور تم سے بدلہ لیناچاہتی ھے وہ انتقام کی آگ میں جل رھی ھے" عالم صاحب کی بات سن کر میں نے کیٹی کی طرف دیکھا جو اپنی آخری سانسیں گن رھی تھی "تم یہ تعویذ اپنے ھاتھ میں باندھ لو اور یہ بات ذہن میں رکھو کہ اس کیٹی کے مرنے سے آیْینہ کی طاقتیں بھت حد تک کم ھو چکی ھیں" انھوں نے ایک تعویذ میری طرف بڑھاتے ھوے کہا، تو میں نے ٹرانس کی سی کیفیت میں ھاتھ آگے پڑھا لیا "ارے یہ کیا؟؟؟" اچانک میری نگاہ مصلے پر پڑی تو میں جلا اٹھا یہ تو آیْینہ حمزہ کی انگوٹھی ھے، مگر یہ یہاں کیسے آی" میری حیرت کی انتہا نہ رھی" اوہ تو یہ انگوٹھی آیْینہ نے مجھے ماری تھی میں سوچ رھا تھا کی آیْینہ نے ایسی کون سی چیز مجھے مارنے کے لےْ استعمال کی تھی کہ جس کی وجہ سے میں بے ھوش ھو گیا تھاخدا کا شکر ھے کہ اسکے کلام کی وجہ سے میں کسی بھت بڑے نقصان سے بچ گیا انھوں نے گہری سانس لیتے ھوے کہا اور انگوٹھی اٹھا لی-انکی آنکھیں خوشی سے چمک رھی تھیں بس ریان میاں اب ھماری کامیابی زیادہ دور نھیں ھے- فرط مسرت سے انکی آواز لرز رھی تھی-انگلیوں میں پکڑی انگوٹھی انھوں نے اپنی ہتھیلی میں بند کرلی میں بھی مسکرا دیا-کیٹی کا بے جان وجود اپنے انجام کو پہنچ چکا تھا-یہ میری بھت بڑی کامیابی تھی-مین دل ھی دل میں خدا کا شکر ادا کرتے ھوےْ عالم صاحب سے اجازت لے کر اٹھا-اب میرے تیزی سے بڑھتے ھوے قدم سیڑھیاں اتر رھے تھے، تاکہ میں ایفا کو خوشخبری سنا سکوں اچانک میں کسی نادیدہ جیز سے ٹکرا کر، سیڑھیوں سے گرتا چلا گیااور یہ کیٹی کا بے جان وجود تھا جو نجانے کہاں سے میرے راستے میں آ گیا تھا- میں دنیا و مافیہا سے بے خبر ھوتا چلا گیا
جب مجھے ہوش ایا تو میں ابھی تک وہیں پڑا ہوا تھا مجھے اپنا اپ سن ہوتا ہوا محسوس ہوا شاید مجھے بہت گہری چوٹ لگی تھی میں نے ہمت کر کہ اٹھنا چاہا مگر جسم کویی بھی حرکت کرنے سے قاصر تھا یوں لگ رہا تھا جیسے کسی نے مجھے فریز کر دیا ہو میرے ہاتھ پیر اکڑ گیے تھے میں پوری قوت لگا رہا تھا مگر ہلنا تک محال ہو گیا تھا بے بسی سے میری انکھوں میں انسو اگیے یہ کیا ہو رہا تھا میرے ساتھ
۔یا الله میری مدد فرما، میرے دل کی گہرائیوں سے دعا نکلی میں اسطرح مرنا نہی چاہتا تھا
ریان بابو اپ ٹھیک ہیں، شاید میری دعا قبول ہو گیی تھی کیونکہ مجھے اپنے قریب کرم دین کی اواز سنایی دی تھی
۔کرم دین۔۔۔۔میرے منہ سے بمشکل اواز نکلی،کرم دین فورا کچن سے پانی لے ایا اس نےمجھے سہارا دے کر بٹھایا اور پانی کا گلاس میرے منہ سے لگایا۔۔۔مجھے محسوس ہو رہا تھا جیسے کسی نے بہت زیادہ زور سے مجھے پکڑ رکھا ہو۔۔۔یہ کیٹی۔۔۔۔کرم دین کی نظر مجھ سے کچھ فاصلے پر مری ہویی کیٹی پر پڑی تو حیران پریشان سا اسے دیکھنے لگا
