Khamoshi episode 8 - ushna kausar sardar

 

Khamoshi novel by ushna sardar


قسط نمبر 8
از قلم:
عشنا کوثر سردار
صبا جرال
ماورہ طلحہ
اقراء اسلم
خدیجہ عطا
مہوش ملک
سیّدہ فرحین نجم
کوثر ناز
عائشہ تنویر
رابعہ امجد
اقصیٰ سحر
ماہ نور نعیم
فاطمہ نور
نجانے کیوں میرا دل یہ بات تسلیم نہیں کر رہا تھا آئینہ کو کچھ معلوم نہیں ہے
آئینہ مجھے اپنا بہت سا خیال رکھنے کی تاکید کرتے ہوئے وہاں سے چلی گئی تھی.. میں کمرے میں آکر لیٹ گیا دادا جی بھی میرے پاس تھے ۔
پھر دادا جی کچھ دیر ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد آرام کرنے چل دئیے تو میں پھر سے گزشتہ رات کے واقعات کے بارے میں سوچنے لگا کمرے کے دروازے پر دستک ہونا پھر میری گردن پر کسی نادیدہ قوت کا دباؤ اور پھر خود کو دریا کے کنارے پانا اور آئینہ کا نظر آنا .
میں نے ایک جھٹکے سے خود پر سے چادر ہٹائی اور مجھے ان تمام واقعات کی تہہ تک جانا تھا میں دل ہی دل میں قرآنی آیات کا ورد کرتے ہوئے سیڑھیوں کی جانب بڑھا ۔
میں جب سے یہاں آیا تھا ٹھیک سے بالائی منزل کا جائزہ نہیں لے سکا تھا ہر بار کوئی نہ کوئی قوت مجھے ایسا کرنے سے روک دیتی تھی آج میں ضرور دیکھ کر رہوں گا وہاں کچھ نہ کچھ ایسا ہے جو ان تمام واقعات سے جڑا ہوا ہے .. میں نے اٹل اندازہ کرتے ہوئے سیڑھیوں پر پہلا قدم رکھااور روانی سے چڑھتا چلا گیا
جوں ہی سیڑھیاں ختم ہونے کے بعد میں نے فلور پر قدم رکھا تو کچھ خوفناک آوازوں نے میرا استقبال کیا لیکن پھر خاموشی طاری ہوگئی تو میں نے ان آوازوں کو اپنی سماعت کا دھوکہ گمان کیا وہاں پر ایک پراسرار سی خاموشی تھی یوں محسوس ہو رہا تھا ارد گرد کئی ایسی مخلوق ہیں جن کی نگاہیں مجھ پر گڑی ہیں
میری دھڑکنیں تیز ہوگئیں اپنے تنفس پہ قابو پاتے میں آگے بڑھا دائیں طرف ساتھ، آٹھ کمرے لائن سے بنے ہوئے تھے سب کمروں کا دروازہ لاکڈ تھا میں واپس پلٹا اس ارادے سے کہ پھر کسی دن کرم دین سے چابیاں لے کر دوبارہ آؤں گا ...
در حقیقت میں کافی ڈر گیا تھا واپس پلٹنے لگا تھا کہ یکایک تیز ہوائیں چلنے لگی اور دروازے کے پٹ زور زور سے ہلنے لگے میں حیران ہوا سب دروازے تو لاکڈ ہیں پھر آواز کہاں سے آرہی ہے۔ میں ہمت کرکے پھر سے سب دروازے باری باری چیک کرنے لگا تو ایک دم سے حیران ہو گیا لائن سے بنے ان کمروں میں سے آخری دروازہ کھلا تھا اور اس دروازے سے ایک سایہ اندر داخل ہوا میں اپنی تمام ہمتیں مجتمع کرتا ہوا اسکے پیچھے دوڑا جوں ہی اندر داخل ہوا پیچھے زوردار آواز سے دروازہ بند ہوگیا میں ایک دم سے اچھلا تھا میرا دل گویا اچھل کر حلق میں آگیا تھا اور خوف سے مجھ پر لرزہ طاری ہونے لگا وہ سایہ کمرے کے وسط میں جا رکا تھا میں سائے کی ہیئیت سے پہچان نہیں کر پا رہا تھا وہ کسی عورت کا ہے یا آدمی کا ..
