Khamoshi Episode 16 - Ushna kausar sardar

 

Khamoshi novel episode 16


قسط نمبر 16
از قلم:
عشنا کوثر سردار
صبا جرال
ماورہ طلحہ
اقراء اسلم
خدیجہ عطا
مہوش ملک
سیّدہ فرحین نجم
کوثر ناز
عائشہ تنویر
رابعہ امجد
اقصیٰ سحر
ماہ نور نعیم
فاطمہ نور
اس حویلی میں کویی ایسی جگہ بتاو جہاں کسی کا انا جانا نا ہو، میں وہاں قیام کروں گا اور اگر دادا جی کو شک پڑھا میرے ادھر رہنے کا تو مطلب کی وہ مر چکے ہیں ورنہ دوسری صورت میں ہم ارام سے اپنا کام نبٹا لیں گے
جی ہے ایسی جگہ میری کھڑکی کی دوسری طرف جو پورشن ہے وہاں کویی اتا جاتا نہیں میں نے کچھ سوچتے ہویے کہا
چلو ٹھیک ہے میں ادھر رہ لوں گا،
میں نے نوراللّٰہ صاحب کو اپنے ہمرا لیا اور حویلی کے عقب کی طرف چل پڑا میرا ارادہ تھا کہ حویلی کے عقب میں جو بالائی منزل کی طرف جانے کا دوسرا راستہ ہے وہ اختیار کرو تاکہ عالم کی آمد سب سے خفیہ رکھی جا سکے ابھی ہم عقب کی طرف آئے ہی تھے کے عالم صاحب ایک دم ٹھٹھک کر رک گئے میں نے جو موڑ کر ان کی ٹھٹھکنے کی وجہ ڈھونڈی تو وہ دو قبریں تھی جو عقبی حصے میں بنی ہوئی تھیں اور میرے لیے کسی معمہ سے کم نا تھیں نوراللّٰہ عالم نے ایک ہنکارہ بھرا اور منہ ہی منہ میں کچھ پڑھنے لگے میں چپ چاپ ان کا چلنے کا انتظار کرتا رہا جب وہ میری سمت آئے تو میں نے پھر چلنا شروع کر دیا اور جھاڑیوں سے بچتا درختوں کی سائٹ سے ہوتا بالائی منزل کو جاتی سیڑھیوں کے دامن میں پہنچ کر رک گیا عالم صاحب نے پہلے میری پھر اوپر کو جاتی سیڑھیوں کو دیکھا منہ ہی منہ میں وہ جو کچھ ورد کر رہے تھے وہ اب بھی جاری تھا
سڑھیوں کو طے کر کے رہداری سے ہوتے ہوئے ہے ہم بالائی منزل کے عقب میں بنے اس پورشن میں آ گئے جہاں گھپ اندھیرا رہتا تھا میں نے راہدری میں رک کر موبائل ٹارچ آن کی اور روشنی کا راستہ بناتا عالم صاحب کی پیروی میں چلتا رہا عالم صاحب پہلے ہی کی طرح ٹھٹک کر اس آخری کمرے کے سامنے رکے جس کے اندر میں کچھ دن پہلے گیا تھا اور جس پر کوئی دھاگہ نہیں بندھا ہوا تھا کافی دیر تک کچھ پڑھنے اور پھونکنے کے بعد وہ آگے بنے کمروں کی سمت بڑھ گئے اور ہر کمرے کے سامنے رک کر کچھ پڑھتے گئے اس کے بعد ہم راہدری سے ہوتے ہوئے سامنے کے پورشنز کی طرف آ گئے جہاں نسبتاً کم اندھیرا رہتا تھا اور یہاں کے سب کمروں کو کسی دھاگے سے تالا نہیں لگایا گیا تھا بس کاٹھ کباڑ رکھا ہوا تھا ان میں یہاں آکر عالم صاحب نے چاروں طرف ایک نگاہ دوڑائی اور سب جائزہ لینے کے بعد مجھ سے کہنا شروع کیا
" ریان میاں اس منزل کا جائزہ لینے کہ بعد اور میں نے اپنے علم سے جو اندازہ لگایا ہے وہ فی الحال یہی ہے کہ اس حویلی پر جتنی بھی شیطانی طاقتیں اور بدروحیں مقیم اور قابض ہے ان کا مسکن یہی منزل ہے بلکہ یوں کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ وہ پیچھے کی طرف بنے کمرے اور خاص کر کے وہ قبریں اور ان کے اردگرد کی جگہ باقی باتیں جاننے کیلئے مجھے رات کو عمل کرنا پڑے گا اور پڑھائی پڑھنی پڑے گی تب ہی میں حساب لگا کر کچھ بتا پاؤں گا وثوق سے اور اسی حساب کی روشنی میں ان طاقتوں کا توڑ کیا جائے گا اور عمل جس میں چند دن بھی لگ سکتے ہیں اور اہم بات یہ کہ یہ سب عمل پڑھائی اور حساب مجھے یہی رہائش پزیر ہو کر کرنا پڑے گا اب مجھے آپ بتائیں کہ آپ کو یہ سب منظور ہے اور اتنے دن تک میری یہاں موجودگی آُپ سب سے خفیہ رکھ پائیں گے ؟ ___ "
عالم نوراللّٰہ کے استفسار پر میں نے چند لمحے کے لیے سوچا اس حویلی کی بری طاقتوں کو میں یہاں سے بھگا یا نکال دینا تو ویسے ہی چاہتا تھا بس مسئلہ اس سب کو خفیہ رکھنا تھا میں نے بلآخر حامی بھر لی
" جی ٹھیک ہے آپ اپنا عمل شروع کر دیں آج رات سے میں کسی نا کسی طرح ان سامنے بنے کمروں میں سے کسی ایک میں صفائی کر کے آپ کی رہائش کس بندوبست کرتا ہوں آپ جو جو چیزیں چاہیں مجھے بتا دیں تاکہ میں ایک دفعہ ہی انتظام کر دوں اور بار بار اوپری منزل کا رخ کر کے کسی کو شک میں نا ڈالوں "
میری بات سن کر عالم صاحب بولے
" ہاں مجھے بیٹھنے کیلئے ایک چادر تکیہ تو چاہیے ہی ہو گا باقی فرنیچر تو یہاں پر رکھا ہے اسے ہی استعمال میں لایا جا سکتا ہے مگر اس کے علاوہ مجھے چند اور چیزیں چاہیں موم بتیاں کچھ نئے دیے سرسوں کا تیل اور اگر بتیاں اور ہاں پانی کا تو انتظام ہے نا یہاں باوضو بھی تو رہنا ہے اور یاد سے جائے نماز بھی پہنچا دینا بیٹا "
