Khamoshi Episode 19 - Last Episode

 

Khamoshi novel by ushna sardar kausar


آخری قسط 19
از قلم:
عشنا کوثر سردار
اقصیٰ سحر
ماہ نور نعیم
فاطمہ نور
رابعہ امجد
صبا جرال
ماورہ طلحہ
اقراء اسلم
خدیجہ عطا
مہوش ملک
سیّدہ فرحین نجم
کوثر ناز
عائشہ تنویر
کیٹی کے منہ سے پھر دھواں نکل رہا تھا
اس سے پہلے کہ وہ کیٹی کو پکڑتے ایفا نے تیسرا تعویز آگ میں ڈال دیا کیٹی نے اب اور تڑپنا شروع کر دیا اس کے منہ سے چیخیں نکل رہیں تھیں دادا جی خود ہی ڈر کے پیچھے ہٹ گیے
تم کیوں پیچھے پڑے ہو اس کہ کیوں اس کی جان لینے پر تلے ہو روکو ایفا کو وہ نا مارے اس کو انہوں نے میرے سامنے ہاتھ جوڑ دیے
"دادا جی" میں تڑپ کے گویا ہو
"یہ کوئی عام بلی نہیں ہے اس میں بہت سی بد روحیں ہیں" میں نے انہیں بتانا چاہا
"مجھے سب معلوم ہے تم منع کرو ایفا کو کہ وہ ایسا نا کرے" دادا جی کی بات نے ہم سب کو ششدر کر دیا تو کیا وہ سب جانتے تھے تو انہوں نے یہ سچ کیوں چھپایا سب سے "ایفا رک جاؤ" وہ ایفا کی طرف بڑھے
"وہ رک جائے گی مگر پہلے اپ کو سچائی بتانی ہو گی" عالم صاحب نے ایفا تک پہنچنے سے پہلے ہی ان کو روک لیا
"سچائی؟ کیسی سچائی کیا جاننا چاہتے ہو تم؟"
دادا جی لہجے سوالیہ تھا
"ایک ذی ہوش انسان یہ جانتے بوجھتے بھی کہ وہ جس گھر جس حویلی میں رہتا ہے وہ بھوتوں بدروحوں کا مسکن ہے پھر بھی ان سے ڈرتا نہیں خوف نہیں کھاتا ان کا کوئی توڑ کوئی تدارک نہیں کرتا ایسی شیطانی قوتوں کے ہاتھوں کئی معصوم جانیں چلی جاتی ہیں مگر وہ خاموش تماشائی بنا رہتا ہے اس کے قریبی لوگ ان قوتوں کے ہاتھوں زک اٹھاتے نقصان برداشت کرتے ہیں مگر اس کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی کوئی کیسے اتنا بے حس ہو سکتا ہے جب تک جب تک کہ اس کے سینے میں دل نا ہو وہ عام انسانی جذبات نا رکھتا ہو جب تک جب تک کہ وہ زندہ نا ہو؟"
عالم صاحب کے سوال نے سب کو چونکا دیا تھا سب نے سوالیہ سہمی نظروں سے دادا جی کو دیکھا ریان خود یہ سوال بارہا دادا جی سے پوچھنا چاہتا تھا بارہا یہ شک اس کے دماغ میں کلبلایا تھا مگر وہ کوئی نا کوئی تاویل دے کر کوئی توجیہہ دے کر خود کو مطمئن کر لیتا تھا مگر اب
"تو تمہارے کہنا کہ یہ مطلب ہے کہ میں میں شفیق الرحمٰن ایک بدروح ہوں میں مر چکا ہوں اور جو آپ لوگوں کے سامنے کھڑا ہے وہ ایک سراب ایک بدروح ہے" دادا جی نے سب کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا
"واہ بہت خوب یعنی کہ مجھے ہی بدروح بنا دیا مجھے ہی مار دیا کوئی آسیب سمجھ لیا ہے ثبوت چاہیے تم سب کو تو میرے زندہ ہونے کا میرے انسان ہونے کا تو تو لو پھر ثبوت، ڈالو اس کلام پاک کا پانی مجھ پر ڈالو یہ، دو دھونی ان تعویذوں کی تاکہ تمہیں یقین آئے تمہارا شک دور ہو کر لو اپنا شک دور"
دادا جی کی باتوں پر ایفا نے سوالیہ نظروں سے عالم بابا اور یلماز حیدر کی سمت دیکھا جیسے ان کی طرف سے کسی حکم کی منتظر ہو جیسے دادا جی کہ چیلنج کو قبول کرنے کی اجازت لے رہی ہو عالم بابا نے ایفا کی سمت دیکھا اور اور اثبات میں سر کو جنبش دی اجازت ملنے کی دیر تھی کی کہ ایفا نے دم کئے پانی پر اپنے ہاتھ کی گرفت مضبوط کی وہاں ہر کوئی سانس روکے دم سادھے آنے والے لمحے کے خوف سے جم گیا تھا ڈر رہا تھا
ایفا نے آنکھیں بند کر کے پانی دادا کی کی طرف اچھالا کچھ دیر بعد جب اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو دادا جی اس کے سامنے صحیح سالم اپنے اصل روپ میں کھڑے تھے کہیں کوئی دھواں کوئی چیخ کوئ شکل ہیت میں تبدیلی واقع نہیں ہوئی تھی پھر ایفا نے تعویزوں کو اٹھا کر ان کی دھونی دادا کی طرف کی اب بھی پہلے ہی کی طرح سب کچھ ویسے ہی رہا تھا ریان جذباتی ہو کر دادا کے گلے لگ گیا
"پیچھے ہٹو برخوردار یہ کوئی جذباتی ڈرامہ نہیں ہے بہت ہو گیا تماشا بند کرو یہ سب کہاں ہے کیٹی"
دادا نے جو کیٹی کو آواز دیتے ہوئے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہاں کسی بلی کہ نام نشان تک نا تھا وہاں بس راکھ پڑی تھی جس میں سے دھواں نکل رہا تھا دادا جی نے جب چہرہ موڑا تو ان کی آنکھیں نم تھیں کیٹی کی موت نے دادا جی کو رولا دیا تھا ریان اور سب کی توجہ دادا جی اور کیٹی کی طرف تھی ایسے میں آئینہ کو دوبارہ سے ریان پر اپنی گرفت کرنے کا موقع مل گیا تھا