کک کون ہو تم ... ؟؟
میں نے بمشکل تھوک نگلتے ہوئے اس سے پوچھا
میرے پوچھنے پر سائے میں حرکت ہوئی اور وہ پلٹ کر میری جانب آنے لگا.. میں خوف سے باقاعدہ کانپ رہا تھا وہاں سے بھاگنا چاہتا تھا لیکن اپنے پاؤں کو حرکت نہیں دے پا رہا تھا وہ سایہ دھیرے دھیرے میری جانب بڑھنے لگا میں سانس روکے مسلسل وہاں سے بھاگنے کی تگ و دو میں تھا سایہ بلکل میرے قریب آکر رک گیا میں بلکل بے حس وحرکت ساکت کھڑا تھا پھر اچانک اوپر سے کوئی خوفناک چیز میری آنکھوں کے سامنے آئی میری چیخ نکل گئی وہ انتہائ ڈرائونا اور خوفناک چہرہ تھا اسنے مجھے زور سے دھکا دیا میں ہوا میں اڑتا ہوا پیچھے دروازے سے جا لگا ۔
میں دہشت زدہ ہو کر زور زور سے چیخنے لگا تھا اپنے حواس کھونے سے پہلے بند ہوتی آنکھوں سے میں نے آئینہ کا دھندلا سا عکس دیکھا تھا ..
آئینہ تو میرے لیے ایک معمہ ھی بنتی جا رھی تھی،، کبھی وہ ایک اچھے دوست کی ساری خوبیاں خود میں ظاھر کرتی تو کبھی ایک بھیانک روپ میں میرے سامنے آ کھڑی ھوتی
اگلی صبح میں بخار میں تپ رھا تھا یہ صبح بھی ایک عجیب صبح تھی مجھے آئینہ کا انتظار تھا، اور امید تھی کہ وہ جلد ھی مجھ سے ملنے آئے گی میرا اندازہ کچھ غلط نھیں تھا، جلد ھی اس کی مخصوص خوشبو میرے نتھنوں سے ٹکرائی تو میں نے آنکھیں کھول دیں اپنی پیاری سی مسکراہٹ کے ساتھ وہ بیڈ کے ساتھ رکھی کرسی پر بیٹھ گئی اس سے پہلے کے وہ میرا حال احوال پوچھتی میں نے اس سے سوال کیا یہ رنگ تمھاری ھے؟
میں نے سائیڈ ٹیبل سے ایک خوبصورت سی رنگ اٹھاتے ھوئے، اس کی آنکھوں کے سامنے کی، جس پر عجیب و غریب نقش و نگار بنے ھوئے تھے
ایک لمحے کے لیئے اس کی آنکھوں میں خوف پیدا ھوا، مگر اگلے ھی لمحے وہ خود کو سنبھالتے ھوےْ بولی ”یہ تمھیں کہاں سے ملی؟
کیا واقعی یہ رنگ تمھاری ھے آئینہ حمزہ؟ مجھے ھاں یا نہیں میں جواب دو میں نے بہادری سے کام لیتے ھوئے پوچھا یہ مجھے واپس کر دو، ورنہ۔۔۔۔۔۔۔ وہ چلائی
ورنہ کیا آئینہ حمزہ؟ میں نے اس کی وحشت بھری آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ھوئے پوچھا
ورنہ میں تمھیں جان سے مار دوں گی وہ پھٹ ھی تو پڑی تھی-----
اس سے پہلے کہ میں خود کو سنبھالتا، اس نے بجلی کی سی تیزی سے مجھ پر حملہ کر دیا---
میں کرنٹ کھا کر بیڈ سے اترا، اسی اثنا میں اس نے مجھ پہ اپنے لمبے لمبے ناخنوں سے حملہ کر دیا
میں جو ابھی اس حملے کے لیئے قطعاً تیار نہ تھا، الٹ کر بیڈ پہ جا گرا اور انگوٹھی میرے ھاتھوں سے پھسلتی چلی گئی مجھے یوں لگا کہ جیسے اس کے ناخنوں نے میرے منہ پہ نشان ڈال دیئے ھوں، میں پیچ و تاب کھا کر اس کی طرف بڑھا مگر وہ انگوٹھی اٹھا کر نو دو گیارہ ھو گئی،
