Khamoshi Episode 17 - ushna sardar kausar

 

Khamoshi novel episode 17

قسط نمبر 17
از قلم:
عشنا کوثر سردار
رابعہ امجد
اقصیٰ سحر
ماہ نور نعیم
فاطمہ نور
صبا جرال
ماورہ طلحہ
اقراء اسلم
خدیجہ عطا
مہوش ملک
سیّدہ فرحین نجم
کوثر ناز
عائشہ تنویر
یہ ایفاء کی آواز تھی مجھے حیرت ہوئی کہ ایفاء یہاں کہاں سے آ گئی پھر مجھے دادی کی بات یاد آئی کہ ایفا میں اچھائی کی طاقتیں ہیں جو ماورائی نوعیت کی ہیں میں نے آنکھیں کھول کے دیکھا تو آئینہ میری طرف غصے سے گھور رہی تھی اس کی آنکھیں لہو رنگ تھیں اچانک اس کا چہرہ بھیانک ہو کر سیاہ پڑتا گیا اور وہ اپنی ہیت تبدیل کرنے لگی اب آئینہ کی جگہ ایک سانپ کنڈلی مارے بیٹھا تھا اور اس کی پھنکار ہیبت ناک تھی جس سے دل لرز اٹھے اچانک اس سانپ کے چہرے میں کئی گردنیں نمودار ہونا شروع ہو گئی ہر گردن میں ایک چہرہ تھا وہ روحا ، جادوگرنی، جلی لڑکی ، آئینہ کا چہرہ تھا پھر اس میں کیٹی کا چہرہ نکل آیا وہ مجھے گھور رہی تھی
اچانک عالم صاحب نے آنکھ کھولی اور اپنے سامنے رکھے پانی کے پیالے میں سے پانی کے چند چھنیٹے اس سانپ پر ڈالے تو اچانک سب کچھ غائب ہو گیا وہ آوازیں کا سلسلہ بھی پھر عالم صاحب نے بولنا شروع کیا
" ہاں بتاؤ سب کیا ماجرہ ہے "
اچانک ایک دھویں جیسا وجود ظاہر ہوا ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی دھویں کی چادر ہو ایک ہیولہ سا بھی وہ ہیولہ بول پڑا
" جی مرشد حکم کریں آپ ____ "
" ہم کچھ جاننا چاہیتے ہیں اس حویلی کے اندر کیا ہے کیا ہوا تھا ___ "
" بہتر مرشد ___ آپ اس پانی کے کٹورے کے اندر دیکھیں "
اس کے یوں مرشد کہنے سے مجھے سمجھ آ گئی کہ مؤکل حاضر ہو چکا تھا عالم صاحب نے وہ کٹورہ سامنے رکھ دیا اس کٹورے پر لہریں بننے لگیں اور پھر جیسے پروجیکٹر پر کوئی فل چلتی ہے منظر آگے پیچھے ڈوڑنے لگے کٹورے کے پانی پر ایک شام کا عکس ابھر آیا اس میں اس حویلی کا لان تھا جس کی کرسیوں پر ایک پر دادا جی اور دوسری پر کوئی اور انہی کی عمر جتنے آدمی بیٹھے تھے سامنے شطرنج کی بساط دھری تھی اس آدمی نے ایک چال چلی اور پھر ایک دم کھڑا ہوا اس کے چہرے سے خوشی عیاں تھی جبکے دادا کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا جیسے وہ غصے میں ہوں پھر انہوں نے شطرنج کی بساط پلٹی اور کھڑے ہو کر کچھ بولا بدلے میں ان آدمی کے چہرے سے بھی مسکراہٹ غائب ہوئی اور ان کا چہرہ بھی سرخ ہونے لگا - "
ممیں نے سوالیہ نظروں سے عالم صاحب کو دیکھا انہوں نے مجھے دیکھ کر اس ہیولے سے کہا یہ کیا -
یہ اس حویلی کے رہنے والے دادا جی اور ان کے دوست ہیں جب وہ آخری بار شطرنج کھیلنے آئے تھے تو علیم الدین کے شطرنج جیتنے پر دادا جی غصے میں آ گئے تھے اور پھر ان دونوں میں تلخ کلامی ہوئی اور علیم الدین غصے سے واپس چلے گئے مرشد "
پانی پر دوبارہ لہریں بننے لگیں اب سامنے ایک اور منظر تھا منظر میں گاؤں تھا اور اس کے بہت سارے لوگ وہ سب لوگ کسی مزار کے باہر لگے میلے میں اکٹھے تھے ہر طرف گہماگہمی تھی میں نے دوبارہ عالم صاحب کو دیکھا ___ اور انہوں نے اپنے مؤکل سے استفسار کیا
" یہ ؟ یہ کیا ہے "
" یہ اس دن کا منظر ہے جس دن رات کو اس حویلی میں آگ لگی تھی اس دن سارے گاؤں والے دوسرے گاؤں میں عروس پر ہونے والے میلے میں گئے تھے اور ان لوگوں کی واپسی اگلے دن ہوئی جبھی انہیں حویلی میں جب آگ لگی علم نا ہو سکا آپ آگے دیکھیں مرشد "
مؤکل کی بات پر میں نے فوراً پانی کی طرف دیکھا وہاں دوبارہ لہریں بننے لگی تھیں اور آہستہ آہستہ ایک منظر واضح ہوتا گیا یہ شام کا وقت تک ایک شخص حویلی کے باہر کھڑا تھا دادا جی اسے اندر لے کر گئے ان میں کچھ بات چیت ہوئی پھر وہ آدمی ایک کمرے کی طرف چکا گیا مجھے حیرت ہوئی اور میں نے عالم صاحب کی طرف دیکھنا ہی چاہا تھا کہ وہ مجھ سے پہلے ہی مؤکل سے سوال کر چکے تھے ___ "
" یہ کیا ہے ؟ جس دن گاؤں والے سب میلہ دیکھنے گئے اس دن علیم الدین کا ایک دوست شہر سے ملنے آیا تھا انہیں مگر وہ بھی میلہ پر گئے ہوئے تھے وہ شخص دادا جی اور حویلی کو جانتا تھا علیم الدین کا پوچھتے ہوئے وہ یہاں آیا سب جاننے کے بعد دادا جی نے اسے روک لیا کہ وہ رات کے وقت کہاں سواریاں ڈھونڈتا پھیرے گا اسی لیے رات حویلی میں قیام کرے لے "
