Khamoshi episode 7 - ushna sardar kausar

 

Khamoshi novel by ushna sardar


قسط نمبر 7
از قلم:
عشنا کوثر سردار
صبا جرال
ماورہ طلحہ
اقراء اسلم
خدیجہ عطا
مہوش ملک
سیّدہ فرحین نجم
کوثر ناز
عائشہ تنویر
رابعہ امجد
اقصیٰ سحر
ماہ نور نعیم
فاطمہ نور
اپنے کمرے میں پہنچ کر میں سوچنے لگا کہ آخر اس حویلی میں ایسا کون سا واقعہ رونما ھوا تھا، کہ جس کی وجہ سے وہ بلی، اور ادھ جلے منہ والی لڑکی ایک معمہ بن کر رہ گئی تھی۔
یہی سوچ کر میں نے کھڑکی کے پردے سمیٹ کر ایک سائڈ پر کیئے اور آسمان پر چمکتے چاند کو گھورنے لگا۔
ایک لمحے کے لیئے مجھے یوں لگا کہ چاند میں بھی اسی بلی کی سحر انگیز آنکھیں مجھے گھور رھی ھیں۔
میں نے اس خیال کو اپنے ذھن سے جھٹکا اور واپس مڑنے لگا کہ اچانک ایک منظر دیکھ کر چونک پڑا۔
سامنے حویلی کی اونچی دیوارجس کے پیچھے سے چاند اپنی روشنی بکھیرتا ھوا نکل رھا تھا، اس پر وھی بلی ایک ساےْ کی صورت میں بیٹھی، آسمان کو گھور رھی تھی۔
اس کی آنکھوں میں اداسی تھی، یا یاسیت کا طوفان امڈتا چلا آرھا تھا۔ اندھیرے کے باعث میں دیکھنے سے قاصر تھا۔
بس مجھے یوں لگا کہ وہ ماضی کے درد بھرے لمحوں کو یاد کر کے اپنی قسمت پہ آنسو بہا رھی ھے۔
اچانک میں اچھل پڑا، اس بلی نے دیوار پر رقص کرنا شروع کیا اور اس کے ساتھ ھی اس کے منہ سے عجیب و غریب، اور انتہائی درد ناک آوازیں نکلنا شروع ھو گئی میری ریڑھ کی ہڈی میں خوف کی لہر دوڑ گئی
آسمان پر چاند کی روشنی میں ایک بلی کا رقص کرتا سایہ ایسا ھی تھا جیسے رات کے اندھیرے میں قبرستان کی کسی قبر سے کوئی مردہ نکل کر بے تحاشہ چلانے کے ساتھ ساتھ بے سمت دوڑنا شروع کر دے۔
قبرستان کے اندھیرے کا سارا خوف میرے بے دم ھوتے وجود میں سرائیت کرنے لگا ھو میرا بدن کانپنا شروع ھو گیا منظر ھی ایسا تھا میں نے دیکھا کہ بلی کے سائے سے ایک اور سایہ نکلا، پھر ایک اور، اور بڑھتے بڑھتے پوری دس بلیاں دیوار پر رقص کرنا شروع ھو گئیں، ان کے رقص کی دھمک میں اپنے دل پر محسوس کر سکتا تھا اور جس منظر نے میرے قدموں سے زمین کھینچ لی وہ دادا جی کا، ان کو دیکھ کر خوش ھونا تھا ان کی پیٹھ میری طرف ھونے کے باعث، وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ کوئی ان کی حرکات و سکنات پر نظر رکھے ھوئے ھے
میں ہڑبڑا کے اٹھا تھا، پورا جسم پسینے سے شرابور تھا، اتنا بھیانک خواب میرا تنفس بہت تیز چل رہا تھا اور حلق میں جیسے کانٹے چبھ رہے تھے، میں نے سائیڈ ٹیبل سے پانی کا گلاس اٹھا کہ ایک ہی سانس میں پورا پی لیا سانس کچھ بحال ہوئی تو میں ایک بار پھر بستر پہ دراز ہو گیا لیکن نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی، دل میں خوف کے ساتھ تجسس تھا، مجھے لگتا تھا کہ کوئی بڑی کہانی ہو جسے کھوجنا ضروری ہے بلی پراسرار ضرور تھی لیکن وہ اتنی اہمیت نہیں رکھتی تھی۔
اماں کہتی تھیں کہ بلیوں میں آسیب بستے ہیں اس لیے میں اسکی طرف سے اتنا فکر مند نہیں تھا، مجھے اصل تلاش دادا جی کی شکل میں نظر آنے والے اس شخص کی تھی جو مجھے بھٹکا رہآ تھا انہی سوچوں کے ساتھ نہ جانے رات کے کونسے پہر میری آنکھ لگ گئی
اگلی صبح روز کی طرح ناشتہ کے بعد میں آفس آگیا، کام کی وجہ سے تمام واقعات ذہن سے محو ہو گئے، شام میں حویلی جانے سے پہلے انجانے احساس کے تحت میں اسی کافی شاپ کی طرف نکل آیا تھا، نہ جانے کیوں یقین تھا کہ آئینہ وہیں ملے گی مجھے، اور میرا یقین کچھ غلط بھی نہ تھا، وہ اپنی مخصوص نشست پہ پوری تمکنت سے براجمان تھی،
مجھے دیکھتے ہی شناسائی کی ایک جاندار مسکراہٹ اس کے لبوں پہ پھیل گئی، سر کے اشارے سے اس نے مجھے اپنے ساتھ کافی پہ مدعو کیا، میں جیسے کسی ڈوری سے بندھا اس کی طرف بڑھ گیا ...
