Khamoshi episode 9 - ushna kausar sardar

 

Khamoshi novel by ushna sardar

 

قسط نمبر 9
از قلم
عشنا کوثر سردار
صبا جرال
ماورہ طلحہ
اقراء اسلم
خدیجہ عطا
مہوش ملک
سیّدہ فرحین نجم
کوثر ناز
عائشہ تنویر
رابعہ امجد
اقصیٰ سحر
ماہ نور نعیم
فاطمہ نور
دادا جی، یہ حویلی سب ایک معمہ تھی کبھی تو مجھے لگتا کہ یہ سب نفسیاتی مریض ہیں اور ان کے ساتھ رہ کر میرا بھی دماغ خراب ہو رہا یے لیکن میں بوکھلانا نہیں چاہتا تھا سو دادا جی پر کچھ ظاہر نہ ہونے دیا آرام سے ان کے ساتھ چائے اور گپ شپ کے لئے بیٹھ گیا.
"میں سوچ رہا تھا دادا جی کہ آج جوجو کو باہر سیر کرا لاؤں وہ بہت خوش ہوتا ہے آؤٹنگ سے "
میںرا دماغ حاظر نہ تھا سو کچھ دیر بعد ہی وہاں سے اٹھنے کا بہانہ کیا. دادا جی کی شخصیت میری سمجھ سے بالاتر تھی. کبھی بہت شفیق بزرگ اور کبھی عجیب پراسرار آدمی.
" ہاں, ہاں کیوں نہیں بیٹا, تم خود بھی اس علاقے میں اتنا نہیں گھومے راستوں کا مسئلہ ہو تو ہمارا ڈرائیور لے جاؤ, یہی تو دن ہوتے ہیں گھومنے پھرنے کے. "
وہ بہت خوشدلی سے کہہ رہے تھے.
اس وقت ان کی وہ پراسرار مسکراہٹ, چبھتا لہجہ کچھ بھی نہیں محسوس ہو رہا تھا.
" نہیں دادا جی, میں چلا جاؤں گا, ڈرائیور کے ساتھ مزہ نہیں آتا '"
میں نے بھی تمام منفی خیال جھٹک کر بشاشت سے جواب دیا تھا.
جوجو کو لے کر کی رنگ انگلی میں گھماتا میں نکل ہی رہا تھا کہ پیچھے سے دادا جی نے پکارا
" ریان میاں, یہ ہماری بلی کو بھی لے جاتےساتھ, یہ بھی ادھر بند رہ کر بور ہو گئی ہے۔ ویسے بھی اب تم ہی تو ہو سب کچھ, ہمارے لئے بھی اور اس کے لئے بھی "
"نہیں دادا جی پھر کبھی, ابھی جوجو کی اس سے دوستی نہیں ہوئی تو یہ پسند نہیں کریگا "
میں انکی آواز پر مڑا تھا بظاہر کچھ عجب نہ تھا کرسی پر بیٹھے دادا جی اور انکی گود میں بیٹھی سیاہ بلی, لیکن دادا جی کااستہزائیہ لہجہ ،اور بلی کی نظریں....
میں پھر کسی انجانی کیفیت میں گرفتار ہوا تھا لیکن میں نے خود پر قابو پا کر دادا جی سے معذرت کی اور باہر نکلا.
میں دریا کی طرف آیا تھا وہاں آتے ہی ایک خوشگوار سرپرائز میرا منتظر تھا.
آئینہ بھی وہاں اپنے دوستوں کے ساتھ موجود تھی اور وہ سب خوب ہلہ گلہ, موج مستی کے موڈ میں تھے. آئینہ مجھے دیکھتے ہی بہت اچھے موڈ میں میری طرف آئی. اس نے کل کے واقعے کا کوئی حوالہ نہیں دیا تھا بلکہ بہت خوشگوار انداز میں مجھے اور جوجو کو بیک وقت مخاطب کیا
" wow what a pleasant surprise,
Hello jojo "
میرا موڈ بھی ایکدم فریش ہو گیا تھا. جوجو بھی اسے دیکھ کر بہت خوش ہوا. میں نے بھی پچھلی باتوں کا ذکر ابھی کرنا مناسب نہ سمجھا. وہ ہمیں اپنے دوستوں کی طرف لے گئی. تھوڑی دیر ان کے ساتھ گزار کر جب وہ سب کشتی رانی کرنےلگے تو میں معذرت کرتا ایک طرف بیٹھ گیا .
" ہمیں بھی لفٹ کرا دو ہینڈسم" چند لمحوں بعدجب میں دریا کے نظارے میں اور اپنی سیلفی لینے میں مگن تھا اچانک آئینہ کی آواز پر چونکا .
" تم گئی نہیں اپنے فرینڈز کے ساتھ "
" تمہیں چھوڑ کر تو میں کہیں نہ جاؤں. "
اسکا دلربا انداز عاشقانہ نظریں , میں نے عجیب سا محسوس کیا تھا.
آئینہ عموماً بہت دوستانہ مزاج کی حامل, سادہ اور معصوم سی لڑکی لگتی تھی.
جوجو بھی ایکدم بے آرام ہوا تھا. آئینہ سی اسکی اچھی دوستی تھی لیکن شاید اس وقت وہ تنہائی چاہتا تھا.
" زہے نصیب, آؤ بیٹھو, دیکھو میں نے کتنے اچھے سین capture کئے ہیں. "
میں سب کچھ نظر انداز کرتا اسکو اپنی فوٹو گرافی دکھانے لگا. وہ دلچسپی سے دیکھ رہی تھی جب اچانک مجھے خیال آیا
" چلو تمہاری بھی ایک اعلیٰ تصویر لوں . اپنی پروفائل پر لگانا "
میں نے کہنے کے ساتھ ہی اسکی تصویر لی تھی. تیز ہوا میں اڑتے بالوں کے ساتھ وہ بہت دلکش لگ رہی تھی. میں نے جوجو کے ساتھ بھی اسکی تصویر لینا چاہی تھی لیکن جانے کیوں جوجو ایک دم بدکا تھا اور بے تحاشا بھونکنے لگا .میں اسے پچکارنے لگا جب مڑا تو آئینہ کہیں نہیں تھی.