پانی پر دوبارہ لہریں بننے لگیں اور نیا منظر ابھر آیا اس میں وہی شخص رات کے اندھیرے میں حویلی کے باہر جا رہا تھا اور پھر ایک درخت کے پیچھے چھپ کر کھڑا ہو گیا یہ حویلی کے عقب کا منظر تھا اچانک اس منظر میں ایک عورت چلتی ہوئی آتی ہے وہ عورت اسی جادوگرنی والا چغہ پہنی ہوئی ہے چہرے پر وحشت ہاتھ میں ایک گٹھڑی نما کپڑے کا بیگ جو میں نے بالائی منزل میں ایک کمرے میں دیکھا تھا عورت کے گلے میں بہت سی مالائیں تھیں اور پھر ایک چونکا دینے والی چیز, منظر کا حصہ بنی اس عورت کے ساتھ ایک چوبیس پچیس سال کی لڑکی تھی اور وہ ایسے چل رہی تھی جیسے کوئی نیند میں چلتا ہے کسی زومبی کی طرح پھر اس لڑکی کو اس جادوگرنی نے زمین پر بیٹھایا اور اپنے گرد اک حصار کھینچ کر چراغ جلائے تھیلے میں سے انگوٹھی نکال کر پہنی اور اور پھر ایک کتاب اور کچھ سفوف کی پڑیاں بھی تھیلے سے نکالی اور کتاب کھول کر پڑھنے لگی جیسے جیسے وہ پڑھتی جاتی لڑکی کی حالت عجیب ہو رہی تھی پھر وہ لڑکی بے ہوش ہو کر زمین پر گر پڑی جادوگرنی کچھ پڑھتی جا رہی تھی وہ لڑکی پھر زمین سے اٹھی اور اسی زومبی کی طرح بیٹھ گئی اچانک جادوگرنی کے ارد گرد آگ بھڑک اٹھی آگ کے شعلے بلند ہوتے گئے اور جادوگرنی اس میں بھڑ بھڑ جلنے لگی آگ کا لگنا تھا کہ وہ لڑکی جیسے ہوش میں آ گئی اور خود کو بچانے کیلئے بھاگنے لگی لیکن آگ اسے بھی پکڑ چکی تھی آہستہ آہستہ آگ درختوں کو لگنے لگی اور پہنچتے پہنچتے اس آگ نے درخت کے پیچھے چھپے شخص کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا آگ کا رخ اب حویلی کے عقبی حصے کی طرف تھا جو بڑھتے بڑھتے بالائی منزل تک پہنچ گئی "
میرے کچھ سوال کرنے سے پہلے ہی اس ہیولے نے بولنا شروع کیا
" دادا جی نے جس آدمی کو حویلی میں رات گزارنے کیلئے کہا وہ رات کو پانی لینے کیلئے اٹھا اسے کچھ غیر معمولی چیزیں نظر آئیں اور ان کا تعاقب کرتے وہ حویلی کے عقبی جانب آ گیا اور یہ جو جادوگرنی ہے یہ یہاں پر چلہ کاٹنے آئی تھی آخری رات تھی اس کے چلے کی وہ اس حویلی کی طاقتوں کو قابو کرنے کیلئے اپنے ساتھ ایک لڑکی لائی تھی تاکہ چلے کے اختتام پر اس لڑکی کو بھینٹ چڑھا سکے اور اب شیطانی طاقتوں کو خؤش کر سکے
مگر اس کا یہ عمل الٹ ہو گیا اور انہیں طاقتوں نے اس جادوگرنی کو آگ لگا دی وہ لڑکی جسے اس جادوگرنی نے اپنے عمل سے اپنا " معمول " ( ہیپناٹائز ) بنا رکھا تھا ___ وہ لڑکی __ اپنے حواس میں آئی تو اپنی جان بچانے کیلئے بھاگی مگر آگ کی لپیٹیں بہت زیادہ تھیں جبھی وہ بھی اس کی لپیٹ میں آ گئی اور وہ شخص بھی جو درخت کے پیچھت چھپا یہ سب دیکھ رہا تھا دونوں کچھ آگ میں جلنے اور دھویں سے دم گھٹنے کے باعث وہیں مر گئے آگ نے حویلی کی بالائی منزل کو بھی اپنی لیپٹ میں لے لیا تھا وہ جادوگرنی پہلے ہی آگ میں جل کر راکھ کا ڈھیڑ بن چکی تھی "
منظر دوبارہ پانی پر بنتا اور بگڑتا ہے ___ سامنے دادا جی بھاگ بھاگ کر پانی کی بالٹیاں حویلی کے بالائی حصے پر پھینک رہیں ہیں ___ تاکہ آگ بجھ جائے ___ آہستہ آہستہ آگ کے شعلے کم ہوتے ہوتے بجھ کر رہ گئے ____ تو دادا جی نے ارد گرد دیکھا انہیں دو ادھ جلے لوگوں کی لاشیں نظر آئیں. ___ کچھ دیر بعد دادا دوبارہ منظر میں نمودار ہوتے ہیں اور ان کے ہاتھ میں کدال ہے وہ اس عقبی حصے میں درخت کے پاس مٹی کھود رہے ہیں انہوں نے دو قبریں کھودیں اور اس میں ان دونوں جلی لاشوں کو دفنا کر دوبارہ مٹی ڈال دی ___
میں نے پھر عالم صاحب کی طرف دیکھا ___ انہوں نے میرا سوال سمجھ کر ___ مؤکل سے پوچھا
" جب آگ بالائی منزل کی طرف بڑھی تو دادا جی کو خبر ہو چکی تھی حویلی میں دھواں بھر جانے کی وجہ سے ___ گاؤں کے سب لوگ میلے میں تھے جبھی وہ کسی کو مدد کے لیے نہیں پکار سکتے تھے ___ انہوں نے خود ہی آگ بجھانے کی کوشش کی اور آگ بجھا دی ___ مگر جب انہوں نے ان دو لاشوں کو دیکھا ___ وہ ڈر گئے ___ وہ اس حویلی میں اکیلے رہتے تھے ___ انہیں یہ ڈر لگا کہ کہیں پولیس آ کر تفتیش نا کرے ___ اور اس حویلی کی بدنامی ہو ___ اور وہ بری شہرت رکھنے لگے ___ انہوں نے خود قبریں کھود کر ان جلی ہوئی لاشوں کو دفنا دیا ___ مگر انہیں ٹھیک طرح نہیں دفنایا گیا تھا جیسے مسلمان اپنے مردوں کو دفناتے ہیں ___ اور اس لڑکی پر عمل ہونے کی وجہ بھی تھی کہ اس حویلی پر اس جادوگرنی __ جلی لڑکی اور دوسرے شخص کی روحوں کا قبضہ ہو گیا اور یہاں انہوں نے بھٹکنا شروع کر دیا ___ کیٹی بلی نہیں بلکہ جادوگرنی کا دوسرا روپ ہے وہ بدروح کیٹی کی صورت اس گھر میں رہتی ہے ____ اور آئینہ کیلئے اس بلی میں بہت کشش تھی ___ کیونکہ وہ خود بھی غلط طاقت رکھتی تھی ____ آپ دوبارہ پانی کی طرف دیکھیں "