میں اپنے زخم سنبھالتا رہ گیا۔۔۔۔ بمشکل اگر کوئی نشان ملتا بھی تو ریت کی طرح میرے ھاتھوں سے پھسلتا چلا جاتا---------
کیا آئینہ مجھے کسی مقصد کے لیئے استمال کر رھی تھی۔۔۔ اسکا صندوق میں چمگادڑ کا پر رکھوانا، صندوق کا عائب ھو جانا ۔۔۔ ایک ایک کر کے سارے مناظر میری نگاھوں کے سامنے سے گزرے، تو میں سوچ کے سمندر میں ڈوبتا چلا گیا-----
خیالوں سے چھٹکارہ پایا تو، میں کانپ کر رہ گیا---میں ایک بہت بڑے میدان میں کھڑا تھا، جس کے بیچ و بیچ آگ کا ایک الاوْ روشن تھا، اور حیرت کی بات یہ کہ میں اس آگ کی طرف خود بخود کھنچتا چلا گیا، مجھے لگا کہ میری چلتی سانسیں، بس کچھ دیر میں مجھے تنہا چھوڑ جائیں گی
میں چاہ کر بھی پیچھے نہی ہٹ پا رہا تھا، میں بلکل قریب پہنچ گیا تھا جب اچانک کسی نے میرا بازو کھینچ کر مجھے اپنی طرف کر لیا میں حیران پریشان سا صورت حال کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگا، وہ آئینہ تھی وہ وہاں کیسے پہنچ گئی مجھے حیرانی ہوئی
ریان یہ تم کیا کر رہے ہو کہاں جا رہے ہو دیوار سے ٹکرانے کا ارادہ ہے کیا، اس نے کہا تو میں نے ادھر ادھر دیکھا میں تو اپنے کمرے میں تھا اور جس کو آگ سمجھ کر میں اس کی طرف کِھچتا جا رہا تھا وہ اگ نہی بلکہ مرے کمرے کی دیوار تھی مگر یہ کیسے ہو سکتاہے ۔۔میرا دماغ پھٹنے کے قریب تھا
ریان۔۔۔آئینہ نے پھر مجھے پکارا، میں نے اس کی طرف دیکھا وہی معصومیت اور نرم سا لہجہ تھا میرا دل پھر ماننے سے انکاری ہو گیا کہ مجھ پر آئینہ حملہ کر سکتی ہے وہ جس طرح میری فکر کرتی تھی وہ کیسے مجھ پر حملہ کر سکتی تھی دل یہ بات ماننے سے انکاری تھا وہ مجھے آہستہ سے سہارا دے کر بیڈ پر لے گئی، چلو بیٹھو ادھر ہر وقت عجیب سی حرکتیں کرتے رہتے ہو، اس نے مجھے ڈانٹتے ہوئے بیڈ پر بٹھایا، میری نظریں اس کے ہاتھوں پر پڑیں وہاں کسی انگھوٹی کا نام و نشان تک نہی تھا۔۔۔۔میں حیران ہوا وہ اتنی جلدی انگھوٹی اتار بھی آئی یا ہوسکتا وہ انگھوٹی والی آئینہ کوئی اور ہو
اور ویسے بھی ایک کی انکھوں میں عجیب سے تاثرات ہوتے تھے جبکہ اس والی کی انکھوں میں معصومیت اور پیار ہوتا تھا جبکہ دوسری کی آنکھوں میں تو ایک شیطانیت ہوتی تھی،
اچھا بیٹھو میں تمہارے لیئے ناشتہ لے کہ آتی ہوں، وہ کہہ کر چلی گئی جبکہ میں پیچھے بیٹھا سوچوں میں مصروف ہو گیا اچانک میرے فون کی گھنٹی بجی اماں کا فون تھا میں نے خود کو ممکن حد تک ریلکس کر لیا کہیں ان کو شک نا ہو جائے،