لیکن یہ کیا ! حیرت سے میرا دماغ چکرا گیا. آئینہ سامنے سے اپنے دوستوں کے ساتھ کشتی سے اترتی میری طرف ہی آرہی تھی. جوجو بھی اسکی طرف لپکا تھا.
میں نے جلدی سے بیک کر کے دیکھا. گیلری میں آئینہ کی کوئی تصویر نہ تھی. جب کہ مجھے اچھی طرح یاد تھا کہ میں نے اسکی کئ تصویریں ابھی ابھی لیں ہیں.
میرا دماغ بھک سے اڑا تھا۔ آئینہ تو سامنے سے آرہی تھی تو پھر جو ابھی ابھی یہاں تھی وہ کون تھی ..؟؟
ایسے کئ سوالوں نے مجھے حد درجہ پریشان کردیا تھا۔
ہائے ! تم کیوں ایسے بت بنے بیٹھے ہو ؟؟ کیا ہوا ؟؟ آئینہ نے میرے سامنے ہاتھ ہلایا تو میں یکدم چونک اٹھا اور اس کے چہرے کو تکنے لگا تھا
"کیا دیکھ رہے ہو ریان ... ؟؟
" Are you alright .. ??
اس نے فکرمندی سے کہتے ہوئے میرے شانوں پر ہاتھ رکھا تھا۔
"آ ہاں.. میں ٹھیک ہوں . "
میں نے سر جھٹکتے ہوئے اسکی آنکھوں اور چہرے کو بغور دیکھا تھا ہو بہو وہی چہرہ لیکن جو نرماہٹ مجھے اب آئینہ کے چہرے پر نظر آرہی ہے وہ تھوڑی دیر پہلے والی آئینہ میں مفقود تھی بلکہ کچھ پر اسرار تاثرات تھے اسکے چہرے پر اور آنکھوں میں خوفناک سی چمک ۔
وہ جو آئینہ کے بارے میں مجھے شک ہوا تھا کہ وہ پرسنالٹی ڈس آرڈر کا شکار ہے وہ بات بھی اب واہمہ لگی کیونکہ آئینہ کی طرح دادا جی کی شخصیت میں بھی کچھ اسرار پوشیدہ تھا ۔ بہرحال میں اس لمحے آئینہ کو خدا حافظ کہتے ہوئے گاڑی میں بیٹھ گیا ۔
میں انہی سوچوں میں غلطاں ڈرائیو کر رہا تھا کہ اچانک میرے ذہن میں جھماکا ہوا ۔
اماں نے بتایا تھا کہ دادا جی کا ایک بیٹا یو کے میں اپنی فیملی کے ساتھ رہائش پذیر ہے تو کیوں نا اس سے رابطہ کر کے اس حویلی کی پراسراریت کے بارے میں معلومات لوں اور وہ جو فراز ( کولیگ ) نے بتایا تھا کہ چھ سال پہلے حویلی میں کسی بزرگ آدمی کی موت کے ہوئ تھی اس کے بعد سے وہاں بد روحوں کا بسیرا ہے اسکی بھی تفصیل معلوم ہو جائے گی ..
میں حویلی میں آنے کےبعد کافی پر جوش سا اپنے کمرے میں چلا گیا اور اماں کو کال کرنے لگا تا کہ دادا جی کے بیٹے کا کنٹیکٹ نمبر ان سے حاصل کر سکوں مجھے پورا یقین تھا کہ اماں ان سے رابطے میں ہونگی یا کم از کم ان سے رابطے کا کوئ ذریعہ اماں کو ضرور معلوم ہوگا ..
کمرے میں آکر میں نے اماں کو کال ملائ,
اسلام علیکم اماں, میں بشاشت سے بولا تھا, ماں کی آواز کسی بھی سریلی آواز سے کہیں زیادہ سریلی ہوتی ہے جو سیدھا دل پہ اثر کرتی ہے اور میں تو 1 ماہ بعد اماں کو کال کر رہا تھا , دوسری طرف اماں کی کیفیت بھی مجھ سے جدا نہ تھی , وعلیکم السلام . جیندا رہ پتر ... کیسا ہے ؟؟ بڑے دن بعدماں کی یاد آئ .. ان کے چہرے پہ مسکراہٹ میں اتنی دور ہو کے بھی محسوس کر سکتا تھا , اماں کام میں پھنسا ہوا تھا , آپ بتائیں کیسی ہیں , طبیعت ٹھیک ہے نا آپکی ... میں اماں کو پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا مختصرا ہی بتا پایا .. کرم ہے سوہنٹے مالک کا , سب خیریت ہے ,
بہت صابر عورت تھی میری ماں , آج میں جس مقام پہ تھا اپنی اماں کی بدولت تھا , اور اب اکلوتے سپوت کو اتنا دور بھیج کے بھی شاکر تھی .. مجھے اماں پہ بہت پیار آیا ... دل کیا اڑ کے ان کے پاس پہنچ جاؤں .. تو پتر ابا میاں کیسے ہیں ؟
اماں کے سوال پہ میں چونکا، اماں دادا جی بھی بالکل ٹھیک ہیں ,آپ یہ بتائیں چاچا سلطان کا کوئ نمبر ہے آپ کے پاس ؟؟
میں اصل بات پہ آگیا, کیوں پتر سب خیر ہے نا, اماں فکر مند ہو گئیں , ارے نہیں اماں سب خیر ہے , حویلی بہت بڑی ہے اماں , دادا جی نے بتایا تھا کہ وہ چاچا سلطان کے نام ہے تو میں سوچ رہا تھا کہ ان سے بات کر کے یہاں کوئی کام شروع کر لوں , میں نے بات بنائی .. نہ پتر رشتہ داری میں شرطیں نہ لگا, دل خراب ہو جاتے ہیں , ہمارے پاس کسی چیز کی کمی ہے کیا اور تم نے کونسا ہمیشہ وہاں رہنا ہے بس جب تک ڈیوٹی ہے کام کرو پھر لوٹ آنا , اتنے کم وقت کے لیے کیوں کسی کو تکلیف دینا , میری خود دار ماں , آج تک کسی کے آگے دست سوال دراز نہ کیا تو آج کیسے مان جاتی , اچھا اماں دیں تو آپ خیر خیریت ہی لے لوں گا .میں نے ایک بار پھر بات بنائ , اچھا پتر ابھی تو مجھے دکھائ بھی نہ دے گا کچھ , صبح دیتی ہوں ,
تھوڑی دیر مزید اماں سے بات کر کے میں سونے کے لیے لیٹ گیا , اماں سے بات کر کے ایک سکوں سا اتر آیا تھا ... لیکن جب لیٹا تو تھکن کی وجہ سے کچھ ہی دیر میں میں نیند کی آغوش میں تھا ,
کسی شور سے میری آنکھ کھلی تھی شاید , حواس بحال ہوۓ تو محسوس ہوا کہ وہ جو جو کی آواز تھی جو بہت زور زور سے بھونک رہا تھا ..