مؤکل کے کہنے پر میں جو اس کی باتیں انہماک سے سن رہا تھا پانی کی طرف متوجہ ہوا ___ وہاں اب دن کا منظر تھا ___ گاؤں والے اپنے گھروں کو لوٹتے ہیں ___ انہیں میں سے کوئی حویلی کی طرف آ نکلتا ہے ___ اور حویلی کے جل جانے کو دیکھ کر واپس لوگوں کو بتاتا ہے ___ پھر منظر میں علیم الدین ظاہر ہوتے ہیں وہ لان میں دادا جی سے کچھ بات کر رہے ہیں پھر غصے سے دادا جی کو ایک طرف دھکا دےے کر چلے جاتے ہیں
میں نے جلدی سے اب ہیولے کی جانب دیکھا کہ ___ یہ سب کیا ماجرا ہے
" جب اگلے دن گاؤں والے واپس آئے تو انہیں حویلی کے جل جانے کا پتہ چلا ____ علیم الدین چند دن بعد اپنے رشتے دار کا پتہ کرنے حویلی آئے تو انہوں نے دادا جی پر الزام لگایا کہ ان کے رشتے دار کو دادا نے غائب کروا دیا ہے شطرنج میں ہارنے کا بدلہ لینے کیلئے ____ اسی بات پر ان دونوں میں تلخ کلامی ہوئی تھی ___ مرشد آپ کے سب سوالوں کے جواب مل چکے ہیں ___ میرے جانے کا وقت ہے مجھے اجازت دیں "
ٹھیک ہے تمہیں اجازت ہے "
عالم نے کہا اور وہ ہیولہ ہوا میں تحلیل ہو کر غائب ہو گیا
میں ان سارے انکشافات پر منہ کھولے رہ گیا ___
افف--- اتنا کچھ ھوا تھا اس حویلی میں---میں حیرت کا بت بنا عالم صاحب کو دیکھ رھا تھا ھاں، اتنا کچھ ھوا تھا اس حویلی میں
میری بات سنو ریان، عالم صاحب نے مجھے کہا تو میں ان کی بات پر چونک پڑا میں ایفا سے ملنا چاہتا ھوں ایفا سے؟ مگر آپ اسے کیسے میں نے اپنے الفاظ منہ میں ھی روک لیے عالم صاحب سے یہ سوال بھت احمقانہ لگا ایفا سے ملوانے کی حامی بھرتے ھوےْ میں نے ان سے اجازت لی، اور حویلی سے باہر آ گیا نھر کے کنارے چلتے ھوےْ میں ایفا کے بارے میں سوچنے لگا وہ روحانی قوتوں کی مالکہ لڑکی تھی، اور اس حویلی کو بد روحوں سے پاک کروانے میں، عالم صاحب کو بھی اس کی مدد کی ضرورت تھی "ھاےْ ریان ایفا کی آواز سے میں اچھل پڑا، مجھے خوشگوار حیرت نے گھیر لیا ارے ایفا تم؟؟ْ
ھاں میں ، کیوں کیا ھوا، کیا کسی اور کا انتظار ھو رھا تھا؟؟؟ وہ میرے ہمقدم چلنے لگی ھلکی ھلکی ھوا دل کو لبھا رھی رھی؛ نھی ایفا میں تمھیں ھی سوچ رھا تھا میں نے کہا تو وہ دھیرے سے ہنس دی، دل کو دل سے راہ ھوتی ھے، ایفا نے کہا تو میں مسکرا دیا یعنی تم بھی مجھے ھی یاد کر رھی تھیں؟ اس نے میری بات سن کر چلتے چلتے گردن موڑ کر میری طرف دیکھا اور دھیمے لہجے میں جواب دیا؛ میں نے ایسا کب کہا؟
میں رک گیا پھر اسکی طرف رخ کیا اور اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگا ایفا گھبرا گیْ کیا ھوا ریان؟ ایسے کیا دیکھ رھے ھو؟ میں ایفا ھی ھوں، آیْینہ نھیں اسکی آواز میں چھپی لرزاہٹ مجھ سے پوشیدہ نہ رہ سکی تمہارے چہرے پہ لکھا ھے ایفا، میں نے شوخ لہجے میں کہا کہ میں ایفا نھی آیْینہ ھوں، یہ ھی کہنا چاہتے ھو نہ ریان؟؟ْ وہ رخ موڑ کر آگے چلنے لگی، ارے میرا یہ مطلب نھیں تھا ایفا؛ میں گھبرا گیا تیزی سے چلتا ھوا اسکے ساتھ ھو لیا مجھے تم سے کویْ بات نھی کرنی ریان ناراضگی ہنوزبرقرار تھی مگر مجھے تو کرنی ھے نہ میں بضد تھا تم ناراض کیوں ھو رھی ھو؟؟
میں نے ایسا تو کچھ نھیں کہا، جو تمہاری ناراضگی کا بسبب بنے
مجھے اس کے ساتھ چلنا اور باتیں کرنا بھت اچھا لگ رھا ےھا، اور شاید اسے بھی تبھی تو وہ نظریں چرا رھی تھی اچھا سنو، مجھے تم سے بھت ضروری بات کرنی ھے میری سنجیدہ لہجہ اسے میری طرف متوجہ کرنے پر مجبور کر گیا کیا ھوا ریان! سب خیریت ھے نہ؟؟؟
ایفا کو بھی فکر ھو گیْ اسکی ناراضگی پل بھر میں دور ھو گیْ تھی ہم آرام سے بیٹھ کر بات کرتے ھیں میرے کہنے پر اس نے اثبات میں سر ہلایا، اور ہم دونوں نہر کنارے بیٹھ گےْ ٹھنڈے پانی میں پاوْں لٹکا کر بیٹھنا بھت اچھا لگ رھا تھا ھاں اب بولو ریان کیا کہنا چاہتے ھو؟ اس نے پوچھا عالم صاحب تم سے ملنا چاہتے ھیں، انھیں تمھاری مدد کی ضرورت ھے میں نے کہا تو ایفا چونک کر میری طرف دیکھنے لگی میری مدد؟؟ْ مگر میں ان کی کیا مدد کر سکتی ھوں وہ حیران تھی اور میرے تفصیل بتانے پروہ ہق فق رہ گیْ
میں نے اس کا ہاتھ تھام لیا تھا مگر مجھے ایک عجیب سا احساس ہوا تھا۔ وہ مسکرائ تھی۔
"محبت کرتے ہو مجھ سے؟۔" اس کا لہجہ عجیب تھا میں چونکا تھا مگر اس نے میرا ہاتھ تھام کر محبت سے مجھے دیکھا تھا۔