ان سے کافی دیر بات کر کہ میں نے خود کو پرسکون محسوس کیا میں خوش تھا اور اس کی سب سے بڑی وجہ تھی جوجو کی آمد اماں کے بقول وہ میرے بنا اداس تھا اس لیے انہوں نے اس کو ہمارے گھر کے نوکر کے ساتھ بھیج دیا وہ نوکر پہلے بھی مجھے چھوڑنے آیا تھا اس لیئے اسے حویلی کا پتا تھا، آئینہ جب کھانا لےکر آئی تو میں نے اسے بھی یہ خبر سنائی وہ بھی بہت خوش ہوئی اس دن آئینہ کافی دیر تک میرے ساتھ رہی ہم دونوں نے ایک دوسرے سے بہت ساری باتیں شیئر کی میں بہت خوش تھا دوپہر تک ہمارا نوکر جوجو کو لے کے آگیا جوجو تو مجھے دیکھ کہ پاگل سا ہو گیا اس کی اتنی دیوانگی دیکھ کہ آئینہ بہت ہنسی نوکر کو جلدی تھی اس لیے وہ جلدی چلا گیا دوپہر کے بعد آئینہ چلی گئی میں نے جوجو کو ساتھ لیا اور لان میں آگیا موسم کافی خوشگوار تھا داداجی سو ر ہے تھے جوجو میری چیئر کے پاس ہی بیٹھا تھا میں نے کرم دین سے چائے منگوائی اور پینے لگا ساتھ ساتھ میں صبح کا اخبار بھی دیکھ رہا تھا اچانک جوجو نے بھونکنا شروع کر دیا میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو کالی بلی اس سے کچھ فاصلے پر کھڑی اسے گھور رہی تھی اس کی آنکھوں میں غصے کی لہریں صاف دکھائی دے رہیں تھیں جوجو بار بار اس کی طرف اشارہ کر رہا تھا مجھے سمجھ میں نہ آیا کچھ بھی مگر نجانے کیوں جوجو کے اشاروں سے لگ رہا تھا کہ وہاں کچھ تو غیر معمولی ہے مگر کیا۔۔۔۔۔۔۔؟
اس سوال پر آکر میں ہمیشہ الجھتا چلا جاتا جوجو کا بار بار بلی کی طرف لپکنا اور بھونکنا بے مقصد نہیں ہو سکتا ابھی میں انہی سوچوں میں الجھا ہوا تھا کی اچانک اپنے کندھے پر دادا جان کا ہاتھ محسوس کیا پلٹ کر دیکھا تو وہ شفیق سی مسکراہٹ لیے کهڑے تھے دادا جان آپ؟
میں نے حیرت سے کہا کیوں برخوردار کن سوچوں میں گم تھے جو مجھے دیکھ کر چونک گئے
کچھ نہیں دادا جان کیا سوچنا ہے آپکو دیکھ کر چونکا کہ کرم دین بتا رہا تھا کہ آپ سو رہے ہو
ارے نہیں میں تو جاگ گیا وہ کرسی پر بیٹھتے بولے کرم دین میرے لیئے بھی چائے لے آؤ
ہم ادھر ادھر کی باتوں میں مشغول ہو گئے حالات حاضرہ پر تبصرہ کرتے ہوئے دادا جان کی آواز ایکدم عجیب سی ہو گئی سنسی خیز اور سرگوشیانہ انداز میں وہ بولے
"ریان بیٹا آج کل حالات بہت خراب ہیں کسی وقت کیا ہوجائے کچھ خبر نہیں تم اپنا خیال رکھا کرو "
بات کچھ اتنی خاص نہیں تھی جتنا خاص اور عجیب ان کا لہجہ تھا اس انداز سے وہ پہلے کبھی نہیں بولے میری جسم میں جھر جھری سی آگئی میں نے انکی طرف بنا دیکھے ہی کہا بہتر دادا جان
ابھی ہم باتوں میں مشغول تھے کہ جوجو نے زور زور سے ایک بار پهر بھونکنا شروع کر دیا میں نے سر اٹھا کر دیکھا میری حیرت کی انتہا نہ رہی میرے سامنے ایک عجیب منظر تھا دادا جان کی کرسی خالی تھی چائے کا کپ میز پر رکھا تھا اور ان کی شال کرسی پر رکھی تھی