میں پریشان سا بستر سے اترنے لگا کہ آواز آنا بند ہو گئی .. میں نے باہر جانے کا ارادہ ترک کیا اور ایک بار پھر سونے لیٹ گیا ...
صبح میرے لیے کسی طرح بھی خوشگوار نہ تھی ..
جوجو داخلی دروازے سے ذرا فاصلے پہ مردہ حالت میں پڑا تھا ...
میں ششدر سا جوجو کا بے جان جسم دیکھتا رہ گیا
جوجو محض ایک پالتو جانور نہ تھا. وہ میرا دوست تھا اسکی موت میرے میرے لئے ذہنی دھچکے سے کم نہ تھی. کتنی ہی دیر میں خالی الذہن سا بیٹھا رہا.مجھے خود پر افسوس ہو رہا تھا کہ رات اسکی آواز سن کر اٹھ کر دیکھنے کیوں نہیں آیا.
اپنے صدمے کو کم کرنے کے لئے میں نے جوجو کا تفصیلی جائزہ لینا شروع کیا. میں جاننا چاہتا تھا کہ آخر اتنی اچانک جوجو کی موت کیسے ہوئی. جوجو کی گردن پر کھرونچوں اور پنجوں کے سے نشان تھے.یوں لگتا تھا کہ لمبی لڑائی ہوئی ہے اور کسی نے اسے خوب کھسوٹا ہے میں بے اختیار پنجوں کے بل اس کے پاس بیٹھ گیا.حویلی کے داخلی دروازے بند ہوتے تھے ورنہ میں سمجھتا کہ جنگل کی طرف سے کوئی گیدڑ یا بھیڑیا آگیا ہو تو آخر حویلی کے اندر جوجو کا کون دشمن تھا , یونہی الجھتے ہوئے میری نگاہ اٹھی تو سامنے کالی بلی بہت محظوظ انداز ميں مجھے دیکھ رہی تھی
جوجو کی موت کا صدمہ نا بھولنے والا تھا مجھے افسوس ہوا تھا اگر میں جوجو کو یہاں نہیں بلاتا تو وہ آج زندہ ہوتا۔ مجھے لگا تھا جیسے میں نے اپنےکسی گہرے دوست کو کھو دیا ہے۔ بہت دنوں تک میں اس صدمے سے نکل نہیں پایا تھا مگر میں نے اماں کو جوجو کی موت سے قصداً بے خبر رکھا تھا۔
اس دن میں آئینہ حمزہ کو ڈھونڈتا ہوا اس کے گھر چلا گیا تھا، بہت دنوں سے وہ ملنے نہیں آئی تھی۔ سو مجھے اس کی فکر ہوئی تھی۔
آئینہ کی دادی اماں نے دروازہ کھولا تھا۔ اور مجھے سامنے دیکھ کر قدر ے حیران ہوئ تھیں۔
"دادی اماں کیا میں آئینہ سے مل سکتا ہوں؟ ایکچوئیلی وہ بہت دنوں سے ملنے نہیں آئ تو مجھے تشویش ہوئ۔ اس کی طبعیت تو ٹھیک ہے؟ وہ دکھائی نہیں دے رہی؟۔" میں نے پوچھا تھا مگر دادی اماں جیسے میری آمد سے الجھ گئی تھی۔
"تمہیں یقین ہے کہ تم آئینہ سے ملنے آئے ہو؟۔" دادی اماں کو جیسے یقین نہ ہوا تھا۔
"کیا ہوا دادی اماں؟ آپ اتنی پریشان کیوں دکھائی دے رہی ہیں؟" میں نے ان کے چہرے کو بغور جانچتے ہوئے پوچھا تھا۔
"کیا ہوا؟ آئینہ گھر میں موجود نہیں کیا؟۔"
تب دادی اماں نے نفی میں سر ہلایا تھا اور مدھم لہجے میں بولی تھیں۔
"آئینہ اس دنیا میں نہیں رہی!۔" اور میرے پیروں سے جیسے زمیں سرک گئی تھی۔ میں حیران رہ گیا تھا۔
"کب؟ کب ہوا یہ؟ کسی نے مجھے کیوں نہیں بتایا؟" میں آئینہ کی موت کی خبر سن کر جیسے تڑپ اٹھا تھا۔ اس کا صبیح چہرہ، معصوم سی ہنسی۔ بے ریا مسکراہٹ۔
"یا اللہ یہ کیسے ہوگیا تھا؟" میرا دل درد سے جیسے پھٹنے لگا تھا۔ پہلے جوجو اور اب آئینہ!