"کیا کر سکتے ہو تم میرے لئے؟۔" وہ مدھم لہجے میں بولی تھی۔
"تم کیا چاہتی ہو ایفا حمزہ؟ کیا کروں میں تمہارے لئے؟۔" میں نے بہت اطمینان سے اسے دیکھا تھا۔ اس کی مسکراہٹ آج عجیب پرسرار سی تھی جیسے وہ کوئ گہرا راز اپنے اندر رکھتی ہو۔ اور میں فوری طور پر سمجھ نہیں پایا تھا۔
"مر سکتے ہو میرے لئے؟۔" ایفا حمزہ مجھے اپنے قریب کرتے ہوئے بہت دلکشی سے مسکرائ تھی۔ میں چونکتے ہوئے اسے دیکھنے لگا تھا۔
"تم آئینہ حمزہ ہو نا؟۔" میں نے یقین سے کیس تھا اور ہو بہت دلکشی سے مسکرادی تھی۔
"ایک بات جانتے ہو ریان؟ جو مری تھی وہ ایفا حمزہ تھی وہ میں نہیں تھی۔ آئینہ حمزہ تمہارے سامنے ہے اور زندہ ہے۔"، اس نے انتہائ دھیمے لہجے میں انکشاف کیا تھا اور میں نے اسے حیرت سے دیکھا تھا۔
"تم غلط کہہ رہی ہو آئینہ حمزہ، تم زندہ نہیں ہو اور یہ بات میں جانتا ہوں۔ " میں کہہ کر اس سے دور ہوا تھا۔ مگر وہ مسکرادی تھی۔
"تمہیں ایفا کی باتوں پر اتنا یقین کیوں ہے؟۔" آئینہ حمزہ نے میری جانب دیکھا تھا۔
"کیونکہ میں ایفا حمزہ سے محبت کرتا ہوں، اس کی موجودگی کو پہچان سکتا ہوں۔ "
وہ مسکرائ تھی۔
"ایک لڑکی جو زندہ نہیں تم اس سے کیسے محبت کر سکتے ہو ریان الحق قمر؟ تمہیں پہلی بار رسٹورینٹ میں میں ملی تھی۔ تم سے محبت میں کرتی ہوں، اتنی محبت کہ تم اس کا شمار نہیں کر سکتے۔ تمہیں پہلی بار دیکھا تھا تو ہزار ہا تاروں کی چمک کوند کر میری آنکھوں میں آن بسی تھی، اور میں ایک لمحے میں آنکھیں بند کرکے تمہاری سمت چل پڑی تھی۔ اتنا اضطراب تھا اندر باہر کہ میں اندازہ نہیں کر پائ تھی مگر میں جان پائ تھی کہ محبت ایسی ہوتی ہے۔ مجھے محبت کی پہچان تم نے کروائ پھر تم میرا یقین کیونکر نہیں کر رہے؟ تمہیں مان لینا چاہئے کہ میں جس کہہ رہی ہوں وہی سچ ہے اور باقی سب جھوٹ۔" وہ میرے قریب آ کر رکی تھی اور اپنا چہرہ میرے قریب کر کے مدھم سرگوشی کی تھی۔ میں نے اسے بغور دیکھتے ہوئے سر نفی میں ہلایا تھا۔
"میں نہیں مان سکتا کہ ایفا حمزہ مر چکی ہی اور تم زندہ ہو، میرا دل ایفا حمزہ کے لئے دھڑکتا ہے اور میں محسوس کر سکتا ہوں وہ زندہ ہے، میرا دل اطمینان سے بھرا ہے، ایفا کی محبت مجھے بے سکون نہیں کرتی چاہے وہ میرے پاس ہو یا نہیں میں اس کی خوشبو کو پہچانتا ہوں اور اس کی موجودگی پر یقین کرتا ہوں۔ " میں نے کہا تھا اور ہو مسکرا دی تھی۔
"جان لو ریان الحق محبت گمراہ بھی کرتی ہے اور ایفا حمزہ اپنی محبت کے ساتھ تمہیں گمراہ کر رہی ہے کیونکہ وہ جانتی ہے کہ تم اس سے محبت کرتے ہو سو وہ تمہیں اپنے جھوٹ سے قائل کر رہی ہے۔" آئینہ حمزہ نے مجھے بھرپور انداز میں قائل کرنا چاہا تھا۔
اور میں اسے دیکھتا ہوا دو قدم پیچھے ہٹا تھا۔ وہ میری عقل پر جیسے افسوس کرتے ہوئے مسکرا دی تھی۔
"میری بہن تھی وہ، اس کی موت کا گہرا صدمہ ہوا تھا مجھے۔ میری دادی ایفا سے شدید محبت کرتی تھی سو اس نے مشہور کر دیا کہ حادثے میں آئینہ حمزہ یعنی میری موت ہوئ ہے مگر وہ غلط بیانی تھی۔ میں زندہ ہوں اور تمہارے سامنے ہوں، چاہے تم میرا یقین کرو یا نہ کرو۔" اس نے میری سمت تکتے ہوئے افسوس سے سر ہلایا تھا اور میں اسے حیرت سے دیکھنے لگا تھا۔ سچائ کیا تھی؟ وہ جو ایفا حمزہ نے کہی تھی؟ یا وہ جو آئینہ حمزہ کہہ رہی تھی۔
"تم مجھ سے محبت کرتے ہو ریان الحق قمر، میرے علاوہ تمہارے ارد گرد کوئ اور ضروری نہیں۔ تم جانتے ہو مگر مان نہیں رہے۔" آئینہ حمزہ ایک یقین سے کہتے ہوئے میری طرف بڑھی تھی جب میں اس سے بے ارادہ دور ہٹا تھا۔
میں آئینہ حمزہ کا یقین نہیں کر سکتا تھا۔ وہ زندہ نہیں تھی۔ وہ مجھے گمراہ کر رہی تھی۔
میں جانتا تھا وہ مجھے مار دینا چاہتی تھی کیونکہ اسی طور ہم ساتھ ہو سکتے تھے؟ یا جو وہ کہہ رہی تھی وہی سچ تھا۔ میں جان نہیں پایا تھا۔ میرا ذہن ماؤف ہو رہا تھا اور میرے وجود میں سنساہٹ ہو رہی تھی۔
جان سے گزر جاؤ ریان الحق قمر محبت کا ایک پہلو یہ بھی ہے۔ محبت کے ہنر آزمانے سے گریزاں کیوں ہو؟۔" وہ بہت دلکشی سے مسکرا رہی تھی مگر میری رگوں میں خون منجمد ہونے کو تھا۔
"تم مجھ سے محبت کرتے رہے ہو۔ میری غیر موجودگی میں مجھے ڈھونڈتے رہے ہو۔ میری آہٹوں پر کان لگے رہے ہیں تمہارے۔ تمہاری سماعتوں کو صرف میرا ذکر سننے کی عادت رہی ہے۔ تم میری جانب سفر کرتے رہے ہو۔ تمہاری محبت میں ہوں آئینہ حمزہ۔ یہی سچائ ہے۔" وہ بولی تھی۔ میں اس سے تیزی سے دور ہٹنے لگا تھا جب اس نے قدرے تفاوت سے میری طرف ہاتھ بڑھایا تھا اور اس کے ہاتھ نے دس قدم کا فاصلہ سمیٹ کر مجھے دبوچ لیا تھا اور مجھے گول گول گھمانا شروع کر دیا تھا۔ میں حواس باختہ ہو کر رہ گیا تھا۔ اس لمحے میں زمیں سے بیس فٹ اوپر فضا میں کسی پھر کی کی طرح گھوم رہا تھا۔ مجھے اپنی موت یقینی نظر آئ تھی۔
