قسط نمبر 15
از قلم:
عشنا کوثر سردار
صبا جرال
اقراء اسلم
خدیجہ عطا
مہوش ملک
سیّدہ فرحین نجم
کوثر ناز
عائشہ تنویر
رابعہ امجد
اقصیٰ سحر
ماہ نور نعیم
فاطمہ نور
آؤ بیٹھو انہوں نے بیڈ کی طرف اشارہ کیا تو میں چلتا ھوا بیڈ پر بیٹھ گیا وہ بھی میرے ساتھ ھی آ بیٹھے پھر ادھر ادھر کی باتیں کرتے مجھے دادا جی کی بے چینی صاف نظر آ رھی تھی
میں دل ہی دل میں حیران ہو رہا تھا کہ آخر دادا جی کو کیا ہو گیا وہ کیوں اتنے بے چین ہیں
دادا جی کیا ہوا، اپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا، بالاآخر مجھ سے رہا نا گیا تو میں پوچھ ہی بیٹھا
تم یہاں کس سلسلے میں آئے ہو، دادا جی نے میری بات کو مکمل طور پر نظرانداز کرتے ہوئے پوچھا ان کے چہرے کے عجیب سے تا ثرات تھے جن میں اب پریشانی کے ساتھ ساتھ غصے کی بھی جھلک واضح تھی، میں حیران پریشان نگاہیں لیے ان کو دیکھنے لگا مجھے ان سے ایسے عجیب اور غیر متوقع سوال کی ہرگز توقع نہی تھی
میں یہاں کام کے سلسلے میں آیا ہوں، میں نے ان کے سوال کا مختصر جواب دیا میں اس جواب کے بعد ان کے چیرے کے تاثرات جاننا چاہتا تھا کہ آخر ان کا یہ سوال پوچھنے کا کیا مطلب ہے
میں یہاں کام کے سلسلے میں آیا ہوں، میں نے دادا جی کے سوال کا مختصر جواب دیا میں اس جواب کے بعد ان کے چہرے پر انے والے تاثرات جانچنا چاہتا تھا کہ اخر ان کا یہ سوال پوچھنے کا کیا مقصد ہے
مگر کام سے ذیادہ تو تمہارا دھیان جاسوسی کی طرف ہے، دوسروں کے ساتھ مل کہ نہجانے کونسے رازوں سے پردہ اٹھانے کے چکروں میں بھی گم ہو آجکل،
"دادا جی__" میں نے کچھ کہنا چاہا مگر وہ میری بات کاٹ کر بولے
"دیکھو ریان تم یہاں کام کے سلسلے میں آئے ہو میں چاہتا ہوں کہ تم وہی کرو حویلی کی کسی بات سے تمہارا کوئی تعلق نہیں، میں نہیں چاہتا کہ تم حویلی کے کسی بھی معاملے کی طرف دھیان دو" ان کا لہجہ دو ٹوک تھا، میں نے پھر کچھ کہنا چاہا مگر انہوں نے ہاتھ اٹھا کہ مجھے روک دیا، مجھے ان کی یہ بے رخی نہ جانے کیوں کھٹک رہی تھی کچھ تو گڑ بڑ تھی مگر کہاں میں نے چپ چاپ وہاں سے اٹھنے میں ہی عافیت سمجی دروازے کے پاس جا کر میں نے ایک دفعہ پھر مڑ کے دادا جی کی طرف دیکھا اور مجھے حیرت کا جھٹکا بھی لگا مگر اپنے سوال کا جواب بھی مل گیا وہ واقعی دادا جی نہیں تھے تو میرا شک بلکل صیح تھا دادا کی جگہ اب وہی ادمی بیٹھا مجھے گھور رہا تھا جس کو میں پہلے بھی کئی دفعہ دیکھ چکا تھا تو یہ مجھے وارننگ دی گئی تھی ان کی طرف سے کہ میں جو بھی کرنے جا رہا تھا اس سے رک جاؤں
