Khamoshi episode 4 - ushna sardar kausar

 

Khamoshi novel by ushna sardar kausar


قسط نمبر 4
از قلم:
1: عشنا کوثر سردار
2: صبا جرال
3: ماورہ طلحہ
4: اقراء اسلم
5: خدیجہ عطا
6: مہوش ملک
7: سیّدہ فرحین نجم
8: کوثر ناز
9: عائشہ تنویر
10: رابعہ امجد
11: اقصیٰ سحر
12: ماہ نور نعیم
13 فاطمہ نور
اس لڑکی کے بارے میں کچهہ تو غیر معمولی ہے میں نے دل میں سوچا مگر کیا. اس کا پر اعتماد انداز، اسکی خوبصورتی یا کچهہ اور
میں نے نظر اٹها کر ایک مرتبہ پهر سے میز کے دوسرے سرے پر بیٹهی اس پراسرار لڑکی کی طرف دیکها اور میرا دماغ بهک سے اڑ گیا. میرے سامنے وہی اده جلی لڑکی بیٹهی تهی جس کی لاش میں نے حویلی کے پیچهے گهنے جنگل کی جهاڑیوں میں دیکهی تهی.
میں نے حرکت کرنا چاہی مگر میرا جسم تو جیسے مفلوج ہو چکا تها. میں بے بسی کی انتہا پر تها. بہت کوشش کے باوجود بهی کوئی آیت کوئی دعا مجهے یاد نہیں آ رہی تهی.
جب کچهہ بهی نہ سوجها تو میں نے پوری شدت سے اپنی آنکهیں بند کر لیں تبهی ایک نرم اور خوشگوار لمس مجهے اپنے ہاتهہ پر محسوس ہوا اور ایک شناسا آواز میری سماعتوں سے ٹکرائی
”پلیز آنکهیں کهولیئے آپ ٹهیک تو ہیں ناں“
میں پوری طرح اس بهیانک منظر سے باہر آ چکا تها. جیسے ہی میں نے آنکهیں کهولیں ارد گرد لوگوں کا ہجوم دیکھ کر میں قدرے شرمندہ ہوتے ہوئے اس خوبصورت لڑکی کو وہیں حیرانی میں چهوڑ کر باہر نکل آیا.
میں شاید شدید قسم کے شاک کے زیر اثر آگیا تھا .. مجھے ہر جگہ اس پراسرار حویلی کے کردار نظر آرہے تھے، دادا جی سے بات کرنا چاہتا تھا لیکن وہ بھی نہیں ہو پا رہا تھا ...
مجھے لگتا ہے کہ مجھے کچھ دن کی چھٹیاں لے کر اماں کے پاس چلے جانا چاہیے, رات کے کھانے پہ دادا جی کے سامنے میں اپنے دل کی بات کہہ دی
دادا جی تو چونکے ہی میری بات کے جواب میں دادا جی کے پیروں میں بیٹھی پراسرار بلی نے ایک دلخراش آواز نکالی
میں نے ایک بےزار نظر اس پہ ڈالی اور بے دلی سے کرم دین کے ہاتھ کے بنے نمکین چاول کھانے لگا
”کیوں میاں...؟ یہاں کوئی مسئلہ ہے تو ہمیں بتاؤ“ دادا جی ہاتھ روک کے مجھے گھور رہے تھے میں مزید بے زار ہوگیا
کوئی سرا ہاتھ آتا نہیں تھا اور حالات الجھتے جا ریے تھے
نہیں دادا جی, بہت دن ہو گئے, اماں سے صرف فون پہ ہی بات ہوئی تو سوچ رہا ہوں ان کے پاس ہو آؤں
میرا جواب سن کے دادا جی معنی خیز انداز میں سر ہلانے لگے ......