وہ مسکرا رہی تھی۔ اس کی آنکھیں چمک رہی تھی۔ میں نے آنکھیں بند کر کے اللہ کو یاد کیا تھا۔ تبھی ایفا حمزہ کا چہرہ مجھے دکھائ دیا تھا۔ میں نے بند آنکھوں سے دیکھا تھا وہ تیزی سے آگے بڑھی تھی اور اس نے یکدم آئینہ کو پرے دھکیلا تھا۔ میں نیم جاں سا زمیں پر آن پڑا تھا۔ آئینہ حمزہ غائب ہو گئ تھی اور اس وقت جو میرے سامنے تھی وہ ایفا حمزہ تھی۔
"تم ٹھیک ہو؟۔" اس نے مجھ پر جھک کر پریشانی سے پوچھا تھا۔
میں نے اسے اجنبی نظروں سے دیکھا تھا۔
"ایسے کیا دیکھ رہے ہو؟ یو اوکے؟ مجھے نہیں پہچان رہے؟ میں ایفا ہوں۔ تم یہاں کیسے آئے؟ تمہیں کہا تھا نا محتاط رہو۔ مگر تم نے میری نہیں سنی۔ آئینہ حمزہ تمہیں مار کر ساتھ لی جانا چاہتی ہے تاکہ اس کی بقا کا سفر تمام ہو۔ تمہاری محبت اور تمہارا ساتھ اسے دائمی زندگی دے گا۔" ایفا نے میرا ہاتھ تھام کر مجھے اٹھنے میں مدد دی تھی۔ میں نے اسے بغور دیکھا تھا وہ مسکرادی تھی۔
"ایسے کیا دیکھ رہے ہو؟ تمہیں یقین نہیں ہو رہا کہ یہ میں ہوں؟۔" ایفا حمزہ بولی تھی تبھی میں اس کے ساتھ چلتے ہوئے بولا تھا۔
"اس نے کہا ہو آئینہ حمزہ ہے اور وہ زندہ ہے اور جس کی ایکسیڈنٹ میں موت واقع ہوئ تھی وہ ایفا حمزہ یعنی تم تھیں۔" میں نے کہا تھا اور وہ ہنسی تھی۔
"اور تم نے یقین کر لیا کہ ایسا سچ ہے؟۔" ایفا کے کہنے ہر میں بے شانے اچھا دیئے تھے۔
"وہ تمہیں گمراہ کرنا چاہتی ہے ریان۔ سو تم اس کا یقین کرو اور مجھ سے بد گمان ہو جاؤ۔" ایفا نرم لہجے میں بولی تھی۔ تبھی میں بولا تھا۔
"مگر وہ ایسا کیوں کہے گی؟ آئ مین اسے جھوٹ بولنے کی ضرورت کیا ہے؟ اگر وہ مجھے صرف مارنا چاہتی ہے تو وہ اپنا کام ختم کر کے مجھے سیدھے سے اپنے ساتھ لے جائے گی اس کے لئے اسے یہ کہنے کی ضرورت کیوں پڑے گی کہ وہ آئینہ حمزہ ہے اور وہ زندہ ہے اور جس حادثے میں اس کی جان گئ تھی دراصل وہ حادثہ تمہارے ساتھ پیش آیا تھا؟۔" میں نے ایفا حمزہ کو شک کے دائرے میں لئے تھا اور وہ میری طرف بے یقینی سے دیکھتے ہوئے گویا ہوئ تھی۔
"آر یو کریزی ریان؟ تم مجھ ہر شک کر رہے ہو؟ یہ سچ ہے کہ تم سے آئینہ پہلی بار ملی تھی۔ مگر جب میں اتفاقاً تم سے ملی تم نے مجھے آئینہ حمزہ کہہ کر پکارا تھا۔ اس وقت تم جانتے بھی نہیں تھے کہ آئینہ حمزہ کوئ مری ہوئ لڑکی ہے جس سے تم مل رہے ہو۔ مگر تمہارے مجھے آئینہ پکارنے پر میں تمہارے لئے آئینہ حمزہ بن گئ تھی۔ کیونکہ میں آئینہ کس ارادہ جان گئ تھی اور میں نہیں چاہتی تھی وہ تمہیں نقصان پہنچائے تبھی میں اکثر تمہارے آس پاس رہنے لگی تھی۔ آئینہ نے مجھے خبردار کیا تھا کہ میں تم سے کبھی اس بات کا ذکر نہ کروں، ورنہ وہ تمہیں اسی دن ختم کر دے گی۔ تب میں اپنی طاقتوں کس بھرپور استعمال نہیں جانتی تھی اور اس کا فائدہ آئینہ حمزہ اٹھا رہی تھی۔ اس سے مجھے خبردار کیا تھا کہ میں تم سے دور رہوں۔ وہ خوفزدہ تھی اگر مجھے تم سے محبت ہو گئ تو میری مثبت روحانی طاقتیں سو گنا ہو جائیں گی۔ سو وہ اس کے آڑے آتی رہی مگر مجھے تم سے محبت ہوئ اور میں تمہاری ڈھال بننے لگی اور تب اس نے ایک نئ کہانی گھڑ لی اور تم آئینہ حمزہ کا یقین کر رہے ہو؟۔" اس نے چلتے ہوئے یکدم رک کر مجھے بے یقینی سے دیکھا تھا اور تب میں نے اس کا ہاتھ تھام لیا تھا۔
"ایفا حمزہ، ایسی بات نہیں۔ مجھے تمہارا یقین ہے مگر!۔" میں نے بات مکمل بھی نہیں کی تھی جب وہ پلٹ کر چلتی ہوئ مجھ سے دور نکلنے لگی تھی۔ مجھے افسوس ہوا تھا میں نے ایفا حمزہ پر شک کیا تھا مگر میں کیا کرتا کہ یکدم حالات اس قدر الجھ جاتے تھے کہ میں حیران رہ جاتا تھا۔
مجھے ایفا حمزہ پر یقین تھا مگر جانے کیوں میں ایک بار دادی اماں سے ملنا چاہتا تھا۔