یہ سب کیسے ہو رہا تھا؟
میں ماننے کو تیار نہیں تھا کہ آئینہ حمزہ، میری دوست دنیا میں باقی نہیں رہی تھی۔ اور ۔۔
انااللہ واناعلیہ راجعون
میرا دل درد سے نڈھال تھا میں نے آئینہ حمزہ کو گنوا دیا تھا۔ میں ٹیبل پر پڑی اس کی تصویر اٹھا کر دیکھنے لگا تھا۔ میری آنکھیں بھیگنے لگیں تھیں۔جب دادی اماں نے میری طرف دیکھا تھا اور بولیں تھیں۔
"چھ برس ہو گئے آئینہ کر موت کو۔"
مجھے جیسے کوئی شاک لگا تھا جب دادی اماں گویا ہوئیں تھیں۔
"وہاٹ؟؟؟۔" میرے سر پر جیسے آسمان آن گرا تھا۔ میں اس لڑکی سے ملا تھا جو زندہ نہیں تھی اور چھ برس قبل مر چکی تھی۔
یا اللہ یہ کیا ہو رہا تھا؟ میں کس دنیا میں آ گیا تھا جہاں سب کچھ عجیب ہو رہا تھا مگر ایسا کیسے ممکن تھا؟ وہ مجھے کئی بار ملی تھی۔ کئی Public places
پر ملے تھے ہم، کئی بار اس نے میری مدد کی تھی اور کئی بار وہ عجیب و غریب لگی تھی۔
اوہ تو وہ اس لئے اتنی عجیب لگتی تھی؟ مگر وہ اس کا دوستانہ انداز، وہ بے ریا ہنسی اور وہ محبت!
اُف! وہ مجھ سے محبت کرنے لگی تھی۔
سوچ کر ہی میرا وجود جیسے سرد پڑ گیا تھا اور دادی اماں کہہ رہی تھیں۔
"مجھے لگا تم ایفا حمزہ سے ملے ہوگے، ایفا کے دوست ہوگے!" اور میں ایک بار پھر حیرت سے اچھل پڑا تھا۔
"یہ ایفا کون ہے؟ میں کسی ایفا سے کبھی نہیں ملا!"
میں انکاری ہوا تھا جب دادی مجھے دیکھتی ہوئی پرسکون انداز میں بولیں تھیں۔
"کچھ دن پہلے ایفا یہاں آئی تھی۔ مجھے لگا تم ایفا کے دوست ہو۔ ایفا، آئینہ کی جڑوا بہن ہے۔ جب چھ برس قبل آئینہ کا انتقال ہوا تھا تب ایفا یہاں سے اپنی نانی کے پاس امریکہ جا بسی تھی۔ ان دنوں وہ پاکستان آئی ہوئی ہے"
"کہاں؟ کہاں ہے وہ؟ یہاں کس شہر میں قیام ہے اس کا؟ میں ایفا حمزہ سے ملنا چاہتا ہوں"
میں نے بنا سوچے سمجھے کہا تھا اور دادی مجھے دیکھ کر رہ گئی تھیں ۔
"ایفا ان دنوں ایک کزن کی شادی کے سلسلے میں اسلام آباد گئ ہوئی ہے، تمہیں اگر اس سے ملنا ہے تو اس کے لئے انتظار کرنا ہوگا۔"
دادی اماں نے کہاں تھا تبھی ماؤف ہوتے دماغ کے ساتھ میں نے ان کو دیکھا تھا۔
"دادی اماں آپ نی کہا ایفا کچھ دن قبل یہاں تھی تو یہ بھی تو ممکن ہے نا کہ ایفا حمزہ ہی مجھ سے ملی ہو؟ اور وہ آئینہ نہ ہو؟۔" میں جانے کیوں اپنی سوچ کو مثبت رکھا چاہتا تھا جب دادی بولیں تھیں۔
"بیٹا میں نہیں جانتی مگر اگر وہ ایفا ہوتی تو تمہیں اپنا نام ایفا بتاتی نا کہ آئینہ! ایفا بہت سمجھدار لڑکی ہے۔ آئینہ کی موت نے تو ایفا کو اور بھی سنجیدہ بنا دیا ہے وہ ایسی شرارت آئینہ کے نام پر نہیں کر سکتی۔ وہ آئینہ سے بہت محبت کرتی تھی۔ وہ آئینہ سے جڑی کسی بات کے لئے جھوٹ نہیں بول سکتی ۔ اگر وہ تم سے ملی ہوتی تو مجھے ضرور خبر ہوتی۔ ایفا اپنی ہر بات مجھ سے شئیر کرتی ہے۔" دادی کی بات سن کر میرے جسم میں سنسی سی دوڑنے لگی تھی۔
یا اللہ! یہ کیا تھا سب! سچ کیا تھا اور جھوٹ کیا تھا؟ میں آئینہ سے ملا تھا اور اب حقیقت کھلی تھی وہ زندہ ہی نہیں تھی اور جو زندہ نہیں تھی اس کی کیا حقیقت تھی؟ میں آئینہ کے بارے میں سوچنے لگا تھا۔ جب دادی بولی تھیں۔
"ایفا اور آئینہ دونوں بہت پیاری تھیں ہمارے گھر کی رونق تھیں مگر اچانک آئینہ میں عجیب سی تبدیلیاں رونما ہونے لگی تھیں۔
جیسے وہ بہت نیگٹئو ہو رہی تھی اور ایفا اور زیادہ پوزیٹئو۔ ایفا میں جیسے بہت سی مثبت طاقتیں تھیں اور آئینہ میں منفی۔ ایفا نے اپنی کسی طاقت کا کبھی استعمال کرنا نہیں چاہا تھا جب کہ آئینہ دوستوں کے ساتھ شرارتوں میں ان طاقتوں کو اکثر استعمال کرتی تھی۔ کسی عالم صاحب نے کہا تھا ایفا اپنی طاقتوں کا استعمال صرف تب کر پائے گی جب وہ کسی اپنے ، کسی بہت پیارے کو مشکل میں دیکھے گی۔ پھر آئینہ کا تو انتقال ہو گیا اور ایفا امریکہ چلی گئی تو وہ بات آئی گئی ہو گئی۔" دادی اماں ابھی بات کر رہی تھیں جب میرا سیل فون بجا تھا اور اماں کی کال دیکھ کر میں فوراً اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