"چلو تم میرے ساتھ میں تمہیں لے کر جاؤنگی یہ دنیا نہیں ہے تمہارے لیے تم ہی میری دنیا ہو میں تمہیں کسی اور کا ہونے نہیں دونگی"
ریان جس کی توجہ دادا کی طرف تھی اس اچانک افتاد پر بوکھلا کر رہ گیا آئینہ کے سخت سرد ہاتھ اور نوکیلے پنجوں کی گرفت اس کے ہاتھ پر کسی شکنجے کی محسوس ہو رہی تھی اسے لگا اس کا ہاتھ ٹوٹ کر ابھی بازو سے الگ ہو جائے گا ایفا نے جو آئینہ کو دوبارہ ریان پر گرفت سخت کرتے دیکھا تو جلدی سے تعویز اور دم والے پانی کو سنبھالا
"نہیں آئینہ یہ تمہارے ساتھ نہیں جائے گ یہ تمہاری دنیا کا باسی نہیں ہے اپنے وقت پر لکھی موت سے پہلے یہ مر نہیں سکتا اور نا تم اسے کہیں لے جا سکتی ہو اپنی دینا میں کہیں تمہیں واپس جانا ہو گا اکیلے اپنی دنیا میں اپنے اصل کی طرف اپنی روح کو سکون دینا ہو گا اب اس مادی دنیا سے تمہارا کوئی تعلق کوئی رابطہ نہیں ہونا چاہیے "
"نہیں تم مجھے واپس نہیں بھیج سکتی تم میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتی میں تم سے زیادہ طاقت ور ہوں یہ تمہارا نہیں میرا ہے میرا حق ہے ریان پر "
یہ کہتے ہی آئینہ نے ریان کو اپنی سمت کھینچا ریان کسی بے جان وجود کی طرح اس ساتھ ساتھ گھسٹتا چلا جا رہا تھا
ایفا کو لگا اب ذرا سی دیر بھی ریان کی جان کیلئے خطرے کا باعث ہے وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کی کوتاہی سے ریان کو ذرہ برابر بھی نقصان پہنچے اسی لیے اس نے پانی کے پہلے چند چھینٹے ہی آئینہ کی طرف اچھالے تھے کہ آئینہ کسی عفریت کی طرح چنگھاڑتی ہوئی پیچھے مڑی اور اپنا ہاتھ بلند کیا اور ایفا کو دھکا دینے کی طرح اشارہ کرتے ہوئے اس کی طرف بڑھی ایک ہاتھ سے ریان کو بھی پکڑ رکھا تھا آئینہ کی گرفت ایفا کی گردن کے گرد تنگ ہونے لگی اسے اپنا سانس گھٹتا ہوا محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کا دم ابھی نکل جائے گا پھر جانے کہا سے اس کے اندر اتنی طاقت بھر گئی کہ اسے نے ایک جھٹکے سے آئینہ کو پرے اچھال دیا اس سب افراتفری میں ریان کب بے دم ہو کر بےہوش ہو گیا تھا ایفا کو خبر نہیں ہوئی تھی اور کچھ نا ملا تو اس نے وہی دم والا پانی ریان پر چھڑک دیا تاکہ وہ ہوش میں آ جائے
" ریان ریان پلیز آنکھیں کھولو اپنی پلیز"
آئینہ جو دور جا کر گری تھی ایفا کو ریان کی طرف متوجہ دیکھ کر پھر اسی سمت لڑکھڑاتے ہوئے بڑھی
"نہیں دینا چاہتی نا تم مجھے اس کو اپنے پاس رکھنا چاہتی ہو نا اب دیکھو یہ میرا نہیں ہو سکتا تو میں اسے تمہارا بھی نہیں رہنے دونگی"
یہ کہہ کر آئینہ نے اپنے ہاتھ کو عجیب طرح سے حرکت دی اس کے ہاتھوں میں سے عجیب سی روشنی پھوٹنے لگی جو ریان کی سمت بڑھ رہی تھی گر جیسے ہی وہ اس کے نزدیک پہنچی ایسا لگا اس روشنی اور ریان کے بیچ ایک دیوار حائل ہو گئی ہے یہ انجانے میں چھڑکے جانے والے پانی کا اثر تھا کہ آئینہ کی بری طاقت ریان پر اثر نا کر سکی اور وہ آئینہ کے ہاتھوں نقصان اٹھانے سے محفوظ رہا
اتنی دیر میں ایفا کو دم والا پانی چھڑکنے کا موقع مل گیا اور آئنیہ کی دلدوز چیخوں سے کمرہ گونج اٹھا مزید کسی تاخیر کے بغیر تعویز کو جلاتے ہوئے ایفا نے چاروں طرف آئنیہ کہ دھونی دینی شروع کر دی اس تک یہ دھواں پہنچنے کی دیر تھی کہ آئینہ کا وجود دھویں کی صورت تحلیل ہونے لگا اور ہوتے ہوتے ہوتے یہ دھواں فضا میں غائب ہو گیا
آئینہ کے غائب ہونے کی دیر تھی کہ کسی سمت سے روحا کمرے میں داخل ہوئی
"اب جبکہ آئینہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اپنی اصل دنیا میں چلی گئی ہے تو مجھے بھی ادھر ہی چلے جانا چاہیے میرا اس حویلی کو مسکن بنانے کا ایک واحد مقصد تھا اور وہ تھا آئینہ سے اپنی موت کا بدلہ لینا اب جب کے وہ یہاں نہیں رہی تو میرا بھی یہاں رہنے کا کوئی فائدہ اور جواز نہیں اسی لیے مجھے بھی اپنے اصل کی طرف لوٹ جانا چاہیئے"
یہ کہہ کر روحا بھی غائب ہو گئی تھی
"اب جبکہ سب بدروحوں کا صفایا ہو چکا ہے تو"
یلماز حیدر نے کہنا شروع کیا مگر دادا جی نے درمیان میں ہی اسے ٹوک دیا
"نہیں ابھی اس حویلی میں مقیم بدروحوں کا اثر زائل نہیں ہوا ہے"
دادا جی بات نے سب کو اچنبھے کا شکار کر دیا
"شفیق الرحمٰن صاحب ٹھیک کہہ رہے ہیں"
عالم صاحب نے حاضرین پر ایک نظر ڈال کر کہا