" ٹھیک ہے میں نے اردگر کا جائزہ لیا اور ایک صحیح سلامت کرسی دیکھ کر کمرے میں لٹکے پرانے پردوں کا کونا پھاڑ کر اس کرسی کو صاف کیا اور عالم صاحب کے بیٹھنے کا انتظام کیا
" آپ یہاں بیٹھیں میں جب تک ایک کمرہ آپ کیلئے صاف کر دوں "
یہ کہہ کر میں سامنے کی طرف بنے کمروں کا جائزہ لینے لگا ان سب میں راہدری کے کونے میں بنا کمرہ نسبتاً صاف تھا اور زیادہ کاٹھ کباڑ بھی جمع نہیں تھا اس میں ایک میز اور کرسی رکھی تھی ایک جھولا سا پلنگ رکھا تھا میں نے اس پلنگ کی بان کو کس کر اسکا جھول ختم کیا کرسی میز کو ترتیب سے دیوار کے ساتھ رکھا واپس جا کر پردے کا ایک اور کونا پھاڑ کر میز اور کرسی صاف کی پھر اس کمرے سے ملحق باتھ روم کا جائزہ لیا کمرے کی طرح باتھ روم بھی قدرے صاف تھا نل کھول کر پانی کا اطمینان کرنے کے بعد ایک ڈول اور بالٹی کی تلاش میں باہر آ گیا اوپر کونے میں بنے کچن میں مجھے مطلوبہ چیزیں مل گئی مگر دھول مٹی سے اٹی پڑیں تھی وہیں پر سائڈ میں ایک دو پرانی جھاڑویں بھی رکھی ہوئی تھیں ان میں سے ایک اٹھا کر میں واپس اسی کمرے میں آیا اور پہلے کمرے کی جھاڑو دے کر بالٹی بھر کر کمرے میں لایا اور کمرے کا فرش دھو کر بالکل صاف کر دیا دوبارہ سے فرنیچر کو ترتیب سے لگا اور ملحقہ باتھ روم دھونے کے بعد اپنا حلیہ بھی کھڑے کھڑے درست کیا
یہ سب کر چکنے کے بعد عالم نوراللّٰہ کو کمرے میں لے آیا -
" انہوں نے ایک نظر صاف ستھرے کمرے پر نظر ڈالی اور مسکرا کر میرا کندھا تھپتھپا کر شاباش دی
" بھئی میاں تم تو بڑے کام کہ بندے ہوں ___ کمرے کو سنوار کر رکھ دیا,"
میں مسکراتے ہوئے ان سے اجازت لے کر عقبی سیڑھیوں سے ہی سامنے حویلی میں آ گیا مجھے کرم دین کہیں نظر نہیں آیا شاید وہ میرے لیٹ آنے کا جان کر اور دادا جی کی غیر موجودگی میں اپنے کوارٹر کی طرف چلا گیا تھا میں نے جلدی سے اپنے کمرے میں آکر اضافی تکیہ چادر اور ایک کھیس اٹھایا اور کچن میں آ کر موم بتیاں تلاش کی جو مجھے ایک کیبنٹ سے کل گئیں ساتھ ساتھ ماچس کی ایک دو ڈبیہ بھی اٹھا لیں چند ضرورت کے برتن لے کر میں کرم دین کی نظروں سے بچتے کہ کہیں وہ باہر آ کر مجھے دیکھ نا لے عقبی طرف سے ہی اوپری منزل میں آ گیا عالم نوراللّٰہ کے حوالے سب سامان کرنے کے بعد باقی ماندہ سامان لینے کیلئے ان سے اجازت لے کر گاؤں کے مین بازار آ گیا دیے سرسوں کا تیل اور اگر بتیاں لینے کے بعد عالم صاحب کے کھانے پینے کیلئے کچھ سامان لیا اور جلدی سے حویلی کا رخ کیا میں دادا جی کے حویلی پہنچنے سے پہلے سب کام نبٹا لینا چاہتا تھا واپس اسی راستے سے ہو کر بالائی منزل کی طرف آیا اور عالم کے کمرے کی طرف بڑھ گیا وہ اس وقت مغرب کی نماز ادا کر رہے تھے سلام پھیر کر بولے
" ایک ضروری بات میں تمہیں بتانس بھول گیا جو عمل میں کرنے جا رہا ہوں یہ ان طاقتوں کیلئے سخت ہو گا جس میں وہ رکاوٹ ڈالیں گی اس کیلئے وہ مجھے اور تمہیں تنگ کریں گی میں نے تمہارے لیے یہ تعویز بنایا ہے اسے اپنے گلے میں پہن لو اور دوسرا تعویز انہیں نے میری آستین موڑ کر بازو پر باندھ دیا
" یہ دونوں تعویز بری شیطانی طاقتوں کے شر سے تمہاری حفاظت کریں گے کسی صورت بھی انہیں نا اتارنا اب جاؤ ہمیں اپنا کام شروع کرنا ہے "
میں عالم کی ہدایات سننے کے بعد ان سے اجازت لے کر پچھلی طرف سے ہی اتر کر حویلی کے سامنے آ گیا اور یوں ظاہر کیا جیسے میں ابھی ہی آفس سے لوٹا ہوں اپنے کمرے میں آ کر فریش ہونے کے بعد میں نے بیڈ پر لیٹ کر آنکھیں موندھ لیں اور خدا کا شکر کیا کہ کوئی بڑا واقعہ ابھی تک پیش نہیں آیا مگر یہ میری خیال خامی تھی کیونکہ آگے جو جو کچھ ہوا وہ رونگٹے کھڑے کر دینے والا تھا___"
میں جب اپنے روم میں داخل ہوا تو میری حیرت کی کویی انتہا نا رہی جب میں نےاس ادھ جلے چہرے والی لڑکی کو اپنے روم میں دیکھا وہ اس وقت بہت ڈراونی لگ رہی تھی اس کے بال کھلے ہویے تھے اور انکھوں سے وحشت ٹپک رہی تھی اس کی ایک کلایی سی مسلسل خون بہہ رہا تھا اس کو دیکھ کہ مجے اپنے پیروں سے جان نکلتی محسوس ہویی۔میں پیچھے ہٹنے لگا مگر اچانک کسی نے مجھے پیچھے سے دھکا دیا میں کیی قدم اگے جا کہ گرا میرے کانوں میں کسی کا چھت پھاڑ قہقہا گونجا میں نے زرا سنبھل کر دیکھا تو بلکل ویسی ہی ایک لڑکی پیچھے کھڑی تھی دونوں کی شکلیں ایک جیسی تھیں وہ دونوں اچانک ہی چیختی ہویی پیچھے ہٹنے لگیں کیونکہ میرے چاروں طرف آگ لگی ہویی تھی میں حیران پریشان سا بیٹھا سب سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا وہ دونوں فوراً غایب ہو گییں اور ان کے غائب ہوتے ہی آگ بھی غایب تھی میں گرتا پڑتا بمشکل بیڈتک گیا میرا جسم پسینہ پسینہ ہو رہا تھا