جانے کیوں میں ایفا حمزہ کی محبت ہر شک کرنے لگا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں آئینہ حمزہ اور ایفا حمزہ کے چکر میں پھنس کر رہ گیا تھا میرا دماغ عجیب ماؤف ہو گیا میں جو عالم نوراللّٰہ کے کہنے پر ایفاء سے ملنے اور ہماری مدد کرنے کا کہنے آیا تھا الجھے ذہن کے ساتھ واپس جا رہا تھا ایک فیصلہ تو میں کر چکا تھا مجھے ایفا کی دادی سے ملنا ہے مگر میرے ذہن میں ایک الجھی گتھی اور تھی جو میں سلجھانا چاہتا تھا میں جلد از جلد حویلی پہنچ کر عالم بابا سے بات کرنا چاہتا تھا اس وقت حویلی کے چاروں طرف شام کا دھندلکا چھایا ہوا تھا میں حویلی کے عقبی حصے سے زینہ چڑھتا اوپر آ گیا تاکہ کسی کی نظروں میں نا آسکوں عالم نوراللّٰہ آنکھیں بند کیے تسبیح پڑھ رہے تھے میں مؤدب ہو کر ان کے سامنے بیٹھ گیا انہیں شاید میری آمد کی خبر ہو چکی تھی جبھی آنکھیں کھول مجھے دیکھا " کیا بات ہے ریان میاں کچھ الجھے ہوئے لگ رہے ہو کوئی مسئلہ ہے کیا ؟ "" ہمم اس حویلی میں رہنا بھی کسی مسئلہ سے کم نہیں ذہن الجھ کر رہ گیا ہے " میرے لہجے سے تھکن ظاہر تھی "ایسی کون سی گتھی ہے جو تم سے سلجھ نہیں رہی اور تمہاری باتوں سے مایوسی جھلک رہی ہے مایوس ہونا شیطانی فعل ہے اس لیے جو بھی بات ہے کھل کر کرو" "میرا ذہن بہت الجھا ہوا اب یہی دیکھ لیں اس حویلی میں آگ لگنے والی رات اور شام میں علیم الدین اور اس کے رشتے دار کے ساتھ کیا ہوا مؤکل سے دیکھا تھا لیکن تفصیلات جاننا چاہتا ہوں میں گاؤں کے اکا دکا لوگوں کی زبانوں ہر علیم الدین کو لے کر جو عجیب وغیریب کہانیاں ہے ان میں حقیقت کتنی ہے اور جھوٹ کتنا اس کے بعد کیا ہوا تھا اس کا بھی علم نہیں سوائے دادا جان کے حقیقت سے کوئی واقف نہیں اور وہ ہیں کہ کسی بھی راز سے پردہ اٹھانے میں پس وپیش سے کام لیتے ہیں "
"ریان بیٹا اس دنیا میں ہر مسئلہ یا پریشانی کا کوئی نا کوئی حل موجود ہے اگر ہم ڈھونڈنا چاہیں اور مایوس نا ہوں اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارے دادا خود تمہیں سب کہانی اور حقیت برا دیں تو اس کا بھی ایک حل ہے" "وہ کیا عالم صاحب؟" میں فوراً بولا
"وہ یہ کہ میں تمہیں ایک تعویز لکھ کر دے رہا ہوں وہ پانی یا کسی چیز میں گھول کر پلا دینا اور ایک آیت بھی دے رہا اس کا ورد بھی کرتے رہو اور دادا سے بات کرنے سے پہلے ضرور پڑھنا وہ کسی معمول ( ہیپناٹائزڈ ) کی طرح تمہیں سب کچھ بتا دیں گے جو تم پوچھنا چاہتے ہو" "واقعی پھر تو میری ایک الجھن دور ہو جائے گی جبکہ دوسری الجھن کا بھی کوئی نا کوئی سرا ڈھونڈ لوں گا"
یہ کہہ کر میں نے عالم نوراللّٰہ سے اجازت لے کر حویلی میں میں آ گیا
میں نے کرم دین کو تلاش کیا تاکہ اسے چائے کا کہہ سکوں کرم دین مجھے کہیں بھی نظر نہیں آیا تھا میں خود ہی چائے بنانے لگا ایک طرح سے یہ اچھا بھی تھا میں آرام سے وہ تعویز چائے میں گھول سکتا تھا کرم دین کی غیر موجودگی میں میں نے اپنے اور دادا جی کیلئے چائے بنائی اور احتیاط سے ایک کپ میں تعویز ملا کر نشانی کے طور پر چمچ اس میں ڈال دیا جب میں چائے لے کر دادا جی کے کمرے میں داخل ہوا وہ راکنگ چیئر پر بیٹھے کوئی کتاب پڑھ رہے تھے مجھے دیکھا تو بولے
" آو _ آؤ ریان میاں "
" دادا جی _ میں اپنے لیے چائے بنا رہا تھا سوچا آپ کیلئے بھی بنا دوں __ یہ چائے پی لیجیئے میرے ہاتھ کی "
" کیوں نہیں_ ویسے بھی طلب ہو رہی تھی چائے کی "
میں نے چائے دادا جی کو تھما دی اور محتاط نظروں سے انہیں گھونٹ گھونٹ چائے پیتا دیکھنے لگا اور ساتھ ساتھ دل ہی دل میں اس آیت کا وِرد بھی جاری رکھا جسے پڑھنے کی ہدایت عالم صاحب نے کی تھی
ٹھیک پندرہ بیس منٹ بعد میں نے نوٹ کیا دادا جی آرام دے حالت میں کرسی پر بیٹھ گئے ہیں جیسے نیند میں ہوں مجھے یہی موقع غنیمت لگا اور میں نے اپنی بات کا آغاز کیا
" دادا جی ایک بات پوچھوں آپ سے؟ "
" ہاں پوچھو"
ایسا لگا دادا جی کی آواز کہیں دور سے آ رہی ہے ان کے تاثرات بالکل ایسے تھے جیسے وہ خواب میں بول رہے ہوں
" علیم الدین کون تھے یا ہیں اس شام کیا ہوا تھا جب وہ آخری بار آپ کے پاس شطرنج کھیلنے آئے تھے"
"علیم الدین میرا بہت گہرا دوست تھا ہم لڑکپن ہی ست ساتھ کھیلے کودے بڑے ہوئے اس کا اور میرا ہر وقت ایک دوسرے کے گھر آنا جانا تھا بہت یارانہ تھا ہمارا اس کی شادی پھر بچی سب میری نظروں کے سامنے ہی ہوا تھا علیم الدین تھا تو بہت اچھا لیکن ہر انسان کی طرح اس میں ایک بہت بڑی خامی تھی جب وہ کسی سے چڑ جاتا یا کسی کیلئے اپنے دل میں بغض پال لیتا تو اس شخص کو ہر طرح سے نقصان پہنچانے زک دینے اور ذلیل کر نے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا
ہم دونوں میں کبھی بھی جھگڑا اس نوعیت کا نہیں ہوا کہ میں اس کی فطرت کی اس کجی کا شکار ہوتا یا نشانہ بنتا تاوقتکہ کہ اس شام "