”بھاگنا چاہتے ہو“ دادا جی کی بات پہ میں چونک گیا
”جی دادا جی بچے ایسے ہی اپنی ماؤں کے پاس بھاگ بھاگ کے جاتے ہیں“, کرم دین نے بیچ میں ٹکڑا لگایا
اس کے چہرے اور ہاتھوں پہ خراشوں کے نشان اب تک نمایاں تھے میں مسکرا کر رہ گیا
میں اماں اور جوجو کو مس تو کر رہا تھا لیکن اصل میں یہاں ہونے والے پراسرار واقعات سے ذہن ماؤف ہوگیا تھا تھوڑا ریلیکس ہونا چاہتا تھا .. دو دن بعد اتوار تھا تب ہی ایک ہفتہ کے لیے میں واپس جا رہا تھا
بستر پہ آگے کا لائحہ عمل تیار کرتے کرتے اچانک ایک حسین چہرہ آنکھوں مین سما گیا کیا پیارا سا نام بتایا تھا آئینہ___ وہ سچ میں آئینہ کی طرح شفاف تھی ان سب حالات میں اس پری وش کا خیال دل میں نئے نغمے بجا گیا تھا جانے سے پہلے ایک بار پھر اس کافی شاپ میں جانا پڑے گا آنے والے کل کو نظر انداز کیئے میں کافی دیر تک اس حسینہ کے خیال میں کھویا رہا اور پتا نہ چلا کب نیند کی دیوی مجھ پہ مہربان ہو گئی
خلاف معمول آج کی صبح انتہائی خوشگوار تهی. تمام رات ایسا کوئی ناخوشگوار واقع بهی وقوع پزیر نہیں ہوا جس سے میرے واپسی کے فیصلے کو تقویت ملے. کمرے کی بڑی بڑی کهڑکیوں پر انتہائی قیمتی دبیز پردے لٹکے ہوئے تهے. جس سے کمرے میں اب تک تاریکی تهی. اپنے قیام کے اتنے سارے دن میں ایک بار بهی میں نے ان پردوں کی دوسری جانب کی دنیا نہیں دیکهی. اسی خیال کے زیر اثر میں بستر سے اترا اور ایک جهٹکے سے پردے کو دائیں جانب سرکا دیا.
کهڑکی کی دوسری جانب کا حصہ میرے لیئے بالکل اجنبی تها. باقی حویلی کے برعکس اس حصے میں جدت کے آثار ناپید تهے. اس سب کے باوجود یہ حصہ حویلی کے کسی بهی دوسرے حصے سے زیادہ پر کشش تها. بالکل سامنے بہت سے کمرے تهے . جن کے دروازوں پر تالے پڑے تهے. ان تالوں پر سیاہ اور سرخ رنگ کے بے شمار دهاگے بندهے تهے.
ان کمروں کے آگے ایک بڑا صحن تها صحن کی بائیں جانب لکڑی کا ایک خوبصورت میز رکها تها. میز پر ایک گلدان میں سفید رنگ کے تازہ پهول رکهے تهے.
مجهے خوشگوار حیرت ہوئی . مگر دادا جان نے تو مجهے کبهی نہیں بتایا کہ اس حصے میں کوئی رہتا ہے. مگر پهر وہ تالے میں نے دل میں سوچا اور منتشر سوچوں کے ساتهہ باتهہ روم کی طرف بڑها. .
میں کافی لیٹ ہو چکا تھا آفس سے اس لئے جلدی تیاری کر کےآفس چلا گیا ۔
آفس کے کاموں سے فراغت ملی تو میں میرے ذہن میں گزشتہ دنوں کے تمام واقعات کسی فلم کی طرح چلنے لگے ۔
میں توہمات کا شکار ہونے والوں میں سے نہیں تھا اور نہ ہی اس قدر کمزور اعصاب کا مالک تھا ٹین ایج میں، میں اور میرے دوستوں نے اس طرح کے کئ اڈونچرز کئے تھے لیکن پھر بھی ان واقعات نے میرے اعصابوں کو بری طرح سے منتشر کردیا تھا ۔
میں سر ہاتھوں میں دیئے بیٹھا تھا جب پیون نے آکر باس کا پیغام دیا ۔ میں خود قدرے کمپوز کرتا ہوااسکے پیچھے چل دیا ۔ اور وہاں جا کر مجھے جو معلوم ہوا اس سے میں مزید افسردہ ہو گیا ۔