"اس بالائی حصے کے ان سب کمروں میں ابھی اثر باقی ہے جن پر تالے لگائے گئے ہیں چونکہ اس اثر سے نبٹنے کیلئے کسی نے ان دھاگہ نما تالوں کا سہارا لیا تاکہ یہ برا اثر ان کمروں تک ہی محدود رہے ابھی ہمیں اس طرف بھی توجہ دینی ہے"
یلماز حیدر جو سب کچھ خاموشی سے سن رہا تھا اضافہ کرتے ہوئے بولا
"میرے پاس ایک ایسا آلہ ہے جو باہر کے ممالک میں" پیرانارمل ایکٹیویٹز کی جانچ پڑتال کیلئے استعمال ہوتا ہے یہ ماحول میں اچانک در آنے والی تبدیلیوں کو نوٹ کرتا ہے جیسے درجہ حرارت کا ایک دم کم ہو جانا یا بڑھ جانا جس کی بظاہر کوئی وجہ نا ہو یا ساؤنڈ وویوز کے ذریعے ماحول کی غیر ماورائی آوازیں سننا اور ریکارڈ كرنا ہمیں ان کمروں میں موجود اثرات کو جانچنے کیلئے اس آلہ کا استعمال کرنا چاہیے اور میرا کمیرہ تو ویسے ہی میرے پاس ہے وہ ہر سین کو کیپچر کر لےگا"
"اس سب کیلئے دادا جی کی اجازت لینی ضروری ہے"
ریان نے سب کو تجویز دی
"ارے میاں جانے دو یہ ابھی جو تم سب نے مل کر کیا ہے اس کے لیے تم نے مجھ سے اجازت لی تھی ؟؟ میری بلی کو مار دیا میری حویلی کو تماشا بنا لیا ہے تم لوگوں نے" دادا جی کی خفگی کا اظہار کرتے ہوئے بولے
"اس کا مطلب ہے آپ راضی ہیں"
ریان پرجوش ہوا اور عالم صاحب اور ایفا کی ہمراہی میں ان سب کمروں کی سمت بڑھ گیا جہاں دھاگوں کو تالوں کے طور پر استعمال انہیں بند کیا گیا تھا یلماز حیدر اپنی گاڑی سے وہ آلہ لینے گیا تھا
عالم صاحب نے ایفا کو چند آیات پڑھ کر ان دھاگوں پر پھونکنے کو کہا پھر ایک ایک کر کے سارے دھاگوں کو کھولنے کی ہدایت کی
ایفا ایک ایک کر کے سارے دھاگہ کھول چکی تھی
اتنے میں یلماز حیدر بھی اس آلہ کے ساتھ اوپر پہنچ چکا تھا اس نے ایک ایک کمرے کو اس آلہ سے جانچا نوٹ کیا پھر سب کی طرف دیکھ کر کہنا شروع کیا
"میرے آلے کہ مطابق سب کمروں میں اثرات باقی ہیں مگر وہ اتنے شدید نوعیت کے نہیں ہیں
اب بس ایک کمرہ ہی رہ گیا ہے جو ہم نے سب بدروحوں کو بلانے کیلئے چنا تھا"
جب سب اس کمرے کی طرف گئے اور یلما حیدر نے اپنے آلہ سے اس کمرے کا درجہ حرارت نوٹ کیا تو وہ شدید نوعیت کا تھا وہ ایک دم پیچھے ہٹا تھا
"اس کمرے میں بہت شدید نوعیت کے اثرات ہیں اور مجھے لگتا ہے یہی ان چیزوں کا مسکن بھی"
عالم صاحب نے ریان کو بہت ساری کیلیں لانے کا حکم دیا جب ریان ساری کیلیں لے آیا تو عالم صاحب نے آیت کرسی اور چاروں قل پڑھ کر ان پر دم کیا اور ایک ایک بوتل بھی نکالی جو پانی سے بھری ہوئی تھی انہوں نے یہ دنوں چیزیں ایفا کو دی
"تم یہ پانی ہر کمرے کے کونوں میں چھڑک دو یہ سورۃ بقرہ کا دم کیا پانی ہے جس سے ہر بری چیز اور وقت بھاگ جاتی ہے اور اس کے بعد یہ کیلیں تم چاروں کونوں اور دروازے کی چوکھٹ میں ٹھونک دو گی"
ایفا نے ایک ایک کرے کے عالم نوراللہ کی ہدایات کے مطابق ہر کمرے میں پانی چھڑکا اور کیلیں ڈھونک جب وہ اس کمرے کی طرف آئی جس میں سب روحوں کو بلایا گیا تھا
تو اسے ایسے لگا کہ کوئی نادیدہ قوت اسے روک رہی ہے مگر اس نے قرآنی آیات کا ورد کرتے ہوئے کمرے میں قدم رکھا اور اپنا کام شروع کر دیا پانی چھڑکتے ہوئے اور کیلئے ٹھونکتے ہوئے اس کے ہاتھ عجیب طرح کپکپا رہے تھے
اس نے جلد از جلد یہ کام مکمل کیا
"ان سب کمروں کو کھلا رہنے دیا جائے اور یہاں مسلسل روشنی کا مناسب انتظام کیا جائے کیونکہ بری قوتیں ایسی جگہ اپنا مسکن بناتی ہاں جہاں کافی عرصے اندھیرا رہا ہو اور انسانی رہائش نا ہو اس کے علاوہ ان کمروں میں تلاوت قرآن پاک کا انتظام کروایا جائے اور جس کمرے میں میں ٹھہرا ہوا ہوں اس کمرے کو ہمیشہ کیلئے مقفل کر دیا جائے کیونکہ یہ چیزیں اس بات پر راضی ہو کر ان کمروں سے بے دخل ہوئی ہیں کے انہیں کوئی ایک جگہ اپنے مسکن کیلئے چاہیے ورنہ ابھی بھی اس حصہ میں رہنا آپ کیلئے مشکلات کا باعث ہو گا اس لیے بہتر یہی ہے کہ اس کمرے کو ہمیشہ کیلئے مقفل کر دیا جائے اور اس کمرے کا راستہ چار دیواری بنا کر بند کر دیا جائے"
عالم صاحب کی تجویز پر میں نے چپکے سے دادا جی کی طرف دیکھا وہ مجھے ہی گھور رہے تھے میں فورا دوسری طرف متوجہ ہو گیا
"تو شفیق صاحب کیا کہتے ہیں پھر آپ"، عالم صاحب نے دادا جی کومخاطب کیا
"اے میاں اب جو کرنا کرو بار بار مجھ سے کیوں تصدیق کروا رہے ہو، باقی سب میری مرضی کے بغیر ہو سکتا تو یہ بھی کر لو آخری جملہ وہ بڑبڑانے والے انداز میں گویا ہوئے مگر میں نے سن لیا البتہ کچھ بولا نہیں کیونکہ کچھ بھی کہنا آگ میں ہاتھ ڈالنے کے برابر تھا