۔اس کو کیا ہوا۔۔۔اس نے ہکلاتے ہویے پوچھا شاید میری طرح وہ بھی کیٹی کی اچانک موت کو قبول نہی کر پا رہا تھا میری طرح اس کے لیے بھی یہ خبر کسی سرپرایز سے کم نہی تھی
یہ مر چکی ہے،میں نے ایک نظر بے جان کیٹی کی طرف دیکھتے ہویے بتایا وہ ابھی تک حیران تھا
دادا جی کو پتا چلے گا تو۔۔۔اس کی بات نے مجھے بھی پریشان کر دیا یہ تو میں نے سوچا ہی نہی تھا، میں اچھی طرح جانتا تھا دادا جی کیٹی سے کتنا پیار کرتے ہیں اگر ان کو پتا چلے گا تو کیا ہو گا۔۔۔میری پریشانی میں اضافہ ہو گیا تھا
۔ہمیں اسے یہاں سے اٹھا کہ باہر پھینک دینا چاہیے کیونکہ دادا جی کبھی بھی اسکتے ہیں،کرم دین کی بات میرے بھی دل کو لگی میں اب پہلے کی نسبت کافی اچھا محسوس کر رہا تھا شکر تھا کہ مجے کویی بیرونی چوٹ نہی لگی تھی مگر اندرونی طور پر میں ناجانے کہاں کہاں سے زخمی ہوا تھا کیونکہ کیی جگہوں پر میں شدید درد محسوس کر رہا تھا کرم دین مجے سہارا دے کہ لاونج میں پڑے صوفے تک لایا
۔مجے ادھر بٹھانے کے بعد وہ کیٹی کو اٹھا کہ باہر لے گیا اس کو ہاتھ لگاتے وقت اس کو ڈر محسوس ہو رہا تھا اس نے ایک نظر مجے دیکھا اور پھر ہمت کر کہ اسے اٹھا لیا۔۔۔کچھ دیر بعد وہ واپس ا کہ میرے قریب ہی قالین پر بیٹھ گیا اس کے انگ انگ میں بے چینی تھی اور میں اس کی حالت سمجھ رہا تھا کیونکہ ایسی ہی بے چینی اور ڈر خود میرے اپنے اندر بھی تھا
۔کیا ہو رہا ہے،ہمیں اپنے پیچھے دادا جی کی اواز سنایی دی
۔کیا ہو برخودار تم ٹھیک تو ہو نا ،دادا جی نے میرے قریب ہی بیٹھتے ہویے پوچھا میرا ڈرا ہوا چہرہ ان سے مخفی نہی رہا تھا
۔ریان بابو گر گیے تھے سیڑھیوں سے،کرم دین مج سے پہلے ہی بول پڑا
۔ارے کیسے ذیادہ چوٹ تو نہی لگی ۔۔کرم دین کی بات سن کر وہ ایک دم پریشان ہو گیے ۔۔۔۔کتنی بار تمہیں سمجایا میں نے کہ کام سے کام رکھا کرو مگر تم ہو کہ سنتے ہی نہی۔۔۔۔اب بلا تمہیں اوپر کیا کام تھا جو سیڑھیاں چڑھے تھے۔۔۔۔یقینا کچھ کھوجنے ہی گیے ہو گے ہر وقت جاسوس بنے رہتے ہو ،دادا جی نے مجے اچھا خاصہ ڈانٹ دیا
میں چپ چاپ سنتا رہا کیونکہ ان کی بات کا جواب نہی دے سکتا تھا
میں ابھی ڈاکٹر کو فون کرتا ہوں ۔۔۔۔وہ اٹھتے ہویے بولے تو میں نے فورا روک لیا
۔ارے نہی دادا جی میں ٹھیک ہوں کویی خاص چوٹ نہی لگی
۔کرم دین دودھ گرم کر کہ لاو جاو ریان کے لیے اور حلدی بھی ڈال لینا،انہوں نے کرم دین کو مخاطب کیا تو وہ مودب سا جی کہہ کر اٹھ کہ چلا گیا وہ دوبارہ سے میری طرف متوجہ ہو گیے
۔اور تم اییندہ اگر میں نے تمہیں اس طرح دیکھ لیا نا بلا وجہ گھومتے تو یاد رکھنا۔۔۔تم نے پریشان کر کہ رکھا ہوا مجے ایے روز تمہارے ساتھ کچھ نا کچھ ہو جاتا،ان کی باتیں میں سر جھکا کر سنتا رہا
۔کرم دین دودھ لے ایا میں نے تھام لیا اور ہلکے ہلکے سپ لینے لگا .
