Khamoshi Episode 2 - Ushna Kausar Sardar

 

Khamoshi novel by ushna sardar kausar

قسط نمبر 2
مصنفین: (Writers)
1: عشنا کوثر سردار
2: اقصیٰ سحر
3: ماہ نور نعیم
4: فاطمہ نور
5: خدیجہ عطا
6: مہوش ملک
7: سیّدہ فرحین نجم
8: کوثر ناز
9: عائشہ تنویر
10: رابعہ امجد
11: صبا جرال
12: ماورہ طلحہ
13: اقراء اسلم
بستر پہ لیٹے ہوۓ میں چھت کو گھورتا رہا، دروازہ اچھے سے بند کرنا نہیں بھولا تھا،
میں حیران تھا کہ میں نیند میں کیسے چل کر داخلی دروازے تک پہنچ گیا مجھے اس طرح کی کوئی بیماری نہیں تھی، بلکہ اماں تو میری نیند سے پریشان ہوتی تھیں کہ یہ جس کروٹ سوتا ہے اسی کروٹ اٹھتا ہے
اب یہاں نیند میں چلنا میری پریشانی کا باعث بن رہا تھا، میں نہ جانے کتنی دیر پریشان کن سوچوں میں کھویا رہا اور پھر میری آنکھ لگ گئی
نیند تو کانٹوں پہ بھی آجاتی ہے اور میں تو ایک نرم و گرم بستر پہ دراز تھا نیند کی دیوی مہربان ہو ہی گئی ...
دھم .... میں جو گہری نیند سویا ہوا تھا، ایک شور سے میری آنکھ کھلی میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا
کمرے میں چاروں طرف ہلکی روشنی صبح کی آمد کا پتا دے رہی تھی میں اس آواز کا سبب تلاش کر رہا تھا تبھی میری نظر دروازے پہ پڑی،
دروازہ چوپٹ کھلا ہوا تھا جبکہ میں رات کو بند کر کے سویا تھا ..
میں حیران سا بستر سے اتر آیا...
گھڑی صبح کے 8 بجا رہی تھی.. میں دروازہ کو چیک کرتا راہداری میں جھانکنے لگا...
جب سے میں یہاں آیا تھا اس پراسرار بلی کے بعد یہ دوسرا موقع تھا جس نے مجھے ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا،
رات نیند مینں چلنا اور اب یہ دورازہ کا کھلا ملنا راہداری حدِ نظر تک سنسان پڑی تھی
حویلی پرانے طرز پہ بنی ہوئی تھی، عمارت کافی پرانی لیکن مضبوط تھی، دادا کا کمرہ سامنے بائیں جانب تھا، بیچ میں ایک وسیع وعریض لاؤنج تھا دائیں جانب سے سیڑھیاں اوپر کی جانب جا رہی تھی، اوپر بھی کم و بیش 8 کمرے تھے
میں دوبارہ کمرے میں آکر کمرے کا جائزہ لینے لگا... سب کچھ اپنی جگہ پہ تھا، کافی دیر تلاش کرنے کے بعد بھی مجھے کوئی سرا ہاتھ نہ لگا تھا، میں بے زار سا فریش ہونے کے خیال سے اپنے کپڑےلینے لگا تو حیرت کا ایک اورجھٹکا لگا... میں نے رات ہی کپڑےپریس کر کے کرسی پہ رکھے تھے... اب میری شرٹ غائب تھی
میں سچ میں پریشان ہو گیا تھا
نیند میں چلنا، دروازہ کا کھلا ملنا اور اب میری شرٹ کا غا ئب ہو جانا
مجھے الاٹ کیا گیا کمرہ کافی کشادہ تھا، داخلی دروازے کے دائیں جانب بیڈ رکھا تھا، بیڈ کے سائیڈ میں ایک دیوار گیر الماری بنی ہوئی تھی، بائیں جانب ایک چھوٹی میز اور دو کرسیاں رکھی تھیں اور ان کے پیچھے لکڑی کی ایک الماری ایستادہ تھی جو غالباً کتابیں رکھنے کے لیے استعمال ہوتی ہوگی،
بیڈ کے بائیں جانب ایک پرانے طرز کی سنگھار میز رکھی تھی، اور اسی کے ساتھ ایک کھڑکی تھی جس پہ دبیز پردے پڑے ہوۓ تھے، میں کمرے میں صرف سونے کی غرض سے ہی آتا تھا باقی سارا وقت آفس کے بعد دادا جی کے ساتھ گزرتا تھا.. اس لیے کبھی کھڑکی کھولنے کی ضرورت محسوس نہ کی تھی، کھڑکی کے بالکل اوپر ایک بڑا روشن دان تھا جسے باریک جالی کی مدد سے کور کیا گیا تھا، کمرے میں وہ ہوا اور روشنی کا واحد ذریعہ تھا ..
میں پورے کمرے میں اپنی شرٹ تلاش کر کے تھک چکا تھا لیکن کوئ سراغ نہ ملا، تھک کر میں نے دوسری شرٹ نکالی اور فریش ہو کے تیار ہو کر ناشتے کے لیے ڈائنگ ہال تک آگیا.. دادا جی وہیں بیٹھے شاید میرا ہی انتظار کر رہے تھے