ایفا نے سارے کمروں میں دم کیا ہوا پانی چھڑک دیا ہر طرف ایک عجیب سا سکون چھا رہا تھا اور ایسا ہی سکون میرے اندر بھی اتر رہا تھا آج میں نے اپنے خواب کو حقیقت کا روپ دے لیا تھا مگر سچ تو یہ تھا کہ ان سب میں میرا کوئی کارنامہ یا محنت شامل نہیں تھی بلکہ یہ سب ایفا عالم صاحب اور ڈاکٹر یلماز کی وجہ سے ممکن ہو کہ پایہ تکمیل تک پہنچا تھا
اس مختصر سفر کے دوران میں نے اتنی دفعہ موت کو قریب سے دیکھا تھا اپنا بچ جانا مجھے ایک معجزہ لگ رہا تھا اس سفر میں اپنے بہت پیاروں کو جن سے بہت کم وقت میں قریب ہو گیا تھا میں نے کھویا تھا سب سے زیادہ دکھ شمائم کے کھونے کا تھا میں نے اپنے ساتھ ساتھ کئی جانوں کی زندگی داؤ پر لگا دی تھی کئی بے گناہ میری وجہ سے مارے گیے تھے جوجو بھی ہمیشہ کے لیے مجھ سے دور ہو گیا تھا مگر دوسری طرف اس بات کی خوشی بھی تھی کہ میری کچھ نئے لوگوں سے جان پہچان ہوئی تھی میں نے ان سے دل کا رشتہ جوڑا تھا جن میں ایفا سب سے پہلے تھی اتنے کم وقت میں ہم اتنے قریب اگئے تھے اور ایک دوسرے کے لیے لاز م ملزوم ہو چکے تھے
ڈاکٹر یلماز جیسے انسان سے ملا جنہوں نے بنا کسی لالچ کے ہماری دل سے مدد کی اور سب سے بڑھ کہ عالم نور الله جن کے بغیر تو شاید ان سب کو ختم کرنے کا تصور بھی نہی کیا جا سکتا تھا انہوں نے ہر لمحے میرا ساتھ دیا مجھے سمجھ نہی آرہا تھا کہ میں کن الفاظ سے ان سب کا شکریہ ادا کروں اور دادا جی کہ بارے میں تو میں بھول ہی گیا ان کے شفیق سے وجود نے مجھے بے انتہا پیار اور اپنا پن دیا انہوں نے اپنے بیٹوں سے بھی ذیادہ میرا خیال رکھا میری زرا سی تکلیف پر وہ فوراً پریشان ہو جاتے اور میرا اس طرح خیال رکھتے جیسے میں اپنا خیال نہی رکھ سکتا کویی چھوٹا بچہ ہوں
"ریان"میں سوچوں کی وادی میں ناجانے کہاں تک بھٹکتا ایک دم سے چونکا عالم صاحب مجھے آوازیں دے رہے تھے
"کہاں کھوئے ہو میں کب سے تمہیں پکار رہا ہوں" یہ پانی لو اور اسے پوری حویلی میں چھڑک دو ایفا بھی لے کے گئی ئے تم بھی جاؤ میں چاہتا ہوں کہیں کوئی اثر باقی نا رہے
میں پانی والی بوتل لے کہ نیچے آگیا وہ دم والا پانی تھا میں نے اس کا چھڑکاؤ کرنا شروع کر دیا اس کام سے فارغ ہو کہ میں لاؤنج میں پہنچا تو سب لوگ وہاں بیٹھے ہویے تھے
شفیق صاحب اب اپ کو وہ سچائی بتانی ہے جو اپ نے سب سے چھپا کر رکھی عالم صاحب کی بات پر دادا جی نے پہلو بدلا وہ ناجانے کیوں سچائی بتانے میں شش و پنج سے کام لے رہے تھے
اور ہاں اس کے بعد حویلی میں قران خوانی کروائی جائے
"ہاں جی بتایے اب" وہ پھر دادا جی کی طرف متوجہ ہوئے
"اے میاں اب سچائی جان کہ کیا کرو گے اب ویسے بھی سب ٹھیک ہو گیا اب بھول جاؤ اس بات کو" انہوں نے بات کو ٹالنا چاہا
"نہیں آپ کو بتانا پڑے گا کیونکہ کہ کچھ سچائیاں ایسی ہوتی ہیں جن سے روشنائی ضروری ہوتی ہے"
دادا جی نے بتانا شروع کیا
علیم الدین میرا بہت اچھا دوست تھا ہم بچپن سے ایک ساتھ رہے تھے ہم ہر روز شطرنج کی بازی لگاتے تھے اس دن بھی ہم نے شطرنج کھیلی مگر میں ہار گیا مجھے تھوڑا سا غصہ آگیا اور اسی بات کو لے کر ہمارے درمیان کچھ تلخ کلامی ہو گئی علیم الدین مجھ سے ناراض ہو کہ چلا گیا اسی رات علیم الدین کا کوئی جاننے والا اسے ڈھونڈتا ہوا حویلی آیا میں نے اسے حویلی ٹھہرنے کا کہا وہ آدمی اس رات مر گیا"
دادا جی ایک لمحے کے لیئے رکے
ہر کوئی ان کی طرف دیکھ رہا تھا وہ دوبارہ بولے
"بہت پہلے کی بات ہے جب حویلی میں لوگوں کو چیزیں نظر آتیں میں پہلے پہلے تو یقین نہیں کرتا تھا مگر پھر مجھے خود بھی اس بات کا ادراک ہوا کیونکہ راتوں کو اکثر حویلی کی چھت پہ مجھے کسی کے چلنے کی اواز آتی میں رات کو دروازہ بند کرکہ سوتا مگر وہ صبح کھلا ہوتا مجھے یہ سب اپنا وہم لگتا مگر ایک دن بہت عجیب واقعہ ہوا میں لاونج میں بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا جب اچانک مجھے کسی کے سیڑھیوں سے اترنے کی اواز سنائی دی میں نے مڑ کہ دیکھا تو حیران رہ گیا کوئی ادمی اتر کہ لاونج سے باہر نکل گیا میں حیران پریشان سا اسے جاتا دیکھتا رہا اس دن شک پہ یقین کی مہر ثبت ہو گئی اور پھر گاہے بگاہے یہ ہونے لگا میری کمرے میں میری غیر موجودگی میں چیزیں بکھری ہوتیں میں چپ چاپ یہ سب برداشت کرتا رہا اس کے سوا اور کوئی چارا بھی نہیں تھا