کالی بلی پاس ہی بیٹھی مجھے دیکھ رہی تھی اور جوجو باہر کی جانب منہ کئے بھونکے جا رہا تھا باہر کچھ غیر معمولی بات ضرور ہے میں نے سوچا اور کرسی سے ایک جھٹکے سے اٹھا جونہی میں نے قدم باہر کی جانب بڑھائے کالی بلی میرے راستے میں آگئی گویا وہ مجھے باہر جانے سے روک رہی ہو
میں نے بلی کو غصے سے دیکھا اور رستے سے پیچھے کیا مگر یہ کیا اس نے پیچھے سے مجھ پر حملہ کر دیا اور میری شرٹ کے کالر کو اپنے منہ میں دبوچ لیا اور اپنے پنجے میرے کندھوں میں گاڑ دیے
صبح صبح میں اس ناگہانی افتاد سے گھبرا گیا
کہ اچانک جوجو میری ڈھال بن کے بلی کے سامنے آگیا .. بلی منہ سے عجیب و غریب آوازین نکالتی رہی لیکن جوجو کے سامنے آجانے سے اس کے قدم دوبارہ حملہ کرنے سے رک سے گئے تھے
میں بلی کو جوجو کے حوالے کر کے باہر کی جانب چل دیا ... لیکن حویلی کے آگے پورا احاطہ سنسان پڑا تھا ... میں ایک بار پھر مایوس سا ہو کے پلٹ گیا کچھ پل ہی لگے تھے اس میں مجھے لیکن اندر کا منظر اس سے بھی عجیب تھا، دادا جی ایک بار پھر اپنے کمرے سے نکل کے آرہے تھے بلی غائب تھی اور جوجو میری کرسی کے پاس مطمئن سا بیٹھا تھا ... دادا جی سامنے کرسی پہ براجمان ہو گئے اور چاۓکا کپ اٹھا لیا .. یہ سین اتنی بار یہاں ہو چکا تھا کہ اب مجھے عادی ہو جانا چاہییے لیکن میں شدید کوفت میں مبتلا تھا، میں چاہ کر بھی اس اسرار سے پردہ نہیں اٹھا پا رہا تھا ..
باقی کا دن آفس میں معمول کے مطابق گزرا، واپسی تک میں صبح ہوا سین بھول چکا تھا، میرے ساتھ میرے ایک کولیگ بھی تھے بصد اصرار وہ مجھے اپنے گھر لے گئے،
وہ ایک گنجان آباد علاقہ تھا، گھر کے باہر ہی ان کے پڑوسی سے سلام دعا کہ لیے رک گئے ... میری توجہ گلی کے کونے پہ بندھے بکری کے خوبصورت بچےکی طرف مبذول ہوگئی وہ بہت شرارتی سا بچہ تھا اور اپنی ماں کے ساتھ کھیل رہا تھا
تمھیں کس نے بتایا، اپنے کولیگ کی آواز پہ میں چونکا تھا، یار وہ اکرم اپنی بکریاں لے گیا تھا اس طرف، تو ڈر کے پلٹ آیا .. مجھے سمجھ تو نہ آرہا تھا کہ کس بارے میں بات ہو رہی تھی لیکن بات بہت سنجیدہ نوعیت کی تھی .. یار اتنی ویران جگہ ہے وہاں جانے کی ضرورت کیا تھی .. میرا کولیگ پریشان سا بولا تھا .. پڑوسی کے جانے کے بعد میں نے تفصیلات پوچھیں تو اس نے جو بتایا اسے سن کے میرے ہوش اڑ گئے
حویلی کے پیچھے ایک لڑکی کا سایہ دیکھا ہے، اور آوازیں بھی سنی ہیں .. وہ مختصراً مجھے بتا کے گھر کے اندر لے گیا جہاں چاۓ اور بچوں کی باتوں میں مزید کچھ جاننے کا موقع نہ ملا
ہو نا ہو یہ وہی ادھ جلے منہ والی لڑکی ہوگی میں سوچتا ہوا حویلی کی جانب چل دیا مغرب کا وقت ہو چکا تھا .. میں تیز تیز قدموں سے چل رہا تھا ...