۔کرم دین جاو کیٹی کو لے او اج صبح سے نیی دیکھا اسے ناجانے کہاں ہے ،دادا جی کی بات پر میرا منہ کی طرف جاتا دودھ والا ہاتھ رک گیا کرم دین میری طرف دیکھنے لگا اس کے چہرے پر خوف اور پریشانی واضح دکھائی دے رہی تھی میں نے نظریں چرایی
کرم دین کے باہر جانے کے بعد میں آنے والے وقت کے بارے میں سوچنے لگا دادا جی کا مردہ کیٹی دیکھ کر کیا ری ایکشن ھو گا ابھی میں سوچوں میں غلطاں تھا کہ کرم دین اپنے ھاتھوں میں کیٹی کو اٹھاےْ اندر داخل ھوا میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گیْیں میری نگاہ میں زمین وآسمان گھوم گےْ اف خدایا یہ کیا ھے؟؛؛؛؛ھم اتنی آسانی سے ہار ماننے والے نھی ھیں نجانے کہاں سے مجھے آہْنہ کی آواز آیْ تھی میں نے بے اختیار داد جی کی طرف دیکھا اور میری حیرت کی انتہا نہ رھی داد جی جگہ وہھی خوفناک شکل کا انسان بیٹھا مجھے گھور رھا تھا میں اپنی جگہ سے فور کھڑا ھو گیا عالم صاحب نے مجھے غلط بتایا تھ کیا؟؟؟؟
میں بھاگتا ھوا اوپر گیا عالم صاحب اپنے کمرے میں قرآن پاک کی تلاوت کر رھے تھے میں انکے فارغ ھونے کا انتظار کرنے لگا میں نے ساری بات انکے گوش گزاری تو وہ مجھے حیرت سے دیکھنے لگے ریان! تم اتنے بیوقوف لگتے تو نھی؟؟؟؟ کیا مطلب؟؟؟ میں چونک گیا غور سے سنو! یہ بدروحیں اتنی آسانی سے نھی مرتیں تم نے یقینا میرے ڈمی سے بات کی ھو گی علم صاحب کی بات سن کر میں سکتے میں رہ گیا- تو کیا وہ سب ایک سراب تھا؟؟؟ میں حیرت سے اپنی جگہ منجمد ھو گیا ھاں ریان۔۔۔ وہ سب ایک سراب کے علاوہ کچھ نھی تھا میں ھق فق رہ گیا کیا ایسا بھی ھو سکتا تھا؟؟؟میں شکستہ قدموں سے نیچے آ گیا_"
آج ایفا ڈاکٹر یلماز کو حویلی لائی تھی دادا جی اس وقت کسی کام سے باہر گئے ہوئے تھے میں ان لوگوں کو لے کہ حویلی کے پچھلے حصے کی طرف آگیا ڈاکٹر یلماز کے ہاتھ میں ایک کیمرہ تھا اور کاندھے پر لیدر کا بلیک کلر کا بیگ لٹک رہا تھا
وہ کیمرے سے اردگرد کا جائزہ لے رہے تھے دوپہر کا وقت تھا سنہری دھوپ درختوں میں سے چھن چھن کر ارہی تھی میں اور ایفا ایک درخت تلے کھڑے ان کی طرف دیکھ رہے تھے ہر طرف ایک عجیب سی یاسیت اور خاموشی چھائی ہوئی تھی ڈاکٹر یلماز مسلسل ایک درخت کے اردگرد کا جائزہ لے رہے
وہ بار بار اس کیمرے سے زمین کا جائزہ لے رہے تھے میں آہستہ آہستہ چلتا ہوا ان کہ پاس جا کھڑا ہوا انہوں نے ایک نظر مجھے دیکھا