زندگی سے بھرپور وہ نازک سی لڑکی پنک شرٹ اور ریڈ اسکارف میں بہت خوبصورت لگ رہی تھی، کافی کے ساتھ باتوں کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا
تو مسٹر ریان، آپ یہاں کہاں رہائش پذیر ہیں ؟ اس نے کافی بے تکلفی سے پوچھا تھا میں اسکول کے پیچھے بنی بڑی حویلی کا مہمان ہوں میں نےمسکرا کے کہا، ایک منٹ کے لیے وہ چونکی مجھے ایسا لگا تھا لیکن پھر خود کو ٹھیک کرتی میری فیملی کے بارے پوچھنے لگی، میں بھی نطر انداز کر گیا
اس دن ہم نے بہت سی باتیں کیں ایک دوسرے کے بارے میں جانا، وہ بھی یہاں اپنی دادی کے پاس چھٹیاں گزارنے آئی تھی، اس کے پیرنٹس فوت ہو چکے تھے اور وہ شہر میں اپنے نانو کے ساتھ رہتی تھی
میں بہت مسرور سا حویلی لوٹا تھا، کرم دین کی زبانی پتا چلا کہ دادا جی سو گئے ہیں میں نے بہت خاموشی سے کھانا کھایا اور اپنے کمرے میں چلا آیا آج آئینہ سے اس کا فون نمبر لینا نہ بھولا تھا
ایک دن کے لیے میں اس پراسرار حویلی کے اسرار سے نکل چکا تھا لیکن کچھ کہانیاں اتنی آسانی سے اختتام پذیر نہیں ہوتیں سونے سے پہلے میں آئینہ کو میسج کرنا نہ بھولا تھا
آج آئینہ سے بات کر کے میرا ذہن بہت پرسکون تھا اتنے دن سے ہونے والے پراسرار اور مافوق الفطرت واقعات سے پراگندہ ذہن کو ایسے لگا جیسے سکون مل گیا ہو نیند خمار کی طرح میرے اعصاب پر سوار ہونے لگی اور میں دھیرے دھیرے نیند کی پرسکون وادی میں اتر گیا میرے خوابوں میں بھی آئینہ آج کی طرح میری ہمراہی تھی اچانک یوں لگا جیسے میرے اعصاب پر کوئی دھیرے دھیرے دستک دے رہا ہو
یہ مجھے پہلے اپنا وہم لگا لیکن جب دستک آہستہ آہستہ بڑھنے لگی تو میرا ذہن اچانک سے نیند سے جاگ اٹھا چند سیکنڈ لیٹ کر میں نے اپنے اعصاب مجتمع کیے اور سوچنے لگا کسی چیز کی آواز سے میں نیند سے جاگا ہوں اچانک وہ آواز پھر سنائی دی کوئی میرے کمرے کے دروازے پر دستک دے رہا تھا پھر دستک کے ساتھ کسی نے میرا نام پکارا
" ریان___ ریان دروازہ کھولو " آواز دوبارہ سنائی دی ابھی تک میرے اعصاب اتنے نہیں بیدار ہو سکے تھے کہ میں اندازہ لگا سکوں کے مجھے پکارنے والا کوئی مرد ہے یا عورت میں نے اللّٰہ کا نام لے کر دروازہ کھول دیا
لیکن میری حیرت کی کوئی انتہا نا رہی جب میں نے دیکھا کہ سامنے کوئی نہیں ہے، میں نے آگے پیچھے دیکھا مجھے کوئی نظر نا آیا تو میں نے آہستہ آہستہ چوکنا ہو کر رہداری عبور کرنا شروع گی مجھے بالائی منزل کی سیڑھوں کے آغاز پر کوئی سایہ اوپر جاتا ہوا نظر آیا
میں نے جلدی سے اپنے سلپینگ سوٹ کی جیب تھپتھپائی اس میں موبائل نہیں تھا میں جلدی سے واپس مڑا اور اپنے کمرے میں آ کر ٹیبل سے موبائل اٹھایا اور دوبارہ باہر کی طرف آیا
موبائل کی ٹارچ آن کر کے میں آہستہ آہستہ بالائی منزل کی سیڑھیاں عبور کرنے لگا ابھی میں سیڑھوں کے آخری سٹیپ پر ہی پہنچا تھا کہ کسی نے مجھے آگے کی طرف دھکا دیا