قدموں سے زیادہ تیز میرے دماغ کے چلنے کی رفتار تھی میں ان سارے واقعات سے بری طرح اکتا چکا تھا ایک کے بعد ایک الجھن نے میری دماغی حالت الٹ پلٹ کر رکھ دی تھی میرے ذہن میں خیال آیا کیوں نہ کچھ عرصے میں حویلی سے دور ہو جاؤں اپنی رہائش کا بندوبست کہیں اور کر لوں اور آفس سے کچھ دن کی چھٹی لے کر اپنی والدہ سے مل آؤں اس سے میرے ذہن کو کچھ سکون ملے گا انہی سوچوں میں گھرا میں حویلی پہنچ گیا
دادا جان مغرب کی نماز ادا کر کے ٹہل رہے تھے میں نے ان کو سلام کیا اور چینج کرنے کا کہہ کر اپنے کمرے میں آگیا اپنا بیگ رکھا اور کپڑے تبدیل کرنے کے بعد میں بھی دادا جان کے پاس لان میں آگیا
دن بھر اپنی روشنی پھیلا کر تھکا ہارا سورج بھی پہاڑوں کی آغوش میں جا چھپا تھا ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی فضا میں آج قدرے اطمینان اور سکون تھا میں اور دادا جان باتوں میں محو تھے کی اچانک دادا جان نے مجھے پوچھا
" ریان الحق میاں تم یہاں خوش تو ہو نا
جی دادا جان میں خوش ہوں میں نے بھی خوشدلی سے جواب دیا
تو پھر تم یہاں سے جانے کا کیوں سوچ رہے ہو برخوردار؟
انہوں نے مسکرا کر پوچھا
ان کے اس سوال پر میں نے چونک کر ان کی طرف دیکھا ان کے چہرے پر وہی پراسرار سی مسکراہٹ تھی جو اکثر مجھے نظر آتی تھی
نن نہیں تو دادا جان ایسا کچھ بھی نہیں میں نے ہکلاتے ہوئے جواب دیا
میں حیران تھا جو بات ابھی میں نے صرف سوچی یے اس کی خبر دادا جان کو کیسے ہو گئی
مجھے آئینہ کبھی اچھی دوست لگتی تھی اور کبھی عجیب پراسرار کردار یہ بات مجھے سوچنے پر مجبور کر رہی تھی کہ کہیں آئینہ کسی پرسنالٹی ڈس آرڈر کا شکار تو نہیں تھی؟ اس دن وہ میرے ساتھ واک کر رہی تھے جب میں نے اسے بے فکری سے آئسکریم کھاتے دیکھ کر پوچھا تھا۔
"آئینہ حمزہ، تم نے کبھی کسی
Psychiatrist
سے کنسلٹ کیا؟"
میرے پوچھنے پر وہ چونکتی ہوئی حیرت سے مجھے دیکھنے لگی تھی۔
"آر یو کریزی؟ میں کیوں کسی
Psychiatrist
سے کنسلٹ کروں گی؟۔" وہ خفا ہوئی تھی تبھی میں نے پرسکون انداز میں اسے دیکھا تھا۔
"آئینہ تم میری اچھی دوست ہو مگر مجھے لگتا ہے تم ایک Split پرسنالٹی ہو، تم ایک دوہری زندگی جی رہی ہو جو ایک اچھی مثبت سائیڈ رکھتی ہو اور ساتھ ہی ایک منفی سائیڈ بھی۔ تم نہیں جانتیں مگر تمہیں اکثر میں نے بہت weird بی ہیو کرتے دیکھا ہے اور میں تمہیں جتانا بھی نہیں چاہتا کیونکہ تمہاری یہ سائیڈ جتنی پولائیٹ ہے دوسری سائیڈ اتنی ہی بھیانک اور میں یقین نہیں کرنا چاہتا مگر مجھے تم اچھی لگتی ہو جب تم میرا خیال کرتی ہو یا میری مدد کرتی ہو اور ۔۔۔۔" میں ابھی بول رہا تھا جب وہ ہنسی تھی۔