"اس جگہ میں کچھ خاص ہے مگر کیا یہ سمجھ نہیں ارہی"، وہ ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بولے
"اس کیمرے سے اپ کو کیا نظر ارہا ہے"، میں نے پوچھا
"یہ خاص قسم کا کیمرہ ہے، اس کی مدد سے مخفی چیزوں کو دیکھا جا سکتا، ایسی چیزیں جو ہمیں عام طور پر نظر نہی اتی تم یہ کہہ سکتے ہو کہ یہ خاص تکنیک کا کیمرہ ہے جدید ٹیکنالوجی کے مطابق اور اس کی مدد سے جادوئی چیزیں ہی دیکھی جا سکتی ہیں،"
"آپ کو کیا لگتا یہاں کچھ غیر معمولی ہے، میں نے پوچھا تو وہ میری طرف دیکھنے لگے
"کچھ نہیں بہت کچھ غیر معمولی ہے، تم فکر مت کرو ہم ان کا حل سوچ لیں گے" انہوں نے مجھے تسلی دی
"اوپر چلیں اگر یہاں سے کام ہو گیا ہو تو" ایفا کی بات پر انہوں نے اکتفا کیا ہم اسی حصے میں بنی سیڑھیوں سے اوپر کی طرف آگئے میرا ارادہ ان کو عالم صاحب سے بھی ملوانے کا تھا
وہ اچانک ایک کمرے کے پاس رک گئے اس کا تالا کھل سکتا انہوں نے میری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا
نہیں میں جب آیا تھا یہ یونہی بند تھا اور میں نے کبھی اسے کھولنے کی کوشش نہیں کی، میں نے مختصر بتایا تو وہ کچھ سوچ میں پڑھ گئے
"اچھا چلو رہنے دو، کیونکہ میرا نہیں خیال کے حویلی کے مالک تمہیں اس کی چابی دیں گے تم ویسے ہی ان کے علم میں لائے بغیر سب کچھ کر رہے ہو وقت آنے پر ہم اس کو اپنے طریقے سے کھول لیں گے
"آئیے میں آپ کو عالم صاحب سے ملواتا ہوں،" میں نے اس سے اگلے کمرے کی طرف اشارہ کیا میں نے آہستہ سے دروازہ کھولا عالم صاحب کسی سے باتیں کرنے میں مگن تھے ہمیں دیکھ کر ایک دم چپ ہو گئے میں کچھ حیران ہوا کیونکہ وہاں کوئی نظر نہیں آرہا تھا شاید اپنے کسی موکل سے بات کر رہے ہوں میں نے آہستگی سے ان کو سلام کیا ڈاکٹر یلماز نے بھی میری تائید کی میں نے کمرے کے کونے میں رکھی ایک پرانی کرسی صاف کر کے ان کو پیش کی
ڈاکٹر یلماز کافی دیر عالم صاحب سے سارا معاملہ ڈسکس کرتے رہے ہم دونوں چپ چاپ کھڑے ان کی طرف دیکھتے رہے
پھر یہ فیصلہ ہوا کہ سب سے پہلے حویلی کی بدروحوں کو ختم کیا جا سکے
"مگر یہ ہو گا کیسے؟ کیونکہ بد روحوں کو ختم کرنےکے لیے ہمیں پہلے ان کی طاقت کو ختم کرنا ہو گا"، ڈاکٹر یلماز نے عالم صاحب سے پوچھا