میں منہ کہ بل برآمدے کے فرش پر گرا…… موبائل میرے ہاتھ سے چھوٹ چکا تھا اور شاید اس دوران اسکی ٹارچ بھی بند ہو گئی تھی ………
کوئی چیز میری گردن پر رینگنے لگی پھر اس چیز کا شکنجہ میری گردن پر تنگ ہونے لگا …… دباؤ بڑھتا ہی جا رہا تھا …… میرا دم گھٹنے لگا تھا میں نے فرش پر گھسٹتے ہوئے خود کو سنبھالنا چاہ اور اس شکنجے سے اپنی گردن چھڑانے کیلئے جو ہاتھ بڑھایا تو میرا ہاتھ کسی کے سخت کھردرے استخوانی ہاتھوں پر پڑے جو میری گردن پر اپنا دباؤ ڈال رہے تھے …… میں نے بولنا چاہا لیکن دباؤ کے باعث میری آواز نہیں نکل رہی تھی بار بار آنکھوں میں پانی آ رہا تھا جس سے سامنے کا منظر دھندلا رہا تھا …… ایک تو گھپ اندھیرا اور آنکھوں میں آنسوؤں کی دھند …… آہستہ آہستہ میرے اعصاب میرا ساتھ چھوڑتے گئے اور میں بے ہوش ہو گیا
میری آنکھ کھلی تھی تو میں ایک دریا کے کنارے پڑا تھا اور کھلا آسمان تھا۔
میں نے پرندوں کی چہکار سنتے ہوئے آنکھیں کھول کر جاننا چاہا تھا کہ میں کہاں ہوں تبھی میں نے گردن موڑ کر دیکھا تھا اور میری عقل دنگ رہ گئی تھی وہاں کچھ فاصلے پر آئینہ حمزہ کھڑی تھی۔ اسے دیکھ کر میں ایک لمحے میں زمیں سے اٹھا تھا۔
"تم یہاں؟ آئینہ مجھے یہاں لانے والی تم ہو؟۔" میں نے حیرت سے اسے دیکھا تھا۔
آئینہ حمزہ مجھے دیکھ کر عجب پر اسرار انداز میں مسکرائی تھی اور مڑ کر چلتی ہوئی آگے بڑھنے لگی تھی۔
میں نے سرعت سے اس کا پیچھا کیا تھا۔
"What's that Ayiena? What are you doing? Why you are doing this to me?
میں سمجھ نہیں پا رہا تم میری مدد کر رہی ہو یا مجھے مزید الجھا رہی ہو؟ کون ہو تم؟ کیا چاہتی ہو؟۔" میں نے تیزی سے اس کی ساتھ چلتے ہوئے کہا تھا اور اس نے رک کر مجھے بغور دیکھا تھا اور مسکرا دی تھی پھر اس نے میرے سینے پر ہاتھ رکھ کر مجھے اتنی قوت سے فضا میں اچھال دیا تھا کہ میں کچھ سوچ یا سمجھ نہیں پایا تھا۔ کئی لمحوں تک میرا وجود ہوا میں معلق رہا تھا اور تب اس نے ہاتھ کا اشارہ کر کے مجھے زمین پر گرا دیا تھا اور پر اسرا انداز سے مسکراتی ہوئی آگے بڑھ گئی تھی۔
میں زمین ہر اتنی زور سے گرا تھا کہ مجھے کچھ ہوش نہ رہا تھا۔
میری آنکھ کھلی تھی تو میں اپنے روم کے بیڈ ہر تھا اور آئینہ میرے پاس بیٹھی تھی۔ میں نے آنکھیں کھول کر شدید حیرت سے اسے دیکھا تھا جب دادا کی آواز میری سماعتوں سے ٹکرائی تھی۔
"آئینہ نے بہت مدد کی ہے تمہاری تم دریا کنارے بے ہوش پڑے تھے وہ تو اچھا ہوا آئینہ نے تمہیں وہاں دیکھ لیا اور ڈرائیور کی مدد سے اٹھا کر تمہیں گاڑی میں ڈالا اور گھر لے آئی، مگر تم وہاں کرنے کیا گئے تھے؟ جانا تھا تو بتا کر جاتے میں کسی ملازم کو ساتھ بجھوا دیتا۔" دادا جی نے میری فکر کرتے ہوئے کہا تھا۔ اور میں حیرت سے آئینہ کو دیکھ رہا تھا۔