******************
اگلے دن میں ناشتے کے ٹیبل پر میری دادا جی سے ملاقات ہویی وہ اخبار کی ورق گردانی میں مصروف تھے اج چونکہ اتوار تھا لہذا میں بھی گھر پر تھا دادا جی اخبار پڑھنے کے ساتھ ساتھ ملکی حالات پر بھی تبصرہ کر رہے تھے جس پر میں بس ہوں ہاں میں سر ہلا رہا تھا میرا دیہان مسلسل عالم صاحب کی طرف تھا دن کے نو بج رہے تھے میری سمجھ میں نہی آرہا تھا کہ میں ان کے لیے ناشتہ کیسے لے کر جاؤں، کرم دین کچن میں مصروف تھا شاید کیونکہ وہاں سے مسلسل کھٹ پٹ کی اواز ارہی تھی
"اچھا بیٹا تم ناشتہ کرو میں زرا باہر جا رہا ہوں کچھ کام سے کچھ دیر تک لوٹ آؤں گا"، دادا جی نے اخبار طے کر کہ میز پر رکھا اور لاؤنج سے باہر نکل گیے
ان کے جاتے ہی میں کچن میں گیا کرم دین وہاں نہی شاید میرے انے سے پہلے نکل گیا تھا میں نے جلدی سے عالم صاحب کا ناشتہ ٹرے میں رکھا اور لاونج میں بنی سیڑھیوں سے ہی اوپر اگیا کیونکہ باہر جانا خطرے سے خالی نہی تھا کرم دین باہر ہی گیا تھا اور وہ مجھے دیکھ بھی سکتا تھا میں جب اخری سیڑھی پر پہنچا تو مجھے رکنا پڑا کیونکہ کیٹی میرا راستہ روکے کھڑی تھی میں نے اسے نظر انداز کر کہ اگے بڑھنا چاہا مگر پھر رک گیا کیونکہ کیٹی کی جگہ اب ائینہ کھڑی مجھے گھور رہی تھی
"ریان تم یہ جو سب کچھ کر رہے ہو نا ٹھیک نہی کر رہے، ائینہ نے چہرے پر اداسی لاتے ہویے کہا
"راستہ چھوڑو مجھے جانا، میں نے اس کی بات کو سرے سے ہی نظر انداز کر دیا جس پر وہ اگ بگولا ہو گیی
"تمہیں میں کبھی بھی کامیاب ہونے نہی دوں گی یاد رکھنا یہ کیونکہ میری طاقت کا مقابلہ کویی نہی کر سکتا، میں نے اسی طاقت کے لیے ہی تو اپنی جان لی تھی، تمہارا یہ عالم میرا کچھ نہی بگاڑ سکتا سمجے تم، وہ ہسٹریایی انداز میں چیخی
"یہ تو وقت بتایے گا، ویسے تمہیں جب اپنی طاقت پر اتنا بھروسہ تو ڈر کیوں رہی ہو"، میں نے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ لاتے ہویے طنزیہ انداز میں کہا "اور ایک بات یاد رکھنا جسے تم طاقت کہتی ہو وہ طاقت نہی برایی ہے ابھی بھی وقت ہے تمہارے پاس چلی جاو اپنی دنیا میں اور برے کام چھوڑ دو"، میں نے اسے سمجھانا چاہا
"ٹھیک ہے چلی جاوں گی مگر اکیلی نہی جاوں گی تمہیں ساتھ لے کہ جاوں گی"، وہ ضدی انداز میں بولی
"تمہاری یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہو گی اور بہت جلد تم اپنے انجام کو پہنچ جاو گی"، میں نے ایک تاسف بھری نگاہ اس پہ ڈالی، اس نے غصے سے مجھ پر حملہ کر دیا اس کا ہاتھ میری گردن تک ایا ہی تھا جب وہ چیختی ہویی پیچھے ہٹی تعویز ہونے کے باعث وہ مجھے چھو نہی سکی تھی، "ریان کب تک بچاو گے خود کو زندہ نہی چھوڑوں گی تمہیں میں" وہ دھمکی دیتے ساتھ ہی غائب ہو گیی اس کی انکھوں میں اترے خون کو دیکھ کر کچھ دیر کے لیے میں خوفزدہ ہو گیا تھا
اس وقت وہ بلکل جنونی ہو رہی تھی اور جب کسی کے اوپر جنون طاری ہو جاتا تو وہ کسی بھی حد تک جا سکتا مجھے اب ایینہ سے سنبھل کر رہنا تھا
میں ناشتہ لے کہ اس کمرے میں گیا جہاں عالم صاحب قران مجید کی تلاوت کر رہے تھے میں نے اہستہ سے ان کو سلام کیا اور تپایی پر ٹرے رکھ کہ ان کے پاس ہی بیٹھ گیا انہوں نے سر کے اشارے سے سلام کا جواب دیا اور دوبارہ سے پڑھنے میں مصروف ہو گیے میں نے ان سے کچھ فاصلے پر رکھے پانی کے کٹورے کی جانب دیکھا
کچھ دیر بعد وہ قران پاک بند کر کے میری طرف متوجہ ہویے
"کیسے ہو بیٹا"، انہوں نے ہلکی سی مسکراہٹ سے پوچھا
"میں ٹھیک ہوں اپ سناییں رات کیسی گزری کویی تکلیف تو نہی ہویی نا"، میں اندر ہی اندر شرمندگی محسوس کر رہا تھا ان کا اس طرح نیچے تپایی پر سونا مجھے اچھا نہی لگا تھا مگر مجبوری تھی یہاں کویی بستر وغیرہ بھی نہیں تھا
"بہت اچھی گزر گیی، اللہ کو یاد کرتے کرتے پتا ہی نہی چلا اور صبح بھی ہو گیی"، انہوں نے کہا تو میں مسکرا دیا