میں وہاں ایک لمحہ بھی ضائع کیئے بنا وہاں سے نکل ایا کیونکہ اب میرا وہاں رکنا خطرے سے خالی نہیں تھا میرا رخ سیدھا اپنے کمرے کی جانب تھا میں ابھی راہداری میں ہی تھا جب اچانک مجھے اپنے پیچھے بھاری قدموں کی آہٹ سنائی دی یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی نپے تلے قدم اٹھاتا میرے پیچھے آرہا ہو میں نے مڑ کے دیکھا مگر وہاں کچھ بھی نہیں تھا سنسان اجڑی ہوئی لمبی راہداری میرا منہ چڑا رہی تھا مجھے وہ اواز اپنا وہم لگی میں سر جھٹک کر اگے بڑھ گیا مگر وہ اواز مجھے پھر سنائی دینے لگی اور اب کی بار مجھے لگا کہ یہ میرا وہم نہی ہے مگر مڑ کر دیکھنے پر مجھے کچھ دکھائی نہ دیا مجھے یاد تھا کہ یہ میرے ساتھ پہلے بھی ہو چکا تھا جب میں حویلی کے پچھواڑے گیا تھا ایک رات اور وہ آواز بھی تقریباً اس سے ملتی جلتی تھی میں اپنے کمرے میں پہنچ گیا اور وہاں دکھائی دینے والا منظر کسی بھی انسان کے رونگٹے کھڑے کرنے کے لیے کافی تھا میں کمرے میں داخل ہو چکا تھا اور کھٹک سے کسی نے دروازہ بھی بند کر دیا تھا میں نے فوراً پیچھے دیکھا مگر وہاں کوئی بھی نہیں تھا یوں لگ رہا تھا جیسے دروازہ خود بخود بند ہوا ہو کمرے کے وسط میں پنکھے سے لٹکتی وہ لاش یقیناً آئینہ کی تھی دماغ میں پہلے تو یہ خیال ایا کہ شاید ایفا مگر نہی میں آئینہ اور ایفا میں فرق کر سکتا تھا اتنے دنوں میں مجھے اتنا تو اندازہ ہو ہی گیا تھا میں منجمد سا کھڑا اس لاش کو دیکھتا رہا یہ سب کیا تھا آئینہ تو پہلے ہی مر چکی یہ تھی میری سمجھ میں نہی ارہا تھا کہ میں کیا کروں دروازے پر دستک ہوئی تو میں اچھلا دل یوں تھا جیسے ابھی پسلیاں چیر کے باہر اجایے گا۔مجے کرم دین کی اواز سنائی دی وہ مجھے پکار رہا تھا میں نے جلدی سے دروازہ کھولا اس کی اواز سن کے میرے ہواس کچھ قائم ہوئے
ریان بابو آ کر کھانا کھا لیں، اس نے مجھے کہا تو میں نے اثبات میں سر ہلا دیا وہ چلا گیا میں نے فوراً مڑا کمرہ بلکل خالی تھا وہاں کسی لاش کا نام و نشان تک نہیں تھا یہ سب اخر کس چیز کی علامت تھی لاش کا اس طرح اور وہ بھی ائینہ کی میرے کمرے میں کچھ تو راز تھا اس کے پیچھے کہیں ایینہ اب مجھے اپنی سچایی تو نہی بتانا چاہتی ذہن میں خیال ایا اور مجھے واقعی اب لگ رہا تھا اب بہت جلد ایینہ کی خود کشی کا راز سامنے انے والا تھا
یہ گویا حویلی نہیں تھی بلکہ پراسرار رازوں کا مدفن تھی.
یہاں آ کر میں اتنا الجھ چکا تھا لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ دادا جان برسوں سے رہ رہے تھے اور انہوں نے ایسی کوئی بات نہیں کی. کرم دین کو آئے اتنا عرصہ نہیں ہوا تھا, نہ ہی وہ میری طرح کسی تجسس میں پڑتا تھا. اپنے کام سے کام رکھنے والا اور پانچ وقت کا نمازی بے ضرر آدمی تھا. جبکہ دادا جی تو اس جگہ کے مالک تھے انہیں یہاں کی فکر ہونی چاہیئے تھی, وہ بھیانک چہرے والا آدمی جو ہمیشہ دادا کے روپ میں ملتا تھا, کیا یہ بری طاقتیں دادا جی پر غلبہ پا چکی ہیں اور انہیں بھی اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر رہی ہیں؟
دادا جی کی کوئی مجبوری ان کے ہاتھ میں ہے؟
وجہ جو بھی ہو لیکن دادا جی کا کردار بہت الجھانے والا تھا.