ایک دن میں باہر کسی کام سے گیا تو بارش ہونے لگ گئی میں واپس آرہا تھا جب میں نے ایک بلی کو بارش میں بھیگتے دیکھا مجھے جانوروں سے بہت پیار تھا میں اسے اپنے ساتھ گھر لے آیا اس کے آنے کے بعد حویلی میں مزید واقعات ہونے لگے کیٹی مجھے بہت عزیز ہو گئی کئی دفعہ کیٹی کو میں نے عجیب و غریب حرکتیں کرتا مگر میں ہر دفعہ نظر انداز کر دیتا اور ان سب کو اپنا وہم خیال کرتا جس دن میری اور علیم الدین کی لڑائی ہوئی اسی رات حویلی میں ایک ناقابل یقین واقع پیش آیا کیٹی ہمیشہ میرے ساتھ سوتی تھی اس رات میری بارہ بجے کے بعد آنکھ کھلی میں نے دیکھا کیٹی غائب تھی میں اس کو دیکھنے باہر نکلا وہ لاؤنج کے دروازے سے باہرنکل رہی تھی میں نے دبے پاؤں اس کا پیچھا کیا اس کا رخ حویلی کے پچھلے حصے کی طرف تھا وہ شاید میری آمد سے با خبر تھی مگر پھر بھی نظر انداز کر گئی میں اس کے پیچھے پیچھے چلتا گیا اور وہاں جا کہ ایک عجیب وغریب منظرنے مجھے چونکا دیا ادھر ایک عورت اگ کا بڑا سا الاو روشن کیے بیٹھی تھی اس سے کچھ فاصلے پر ایک نوجوان لڑکی بیہوش پڑی تھی کافی دیر تک وہ عورت ناجانے کیا پڑھتی رہی اور پھر ایک دم سے ہر طرف آگ لگ گئی جس میں وہ دونوں جل کر مر گئیں اور اس رات وہ آدمی جسکومیں نے حویلی میں ٹھہرنے کے لیے جگہ دی تھی وہ بھی جل کر مر گیا وہ شاید وہاں کا منظر دیکھ رہا تھا میں نے فورا اگ بجھائی اور بعد میں دونوں کی قبریں کھود کر ان کو دفن کر دیا کیونکہ میں نہی چاہتا تھا کہ یہ بات باہر لوگوں کو پتہ چلے پھر میں نے سنا کہ علیم الدین مر گیا اس کی موت کا الزام لوگ میرے سر لگاتے ہیں
اس رات ایک اور سچائی مجے پتہ چلی کہ کیٹی کوئی عام بلی نہیں ہے اس میں کسی کی روح ہے اوروہ بری طاقتوں کی مالک ہے وہ عورت جو حویلی میں طاقت حاصل کرنے آئی تھی اس کی اس لڑکی کی جس کو شاید اس نے جلانا تھا اور اس ادمی کی مرنے کے بعد روحیں کیٹی میں منتقل ہو گئیں جس سے اس کی طاقت میں اضافہ ہو گیا بعد میں کیٹی کی جگہ مجھ کبھی وہ لڑکی دکھائی دیتی اورکبھی وہ آدمی ان لوگوں نے مجھے ڈرا رکھا تھا کہ اگر میں نے کسی کو یہ سچائی بتائی تو وہ لوگ مجھے مار دیں گے اس لیے میں چپ چاپ سب برداشت کرتا رہا اور اس کے بعد تم آگئے اور باقی جو ہوا وہ تمہارے سامنے ہے"
"دادا جی آپ نے یہ سب مجھ سے کیوں چھپایا میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا
"چھوڑو اس بات کو انہوں نے ٹالا"
دادا جی آپکو یہ بات تو بتانی ھو گی میں نے زور دیا تو دادا جی مسکرانے لگے مجھے معلوم ھے تم یہ بات بھی اگلوا کر رھو گے، اور مجھے بھی یہ بتانی پڑے گی دادا جی نے کہا تو وہاں موجود تمام افراد مسکرا دیئے تو پھر بتائیے نہ میں نے انکی طرف دیکھ کر کہا "بتا دوں گا، ایسی بھی کیا جلدی ھے برخودار، تم ایک کام کرو" انھوں نے کہا تو میں سوالیہ نظروں سے انکی طرف دیکھنے لگا
"آج شام میں قرآن خوانی کروالیتے ھیں، قریبی گھروں میں بھی کہلوا دیتے ھیں اور صدقے کے کالے بکرے بھی قربان کرواؤ قرآن خوانی کا اہتمام اوپری منزل میں ھی کروالیتے ھیں کیا خیال ھے، ڈاکٹر صاحب دادا جی نے ڈاکٹر یلماز حیدر کی طرف دیکھا تو وہ بھی مطمیْن نظر آئے
"عالم صاحب آپ کچھ دن یہیں ٹھریےْ نہ میرے پاس" دادا جی نے عزت بھری نگاھوں سے انھیں دیکھتے ھوےْ کہا تو وہ سوچ میں پڑ گےْ
"کچھ دن رک جایْیے نہ عالم صاحب، دادا جی بھت چاہ سے آپکو روک رھے ھیں" میں نے عالم صاحب سے کہا تو وہ مسکرا دیےْ
"اچھا بھیْ، جو آپکی مرضی" عالم صاحب نے دادا جی طرف دیکھتے ھوےْ کہا تو دادا جی خوش ھو گے
چند لمحوں کی خاموشی کو ایفا کی آواز نے توڑا چلو ریان اب شام کا انتظام کرتے ھیں ایفا نے کھڑے ھوتے ھوےْ کہا تو میں سب سے اجازت لے کر کھڑا ھو گیا ان سب کو باتیں کرتا چھوڑ کر ھم دونوں باہر آ گےْ حویلی کے برآمدے میں آکر میں نے اسکے بڑے سے صحن میں نگاہ ڈال کر کھل کر سانس لیا کتنا سکون محسوس ھو رھا ھے نہ؟؟ میں نے کہا تو ایفا نے ھلکا سا ھاں میں جواب دیا کرم دین چاےْ اندر لے کر جا رھے تھے، میں نے اپنا اور ایفا کا کپ اٹھا لیا کرم دین ہم دونوں کو ایک ساتھ دیکھ کر مسکراتے ھوےْ اندر چلے گےْ ایفا موسم دیکھو کتنا پیارا ھو رھا ھے میں نے چاےْ کا کپ منہ سے لگاتے ھوےْ کہا تو وہ حیران سی ھو کر، ایک نگاہ آسمان پر ڈال کر، گردن موڑ کر میری طرف دیکھنے لگی آسمان پر بادلوں کا نام و نشان نھیں اسنے مجھے گھورتے ھوےْ کہا میں اس کے اس معصومانہ انداز پر ھنس دیا میرے دل میں جھانک کر دیکھو ایفا، جہاں ھمہ وقت تمہاری یاد کے ابر برستے ھیں، اور میرے دل کو تمہاری محبت سے سیراب کرتے ھیں میں نے پلر سے ٹیک لگاتے ھوےْ، اسے شوخ نگاھوں سے دیکھتے ھوےْ کیا تو وہ کھلکھلا کر ھنس دی بھت شریر ھو تم، جلدی سے چاےْ ختم کرکے میری ہیلپ کے لیےْ اوپر آوْ ایفا یہ کہتی ھویْ اپنا کپ ھاتھ میں لے کر چلتی ھویْ سیڑھیاں چڑھتی گیْ