"اس کا بھی پتا لگ چکا حویلی کے پچھلے حصےمیں قبروں کے پاس ایک درخت ہے جس کے نیچے کچھ چیزیں دبی ہوئی ہیں ہمیں ان چیزوں کو نکال کر جلانا ہو گا جس سے بد روحوں کی طاقت خود بخود کم ہو جائے گی اور ہمارا کام آسان ہو جائے گا اور ان چیزوں کو جلانے کا کام ایفا کرے گی" انہوں نے ایفا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اور یہ کام اس کمرے میں ہو گا جہاں تالا نہیں لگا ہوا
عالم صاحب کے علاوہ ہم تینوں حویلی کے پچھواڑے میں آ گئے عالم صاحب ورد خاص میں مشغول تھے ڈاکٹر یلماز اپنی اندرونی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر، بہت دھیان سے درخت کے گرد مخصوص حصے، کیمرے کی مدد سے تلاشنے لگے جدید ٹیکنالوجی کا یہ کیمرہ، زمین میں چھبی اشیا کی تصویر بنا کر، اپنی ریز سے انکی جگہ کی نشاندہی بآسانی کر تا تھا جلد ھی ہمیں ایک صندوق دکھائی دیا عالم نور اللہ کی پڑھای کے سبب یہ صندوق زمین کی گہرائی کو چھوڑ کر، اوپر کو آ گیا تھامیرا دل بلیوں اچھلنے لگا اور تھوڑی دیر بعد جب صندوق ڈاکٹر صاحب کے ھاتھ میں آیا، تو میں نے خدا کا بے اختیار شکر ادا کیا ھم یہ صندوق لے کر اسی کمرے میں آ گئے، جس کا تالہ کھلا ھوا تھا ایفا کے ھاتھوں میں عالم صاحب کا دم کیا پانی ایک بوتل میں موجود تھا ڈاکٹر نے وہ صندوق ایفا کو تھمایا وہ یہ صندوق لے کر زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی
صندوق اپنے سامنے رکھ کر، اس نے بسم اللہ پڑھی اور صندوق کھول دیا اس کے صندوق کھولنے کی دیر تھی کہ کسی نادیدہ قوت نے اسے اس زور سے دھکا دیا کہ وہ اڑتی ھوئی پیچھے جا گری
"ایفا_! ایفا تم ٹھیک تو ھو نہ؟؟؟ میں بے اختیار اسکی طرف بڑھنے لگا کہ ڈاکٹر یلماز نے میرا بازو پکڑ کر مجھے اسکی طرف بڑھنے سے روک دیا کچھ نھیں ھوا ایفا کو، آرام سے کھڑے رھو انکے لہجے کی درشتگی مجھے چونکا گئی
"ڈاکٹر_! اس کا چہرہ دیکھیں، وہ تڑپ رھی ھے" میرا دل بند ھونے لگا ڈاکٹر نے مجھے اتنی سخت نگاہوں سے دیکھا کہ میں اپنے لب بھینچ کر اپنی جگہ پہ کھڑا رھا درد برداشت کرتے ھوئے اسکی آنکھوں میں آنسو آگئے میرے دل پر چھریاں چلنے لگیں ایفا بمشکل کھڑی ھوئی وہ گرنے ھی لگی تھی کہ اس نے دیوار کا سہارا لے کر خود کو گرنے سے بچایا اس کے قدم لڑکھڑا رھے تھے سانسیں اکھڑ رھی تھیں وہ چلتی ھوئی دوبارہ اپنی جگہ پر آئی زمین پر رکھی دم شدہ پانی کی بوتل اپنے ھاتھوں میں اٹھائی اس کی آنکھیں بند ھو رھی تھیں