"ریان کل رات میں نے ایک بہت ہی عجیب منظر دیکھا انہوں نے چونکا دینے والے انداز میں کہا میرا رواں رواں منتظر تھا
"اوہ جو تمہیں ادھ جلے چہرے والی لڑکی نظر اتی یے نا اس کا مجھے پتہ چل گیا کہ وہ کون ہے"
"اج سے کچھ سال پہلے حویلی میں ایک عورت ایی تھی طاقت حاصل کرنے کے لیے اور جنات کو اپنے قابو میں کرنے کے لیے کیونکہ حویلی میں بہت سے جنات رہتے ہیں اور وہ طاقت صرف ایک ہی صورت حاصل کر سکتی تھی اور وہ صورت یہ تھی کہ اسے اس مقصد کے لیے کسی نوجوان لڑکی کو بلی چڑھانا تھا اور اس کا کچھ خون کسی پیالے میں ڈال کہ اس پر کچھ عمل پڑھنا تھا عالم صاحب بتا رہے تھے جب میری انکھوں کے سامنے اس دن والا منظر گھوم گیا جب ایینہ مجھ سے انگھوٹی مانگ رہی تھی اور اسی کمرے میں ایک جادوگرنی بھی تھی جس نے ایک پیالے میں خون ڈالا ہوا تھا اور اس پر کچھ پڑھ رہی تھی یہ بات مجھے سمجھ اگیی تھی میں دوبارہ سے ان کی طرف متوجہ ہوگیا
"اس عورت کے سامنے اگ کا ایک بہت بڑا الاؤ جل رہا تھا جس میں اس نے اس لڑکی کو ڈالنا تھا وہ لڑکی ہوش میں نہی تھی اس عورت نے جادو سے اسے بیہوش کر رکھا تھا کافی دیر عمل کرنے کے بعد اس عورت نے اس لڑکی کی کلایی کی نبض کاٹ کہ خون کا پیالہ بھر لیا اور پھر اس پر عمل پڑھنے لگی اس کام سے فارغ ہو کہ اس نے لڑکی کو اگ میں ڈآل دیا جس سے وہ لڑکی مر گیی مگر ابھی اس کا چلہ مکمل نہیں ہوا تھا جب ہر طرف اگ لگ گیی اور اس عورت کا پیر بدقسمتی سے دایرے سے باہر ہو گیا تو وہ بھی شعلوں کی لپیٹ میں اگیی اور اس کا چلہ ادھورا رہ گیا اس کے عورت کے مرتے ہی اگ خود بخودبخود بجھ گئی اور مرنے کے بعد اس لڑکی کو بھی طاقت مل گیی اب وہ لڑکی ان جنات کے کہنے ہر تمہیں ادھ جلے چہرے کے ساتھ ڈراتی ہے، عالم صاحب اب خاموش ہو کر میری طرف دیکھنا شروع ہو گیے
"مگر اس لڑکی کی لاش کہاں گیی، میں نے حیرانگی سے پوچھا
اس لڑکی کو کسی نے دفن کر دیا اسی جگہ قبر بنا کہ ان دو قبروں میں سے ایک قبر اس کی ہے، اور وہ عورت جادوگرنی تھی لہذا اس کی راکھ مرنے کے بعد غائب ہو گیی، ویسے اس کو دفن کس نے کیا یہ راز ابھی پتہ نہی چلا، انہوں نے میری طرف دیکھتے ہویے بتایا
وہ لڑکی تھی کون میں نے ایک اور سوال کیا تو وہ مجھے دیکھنے لگے
"وہ جادوگرنی اپنے ساتھ ہی اسے لایی تھی"
لیکن تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے وہ بد روح جو اس ادھ جلی لڑکی روپ لے کر تمہیں پریشان کرتی تھی میں نے اسکا علاج کر دیا ہے اپنے عمل کے ذریعے اب وہ تمہیں تنگ نہیں کر سکے گی ۔" عالم صاحب دھیمے لہجے میں بول رہے تھے ۔
انکی بات سن کر میرے اندر طمانیت سی اتری تھی کہ چلو ایک بد روح کا تو خاتمہ ہوا تھا۔ ایک بری طاقت سے تو یہ حویلی پاک ہوگئ تھی۔
اسکے بعد میں انہیں کچھ کھانے پینے کا سامان مہیا کر کے میں ان سے اجازت لے کر آفس چلا گیا تھا ۔
آفس میں بھی کام کے دوران حویلی اور اس میں بسنے والی طاقتیں ہی ذہن میں گردش کرتی رہیں تھیں۔ میں کافی پریقین تھا کہ عالم صاحب اپنے علم سے ضرور حویلی کو ان ناپاک طاقتوں کے شر سے پاک کر دیں گے۔
باس کے ساتھ ہوئ ایک طویل میٹنگ کے بعد میں اپنے آفس لوٹا تو ٹیبل پر پڑا میرا سیل فون مسلسل بج رہا تھا میں نے جلدی سے آگے بڑھ کر اٹھایا۔ اسکرین پہ ایفا کالنگ روشن تھا۔ میں نے ہلکا سا مسکراتے ہوئے فوراً کال ریسیو کی۔
"کہاں تھے تم ۔ ؟؟ کتنی دیر سے تمہیں کال کر رہی تھی ۔۔ ؟؟" ایفا کی شکوہ بھری آواز ابھری تھی ۔
" باس کے ساتھ میٹنگ تھی تو وہیں تھا ان کے آفس میں ۔۔" میں نے سیٹ کی بیک سے پشت لگاتے ہوئے اسے بتایا تھا ۔
"اچھا اور سب ٹھیک رہا ..؟؟ عالم صاحب ہیں حویلی میں ؟؟ کچھ بتایا انہوں نے ؟؟" ایفا نے بیک وقت کئ سوال پوچھے تھے ۔
"ہاں انہوں نے ایک قبر کا راز کھولا ہے ۔۔"۔ میں نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے اسے مختصراً رات کے واقعات اور صبح میں عالم صاحب سے ہوئ تمام گفتگو بتائ ۔