"ارے رکو" میں بوکھلا گیا، اور اس کی پیچھے ھی سیڑھیاں چڑھنے لگا مگر ایفا نے اوپر پہنچ کر ھی دم لیا کرم دین اوپر دریاں بچھوا چکے تھے ایفا نے ایک سایْیڈ پر رکھی، دم کی ھویْ اگر بتیاں جلایْیں تو میں نے اپنا کپ ایک ٹیبل پر رکھ کر اسکے اسکے ھاتھ سے اگر بتیاں لے لیں "اگر اجازت ھو تو میں لگاوْں انھیں" میں نے کہا تو ایفا نے اثبات میں سر ھلا دیا
اور پھر پوری حویلی میں اللہ کے بابرکت کلام قرآن کریم کی آوازیں گونجیں جس سے تمام ماحول پرنور ہوگیا آخر میں عالم نور اللہ نے ایک طویل دعا کی۔ اور بلآخر میں یعنی ریان الحق میں نے جو خود سے عہد کیا تھا کہ حویلی کو تمام شیطانی طاقتوں سے پاک کر کے رہونگا پورا کیا۔ ڈاکٹر یلماز شاہ بھی اب رخصت چاہتے تھے میں نے اور ایفا نے انکا بے حد شکریہ ادا کیا یوں وہ الوداعی کلمات ادا کر کے رخصت ہوگئے تھے ۔
اچانک مجھے یاد آیا تھا کہ ابھی سب گھتیاں نہیں سلجھی تھیں گل بانو کاواقعہ ابھی رہتا تھا۔ سب ڈنر کی میز پر بیٹھے تھے ایفا بھی ہمارے ساتھ ہی تھی جب میں نے سوچا عالم صاحب اور دادا جی سے ڈسکس کروں کیوں کہ دادا جی کہ مطابق توعلیم الدین اپنی فیملی کو عرصہ پہلے کہیں اور شفٹ کر چکا تھا۔
دادا جی جب میں نے آپ کو عالم صاحب کا تعویز پلایا تھا تو آپ نے علیم الدین اور اسکی فیملی کے متعلق تمام باتیں بتا دیں تھیں۔ میں نے انہیں اس رات کا واقعہ بتایا اور جو انہوں نے تعویز کے زیر اثر آنے کے بعد بتائیں وہ بھی دہرائیں۔ کیوں کہ دادا جی تعویز کے زیر اثر تھے تو انہیں کچھ بھی یاد نہیں تھا۔
"ہاں بیٹا یہ تمام باتیں سچ ہیں۔ علیم الدین اور اسکی بیٹی گل بانو نے اپنے تمام جاننے والوں کو میرے بارے میں گمراہ کن باتیں بتائیں ہوئیں تھیں اور پھر وہ اپنی فیملی کو لے کر یہاں سے کسی گمنام جگہ پر چلا گیا تھا۔ اور لوگ مجھے غلط سمجھتے رہے کہ میں نے انکو غائب کر وایا ہے۔" میری بات ختم ہونے پر دادا جی نے کہا تھا
"لیکن کہیں ایسا تو نہیں کہ گل بانو واپس آگئ ہو؟؟" میں نے الجھن سے کہا تھا
ایفا، عالم صاحب اور دادا جی نے بیک وقت مجھے سر اٹھا کر دیکھا تھا۔
میں نے انہیں شاہدہ سے سنی تمام باتیں اور اس رات گل بانو کے گھر جانے کا واقعہ بتایا جب میری گاڑی اچانک خراب ہوگئ تھی۔
"تم جس سے ملے وہ گل بانو نہیں تھی وہ کوئ بد روح تھی۔" عالم نور اللہ نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
"شاہدہ تو علیم الدین کی رشتہ دار ہے اس نے تمہیں وہی کچھ بتایا جوعلیم الدین نے میرے بارے میں مشہور کیا ہوا تھا۔ وہ سب کو یہ باتیں بتاتی تھی کہ علیم الدین کو میں نے مارا ہے حالانکہ علیم الدین تو زندہ تھا مگر وہ دو تین دنوں میں اپنی فیملی کو لے کر کہیں چلا گیا تھا۔ اس گھر میں جانے سے دو ایک بار وہاں اموات ہوئ ہیں یہ خبر میں نے بھی سنی ہیں مگر ان باتوں میں کیا سچائ ہے میں نہیں جانتا۔" دادا جی دھیمے لہجے میں گویا ہوئے تھے۔
دادا جی کی بات پر میں نے عالم صاحب کی طرف دیکھا تو وہ پھر سے بولنے لگے " کیوں کہ علیم الدین کا تعلق شفیق الرحمان سے تھا اور اسکا یہاں آنا جانا بھی تھا تو بدروحوں کی نظر میں وہ بھی تھا جب علیم الدین گھر کو خالی چھوڑ گیا تو بدروحوں نے وہاں بھی بسیرا کرلیا اکثر وہ گل بانو کا روپ لے کر شکار کو پھانستی تھیں۔"
"تو اس کا مطلب گائوں والے بھی محفوظ نہیں ہیں انکے ہاتھوں .." ایفا فکرمندی سے بولی تھی ۔
"نہیں بیٹا۔ اب یہ حویلی اور پورا گائوں محفوظ ہیں۔ وہ بد روحیں یہیں حویلی کی تھیں جنہوں نے گل بانو کا روپ لیا ہوا تھا۔ اب وہ ختم ہو گئ ہیں۔" عالم نور اللہ نے کہا تو سب کے چہرے پہ اطمینان کی لہر دوڑی تھی