"آئینہ تھینکس، تم نے مجھے مدد دے کر گھر تک پہنچایا مگر میں نہیں جانتا دادا جی میں وہاں کیسے پہچا۔" آئینہ مسکرائی تھی اور مجھے یہ لڑکی اس آئینہ سے مختلف لگی تھی، میرے قریب بیٹھی آئینہ مجھے دوستانہ انداز میں مسکراتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔ اس کے چہرے پر نرمی تھی، معصومیت تھی یہ وہ نہیں تھی مگر پھر وہ کون تھی؟ میں حیران سے آئینہ کو دیکھنے لگا تھا جب اس نے سائیڈ ٹیبل سے جوس کا گلاس اٹھا کر میری طرف بڑھایا تھا اور نرمی سے بولی تھی۔
"اٹھو شاباش، اچھے بچوں کی طرح یہ جوس پی لو اور آئندہ کہیں جانا ہو تو مجھے بتا کر جانا، تم یہاں نئے ہو تمہارا اکیلا جانا مناسب نہیں۔" وہ دوستوں کی طرح میری بھرپور فکر کر رہی تھی اور میں حیران تھا۔
آئینہ نے میرا ہاتھ تھاما تھا۔
"چلو کہیں باہر چلتے ہیں، تم بہتر محسوس کرو گے، چلو اٹھو اور فریش ہو جاؤ میں تب تک دادا جی کی ساتھ بیٹھ کے گپ شپ لگاتے ہوئے شطرنج کھیلتی ہوں۔" آئینہ حمزہ نے مجھے بازو سے پکڑ کر اٹھایا تھا اور دادا کے ساتھ باہر نکل گئی تھی میں ماؤف دماغ کے ساتھ چلتا ہوا واش روم میں آیا تھا، فریش ہونے کے لئے واش بیسن کا نل کھولا تھا مگر تبھی واش روم کا دروازہ دھڑام سے بند ہوا تھا اور تمام نل کھل گئے تھے اور پانی اتنی تیزی سے بہنے لگا تھا کہ پورا واش روم پانی سے بھرنے لگا تھا۔ میں حیران سے تمام نل بند کرنے کی کوشش کرنے لگا تھا۔ پانی میری کمر تک آگیا تھا اور یکدم گردن تک۔ میں نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولنا چاہا تھا مگر لاک نہیں کھلا تھا میں ڈوبنے سے بچنے کے لئے تیزی سے ہاتھ پاؤں مارنے لگا تھا پانی میرے سر سے بھی اوپر ہو گیا تھا اور ہاتھ پاؤں مارتے ہوئے یکدم میرا ہاتھ کسی کے ہاتھ سے ٹکرایا تھا میں نے دیکھا تھا وہ آئینہ تھی اس نے میرا ہاتھ مضبوطی سے تھاما تھا اور مجھے پانی کے اندر سے کھیچ لیا تھا۔ واش روم کا دروازہ یکدم کھل گیا تھا اور پانی یکدم غائب ہو گیا تھا۔
"یو اوکے ریان؟۔" آئینہ نے پریشانی سے میری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔
میں نے گہری گہری سانس لیتے ہوئے سر اثبات میں جلا دیا تھا۔
"تم واش روم میں لاکڈ ہو گئے تھے میں نے تمہاری آواز سنی تھی اور تب میں نے دروازہ کھولنے کی بھرپور کوشش کی تھی جب دروازہ نہیں کھلا تو میں نے بیک یادڈ سے جاکر روشندان سے اندر داخلے کی راہ بنائی تم ٹھیک ہو نا؟۔" آئینہ نے پوچھا تھا۔ میں نے اسے بغور دیکھا تھا۔
"تم جانتی ہو آئینہ حمزہ کہ یہ سب میرے ساتھ ہو رہا ہے، کیوں ہو رہا ہے شاید تم ریزن بھی جانتی ہو نا؟۔" میں نے اس سے پوچھا تھا اور اس نے حیرت سے میری طرف دیکھ کر سر نفی میں ہلا دیا تھا۔
"ریان الحق میں کچھ نہیں جانتی مگر اتنا جانتی ہوں کے تم مشکل میں تھے اور مجھے تمہاری مدد کرنا ضروری لگا۔ اس سے زیادہ میں کچھ نہیں جانتی۔" وہ کچھ بتانے سے انکاری تھی اور میں اس کی طرف دیکھ کر رہ گیا تھا۔
Post a Comment (0)
Previous Post Next Post