" ہوں ... ڈیٹس گڈ ریان ! عالم صاحب کافی مدد کر رہے ہیں ہماری۔ لیکن تمہیں اپنا بہت خیال رکھنا ہوگا کیونکہ عالم صاحب کو حویلی میں لانے والے تم ہو تو وہ تمام بری طاقتیں بپھر گئ ہونگی اور تمہاری جانی دشمن بن گئ ہونگی۔" ایفا کے لہجے سے فکرمندی چھلک رہی تھی ۔ اسکی بات سن کر میں بے اختیار مسکرایا تھا۔ اور پھر ایک دو باتیں کرنے کے بعد میں نے کال ڈسکنیکٹ کر دی تھی ۔ شام ہوگئ تھی اور مجھے حویلی کے لئے نکلنا تھا عالم صاحب بھی میری راہ تک رہے ہونگے۔ میں نے گاڑی کی چابی اٹھائ اور جلدی سے آکر گاڑی میں بیٹھ کر ڈرائیو کرنے لگا تھا۔ لیکن کافی دیر ڈرائیو کرنے کے بعد یکدم میں کسی خیال کے تحت چونکا تھا. میری گاڑی گاؤں کے حدود میں داخل رہی تھی۔ لیکن میں تو حویلی جا رہا تھا تو یہاں کیسے آگیا میں سمجھنے سے قاصر تھا۔ میں نے گاڑی ریورس کرنے کے کوشش کی لیکن گاڑی الٹا آگے کی سمت دوڑنے لگی ۔ اور میں حیران و پریشان سا بیٹھا سمجھنےکی کوشش کر رہا تھا کہ یہ میرے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ میں ڈرائیو نہیں کر رہا تھا بلکہ اسٹئیرنگ پر ہاتھ بھی نہیں تھے۔ لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ گاڑی خود بخود آگے بڑھ رہی تھی بریکس کام نہیں کر رہے تھے۔ اسٹئیرنگ کی حر کت سے یہ گمان ہوتا تھا جیسے کوئ ماہر ڈرائیور ڈرائیو کرکے آگے بڑھ رہا ہے۔ میں گنگ سا بیٹھا یہ منظر دیکھ رہا تھا اور مجھے سمجھنے میں دیر نہیں لگی تھی کہ یہ کیا ہورہا تھا بلآخر میں تمام کوششیں ترک کر آرام سے بیٹھ گیا تھا اور خود کو ان کے حوالے کردیا تھا کہ یہ کیا کرنا چاہتے تھے۔ مجھے یقین تھا عالم صاحب کے دئیے گئے تعویزوں کی وجہ سے یہ بد روحیں میرا بال بھی باکا نہیں کر پائیں گے ۔
گاڑی ایک جنگل کے پاس جا کر بلکل اچانک رک گئ تھی۔ میں جب آفس سے نکلا تھا تو سورج غروب ہورہا تھا اور اب ہر طرف تاریکی ہی تاریکی تھی۔ میں نے گاڑی سے اتر کر ارد گرد دیکھا تو سوائے جھینگروں کی آواز اور تاریکی کے کچھ بھی نہیں تھا میں حیران ہوتے ہوئے دوبارہ گاڑی میں بیٹھ گیا اور اسکے سٹارٹ کرنے لگا لیکن اب گاڑی سٹارٹ ہی نہیں ہو رہی تھی یہ کیا تماشا تھا میں بے اختیار جھنجھلایا تھا اب اس ویرانے جنگل میں میں مکینک کہاں سے ڈھونڈتا۔ میں نے سب ہاتھ پیر مار کر دیکھ لئے تھے لیکن گاڑی میں کوئ حرکت نہیں ہوئ تھی ۔
میں گاڑی کا بونٹ بند کر کے سیدھا ہوا تھا جب پائل کی آواز میرے کانوں سے ٹکرائ تھی میں فوراً پلٹ کر دیکھا تو ایک لڑکی لال جوڑا زیب تن کئے جنگل سے گائوں کی طرف جانے والے راستے پر جا رہی تھی۔ میں نے سوچا اس سے ہی مدد مانگتا ہوں لیکن پھر خیال آیا کہ یہ بھی کوئ بد روح نہ ہو اور مجھے اپنے جال میں پھنسانا چاہتی ہو ۔ لیکن پھر ذہن میں آیا کہ رات سرکتی چلی جا رہی مجھے جلد ہی کوئ مکینک ڈھونڈنا پڑے گا وہاں حویلی میں عالم صاحب میرا انتظار کر رہے ہونگے۔
وہ لڑکی کافی دور جا چکی تھی میں بھاگتے ہوئے اسکے قریب پہنچا تھا ۔۔
" ایکسکیوزمی بات سنیں۔۔ میری گاڑی خراب ہوگئ ہے یہاں کوئ مکینک مل سکتا ہے ۔۔" میں نے بری طرح سے ہانپتے ہوئے اسے مخاطب کرتے ہوئےجلدی جلدی کہا تھا
میری بات سن کر لڑکی کے قدم تھمے تھے اور اس نے پلٹ کر مجھے دیکھا تھا۔ اور اس کے چہرے پہ نظر ڈالتے ہی میں جہاں کا تہاں کھڑا رہ گیا تھا۔ اس کے حسن کی چکا چوند نے میرے حواس مختل کر دئیے تھے اتنا مکمل حسن میں نے آج تک نہیں دیکھا تھا۔ اسکے چہرے کو تکتے میں اپنی سدھ بدھ کھو چکا تھا ۔
" آئیں میرے ساتھ ۔۔۔ "میں اسکو دیکھنے میں اس قدر محو تھا کہ اسکی سریلی آواز کسی کنوئیں سے آتی محسوس ہوئ تھی۔ میں خواب سی کیفیت میں اسکے سحر میں جھکڑا کسی روبوٹ کی طرح اسکے پیچھے چل دیا تھا۔ اسکے تعاقب میں چلتے ہوئے میں گاؤں میں داخل ہو چکا تھا۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں کچھ روز پہلے میں نے ایک عورت کے گھر سے پانی پیا تھا۔ لیکن اب مجھے کچھ یاد نہیں تھا اگر میرے حواس کام کر رہے ہوتے تو مجھے ضرور یاد آجاتا مگر میں تو ایک ٹرانس کی کیفیت میں اس لڑکی پیچھے پیچھے چل رہا تھا ارد گرد کیا تھا کچھ خبر نہیں تھی وہ میرے آگے چلتی ایک گھر میں داخل ہوگئ تھی میں بھی اسکے پیچھے چلتے ہوا اسی گھر میں چلا گیا تھا پھر وہ ایک کمرے میں چلی گئ اورمیں بھی۔ اس لڑکی نے مڑ کر مجھے دیکھا تھا اور مسکراتے ہوئے بیڈ کی طرف اشارہ کیا کہ بیٹھ جائو ۔
میں یقین سے کہ سکتا تھا کہ اتنی حسین مسکراہٹ میں نے آج تک نہیں دیکھی تھی۔ میں بیڈ پر بیٹھ گیا تھا اور وہ سنگھار میز کے قریب جا کر اپنی پائل اتارنے لگی میری نظر اسکی پیروں پر گئ ایسے دودھیا پاؤں ۔۔کہ میں یک ٹک دیکھتا رہا ۔ اور پھر وہ دھیمے دھیمے چلتے ہوئے میرے پاس آکر بیٹھ گئ اس کے بدن سے اٹھتی مہک مجھے مد ہوش کررہی تھی ۔ میں اسکی طرف بڑھا تھا لیکن وہ مسکراتے ہوئے کچھ دور ہوگئ تھی اور پھر اس نے ریشمی آواز میں کہا ۔۔