"ایفا سنبھالو خود کو" میں چپ نہ رہ سکا میری محسن، میری محبت، میری زندگی میرے سامنے اذیت میں تڑپ رھی تھی، اور میں کچھ نہ کر سکتا تھا اس نے لرزتے ھاتھوں سے بوتل کا ڈھکن اتارا ایک لمحے کے ہزارھویں حصے میں اسنے صندوق میں موجود، اشیا، جن میں انگوٹھی، کتاب موجود تھے، پانی چھڑک دیا پورے کمرے میں اندھیرا چھا گیا خوفناک چیخیں، یوں لگ رھا تھا کہ جیسے بہت سی روحیں بین کر رھی ھوں، کان کے پردے پھاڑنے لگیں اچانک اندھیرے میں کیٹی کے رونے کی آواز ابھری اسکی درد بھری آھیں، ماحول کو خوفناک بنا رھی تھیں دفعتاً، ایک دھماکہ ھوا، اور کمرے میں دروازے سے آتی روشنی بحال ھو گئی، اس کے ساتھ ھی ایک منظر نے میرے قدموں سے زمیں کھینچ لی میں نے دیکھا کی داد جی زمین پر پڑے تڑپ رھے ھیں میں بوکھلا گیا اچانک انھوں نے بڑھیا کی شکل اپنائی اور دیکھتے ھی دیکھتے، اس بڑھیا کے منہ سے دھواں نکلنے لگا اور اس نے کیٹی کی شکل اختیار کرل یہ تمام مناظر اتنے روح فرسا تھے کہ میں بے ھوش ھوتے ھوتے بچا کمرے میں چھائی خاموشی، آئینہ کی آواز نے توڑی
"ایفا_!" اسکی چنگھاڑتی آواز کمرے میں موجود ہر فرد کو چونکا گئی سب نے اسکی طرف دیکھا اجڑی حالت کی مالکہ، یہ وہ آئینہ تو نہ تھی، جو ہر وقت میرے راستے میں آتی تھئ "دفعہ ھو جاؤ یہاں سے، اس سے پہلے کہ میں" وہ اتنا کہ کر ایفا کو گھورنے لگی
"تم کیا کرو گی میرا ایفا؟"
"میں تمھیں بہت دفعہ سمجھا چکی ھوں، اور ایک بار پھر سمجھا رھی ھوں کہ یہ دنیا تمہارے لائق نہیں تمہیں اپنی دنیا میں چلے جانا چاہیئے" ایفا نے مدھم لہجے میں اسے سمجھاتے ھوئے کہا
"ہر گز نھیں میں ریان کے بغیر کہیں نھیں جاؤں گی" اس نے میری طرف زخمی نگاھوں سے دیکھتے ھوئے کہا میرے بولنے سے پہلے ھی ڈاکٹر یلماز حیدر چلتے ھوئے اس کی طرف گئے اور سامنے کھڑے ھونے کے بعد مخاطب ھوئے
"ادھر دیکھو میری طرف" انھوں نے آیْینہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ھوئے کہا،
اچانک چیختی چنگھاڑتی آیْینہ کو سانپ سونگھ گیا
"کیٹی کہاں ھے؟؟؟؟" انھوں نے کھردرے لہجے میں آئینہ سے سوال کیا جوابا وہ خالی نگاھوں سے انھیں دیکھتی رھی اس کی آنکھیں سرخ ھونا شروع ھو گئیں تھیں، یہاں تک کہ وہ جلتے کوئلے کی مانند ھو گئیں اسکا بدن لرزنا شروع ھو گیا تھا
"میں نے پوچھا کیٹی کہاں ھے؟ اسے یہاں بلاؤ، فورا سے پہلے" ڈاکٹر یلماز بد ستور اسکی آنکھوں میں دیکھ رھے تھے
"وہ وہیں ھے تمہارے پیچھے" آئینہ کے منہ سے مری مری آواز نکلی ایفا تم اپنا کام کرو انھوں نے مشینی لہجے میں ایفا کو مخاطب کرتے ھوئے کہا ایفا اب کافی حد تک سنبھل چکی تھی