" اس شام علیم الدین آخری دفعہ ہی میرے گھر شطرنج کھیلنے آیا تھا اسکی دوسری برائی یہ تھی کہ وہ شطرنج کھیلتے ہوئے بے ایمانی بہت کرتا تھا چونکہ وہ میرا دوست تھا اسی لیے میں اس کی ایسی ہر حرکت کو نظر انداز کر دیتا تھا مگر اس دن میرا موڈ بہت عجیب تھا کچھ طبعیت بھی بوجھل سی تھی مجھے رہ رہ کر اپنی اولاد یاد آ رہی تھی اور اپنی اِس تنہائی سے وحشت بھی ہو رہی میرے پاس کوئی میرا خونی رشتہ موجود نہیں تھا انہیں سوچوں نے مجھے اس دن چڑچڑا اور غصیلا بنایا ہو تھا اور جب اس پر علیم الدین نے بے ایمانی کی اور اسی بے ایمانی پر شطرنج کی بازی جیت لی تو میں بے طرح غصے سے کھول گیا وہ اٹھ کر بھنگڑا ڈال رہا تھا کہ اس نے مجھے ہرا دیا ہے مجھے پر پتہ نہیں کیا شیطان سوار ہوا کہ میں نے اٹھ کر اسے زور کا دھکا دیا اور اس کی بے ایمانی پر کھری کھی سنا دیں بس پھر کیا تھا کہ وہ غصے سے بپھرتا ہوا یہ کہتا ہوا چلا گیا کہ میں نے اس کے ساتھ اچھا نہیں کیا اور وہ اپنی بے عزتی کا بدلہ لے گا ___ اس کے جانے کے بعد مجھے اپنے برے رویے جا احساس ہوا ___ میں علیم الدین سے اپنی دوستی خراب کرنا نہیں چاہتا تھا اسی لیے سوچا کہ اگلے دن اسے منا لونگا اس شام گاؤں سے باہر دوسرے گاؤں میں ایک میلہ لگا تھا اور گاؤں والوں کی واحد تفریح یہ میلے ہوتے ہیں اسی لیے سارا گاؤں وہ میلہ دیکھنے اس رات گیا ان سب کی واپسی آگے دن ہونا تھی علیم الدین بھی وہی میلہ دیکھنے گاؤں سے باہر تھا اپنی فیملی کے ساتھ اس رات عشاء سے پہلے قمر الزمان حویلی آیا "
" قمر الزماں علیم الدین کا ہونے والا داماد تھا اسے علیم الدین کے گھر پر نا ہونے جا علیم نہیں تھا جبھی وہ میرے پاس علیم الدین کا پوچھنے آیا تھا علیم کی بیٹی گل بانو مجھے اپنی بیٹی کی طرح عزیز تھی میری گود میں کھیل کر وہ بڑی ہوئی تھی اسی لیے مجھے بہت پیاری تھی اسی لیے قمر الزماں میرے بھی داماد جیسا تھا اسی لیے یہ سوچ کر کے کہاں وہ اتنی راے گئے دوسرے شہر میں واقع اپنے گھر جائے گا اس سے بہتر ہے کہ حویلی میں رات گزار کر اگلی صبح علیم الدین سے ملتا ہوا اپنے گھر چلا جائے جس پر وہ ایک رات ٹھہرنے پر راضی ہو گیا رات کا جانے کونسا پہر تھا کہ میں نے دیکھا کیٹی روم میں نہیں ہے اسکی عادت تھی راتوں کو ادھر ادھر پھرنا اچانک ایسے کمروں میں گھس جانا کہ لوگوں کو اسکی آمد کا پتہ ہی نا چلے میں نہیں چاہتا تھا کہ کیٹی قمرالزماں کو تنگ کرے آخر کو وہ مہمان تھا "
" جب میں نے قمرالزماں کو اپنے کمرے میں نا پایا تو ادھر ادھر ہر جگہ کمروں میں دیکھا لیکن اس کا نام ونشان تک نا تھا جبھی تشویش میں مبتلاء ہو کر میں حویلی کے باہر اسے ڈھونڈے نکل پڑا جیسے ہی میں باہر آیا تو مجھے حویلی کے عقب سے شعلے بلند ہوتے ہوئے نظر آئے میں جیسے ہی پچھلی سمت گیا تو سامنے منظر میرے ہوش اڑنے کیلئے کافی تھا ایک جادوگرنی راکھ جا ڈھیر بن چکی تھی کچھ دور ہی کسی لڑکی جلی ہو ئی لاش پڑی تھی وہیں درختوں کے جھنڈ میں قمر الزماں جل کر کوئلہ بن چکا میں شدید صدمے کی کیفیت میں تھا یہ سب کیا تھا میری کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ قمر الزماں کیسے حویلی کے باہر یہاں تک پہنچا اور کیسے آگ نے ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لیا حویلی کی بالائی منزل کی طرف آگ کے شعلے بڑھ رہے تھے اس وقت میں گاؤں سے بھی کسی کو آواز دے کر نہیں بلا سکتا تھا کہ کوئی بھی شخص گاؤں میں موجود نہیں تھا "
" میں نے جلدی سے بالٹی بھر بھر پانی آگ پر ڈالناشروع کیا کہ وہ بجھ جائے اور یہی ہوا کہ آگ بجھ گئی اب مجھے سمجھ نہیں آئی تھی کہ ان جلی لاشوں کا کیا کروں میں بہت ڈر گیا تھا بوڑھا تھا اولاد پاس نہیں کہاں کورٹ کچہریوں کے چکر کاٹ سکتا تھا پھر کسی نے یہ آگ لگتے ہوئے نہیں دیکھی تھی کون یقین کرتا کہ یہ صرف آگ سے جلے ہیں اور قمر الزماں کی موت سے متعلق تو کہانی بن سکتی تھی مگر اس لڑکی کی حویلی میں موجودگی کا کیا جواز پیش کرتا میں جادوگرنی کی جلی لاش کا تو نام ونشان ہی غائب تھا بنانے والے ہزار کہانیاں بنا لیتے ہیں اپنی حویلی کی بدنامی کا بھی ڈر تھا اسی لیے جو پہلی چیز سمجھ آئی اسی پر عمل کر لیا ہمت کر کے حویلی کے پچھواڑے جلدی جلدی تو قبریں کھودیں اور ان دونوں لاشوں کو دفن کر دیا جب گاؤں والے اگلے دن واپس آئے اور حویلی سے ان کا گزر ہوا تو انہیں پتہ چلا کہ حویلی میں آگ لگی ہے سب یہی سوچنے لگے کہ چونکہ میں اکیلا تھا