پہلے جو پہنا ہوا ہے اسے اتارو ۔۔ اسکا اشارہ میرے لباس کی طرف تھا ۔
میں میکانکی انداز میں شرٹ اتارنے لگا تھا اسکے حسن کا ایسا جادو چڑھا تھا کہ میری سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفلوج ہوگئ تھی ۔ مجھے یہ تک یاد نہیں تھا کہ میں کون ہوں اور یہاں کس مقصد سے آیا ہوں مجھے کوئ ہوش نہیں تھا۔ اس نے میرے گلے میں ڈالے اور بازو پر بندھے تعویز کی طرف اشارہ کیا اسے بھی ۔
میں تعویز اتارنے لگا جبھی کہیں پاس سے ایفا کی آواز نے سرگوشی کی تھی کیا کر رہے ہو ریان ہوش میں آؤ۔
میں ایک دم جیسے نیند سے جاگا تھا اور سامنے بیٹھی اس لڑکی کو دیکھ کر میں چونک اٹھا تھا یہ میں کیا کرنے والا تھا ۔ میں اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے شرٹ اٹھاتے پیچھے ہٹا تھا۔ مجھے پیچھے ہٹتا دیکھ کر وہ جلدی سے بولی تھی ۔۔
"کیا کر رہے ہو رات بیت رہی ہے جلدی سے اتارو اسے ۔ "
میں نے اونچی آواز سے سورہ الناس کی تلاوت کرتے ہوئے گلے سے تعویز اتارا اور اسکی طرف اچھال دیا ۔تعویز اسکے اوپر جا گرا تھا یکایک اسکی زوردار چیخیں گونجیں تھیں میں نے بلاختیار کانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے سورہ الناس کی تلاوت جاری رکھی تھی۔ اسکا وجود بن آب مچھلی کی طرح تڑپ رہا تھا میں جلدی سے بیرونی دروازہ پھلانگتا باہر نکلا تھا ۔ اور پھر چونکتے ہوئے دروازے کو تکا تھا یہ تو وہی گھر ہے جس میں جانے سے اس دن اس عورت شاہدہ نے منع کیا تھا علیم الدین کا گھر تو یہ لڑکی کیا گل بانو تھی ۔ شاہدہ نے بتایا تھا کہ گل بانو بہت عجیب حرکتیں کرتی تھی لیکن آج جو کچھ ہوا تو کیا وہ زندہ بھی تھی ؟۔ خیر میں سر جھٹکتے عالم صاحب سے ان تمام واقعات کا ذکر کرنے کا سوچتے ہوئے گاڑی میں آ بیٹھا تھاچابی ڈیش بورڈ میں پڑی تھی میں نے جوں ہی چابی لگائ گاڑی فوراً سٹارٹ ہوگئ تھی ۔
اگر آج میں وہ تعویز اتار دیتا تو۔۔ اور وہ لڑکی گل بانو یقیناً اسکا بھی خود پہ اختیار نہیں تھا اس پر بھی ان بری قوتوں کا قبضہ تھا جو اب مجھے راستے سے ہٹانا چاہتے ہیں اور اس سے گل بانو کی جان کوبھی خطرہ تھا مجھے پتا لگانا تھا کہ گل بانو زندہ بھی تھی یا اسکو مار دیا گیا تھا اگر زندہ تھی تو مجھے اسے بچانا ہے اور علیم الدین کا قتل کس نے کیا تھا اسکا بھی سراغ لگانا ہے۔ میں نے حویلی تک کا تمام راستہ انہیں سوچوں میں گزارہ تھا ۔
اگلی صبح میری آنکھ کھلی تو بادل خوب گرج رھے تھے میں کسمساتا ھوا اٹھا، اور کھڑکی کے پردے برابر کرنے کے بعد، کھڑکی کھول کر باہر کے مناظر میں کھو گیا خوبصورت بڑا سا لان، بارش میں بھیگ رھا تھا خوبصورت رنگ برنگے پھول، بارش میں جھومتے درخت، پرندوں کی چہچہاہٹ، قدرت کی خوبصورتی بیان کر رھے تھے یہ حویلی بھی کتنے چہرے رکھتی ھے؟ میں ھنس پڑا اچانک میری نظر کیٹی پر پڑی وہ عالم صاحب والے پورشن کی طرف، جا رھی تھی اس کا عجیب سا انداذ مجھے چونکا گیا کل رات کا سارا واقعہ میری نگاھوں کے سامنے آگیا اف اگر، میں وہ تعویذ اتار دیتا، تو آج زندہ نہ ھوتا اور وہ خوبصورت چڑیل نجانے میرا کیا حشر کرتی عالم صاحب کی طرف سے میں بے فکر تھا، کی کیٹی ان کا کچھ نھی بگاڑ سکتی، میں صبح کی حاجات سے فارغ ھو کر، آفس کے لیےْ تیار ھونے لگا ابھی عالم صاحب کو ناشتہ بھی پہنچانا ھے یہ سوچ کر میں کچن میں گیا ابھی کرم دین نے کچن کا رخ نھی کیا تھا میں نے ان کے لیےْ جلدی جلدی ناشتہ بنایا ٹرے میں رکھ کر ابھی اوپر لے جانے کے لیےْ مڑا ھی تھا کہ کرم دین آ گیا ارے صاحب آج آپ جلدی اٹھ گےْ یا مجھے دیر ھو گیْ؟ میں بس ناشتے کی تیاری کرنے ھی آ رھا تھا ؟؟