"دادی میں آپ سے پھر ملوں گا فی الحال جانا ہوگا۔" میں دادی سے کہہ کر اٹھا تھا اور وہاں سے نکل آیا تھا۔
میں نے واپس آ کر اماں کو کال بیک کی " ہیلو …… اماں کیسی ہیں آپ ؟ " ……… آپ کو مجھ سے کوئی کام تھا یا کوئی ضروری بات کرنی ہے" …… " پتر تو نے جو مجھ سے سلطان کا نمبر مانگا تھا نا …… بس کافی دنوں سے وہی ڈھونڈ رہی تھی …… کافی عرصہ جو ہو گیا …… وہ لوگ بھی کبھی پلٹ کر نہیں آئے ، نا کوئی خیر نا خبر …… نا کبھی کوئی خط یا پتر لکھا …… بندہ فون ہی کر لیتا ہے …… خیر مجھے وہ نمبر مل گیا ہے پین کاپی ہے نا تیرے پاس ؟ " …… " جی اماں ……آپ لکھوائیں " …… اچھا اچھا …… آگے …… ٹھیک ہے بس " …… میں نے جلدی سے فون نمبر نوٹ کیا …… " اچھا اماں اپنا بہت بہت خیال رکھنا " ……" تو بھی پتر " …… " رب راکھا " ……… یہ کہہ کر اماں نے فون رکھ دیا ……
مجھے سلطان چچا کا نمبر ملنے پر امید کی ایک کرن نظر آئی …… کہ کسی طور تو یہ ساری الجھی گتھیاں سلجھ جائیں یا کم از کم کوئی ایک آدھ سرا ہی ہاتھ آئے …… ادھر میں آئینہ یا ایفا جو بھی تھی اسکی دادی کی باتوں سے شدید الجھن کا شکار ہو گیا تھا میں جو اتنے عرصے سے ایک لڑکی سے مل رہا تھا وہ زندہ نہیں مردہ تھی وہ بھی چھ سال پہلے …… اس کی کسی حرکت سے مجھے کبھی نہیں لگا کہ وہ کوئی مری ہوئی بدروح ہے
میں نے سوچ کر ہی جھرجھری لی ………
آج موسم کے تیور ٹھیک نہی تھے دن میں بھی کبھی بادل آ جاتے اور کبھی دوپ نکل آتی مگر شام ہوتے ہی موسم اور بھی خراب ہونے لگا سیاہ بادلوں نے آسمان کو مکمل طور پر ڈھک لیا ، دادا جی رات کا کھانا کھاتے ہی اپنے کمرے میں چلے گئے میرا بھی آج جلدی سونے کا ارادہ تھا مگر سونے سے پہلے میں سلطان چاچا سے بات کرنا چاہتا تھا میرا خیال تھا کہ ان سے بات میں اپنے کمرے کی چار دیواری میں کروں دادا جی کے اٹھنے کے بعد میں کچھ دیر وہیں بیٹھا رہا اج کا دن میرے لیے کسی شاک سے کم نا تھا آئینہ کی موت اور ایفا کا مجھے آئینہ کے روپ میں ملنا سب میری سمجھ سے باہر تھا مگر ایک بات تو تھی آئینہ کی موت سے مجھے دلی صدمہ پہنچا تھا میں اس کے لیے اپنے دل میں خاص فیلنگز رکھنے لگا تھا،
کرم دین میرے لیے چائے لے آیا جس سے میری سوچوں کا تسلسل ٹوٹا، چائے پیتے ہی میں اپنے کمرے میں آگیا کافی رات ہو چکی تھی میں نے کمرے میں آکر دروازہ لاک کیا اور بیڈ پر آن لیٹا موسم میں تھوڑی خنکی بھی تھی میں نے کمبل اوڑھ لیا اور پاکیٹ سے سیل فون اور وہ پیپر کا ٹکڑا نکالا جس پہ سلطان چاچا کا نمبر لکھا ہوا تھاابھی میں بمشکل ادھا ہی نمبر ڈائل کیا تھا کہ میرے کمرے کی کھڑکی پر کسی نے دستک دی مجھے حیرانگی ہوئی کہ کھڑکی پہ کون ہو سکتا وہ بھی اتنی رات گئے میں نے سیل فون اور نمبر والا پیپر ادھر ہی رکھا اور بستر سے اتر کے کھڑکی کی طرف آیا میرا دل بہت زور زور سے دھڑک رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔
میں نے پردہ پیچھے سرکایا اور کھڑکی کے شیشے میں سے باہر جھانکا مگردور دور تک سوائے اندھیرے کے کچھ نظر نہ آیا، اچانک ذہن میں خیال آیا کہ ہو سکتا کھڑکی ہوا کی وجہ سے ہلی ہو، میں تھوڑا پرسکون ہوا پردہ دوبارہ سے برابر کیا اور واپس آگیا ابھی میں بیڈ پر بیٹھنے ہی لگا تھا جب دوبارہ دستک ہوئی خوف سے میرا دل حلق تک آگیا میں فورا کھڑکی تک آیا یہ دستک ہوا کی وجہ سے نہیں تھی میں نے دوبارہ سے پردہ پیچھے کیا اور کھڑکی سے جھانکنے لگا مگر وہاں سوائے اندھیرے کے کچھ نہی تھا میں نے سوچا کہ کھڑکی کھول کر دیکھتا ہوں شائد کچھ نظر آئے مگر کھڑکی کھولنے کے بعد بھی کچھ نظر نا ایا ٹھنڈی ہوا اندر آنے لگی،
میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ ماجرا کیا ہے، اچانک بجلی چمکی اور روشنی میں جو منظر میری انکھوں نے دیکھا اس نے مجھے اپنی جگہ منجمد کر دیا وہاں جو پورشن تھا اس کے سارے کمروں کے دروازے کھلے ہوئے تھے جن کو اس سے پہلے تالے لگے ہوتے تھے ہر کمرے کے کھلے دروازے کے وسط میں ایک ہی انسان کھڑا تھا اور اس کا چہرہ دیکھ کہ مجھے خوف اپنی روح کی گہرائیوں میں سرایت کرتا نظر آیا، میں نے فورا کھڑکی بند کرنا چاہی مگر یوں لگ رہا تھا کہ کھڑکی کو کسی مضبوط طاقت نے پکڑ رکھا ہو میرے زور لگانے پر بھی وہ بند نہیں ہو رہی تھی میرا پورا بدن پسینے سے بھیگ گیا وہاں اب دوبارہ سے اندھیرا چھا چکا تھا میں پیچھے ہٹا جوں ہی میں نے کھڑکی کو چھوڑا اس کے دونوں پٹ ایک زور دار آواز کے ساتھ بند ہوئے۔۔۔۔آواز اس قدر شدید تھی کے میں نے بے ساختہ کانوں میں انگلیاں ڈال لیں چند لمحے یوں ہی گزر گئے سب کچھ پہلے جیسا ہو گیا یوں جیسے کچھ ہوا ہی نا ہو۔۔۔مگر میرے سینے میں موجود دل اس قدر زور سے دھڑک رہا تھا جیسے ابھی حلق کے رستے باہر آجائے گا، میں دھیمے دھیمے چلتا ہوا بستر تک آیا میرے اندر اتنی ہمت نہی تھی کہ کھڑکی بند کر لیتا،،،،میں نے کمبل اوڑھ لیا،
جو منظر ا بھی کچھ دیر پہلے دیکھا تھا وہ میرے لیے ناقابل یقین تھا، دادا جی تو میرےسامنے اپنے کمرے میں گئے تھے پھر وہ وہاں کیسے ہر کمرے میں کھڑے انسان کا چہرہ دادا جی کا تھا، اب مجے دادا جی کی حقیقت پتا لگانی تھی ہر حال میں، میرا دل ابھی بھی کسی سوکھے پتے کی مانند کانپ رہا تھا میں نے پاس پڑا سیل فون اٹھایا میں جلد سے جلد سلطان چاچا سے بات کرنا چاہتا تھا پیپر کی تلاش میں ادھر ادھر دیکھا مگر کہیں نظر نا آیا میری پریشانی اور بڑھ گئی پیپر کہاں جا سکتا تھا یہیں تو رکھا تھا میں نے سارا بستر کھنگھال مارا مگر پیپر کا ٹکڑا کہیں نظر نا آیا اتنی سے دیر میں نہ جانے کہاں کھو گیا تھا،
اچانک میری نظر بیڈ سے کچھ فاصلے پر بیٹھی کیٹی کی طرف پڑی وہ پیپر کا ٹکڑا اس کے منہ میں تھا اس سے پہلے کے میں اسے لینے کے لیے اگے بڑھتا وہ فوراً باہر نکل گئی اور میں جانتا تھا اس کے پیچھے جانے کا کوئی فائدہ نہیں، جب میں کھڑکی کے پاس گیا تھا تو شاید اس نے اسی وقت اٹھا لیا تھا امید کی جو زرا سی کرن پھوٹی تھی وہ اتنی جلدی بجھ جائے گی مجھے قطعاً امید نہیں تھی۔۔اب میرے پاس سوائے صبر کے کوئی چارا نہیں تھا
سلطان چچا سے بات کرنا بے حد ضروری ہو گیا تھا ۔ کھڑکی کے باہر دادا جی کا وہ روپ دیکھ کر میں حد درجہ ڈر گیا تھا وہ دادا جی تھے یا دادا جی کے روپ میں کوئی عفریت میں فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا ۔
رات بہت ہوچکی تھی میں آرام کرنے کی غرض سے بیڈ پر آکر لیٹ گیا اور جلد ہی نیند کی وادیوں میں کھو گیا تھا ۔
رات کا نجانے کونسا پہر تھا پیاس کی شدت سے یکدم میری آنکھ کھلی تھی کمرے میں پانی موجود نہیں تھا میں پانی لینے کے لئے باہر نکلا اور کچن میں جانے لگا دادا جی کے کمرے سے گزرتے ہوئے مجھے دھیمی آواز میں سرگوشیوں کی آواز آئی تو میں قدرے حیران ہوا ۔ تجسس کے ہاتھوں مجبور دادا جی کے کمرے کی طرف بڑھا حالانکہ مجھے بے تحاشہ خوف محسوس ہورہا تھا میں نے کمرے کے باہر کان لگائے لیکن کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا دروازہ تھوڑا کھلا ہوا تھا میں نے ذرا سا اندر جھانکا تو حیران رہ گیا ۔