ڈاکٹر یلماز نے پیچھے مڑ کہ دیکھا تو کیٹی زمین پہ تڑپ رہی تھی اس کے منہ سے عجیب سی آوازیں نکل رہیں تھیں انہوں نے ایفا کو وہ تعویز جلانے کےلیے کہا جو عالم صاحب نے دیا تھا کمرے میں آگ کا الاو بھی روشن تھا ایفا نے وہ تعویز آگ کے اوپر کیا وہ جوں ہی جلنا شروع ہوا کیٹی اور تڑپنے لگی اس کے منہ سے کبھی آدمی کی اواز آتی اور کبھی عورت کی تعویز کے جلنے سے آئینہ بھی بہت بے چین تھی وہ آگے بڑھ کہ ایفا کو روکنا چاہتی تھی مگر ڈاکٹر صاحب نے آئینہ کے گرد ایک دائرہ کھینچ رکھا تھا اور وہ چاہ کر بھی اس سے نکل نہیں پارہی تھی اچانک کیٹی نے پھر اس چڑیل کی شکل اختیار کر لی وہ ایک دم اٹھ کہ کھڑی ہو گئی اس کے منہ سے عجیب قسم کا دھواں نکل رہا تھا لال انگاروں جیسی دہکتی آنکھیں چہرے پر چھایا غصہ اور وہشت لیے وہ ہماری طرف بڑھی ایفا کے ہاتھ سے ڈر کے مارے تعویز نیچے گر گیا میرا دل بھی کانپ رہا تھا وہ چڑیل اب اگے بڑھنے لگی تعویز کے گرنے سے اس میں پھر طاقت آگئی
"ایفا تعویز اٹھاو" ڈاکٹر یلماز چیخے
ایفا تھر تھر کانپ رہی تھی وہ چڑیل لمحہ بلمحہ اس کے قریب ہوتی جا رہی تھی میرا دل دھڑکنا بھول گیا
"ایفا ہوش میں آؤ" وہ پھر چیخے
وہ چڑیل اس کے قریب پہنچ گئی تھی اس کے ناخن کئی انچ لمبے ہو گئے اس نے اپنا ہاتھ ایفا کی طرف بڑھایا مگر اس سے ہہلے کہ وہ ایفا کو نقصان پہنچاتی میں نے بجلی کی سی تیزی سے وہ تعویز آگ کے اوپر رکھ دیا وہ چڑیل تڑپ کر پیچھے ہوئی
"ایفا" میں نے اسے ہلایا تو وہ یک دم چونکی تعویز اب جل رہا تھا اور اس کے جلنے سے وہ چڑیل زمین پہ پڑی چیخ رہی تھی اس کے تڑپتے وجود سے اب دھواں اٹھنے لگا آئینہ ایک کونے میں کھڑی یہ منظر دیکھ رہی تھی وہ بلکل چپ تھی تعویز جل کر راکھ ہو چکا تھا اور چڑیل کی جگہ اب راکھ تھی اچانک وہ راکھ غائب ہو گئی اور حیرت کی بات تو یہ تھی کہ کیٹی پھر وہاں پڑی تھی
"ایفا دوسرا تعویز آگ پر ڈالو ڈاکٹر یلماز نے ایفا کو مخاطب کیا تو اس نے دوسراتعویز اٹھا کر آگ پر ڈال دیا کیٹی پھر تڑپنے لگی اس کے منہ سے نہایت خوفناک آوازیں نکل رہی تھیں پھر ایک دم سے کمرے میں اندھیرا ہو گیا ہر طرف چیخوں کی آوازیں سنائی دینے لگیں پوری حویلی میں جیسے زلزلہ آگیا کمرے میں جلتی آگ بھی بجھ گئی
کمرے میں عجیب قسم کا دھواں پھیل گیا جو شاید آگ سے اٹھ رہا تھا یوں لگ رہا تھا جیسے کسی نے خون ڈال کے آگ کو بجھا دیا اس دھویں سے عجیب سے بدبو اٹھ رہی تھی