ڈنر کے بعد عالم صاحب کو ایک ضروری کال آگئ تھی انکا جانا بے حد ضروری تھا جس کے باعث وہ ہمیں ڈھیروں دعائوں سے نوازتے حویلی سے رخصت ہوگئے تھے میں اور ایفا انکو چھوڑنے گئے تھے واپسی میں مجھے ایفا کو بھی ڈراپ کرنا تھا ۔
ڈرائیو کرتے ہوئے میں مسلسل نوٹ کر رہا تھا کہ ایفا کچھ خاموش سی ہے ۔
"تم آئینہ کے بارے میں سوچ رہی ہو نا؟؟" وہ سامنے نظریں جمائے کسی سوچ میں گم تھی جب میں نے پوچھا تھا ۔
"تمہیں کیسے پتا؟؟" اس نے حیرت سے میری طرف دیکھا تھا ۔
"ایفا حمزہ میں تم سے بے حد و حساب محبت کرتا ہوں اور تم جانتی ہو جب ہم کسی سے محبت کرتے ہیں تو اسکو اتنی گہرائ سے پڑھ لیتے ہیں کہ اسکی زندگی کا کوئ پنا، کوئ سطر،کوئ لفظ ہم سے انجان نہیں رہتا۔" میں نے اسکی گود میں دھرے دونوں ہاتھوں پر اپنا ہاتھ رکھا تھا۔
"آئینہ کو ایسے دیکھ کر مجھے بے حد تکلیف ہوتی تھی ریان وہ مجھے بے جد عزیز تھی۔ میں نے اسے بارہا سمجھایا تھا۔ لیکن وہ کچھ سمجھنے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتی تھی۔" ایفا کے لہجے میں درد ہلکورے لے رہا تھا ۔
میں نے گاڑی کو سائیڈ پہ پارک کیا اور رخ پھیر کر ایفا کی طرف دیکھا تھا۔ جو آنسو ضبط کرنے کی کوشش میں بری طرح سے ناکام ہو رہی تھی بہنے دو ایفا انہیں آنسو اندر ہی اندر پی لینے سے ناسور بن جاتے ہیں بعض اوقات ان کا وقت پہ بہہ جانا بے حد ضروری ہوجاتا ہے۔
میں نے اپنی انگلی کی پوروں سے اس کے قطار در قطار بہتے آنسو چنے تھے ۔
"چلیں؟؟ اب یقیناً تم بہتر محسوس کررہی ہوگی۔" ایفا جب خود کو قدرے سنبھال چکی تو میں نے پوچھا تھا ۔
میرے پوچھنے پر ایفا نے اثبات میں سر ہلایا تھا ۔
ایفا کو ڈراپ کرتے ہوئے مجھے دادی اماں سے ملنے کا خیال بھی آیا تھا لہذا میں ایفا کے ساتھ ہی اسکے گھر چلا گیا تھا۔ میرا شک صحیح نکلا تھا دادی اماں کافی فکر مندی سے زیر لب دعائیں پڑھتے ہوئےادھر سے ادھر ٹہل رہی تھیں ۔ ہمیں دیکھتے ہی تیزی سے ہماری طرف آئیں ۔
"تم دونوں ٹھیک ہو ؟؟ " انہوں نے سوالیہ نظروں سے ہماری طرف دیکھا تھا ۔
" ہم بلکل ٹھیک ہیں دادی اماں" ۔ میں نے انکو دونوں شانوں سے تھامتے ہوئے سامنے صوفے پر بیٹھایا تھا ۔
پھر ایفا اور میں نے مل کر انکو مختصر تمام باتیں بتائیں تو ان کے چہرے پہ بھی سکون اترا تھا۔
"تم بیٹھو میں تم دونوں کے لئے کافی لاتی ہوں۔" دادی اماں ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کافی بنانے چل دیں تھیں۔
"میں تم سے شکریہ نہیں کہوں گا ایفا کیوں کہ تم نے جتنا میرے لئے کیا اسکا حجم ماپنے کے لئے میرے پاس کوئ آلہ نہیں اور نہ ہی وہ الفاظ ہیں جن مدد سے میں تمہارا شکریہ ادا کر سکوں۔" میں اور ایفا کافی کے مگ ہاتھ میں پکڑے چہل قدمی کر رہے تھے جب میں نے ایفا سے کہا تھا۔ ایفا خاموشی سے میرے برابر چل رہی تھی ۔
"لیکن میں تم سے یہ ضرور پوچھوں گا کہ اماں اور دادا جی کو دادی اماں کے پاس بھیجوں اگر تمہیں اعتراض نہ ہو تو ؟؟"
میری بات پر ایفا نے نظریں اٹھا کر مجھے دیکھا تھا اور پھر یکا یک اسکے چہرے پر کئ قمقموں کی روشنی جگمگانے لگی تھی۔
"ریان الحق تم نے یقیقناً میری آنکھوں میں تکتے ہی جواب پا لیا ہوگا۔ میں بس اتنا کہنا کہوں گی کہ تمہاری ذات سے ملا اعتبار مجھے خود کی نظروں میں معتبر بنا دیتا ہے۔ میری ساری طاقت صرف اسی اعتبار میں پوشیدہ ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آئیندہ حالات کیسے بھی ہوئے تمہارا یقین کبھی متزلزل نہیں ہوگا۔ " اس کے الفاظوں میں یقین تھا اور چہرے پر اعتماد جس نے اسکے چہرے کو ایک الوہی سی چمک دی تھی ۔
جواباً میں نے اسکے ہاتھ پر اپنی گرفت مضبوط کی تھی اس نے مسکراتے ہوئے مجھے دیکھا تھا
اپنی جاب کے سلسلے میں حویلی میں قیام کرتے ہوئے، میں نے اپنی زندگی کے بد ترین دن گزارے تھے تو سب سے قیمتی گوہر بھی یہیں سے پایا تھا ایفا حمزہ ان سب دنوں پر بھاری ایفا کے ساتھ گزارے لمحات تھے ایفا حمزہ سے میری شادی طے ہوچکی تھی
•••••••••••••
ہماری شادی ہو گئ تھی اور میں خوش تھا ایفا حمزہ میری محبت میری زندگی کس حصہ بن گئ تھی۔ ایفا بھی مجھ سے محبت کرتی تھی اور میں خوشی اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا۔ جب میں رات گئے کئ رسمیں نمٹا کر روم میں آیا تھا تو ایفا میرا انتظار کر رہی تھی مجھے کمرے میں عجیب سی خوشبو کا احساس ہوا تھا یہ خوشبو ایفا کی نہیں تھی۔