دادا جی بیڈ کرائون سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے انکی گود میں وہی پراسرار بلی "کیٹی" تھی اور کاغذ کا وہ چھوٹا سا ٹکڑا تھا جو بلی کے منہ میں موجود تھا جس پہ میں نے سلطان چچا کا نمبر نوٹ کیا تھا وہ لے کر دادا جی کے پاس بیٹھی تھی اور دادا جی بڑے پراسرار انداز میں اس سے بات کر رہے تھے
دادا کی سرگوشیاں ختم ہو چکی تھیں میں بھی بغیر چاپ کے چلتے ہوئے کمرے میں گیا میرا دل حویلی سے بلکل اکتا چکا تھا میری چھٹی حس مجھے وارن کر رہی تھی کہ یہاں ضرور کچھ ایسا ہے جو خطرناک ہے ایک کے بعد ایک منظر میری آنکھوں کے سامنے سے گزر رہے تھے مجھے اس بارے میں اب ضرور کوئی فیصلہ کر لینا چاہئیے ۔ میں نے سوچتے ہوئے لائٹ آف کر دی تھی۔
شاید رات کے واقعات کا اثر تھا کہ صبح میں معمول سے ذرا جلدی بیدار ہوا تھا ۔ میں نے آنگن میں آکر نیلے افق پر نگاہ ڈالی تو خود کو قدرے تر و تازہ محسوس کیا ۔ کچن سے کھٹ پٹ کی آوازیں آرہی تھی شاید کرم دین ناشتہ تیار کر رہا تھا مجھے بھی چائے کی طلب ہو رہی تھی میں کچن میں ہی چلا گیا کرم دین کو چائے کا بولنے ۔
" کرم دین تمہارے والد کی طبعیت اب کیسی ہے ؟" ۔
وہ چائے کا پانی رکھ رہا تھا
جب اسے دیکھتے ہوئے مجھے اچانک یاد آیا تھا پچھلے دنوں کرم دین نے اپنے والد کی طبعیت خرابی کے بارے میں بتایا تھا۔ اس لئے وہ روز شام کو گھر چلا جاتا تھا اور اسکی اس مصروفیت کے پیش نظر میں چاہتے ہوئے بھی اس سے دادا جی کے پراسرار رویے کے بارے میں بات نہیں کر سکا تھا ۔
"اب وہ بہت بہتر ہیں ریان بابا" ۔
اس نے نارمل سے لہجے میں جواب دیا ۔
" اچھا کرم دین تم سے ایک بات پوچھوں خوب سوچ کے جواب دینا " ۔
مجھے پچھلے تمام واقعات یاد آئے تھےتو میں نے سوچا کرم دین سے دریافت کروں اس کو کچھ تو معلوم ہوگا ۔
" یہ بالائ منزل کے کمرے کب سے بند ہیں ؟ "
میں نے اسکے چہرے کی طرف بغور دیکھتے ہوئے ہوچھا ۔
"مجھے نہیں معلوم ریان بابا میں جب سے یہاں ہوں کبھی اوپری منزل میں نہیں گیا نا مجھے اسکی اجازت ہے" ۔
اس کا لہجہ انتہائ سادہ تھا ۔
"اگر میں آپ سے کہوں کہ میں نے اکثر وہاں کسی کو جاتے دیکھا ہے وہ شاید کوئی لڑکی ہے اور کچھ عجیب و غریب خوفناک آوازیں بھی سنی ہیں۔ "
میں نے جانچتی نگاہوں سے اسے چونکا دینے والے انداز میں کہا تو وہ انتہائ خوفزدہ نظر آنے لگا ۔
"ضرور وہ کوئی بھوت ہوگی میں نے دادا جی سے کئی بار کہا ہے یوں کمروں کو خالی بند نا رکھا کریں ۔آپ ہی بات کریں دادا جی سے کہ بھوت پریت کو بھگانے کے لئے قرآن پڑھوائیں حویلی میں "۔
اسکے چہرے پہ رقم خوف با آسانی پڑھا جا سکتا تھا۔
کرم دین تو شاید لاعلم تھا اور میں حیران تھا کے جو کچھ مجھے نظر آتا ہے یا جو میں محسوس کرتا ہوں کرم دین کو وہ محسوس کیوں نہیں ہوتا ۔ خیر دادا جی بھی آج ابھی تک کمرے سے باہر نہیں آئے تھے ۔ میں ناشتہ کر کے آفس چلا گیا ۔
آفس میں بیٹھا میں کچھ ضروری فائلز چیک کر رہا تھا جب انٹر کام پہ شمائم کے آنے کی اطلاع ملی تھی۔ شمائم اور یہاں میں خوشگوار حیرت کا شکار ہوا تھا ۔ شمائم میرا بچپن کا کولیگ تھا ہمارا بچپن اور پھر لڑکپن ایک ساتھ ہی گزرا تھا ۔
" وہاٹ آ پلیزنٹ سرپرائز شمائم ! _تم یوں اچانک؟؟ " اسے سامنے دیکھ کر میں خوشی سے کہتے ہوئے اس سے بغل گیر ہوا تھا ۔
"بس یار تجھے سرپرائز دینا تھا جبھی آنے سے پہلے تمہیں اطلاع نہیں دی" ۔
وہ بشاشت سے بولا ۔
" آؤ کسی کافی شاپ پر چلتے ہیں"
میں شمائم کو لے کر کافی شاپ چلا آیا تھا اور ہم نے ڈھیر ساری باتیں کی تھیں ۔ بہت اچھا وقت ساتھ گزار کر اور جلد ملنےکا وعدہ کر کے شمائم وہیں سے ہری پور کے لئے روانہ ہو گیا تھا ۔ دراصل ہری پور میں اسکی فیملی رہتی تھی اور کچھ دنوں بعد شمائم کی اکلوتی بہن کی شادی طے پائی تھی جس میں شرکت کے لیئے شمائم اپنی جاب سے چھٹیاں لے کر آیا ہوا تھا.