"ریان الحق پاگل ہو تم، اتنی پیاری لڑکی کو پاگل کہہ رہے ہو!" وہ مجھے دیکھتی ہوئی بھرپور انداز میں مسکرائی تھی۔
"ایک بار؟ صرف میرے کہنے پر؟ کیا تم نفسیاتی معالج کے پاس چل سکتی ہو؟۔" میں نے درخواست کی تھی مگر وہ آئسکریم ایک طرف اچھال کر رکی تھی اور تب مجھے بھی رک جانا پڑا تھا۔ وہ میرے قریب آئ تھی، مجھے بغور دیکھتی ہوئی مسکرائی تھی۔
میں اس کے انداز پر قدرے حیران ہوا تھا۔ کچھ کہنا چاہا تھا جب اس نے میری لبوں پر اپنا ہاتھ رکھ دیا تھا اور بھرپور انداز سے مسکرائی تھی۔
"مجھے بھی تم سے ایک بات بہت دنوں سے کہنا تھی اور وہ یہ تھی کہ مجھے تم سے شاید محبت ہو گئی ہے
اور۔۔!۔" وہ کہتی ہوئی یکدم رکی تھی۔ اس کی آنکھوں کے رنگ عجیب سے تھے جیسے اس کا دل اور کی آنکھوں کا ساتھ نہیں دے رہا تھا یا وہ شرما رہی تھی یا محبت کا اظہار کرنے کے لئے کچھ
Hesitant فیل کر رہی تھی؟
"آئینہ میں جو بات کر رہا ہوں وہ ضروری ہے پلیز لسن می! چلو ایک بار ڈاکٹر کو دکھا لیتے ہیں اور ۔۔!۔" میری بات ابھی مکمل بھی نہیں ہوئ تھی جب اس کی آنکھیں غصے سے سرخ ہونے لگیں تھیں یکدم اس نے مجھے شانوں سے پکڑ کر اوپر اچھال دیا تھا میں سمجھ نہیں پایا تھا میرے ساتھ آناً فاناً کیا ہوا۔ میں ہوا میں معلق اسے دیکھ رہا تھا جب وہ عجیب طرح سے میری طرح دیکھ کر مسکرائی تھی۔
اور ہاتھ کے اشارے سے مجھے زمین پر اوندھے منہ گرا کر میرے سبھلنے سے بھی پہلے وہ چلتی ہوئی کہیں غائب ہو چکی تھی۔ میں ششدر سا رہ گیا تھا۔
آخر یہ کیا ھو رہا تھا
پرت در پرت کھلنے والی تہیں آپس میں بند ھوتی چلی جاتی تھیں
میں حویلی کے رازوں سے پردہ اٹھانا چاھتا تھا، مگر کوئی طاقت میری راہ میں رکاوٹ ڈال رھی تھی
گہری سوچ میں چلتا ھوا جب میں راہداری سے گزرنے لگا تو مجھے یوں لگا کے سامنے سے دادا جی آ رھے ھیں
میں یکدم ایک طرف ھو گیا کہ کہیں ٹکر نہ ھو جاےْ، مگر میری حیرت کی انتہا نہ رھی جب میں دادا جی کے اندر سے گزرتا چلا گیا
میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو کسی ذی روح کا نام و نشان نہ تھا
میں حیران ھوتا سیدھا ھونے ھی لگا تھا کہ اچانک زوردار ٹکر سے میرا سر چکرا کر رہ گیا وہ دادا جی تھے جو مجھے سنبھلنے کا کہہ کر گزرتے چلے گئے۔
جاری ہے
Post a Comment (0)
Previous Post Next Post