اسی لیے جل کر مر گیا ہوں میں جو سمجھ رہا تھا کہ قمرالزماں کی آمد کی کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہو گی اور نا ہی مرنے کی نا حویلی میں موجودگی کی اسی لیے کوئی پوچھ گچھ نہیں کرے گا مگر مجھے اس وقت بہت بڑا دھچکا لگا جب علیم الدین میرے دروازے پر کھڑا تھا شاید اس کے داماد نے اپنی آمد کی اطلاع فون پر اسے دے دی تھی اور حویلی میں ٹھہرنے سے بھی مطلع کر دیا تو وہ آتے ہی اپنے داماد کے متعلق استفسار کرنے لگا جب میں نے سارا ماجرا اس کے گوش گزار کر دیا تو وہ ماننے کو ہی تیار نا تھا بلکہ ہتھے سے اکھڑ گیا کہ میں نے ہی رات کو قمرالزماں کو قتل کر دیا ہے علیم الدین سے شطرنج ہارنے کا بدلہ لینے کیلئے علیم نے مجھ سے بہت جھگڑا کیا اور بدلا لینے کی دھمکیاں دیتا واپس چلا گیا
گل بانو کو جب قمر الزماں کے مرنے کی خبر پہنچی تو وہ پاگل ہو گئی قمرالزماں نے یہ جرم بھی میرے کھاتے میں ڈال دیا کہ یہ سب میری وجہ سے اور اس حویلی کی نحوست کی وجہ سے ہوا ہے حویلی میں بدروحیں ہیں اور میں بھی ایک بدروح ہوں جو لوگوں کو مار دیتی ہے پہلے پہل تو سب گاؤں والے ان سنی سنائی خبروں پر یقین کرتے رہے علیم الدین نے اپنے رشتے داروں میں یہی مشہور کیا کہ قمرالزماں کا قتل میں نے کیا ہے اور لاش حویلی میں دبا دی ہے کیونکہ میں اپنی ہار کا بدلہ لینا چاہتا تھا اور میں ایک بدروح ہوں اس کے گھر کے پاس رہنے والے اس کے رشتے دار میرے متعلق سنی سنائی باتیں اپنی طرف مرچ مسالہ لگا کر دوسرے کو سناتے اور مجھے اور حویلی کو بدنام کرنے لگے ابھی تک یہ سلسلہ جاری ہے اور جب علیم الدین کا بس ان سب باتوں سے ٹھنڈا نا ہوا تو وہ راتوں رات گاؤں سے غائب ہو گیا اور اپنی بیوی کو یہ پٹی پڑھائی کے لوگوں میں مشہور کر دے کہ میں نے اپنا راز چھپانے کیلئے علیم الدین کو راستے سے ہٹا دیا ہے غرض جتنے منہ اتنی باتیں عجیب وغریب باتیں میرے اور حویلی کے متعلق مشہور ہو گئیں کہنے والے تو رائی کا پہاڑ بنا دیتے ہیں لوگوں نے یہاں تک کہانی بنا دی کہ آگ لگنے والی رات ہی میں نے علیم الدین کا قتل کر دیا تھا علیم الدین کی بیوی اپنی بیٹی کو رشتے داروں کے آسرے پر چھوڑ کر خود بھی غائب ہو گئی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی سوچ بھی بدل گئی گاؤں والوں میں آدھے لوگ اب بھی ایسے ہیں جو مجھے ٹھیک سمجھتے ہیں زندہ بھی اور وہ سب لوگ جو علیم الدین کے جاننے والوں میں سے ہیں وہ اب بھی میرے متعلق اور اس حویلی کے متعلق عجبیب باتیں ہر نئے آنے والوں کو بتاتے ہیں کوئی مجھے علیم الدین کا قاتل سمجھتا ہے یا کسی دوسرے شخص کا کوئی مجھے بدروح سمجھتا ہے یا تو مردہ لوگوں نے حویلی کی طرف آمدو رفت بھی کم کر دی ہے اب تو مجھے ان سب باتوں جی عادت ہو گئی ہے تمہیں بھی ہو جائے گی کچھ عرصے پہلے مجھے کسی سے علیم الدین کے متعلق پتہ چکا تھا کہ وہ کہاں رہتا ہے پھر کچھ عرصے بعد اس کے انتقال کی خبر مجھے ملی تھی مگر گاؤں میں کچھ لوگ اب بھی ایسے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ شطرنج کھیلنے والی رات یا آگ لگنے والی رات ہی علیم الدین کا قتل ہو گیا تھا جس میں میرا ہاتھ ہی ہے "
میں جو بڑے انہماک سے دادا سے ماضی کی داستان سن رہا تھا گردو پیش سے غافل تھا دادا جان ایسا لگ رہا تھا کہ خواب کی کیفیت میں بول رہے ہیں مجھے اب سمجھ میں آیا کہ گاؤں والے کیوں حویلی اور دادا جی کے متعلق عجیب و غریب باتیں اور کہانیاں سناتے تھے اچانک مجھے پاس سے غراہٹ کی آواز سنائی دی میں نے جو چونک کر دیکھا پاس کیٹی کھڑی مجھے گھور رہی تھی دادا جان بھی کیٹی کی آواز سن کر جیسے نیند سے جاگ گئے ہوں انہوں نے چونک ادرگرد دیکھا
" ہیں میں بیٹھے بیٹھے سو گیا تھا اور ریان میاں تم اتنی رات گئے یہاں کیا کر رہے ؟ چلو یہاں سے جاؤ اور آرام کرو "

جاری ہے


Khamoshi All Previous Episodes

Khamoshi Episode 01 Khamoshi Episode 02 Khamoshi Episode 03 Khamoshi Episode 04 Khamoshi Episode 05 Khamoshi Episode 06 Khamoshi Episode 07 Khamoshi Episode 08 Khamoshi Episode 09 Khamoshi Episode 10 Khamoshi Episode 11 Khamoshi Episode 12 Khamoshi Episode 13 Khamoshi Episode 14 Khamoshi Episode 15 Khamoshi Episode 16 Khamoshi Episode 17 Khamoshi Episode 18 Khamoshi Episode 19 (Last Episode) 

Post a Comment (0)
Previous Post Next Post