میں نے کسی خوف کے پیشِ نظر یکدم ایفا کا گھونگھٹ الٹ دیا تھا۔ اور ایفا میری طرف دیکھ کر مسکرائ تھی۔
"تمہیں ایسے اتنا لمبا گھونگٹ نکالنے کو کس نے کہا تھا؟" اس کی مسکراہٹ دیکھ کر میں نے اپنی خجالت مٹانا چاہی تھی۔
"تمہاری ہی کسی کزن نے کہا تھا کہ تمہیں میرا روایتی دلہن بنا دیکھنے کا شوق تھا سو اس نے گھونگٹ گرا دیا اور منع کیا تب تک نہیں اٹھانا جب تک ریان بھائ خود روم میں آکر آپ کا گھونگھٹ نہ اٹھا دیں۔" ایفا نے کہا تھا۔
میں مسکرایا تھا۔
"وہ چھیڑ رہی ہوگی تمہیں، اینی وے تم بہت اچھی لگ رہی ہو۔ تم چینج کر لو۔" میں نے اسے اٹھا کر
Changing room کے سامنے اتارا تھا۔
"اتنے خوبصورت پاؤں زمین پر رکھنے کے لئے نہیں اگر ممکن ہوتا تو ستارے زمین پر لے آتا"۔ میں مسکرایا تھا ایفا حمزہ نے میرے شانے پر ہاتھ کا ایک مکا بنا کر مارا تھا اور واش
changing room میں چلی گئ تھی۔ میں ہم دونوں کی محبت کے بارے میں سوچنے لگا تھا جب ایفا کی یکدم چیخنے کی آواز آئ تھی میں نے فوراً آگے بڑھ کر دروازہ کھولا تھا ایفا ساکت سی کھڑی تھی اور
changing room خون کے دھبوں سے بھرا پڑا تھا۔ جگہ جگہ خون کی چھینٹے تھے ایفا فوراً مجھ سے لپٹ گئ تھی۔
"وہ نہیں گئ۔ وہ واپس آگئ ہے! وہ ہمارا پیچھا نہیں چھوڑے گی۔ مجھے یہی خدشہ تھا اور وہی ہوا۔" وہ تیز تیز سانسوں کے درمیان بولی تھی۔
"مجھے یہاں نہیں رہنا۔ چلو یہاں سے۔ ہم کہیں اور رہیں گے۔ کہیں بھی اور مگر یہاں نہیں۔" ایفا بولی تھی۔
"کون؟۔" میں نے پوچھا تھا۔
"آئینہ حمزہ!۔" وہ خوف سے بولی تھی۔
"دیکھو، اس کی خوشبو کمرے میں ہے اور وہ ہمیشہ یہاں قیام کرنے والی ہے میں آئینہ کس جانتی ہوں وہ ضدی ہے اور دیکھو کہیں میوزک کی آواز بھی آ رہی ہے۔" اس نے کمرے کی کھڑکی کھول کر دیکھا تھا وہاں بلی مزے سے رقص کر رہی تھی۔ ایفا ساکت رہ گئ تھی۔ میں نے اس سے قبل اس سے زیادہ خوفزدہ نہیں دیکھا تھا۔ تبھی میں نے اسے بازؤوں میں سمیٹا تھا۔
"ایفا ڈرو مت میں تمہارے ساتھ ہوں اور تم ایسے ڈر کیوں رہی ہو؟ تمہارے پاس روحانی طاقتیں ہیں نا جن کا استعمال تم اب تک کرتی آئ ہو"۔ میں نے اسے شک جی نظر سے دیکھا تھا اور یکدم اس سے دور ہوا تھا۔
"تم مجھ سی ڈر رہے ہو؟ اپنی ایفا سے؟"
"تم ایفا نہیں ہو؟۔" میں نے نفی میں سر ہلایا تھا۔
"مجھے بتاؤ میری ایفا کہاں ہے؟"
"میں ہی ایفا ہوں تم یقین کیوں نہیں کر رہے؟"
"اور تمہاری طاقتیں؟"۔ میں نے پوچھا تھا۔
"میری شادی کے ساتھ ان روحانی طاقتوں کا خاتمہ ہو جانا تھا اور وہ اب ان طاقتوں کی منتقلی میری آئیندہ نسل کو ہو جانا تھی"۔ ایفا نے بتایا تھا اور میں دو قدم اور پیچھے ہٹا تھا جب مجھے اپنے پیچھے کسی کی موجودگی کا احساس ہوا تھا اور تبھی میں پلٹ کر دیکھا تھا اور مجھے یقین کرنا پڑا تھا کہ وہاں کوئ تھا۔ سو ایفا ٹھیک کہہ رہی تھی مگر اپنی طاقتوں کی بارے میں اس نے مجھے پہلے نہیں بتایا تھا۔ مجھے اپنی ایفا کو بچانا تھا۔ تبھی میں نے اس کا ہاتھ تھاما تھا اور گاڑی کی چابی اٹھا کر تیزی سے باہر نکل آیا تھا۔ ایفا ٹھیک کہہ رہی تھی اس کا خدشہ ٹھیک تھا۔ ہم وہاں سے دوسرے شہر منتقل ہو گئے تھے اور ہماری زندگی یکسر بدل گئ تھی۔ ہم ہنسی خوشی زندگی گذارنے لگے تھے اور ہمیں اندازہ بھی نہیں ہوا تھا ہماری شادی کو ایک برس گذر گیا تھا۔ ہمارے گھر ایک ننھی پری آ گئ تھی۔
میں ایفا سے اتنی محبت کرتا تھا کہ میں نے اسے بھی ایفا ریان الحق کا نام دیا تھا۔
ہم اپنی زندگی میں مگن ہو گئے تھے اور آئینہ کو یکسر بھول گئے تھے ہماری چھوٹی ایفا تین برس کی ہو گئ تھی جب ایک شام میں نے ٹیرس پر کھڑے ہماری چھوٹی ایفا کو کسی کے ساتھ کھیلتے دیکھا۔ وہاں کوئ تھا۔ جو شاید شیڈ کے باعث مجھے دکھائ نہیں دے رہا تھا مگر چھوٹی ایفا بہت خوش تھی ہنس رہی تھی۔ میں مارے فکر کے بھاگتا ہوا نیچے لان میں گیا تھا جہاں چھوٹی ایفا کی ہنسنے کی آواز گونج رہی تھی۔ میں حیران ہوا تھا وہاں کوئ نہیں تھا۔ چھوٹی ایفا نے مجھے دیکھا تھا اور مجھ سے لپٹ گئ تھی۔
"کیا ہوا؟" تبھی ایفا چائے لے کر لان میں آئ تھی میں نے اپنا وہم جان کر سر نفی میں ہلا دیا تھا اور چھوٹی ایفا کے ساتھ کھیلنے لگا تھا۔ شاید وہ میرا وہم تھا!
ہماری زندگی خوشیوں سے بھری تھی اور میں اور کچھ سوچنا نہیں چاہتا تھا
Post a Comment (0)
Previous Post Next Post