مجھے دیکھتے ہی کرم دین کو ناشتے لانے کےلیے آواز لگا دی وہ اس حویلی کا کل وقتی اور اکلوتا ملازم تھا
اسلام علیکم دادا ج....ا....ن....میں جو دادا جی سلام کر کے بیٹھنے ہی لگا تھا الفاظ میرےمنہ میں رہ گئے .. نظریں ساکت ہوگئیں ...
میرے سامنے کھانے کی میز کے دوسری طرف رکھی کرسی پر بیٹھے وہ دادا جان نہیں تھے بلکہ ایک عجیب ڈراؤنی شکل کا کوئی بوڑھا آدمی بیٹھا تھا....... پیچھے سے دیکھنے پر وہ بالکل دادا جان کی طرح دکھائی دیتا تھا لیکن سامنے سے اس کا چہرہ بہت بھیانک تھا.......
میں نے ملازم کو آوازیں دینا شروع کیں لیکن وہ بھی کہیں غائب ہو چکا تھا .......
اتنی دیر میں ... میں نے دادا جان کو اپنے کمرے سے نکلتے ہوئے دیکھا تو لپک کر ان کی طرف گیا
دا..... دادا جان وہ دیکھیں
کھانے کی میز پر .........
میں نے ہکلاتے ہوئے دادا جان کو بتایا اور میز کی طرف دیکھتے ہوئے اشارہ کیا تو حیرت سے میرا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا
وہاں کوئی بھی نہیں تھا
ریان بیٹا ہم تو تمہیں بہت بہادر سمجھتے تھے لیکن تم تو بڑے بزدل نکلے
دادا جان نے مسکراتے ہوئے مجھ پہ طنز کیا تو
میں نے ایک شرمندہ نگاہ ان کے چہرے پہ ڈالی
ان کے ہونٹوں پہ بڑی پر اسرار مسکراہٹ تھی ..........
اس کے بعد میں نے بہت بجھے ہوئے دل سے آفس جانے کی تیاری کی ......
میری جاب اتنی ٹف تھی کہ میں حویلی میں ہونیوالے غیر معمولی واقعات بھلا بیٹھا........
شام چار بجے میں جلدی جلدی اپنا کام نبٹا کر آفس سے باہر نکل آیا
تو ایبٹ آباد شہر سے گاؤں (حویلی ایبٹ آباد سے ایک گھنٹے کے فاصلے پہ موجود ایک چھوٹے سے گاؤں میں تھی....) جانیوالی کسی سواری کے انتظار میں کھڑا تھا جب میرے ایک کولیگ نے مجھے لفٹ دینے کی آفر کی تو میں نے اسے گاؤں کا نام بتا کر گاڑی میں بیٹھ گیا
راستے میں بات چیت کے دوران اس نے مجھے بتایا کہ اس گاؤں میں چار پانچ سال پہلے ایک بہت ہی بھیانک واقعہ ہوا تھا
میرے اسرار پر وہ مجھے بتانے لگا
کہ گاؤں کی ایک بہت پرانی حویلی میں ایک بوڑھے آدمی کا کسی نے بڑی بے دردی سے قتل کر دیا تھا حویلی کو آگ لگا دی تھی ......
لوگوں کا کہنا ہے کہ اس بوڑھے کی روح اس حویلی میں ابھی بھی بھٹک رہی ہے ........
اس دوست کی باتوں نے میرے رونگٹے کھڑے کر دہے
میں نے سوچا آج دادا جان سے ضرور اس حویلی کے بارے میں پوچھوں گا شاید دادا جان اس کے بارے میں جانتے ہوں
میں دل میں ڈھیروں سوال لیے حویلی میں داخل ہوا تو میرے قدم من بھر کے تھے
ایک تو کل سے ہونے والے پے در ہے واقعات، سارا دن کام کی تھکن اور اب یہ نئی کہانی
داخلی دروازے سے اندر آتے ہی میرا رخ کمرے کی جانب تھا میں فریش ہو کے آرام کرنا چاہتا تھا، تبھی میرے قدم جیسے کسی نے پکڑ لیے ... صبح سے جس شرٹ کی میں تلاش میں تھا کمرے کے دروازے کے باہر وہی ,پراسرار بلی اس کے اوپر بیٹھی تھی، میری آہٹ پہ اس نے مجھے دیکھا آج اسکی انکھوں میں مجھے ایک خاص چمک نظر آئی ...
میری آنکھوں کے سامنے ہی وہ شرٹ کو منہ میں دباۓ سیڑھیوں کی جانب کھنچتی ہوئی لے گئی، سیڑھیوں پہ رک کے اک بار پلٹ کے میری جانب دیکھا، منہ سے ایک دلسوز آواز نکالی جیسے رو رہی ہو اورسیڑھیاں چڑھ گئی_____“

جاری ہے 


Khamoshi All Previous Episodes

Post a Comment (0)
Previous Post Next Post