ْ وہ حیران ھوا ارے نھیں آج مجھے جلدی نکلنا تھا، اور بھوک بھت لگ رھی تھی، آپ کو کیا تکلیف دیتا، سوچا آج خود ھی ناشتہ بنا لیتا ھوں آپ دادا جی کے لیےْ بنایْیں، اور انھیں بتا دیجےْ گا کہ میں آج جلدی نکل گیا ھوں میں کرم دین سے نظریں چراتا ھوا نکل گیا اپنی پیٹھ پر مجھے اسکی حیرت بھری آنکھیں گڑی محسوس ھویْیں، مگر میں کیا کر سکتا تھا بارش کا زور ٹوٹ چکا تھا میں عالم صاحب کو ناشتہ پہنچا کر ، ان سے معذرت کرتا ھوا، آفس کے لےْ، نکل گیا، مبادا، کرم دین، تجسس کے ھوتھوں مجبور ھو کر، میری جاسوسی ھی شروع نہ کر دے آج انھوں نے مجھے بھت اہم بات بتانی تھی، مجھے بھت افسوس ھوا، بہر حال اب کیا ھو سکتا تھا شام کو واپسی پر، آج پھر ایک ویرانے میں میری کار رک گیْ بار بار ٹرایْ کرنے پر بھی نہ چلی تو مجھے غصہ آنے لگا یقینا، میں کار سے باہر نکل آیا آسمان کی طرف نگاہ اٹھایْ تو مزید پریشانی نے گھیر لیا آسمان پر کالے بادل پھر سے برسنے کے لیےْ تیار تھے آج میں جتنی جلدی گھر پہنچنا چاہتا تھا، مجھے اتنی ھی دیر ھو رھی تھی اب کیا کروں؟؟؟میں کار نے ایک سایْیڈ پر کی اور بونٹ سے ٹیک لگا کر کھڑا ھو گیا بارش شروع ھویْ تو میں کار میں ھی بیٹھ گیا اتنی شدید بارش آج تک میں نے اپنی زندگی میں نہ دیکھی تھی میں دل ھی دل میں استغفار کا ورد کرنے لگا مجھے یوں لگ رھا تھا کہ جیسے یہ طوفان مجھے کار سمیت ھی لے اڑے گا تھوڑی دیر بعد جو مناظر میری بصارت نے دیکھے، انہوں نے مجھے اچھلنے پر مجبور کر دیا کبھی کیٹی تو کبھی آیْنہ ھاں وہ کیٹی اور آینہ ھی تھیں، جو میری طرف دیکھ کر بھھت خوش ھو رھی تھیں ایسے جیسے، انھوں نے مجھے ہرا دیا ھو مجھے ہرا کر، فتح اپنے نام کرلی ھو مجھے ان سے خوف محسوس ھوا مغرب سے تھوڑی دیر پہلے، میں ھویلی پہنچا تو دادا جی لان میں بیٹھے، موسم کو انجواےْ کرتے، چاےْ پی رھے تھے میں بھی ان کے سامنے جا بیٹھا بارش میں نہاےْ ھو؟ انھوں نے میرے حلےْ پہ نگاہیں ڈالتے ھوے، مسکراتے ھوےْ پوچھا تو میں بھی ہنس دیا ارے نھیں دادا جی، راستے میں پھنس گیا تھا جتنی جلدی حویلی پہنچنا چاہتا تھا، اتنی ھی دیر ھو گیْ میں نے بالوں میں انگلیاں مار کر پانی جھٹکا کرم دین میرے لیےْ بھی گرما گرم چاےْ لے آیا خیر تو ھے نہ، ریان! آج تم صبح میں بھی جلدی آفس روانہ ھو گےْ تھے، اور اب گھر بھی جلدی آنا چاھتے تھے؟ دادا جی کے سوال پر میں محتاط ھو گیا صبح میں آپکو جوایْن نھی کر پایا ، اسی لیےْ جلدی آنا چاہتا تھا میں نے چاےْ کی چسکی لیتے ھوےْ کھا تھوڑی دیر خاموشی کے بادل چھاےْ رھے اور پھر دادا جی کے سوال پر مجھے ہزار واٹ کا کرنٹ لگا تم کل رات اوپر گےْ تھے ریان؟؟؟ گرم گرم چاےْ میرے حلق میں جا لگی ایک لمحے کے لیےْ مجھے سکتہ ھو گیا بمشکل خود کو سنبھالتے ھوےْ، میں نے الٹا دادا جی سے ھی سوال کر دیا آپ سے کس نے کہا دادا جی ؟؟ْ؟ میری سانسیں سینے میں اٹک گیْیں رات مجھے یوں لگا کہ جیسے کویْ، حویلی کی بالایْ منزل پر ھے، ہلکے ھلکے سے شور کی بھی آواز آ رہی تھی، گھٹنوں کے درد کی وجہ سے میں اوپر جانے سے قاصر تھا، ورنہ اوپر کا ایک چکر ضرور لگا آتا مجھے تمہارا خیال آیا، کہ کہیں تم تو نھیں تھے اوپر؟؟؟ْ دادا جی نے ڈایْریکٹ میری آنکھوں میں دیکھتے ھوےْ کہا ارے نھی دادا جی میں نے کیا کرنا ھے اوپر جا کر؟ ویسے بھی میں کل رات جلدی سو گیا تھا میں نے جھوت کا سہارا لے کر خود کو پر سکون رکھنے کی بھر پور کوشش کی دادا جی مردہ ھیں یا زندہ؟؟؟ میں شش و پنج میں مبتلا ھو گیا بقول عالم صاحب کے ، کہ اگر دادا جی مردہ ھوےْ تو وہ میری موجودگی سے آگاہ ھو جایْیں گے تو کیا دادا جی مردہ ھیں؟؟ْ میں نے بغور انھیں دیکھا ، چہرے پر شفقت، آنکھوں میں نرماہٹ لیےْ وہ مجھے ھی دیکھ رھے تھے اچھا! تم احتیاط کرنا، اوپر مت جانا دادا جی کی بات سن کر میں نے اثبات میں سر ہلا دیا دادا جی کو تو میں نے اپنی طرف سے مطمیْن کر دیا تھا، مگر میرے اندر تک بے چینی پھیل چکی تھی چاےْ پی کر میں دادا جی سے اجازت لے کر اپنے کمرے میں آ گیا اب میری سوچوں کا رخ عالم صاحب کی طرف مڑ گیا
عالم نوراللّٰہ کے آنے سے مجھے یہ اطمینان ہوا تھا کہ بہت سی وہ باتیں جن کے متعلق میں کچھ نہیں جانتا تھا ان کے متعلق جاننے کی امید بندھی تھی یہ جو پرت در پرت اور گتھی در گتھی الجھی اور مخفی حویلی تھی جو پراسرا طاقتوں کا مسکن تھی اس پر سے یہ سب سیاہ بادل چھٹنے والے تھے میں رات کے کھانے کے بعد واک کر رہا تھا نوراللّٰہ صاحب کو میں مغرب کے بعد ہی کھانا پہنچا آیا تھا اسی لیے ان کی طرف سے اطمینان تھا آج انہوں نے پڑھائی کرنی تھی ان کا عمل پورا ہونے سے سارے اسرار کھل کر سامنے آ جانے تھے ذہن کچھ پرسکون ہوا تو خود بخود غنودگی چھانے لگی میں سونے کی غرض سے کمرے میں واپس آ کر بستر پر لیٹ گیا نیند نے کسی مہربان پری کی طرح مجھ پر اپنے پر پھیلا لیے