"ریان"" مجھے اپنے بہت قریب ایفا کی اواز سنائی دی
"میرے پاس آؤ" اس نے مجھے پکارا تو میں طرف بڑھا ایفا نے میرا ہاتھ تھام لیا اس کا ہاتھ بہت گرم تھا
آؤ ہم یہاں سے بہت دور چلتے ہیں جہاں کوئی نہیں ہو گا صرف میں اور تم ہو گے
"آئینہ" میں تڑپ کے پیچھے ہٹا مگر آئینہ نے میرا ہاتھ تھام لیا میں نے چھڑانے کی بہت کوشش کی مگر اس کی پکڑ بہت مضبوط تھی اس کے ناخن میرے بازو میں کھب کے رہ گئے تکلیف کی شدت سے میں چلا اٹھا مجھے اپنی گردن پہ چبھن سی محسوس ہوئی یوں لگا جیسے کیسی نے اپنے نوکیلے دانت میری گردن پہ گاڑ دیے ہوں اور میرا خون چوس رہا ہو میں نے چھڑانے کی بہت سعی کی مگر میں بلکل بے بس ہو کر رہ گیا سب لوگ کہاں تھے میں نے بے بسی سے ادھر ادھر ہاتھ پاوں مارنے شروع کر دیے مجھے اب کمزوری محسوس ہونے لگی تھی سر بھی چکرانے لگا تھا
"ریان ہوش میں آؤ" یہ آواز عالم صاحب کی تھی میں نے فوراً آنکھیں کھولیں سب کچھ بلکل ویسا تھا کیٹی کی جگہ اب وہی ادھ جلے چہرے والی لڑکی تھی جو مجھے اکثر پریشان کرتی تھی تو کیا یہ سب ایک خواب تھا شاید حالات کا اثر تھا کہ اب میں جاگتی انکھوں سے خواب دیکھنے لگا تھا
عالم صاحب بھی اب آگ کے پاس بیٹھے کچھ پڑھنے میں مصروف تھے اور وہ پڑھ پڑھ کہ پانی دم کر رہے تھے آئینہ نیم بے جان سی کونے میں پڑی تھی
کمرے کہ باہر کسی کے قدموں کی آواز سنائی دی اور ناجانے کیوں مجھے کسی انہونی کا احساس ہوا یہ آواز تو دادا جی کے قدموں کی تھی
"دادا جی" میرے منہ سے بے ساختہ نکلا
سب نے چونک کر میری طرف دیکھا کمرے کا دروازہ کسی نے کھولا تھا اور وہ واقعی دادا جی تھے ان کہ انکھوں میں حیرانگی کے ساتھ ساتھ غصہ بھی تھا
دادا جی میں ان کی طرف بڑھا
"ہٹو پیچھے وہ چلائے تم جاسوسی کرتے تھے حویلی کی یہ تو مجھےمعلوم تھا مگر تم اس حد تک جا سکتے ہو یہ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا تم ان سب کو لا کر کیا ثابت کروا رہے ہو بولو کونسا سچ سامنے آیا تمہارے بولو جواب دو" وہ اب چیخ رہے تھے ہر کوئی ساکت کھڑا تھا اچانک ان کی نظر کچھ فاصلے پر تڑپتی ہوئی کیٹی پر پڑی جو اب پھر اس لڑکی سے کیٹی کی شکل اختیار کر چکی تھی
وہ تڑپ کے اس کی طرف بڑھے
"دادا جی" میں نے ان کو روکنا چاہا

جاری ہے 

Khamoshi All Previous Episodes


Post a Comment (0)
Previous Post Next Post