باس نے میری چھٹی کی درخواست کو فلحال ریجیکٹ کردیا تھا ۔ انکا کہنا تھا کہ پہلے ہی اسٹاف کے کچھ حضرات چھٹیوں پر تھے ایسے حالات میں وہ میری غیر حاضری کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے ۔
میں واپس اپنے آفس میں آ کر آئیندہ کا لائحہ عمل تیار کرنے لگا ان حالات میں مجھے کیا کرنا چائیے تھا ۔ میرے پاس دو آپشنز تھے یا تو میں حویلی اور اس پر چھائی پر اسراریت کو وہیں چھوڑ کر اپنے لئے الگ گھر کا بندو بست کروں یا پھر ان تمام حالات کا جواں مردی سے مقابلہ کرتے ہوئے حقیقت کی تہہ تک پہنچوں ۔ اور میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں حقیقت تک پہنچ کر ہی رہوں گا ۔ اس فیصلے کے بعد میں خود میں اک نئی طرز کی قوت محسوس کر رہا تھا۔
شام میں ایک نئے ولولے اور جوش کے ساتھ حویلی کے لئے روانہ ہوا حویلی پہنچ کر میرا ارادہ کرم دین سے معلومات لینے کا تھا جب میں اتنے کم عرصے میں میرے ساتھ ایسے سنسنی خیز واقعات ہو چکے تھے تو کرم دین تو اس حویلی میں کافی عرصے سے ملازمت کر رہا تھا ۔
میں کرم دین کو آوازیں دیتا پوری حویلی میں گھوم رہا تھا لیکن وہ مجھے کہیں نظر نہ آیا ۔ تا ہم بلی آنگن میں بڑی خاموشی سے میری حرکات کا جائزہ لے رہی تھی میں اسے مکمل طور پر نظر انداز کئے کرم دین کو تلاش کرتا رہا لیکن وہ مجھے کہیں نہیں دکھا دادا جی بھی نجانے کہاں غائب تھے ۔ جب میں ہر جگہ کرم دین کو ڈھونڈنے میں ناکام ہو گیا تو نڈھال سا اپنے کمرے کی جانب بڑھنے لگا دفتعاً مجھے حویلی کی بالائی منزل کا خیال آیا اور میں سیڑھوں کی جانب بڑھا ...
میں تجسس سے سیڑھیاں چل رہا تھا تب ہی مجھے اپنے پیچھے آہٹ کا احساس ہوا
مڑ کے دیکھا تو وہی پراسرار بلی دھیمے قدموں سے چلتی آرہی تھی یوں جیسے کوئی کھوجی کھوج لگانے کے لیے بغیر آواز چلتا ہے, یہ حویلی میرے لیے کسی حیرت کدہ سے کم نہ تھی ...
نہ چاہتے ہوئے بھی اسے نظر انداز کر کے میں محتاط انداز میں آگے بڑھ رہا تھا تب ہی ایک دھماکہ دار آواز آئی ایسے جیسے بہت سارا سامان ایک ساتھ کہیں گرا ہو
یہ آواز راہداری کے دائیں جانب بنے کمروں میں سے کسی ایک میں سے آرہی تھی, میں مزید محتاط ہوگیا, بلی کی طرف سے میرا دھیان بھٹک گیا دل ایسے دھڑک رہا تھا جیسے ابھی سینے سے باہر آجاۓ گا حویلی کے اوپر ی حصے میں لائٹ کا انتطام بھی براۓ نام تھا, اندھیرا اس پراسرار حویلی کو مزید خوف ناک بنا رہا تھا
میں آگے بڑھتا گیا اور حیران ہوتا گیا, پر کمرے کے دروازے پہ بڑے بڑے تالے میرا منہ چڑا رہے تھے, لیکن .. پھر آواز کہاں سے آئ ..؟؟
میں سوچ رہا تھا آنکھیں مکمل پھٹی ہوئی اندھیرے میں جیسے روشنی تلاش کر رہی تھیں ... ہلکی آہٹ پہ میں مڑا ... اور .. میرا دم جیسے حلق میں آگر اٹک گیا, قریب تھا کہ میرے حواس ساتھ چھوڑ جاتے میں نے زبانی یاد تمام سورتوں کا ورد شروع کر دیا, میرے سامنے وہی ادھ جلے منہ والی لڑکی کھڑی تھی....
Post a Comment (0)
Previous Post Next Post