پتہ نہیں کتنا وقت بیت چکا تھا کہ مجھے نیند میں ایسے لگا کہ کوئی مجھے پکار رہا ہے
" ریان میاں ریان میاں اوپر آئیے "
اس غیبی آواز سے میری آنکھ کھل گئی مجھ پر ابھی بھی غنودگی چھائی ہوئی تھی جبھی میں کوئی بھی ردعمل کرنے سے قاصر تھ اچانک وہ پکار میرے ذہن میں دوبارہ سنائی دی یہ عالم نوراللّٰہ کی آواز تھی میں نے اپنا موبائل اٹھایا اور دبے قدموں سے چلتا راہدای سے ہو کر بالائی منزل کو جاتی سیڑھیوں کی طرف آ گیا پہلے چاروں طرف دیکھ کر اطمینان کیا کہ کوئی جاگ اور دیکھ تو نہیں رہا جب تسلی ہو گئی تو موبائل ٹارچ آن کر کے آہستہ قدموں سے دیتے عبور کر کے راہداری کے آخری سرے پر بنے کمرے کی طرف آیا جہاں عالم صاحب کا قیام تھا اس کمرے کو چننے کی وجہ تو ایک یہ تھی کہ یہ قدرے صاف ستھرا کمرا تھا اور دوسرا یہ راہدری کے اینڈ پر تھا جبھی کسی کی نظر ادھر نہیں پڑ سکتی تھی میں کمرے میں کھنکھار کر داخل ہوا تو دیکھا عالم صاحب مصلے پر بیٹھے تسبیح پڑھ رہے تھے میں نے موبائل میں ٹائم دیکھا تو بارہ بجنے میں پانچ منٹ رہتے تھے آؤ ریان میاں معذرت چاہتا ہوں کہ آپ کی نیند میں مخل ہوا آپ کو جگانے کیلئے مجھے مؤکل کا سہارا لینا پڑا آئیے بیٹھیے میں عمل شروع کرنے والا ہوں آپ کا موجود ہونا بہت ضروری ہے _ "
اوہ تو وہ غیبی آواز جس نے مجھے نیند سے جگایا وہ آپ کے مؤکل کا کارنامہ ہے "
میں نے اپنی الجھن دور کرنے کیلئے تصدیق چاہی
" جی بالکل کسی بھی چیز کے متعلق جاننے یا معلوم کروانے کیلئے ہم مؤکلوں کا سہارا لیتے ہیں ان مؤکلوں کو حاضر کرنے کیلئے ہمیں بہت سی پڑھائی پڑنی پڑتی ہے عمل کرنا پڑتا عبادت کرنی پڑتی ہے روزے بھی رکھے جاتے ہیں اور پرہیز بھی کیا جاتا ہے ___ "
عالم نوراللّٰہ نے ایک ایک کر کے موم بتیاں جلاتے ہوئے میری معلومات میں اضافہ کیا
" یہ موم بتیاں کس لیے عالم صاحب ؟ "
میرے استفسار پر وہ مسکرائے
" آپ یہ تو جانتے ہیں کے بدروحیں اور شیطانی طاقتیں شیاطین اور خبیث جنات میں سے ہوتے ہیں اور مختلف روپ بھر کر ہمیں ڈراتے یا تنگ کرتے ہیں ان کو خود سے دور کرنے کیلئے ہمیں روشنی چاہیے ہوتی ہے یہ اس جگہ سے بھاگتے ہیں جہاں روشنی ہو میں اپنے اور آپ کے گرد ان موم بتیوں سے حصار بناؤنگا ___ "
یہ کہہ کر انہوں نے اگر بتیوں پر کچھ دم کیا اور پھونک ماری پھر ماچس جلا کر انہیں بھی سلگایا اور پورا کمرے میں چاروں طرف اس کی دھونی دی یہ کام کرنے کے بعد انہوں نے چند کاغذوں پر کچھ لکھ کر ان کو روئی میں بٹّا اور بتی کی شکل دے کر چراغوں میں ایک ایک کر کے ڈال پھر اسی طرح سرسوں کا تیل لے کر اس میں بھی کچھ پھونکا اور چراغوں کو اس تیل سے بھر کر روشن کر دیا
میں نے سوالیہ نظر ان کی طرف اٹھائی
" یہ چراغ ایک خاص مؤکل کو بلانے کیلئے ہیں جو اس حویلی کے رازوں پر سے پردہ اٹھانے میں مدد کرے گا ___ "
یہ کہہ کر انہوں نے ایک بوتل سے دم کیا ہوا پانی نکالا کچھ کے چھینٹے اپنے اوپر ڈالے اور کچھ کے مجھ پر باقی کچھ کمرے کے چاروں کونوں میں چھڑک کر خود ہی کہنا شروع ہوئے -
یہ کلام پاک کا پانی ہے جو عمل کے دوران اس میں خلل ڈالنے اور ہمیں نقصان پہنچانے والی شیطانی طاقتوں کے شر سے محفوظ رکھے گا "
عمل شروع ہوا تو سب سے پہلے ایک عورت ظاہر ہوئی پھر اچانک اس عورت کی شکل بدلی اور اب اسکی جگہ جلی ہوئی شکل کی ایک لڑکی کھڑی تھی اس کی آنکھوں سے وحشت ٹپک رہی تھی اپنی انگارہ آنکھیں لیے وہ ہماری طرف بڑھی مگر حصار سے ذرا فاصلے پر ہی رک گئی میرے دیکھتے دیکھتے اس لڑکی کی شکل میں اب روحا کی شکل نمودار ہونے لگی روحا کے بال کھلے ہوئے تھے دانت اتنے بڑھ گئے تھے جیسے چڑیل اور ناخنوں بھی اسی طرح لمبے تھے مگر اسکی بھی بھی حد حصار تک آ کر ختم ہو گئی تھی وہ واپس مڑی میں نے عالم نوراللّٰہ کی طرف دیکھا وہ اسی طرح آنکھیں بند کیے ورد کر رہے تھے میں نے پھر سامنے دیکھا روحا غائب تھی اب اسکی جگہ آئینہ کھڑی تھی یا ایفاء عجبیب معصومیت تھی اس کے چہرے پر مجھے بہت پیار بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی قریب تھا کہ میں اٹھ کر اور حصار توڑ کر اس تک جانے والا تھا کہ میرے ذہن میں ایک آواز گونجی
" اس لڑکی کے قریب میں مت آنا یہ جو بظاہر نظر آ رہی ہے وہ نہیں ____ "
جاری ہے
Post a Comment (0)
Previous Post Next Post