شمائم سے باتوں کے دوران وقت کا پتہ ہی نہیں چلا تھا اور اب شام کے سائے نے آسمان پر ڈیرا ڈالا تھا تو میں نے آفس جانےکا ارادہ ترک کرتے ہوئے گاڑی حویلی کی طرف جانے والے روڈ پہ ڈال دی تھی ۔
شمائم سے ملنے کے بعد میرا موڈ کافی خوشگوار ہو گیا تھا ۔ میں گنگناتے ہوئے گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا کہ اچانک سامنے ایک لڑکی کو دیکھا اسکے ہاتھوں میں دادا جی کی بلی کیٹی تھی ۔
کیٹی کی نظریں میری سمت ہی تھیں جب کے لڑکی کا چہرہ میں نہیں دیکھ پایا تھا تیز ہواؤں کے باعث اسکے بال اڑ کر اس کے چہرے پر آرہے تھے جس کی وجہ سے اسکا چہرا واضح دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔ جب میں ان کے نزدیک پہنچ گیا تو بلی کو قریب سے دیکھنے کے بعد میرا شک یقین میں بدل گیا تھا دادا جی ہی کی بلی تھی ۔ میں نے بریک لگائے اور گاڑی کو روک کر اس لڑکی جانب بڑھا تھا ابھی میں اسے مخاطب کرنے ہی والا تھا کہ اس لڑکی نے اپنا رخ میری جانب موڑا اور اسے دیکھ کر میں ششدر رہ گیا تھا ۔۔
وہ آئینہ تھی میں ششدر سا اسے دیکھتا رہا یہ کیسے ہو سکتا تھا آئینہ تو مر چکی ہے اور ایفا کے بارے میں تو دادی کہہ رہی تھیں کہ وہ کسی شادی پہ گئی ہے اور اگر یہ ایفا ہے تو شادی سے اتنی جلدی کیسے آگئی، اس لڑکی کی ابھی مجھ پہ نظر نہی پڑی تھی اور نا ہی کیٹی نے مجھے دیکھا تھا وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ لگی ہوئی تھیں کیٹی بہت خوش تھی اور کیٹی کو اس سے پہلے میں نے اتنا خوش کبھی نہی دیکھا تھا دادا جی کے ساتھ بھی نہی، اچانک مجھے دادی اماں کی بات یاد آئی کے آئینہ نے ایک بلی پال رکھی تھی اور وہ اس سے بہت پیار کرتی تھی اور بلی بھی آئینہ کے ساتھ بہت اٹیچ تھی اور شاید کیٹی وہی بلی تھی جس کو آئینہ نے پال رکھا تھا۔۔۔۔۔تو کیا وہ بلی آئینہ کے علاوہ کسی اور کے ساتھ بھی اتنی اٹیچ ہو سکتی ہے۔۔۔۔مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا میں نے سوچا کیوں نا میں جا کہ اس لڑکی سے بات کروں مگر یہ کیا وہاں تو دور دور تک کوئی ذی روح نہی تھا سڑک بلکل سنسان پڑی تھی مجھے خود پہ بے تحاشہ غصہ ایا جو ٹائم میں نے فضول کی سوچو ں میں ضائع کیا وہ اگر اس لڑکی سے بات کرنے میں کر لیتا تو شاید کسی الجھن کا سرا ہاتھ لگ جاتا میں واپس گاڑی تک آیا، اور زور سے ہاتھ بونٹ پہ مارا اور اپنا غصہ نکالا۔۔۔۔۔کیوں نا میں یہ سارا معاملہ شمائم سے ڈسکس کروں ہو سکتا وہ کچھ ہیلپ کر دے یا کوئی مشورہ ہی دے دے ،کیونکہ مجھے یقین ہو گیا تھا کہ اگر میں نے مزید ایسے حالات کا سامنا کیا تو پاگل ہو جاؤں گا۔۔۔۔۔ہر دفعہ میری الجھن بڑھ جاتی اب تک کئی طرح کے واقعات میرے ساتھ پیش آچکے تھے مگر میں ان میں سے ایک کی حقیقت تک بھی رسائی نہیں حاصل کر سکا تھا۔۔۔۔۔ہر روز کوئی نا کوئی مسئلہ میرے ساتھ ہو جاتا اور جب میں اس کو سلجھانے لگتا کوئی اور مسئلہ میرے انتظار میں سینہ تانے کھڑا ہوتا۔۔۔۔اب مجھے دور دور تک بھی کوئی امید نظر نہیں آرہی تھی اس حویلی میں کوئی ایک راز ہوتا تو میں اس کا سراغ لگاتا نا مگر یہاں تو کئی راز دفن تھے جن میں سے کچھ میرے سامنے ارہے تھے اور ناجانے ایسے کتنے راز مزید کھلنے تھے۔۔۔۔۔
مجھے پورا یقین ہو گیا تھا کہ اس حویلی میں کوئی بہت بڑا واقعہ رونما ہوا۔۔۔۔۔۔مگر کیا۔۔۔۔۔یہاں ایک بڑا سا سوالیہ نشان تھا، جسے مجھے حل کرنا تھا اور یہ کوئی آسان کام نہیں تھا
میں وہاں سے سیدھا حویلی آیا، دادا جی شام کے کھانے پہ میرا انتظار کر رہے تھے، میں چپ چاپ کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا،
۔کیا بات ہے برخودار کافی پریشان لگ رہے ہو ،دادا جی نے ہلکی سے معنی خیز مسکراہٹ سے میری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا
نہی دادا جان ایسی کوئی بات نہی بس آج کام کا کافی پر یشر تھا تو تھوڑی تھکاوٹ محسوس ہو رہی ہے ،میں نے پیشانی مسلتے ہوئے کہا میں ان سے نظریں چرا کہ بات کر رہا تھا مبادا وہ میری پریشانی نا جان جائیں کیونکہ اس وقت میری آنکھیں ایک کھلی کتاب کی طرح تھیں جسے کوئی بھی پڑھ سکتا تھا ،
چلو پھر کھانا کھا لو اور جلدی سو جانا اور اگر سر میں درد ہے تو کوئی دوائی وغیرہ بھی لے لو میں کرم داد سے کہتا ہوں کہ وہ تمہارے لیے چائے بھی بنا دے ،انہوں نے کہا تو میں بے ساختہ ان کی طرف دیکھنے پر مجبور ہو گیا اتنا شفقت بھرا لہجہ۔۔وہ مجھے پھر سے پہلے دن کی طرح لگے مشفق اور پیار کرنے والے ۔۔۔۔۔مگر ان کا جو روپ میں نے رات کو دیکھا تھا وہ۔۔۔۔میں پھر سے الجھ گیا۔۔۔میرا دل قطعاً ان کو غلط ماننے کو تیار نہیں تھا وہ اب میرے لیے پلیٹ میں کھانا نکال رہے تھے ان کے چہرے پر ایک عجیب سا نور تھا جو مجھے ان کے بارے میں کچھ بھی غلط نہیں سوچنے دیتا تھا،
یہ لو کھانا کھاؤ، انہوں نے پلیٹ میرے سامنے کی، میں نے خاموشی سے پلیٹ کھسکا کر اپنے سامنے کر لی، ان کا رویہ دیکھ کر میں ایک دفعہ پھر سے ان کے بارے میں تمام غلط خیالات کو دل و دماغ سے نکال چکا تھا، جو بھی تھا مگر اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی میرا دل اور دماغ دادا جی کو غلط ماننے کو تیار نہیں تھا__
Post a Comment (0)
Previous Post Next Post