انہی سوچوں میں گم میں کھانے کے کمرے تک پہنچ گیا تھا. دادا جی اپنے چہرے پر شفیق مسکراہٹ لئے میرا انتظار کر رہے تھے.
" آؤ ریان میاں, تم تو اب ملتے ہی نہیں , کہاں گم ہو آجکل؟" انہوں نے مسکرا کر شکوہ کیا. انکی یہی محبت مجھے شرمندہ کر دیتی تھی اور تمام خدشات میرے دل سے نکال دیتی تھی.
"مجھے دادا جی کبھی کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے, ہاں ان کے روپ میں کوئی اور ہو تو الگ بات"
میں نے دل میں سوچا, اور مسکرا کر بیٹھتے انہیں جواب دینے لگا
"بس دادا جی, آفس کی مصروفیت "
"وہ زخمی لڑکی نہیں آئی کھانے پر, کمرے میں کھاتی ہے؟ ہم تو سمجھے تھے کہ چلی گئی ہوگی لیکن آج لان میں نظر آئی"
وہ کھانا نکالتے مگن سے بول رہے تھے اور میں ششدر انہیں دیکھ رہا تھا, ان کا اشارہ روحا کی طرف تھا, لیکن روحا دادا جی کے سامنے کیوں آئی, کہیں میری دشمنی میں وہ دادا جی کو نشانہ نہ بنا لے؟
میرے ذہن میں پریشانی کے بگولے اڑ رہے تھے.
آپ سے کیا بات ھویْ اسکی میری بھوک اڑ چکی تھی "کچھ خاص نھیں"
میں جلدی میں تھا سو ایک نظر ان پر ڈال کر اپنے کام کی تکمیل کے سلسلے میں آ گیا تھا ٹھیک بارہ بجے میں بالایْ منزل کے اسی کمرے میں گیا جہاں بڑھیا رھتی تھیں میں نے اندھیرے کا زور توڑنے کے لیےْ، اپنے سیل کی ٹارچ جلا لی مجھے جلد سے جلد اپنا کام نبٹانا تھا پھر اسی بڑھیا کی مخصوص جگہ پر بیٹھنے کے بعد، میں نے اپنے سامنے زمین کھودنا شروع کی جلد ھی ایک کتاب میرے ھاتھ لگ گئی اس کا شجرہ نسب بھی باقی کتابوں سے ملتا تھا کتاب گرد سے اٹی ھویْ تھی میں نے عالم صاحب کا بتایا خاص ورد کرنا شروع کیا پھر ایک مخصوص تعداد پر پہنچ کر میں نے اس پر پھونک ماری اور اسے کھول لیا وھی آڑی ترچھی لکیریں ، میں ان سے لا علم تھا عالم صاحب کی ھی دیا ھوا رومال اس کتاب کے اورق پر رکھنے سے، کمرے میں پاکیزہ سی خوشبو پھیلنا شروع ھو گئی اور عجیب و غریب زبان کے الفاظ میرے لیئے آشنا ھوتے چلے گئے وہ آئینہ کی پر اثرار موت کا راز تھا جیسے جیسے میں پڑھتا جا رھا تھا، میری آنکھیں حیرت سے پھٹتی جا رھی تھیں اور میں اپنی جگہ دنگ رہ گیا۔"
ہر لفظ پڑھتے ہوئے میرے احساسات عجیب سے تھے آئینہ نے شاید یہ کتاب خود لکھی تھی کیونکہ پڑھتے ہوئے مجھے یوں ہی احساس ہو رہا تھا آئینہ نے اپنی زندگی کا اتنا بڑا راز اس کتاب میں درج کیا تھا اور جس سیاہی سے اس کتاب کو لکھا تھا وہ بھی میرے لیے نا اشنا تھی ہر اگلے صفحے کو کھولتے ہوئے ایک لمحے کے لیے میرا دل بند ہونے لگتا میں اردگرد سے مکمل طور پر بے نیاز ہو چکا تھا اچانک مجھے محسوس ہوا جیسے میرے اردگرد اندھیرا چھا رہا ہو اور میں چاروں طرف سے گھیر لیا گیا ہوں، میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو دنگ رہ گیا جس جگہ میں بیٹھا تھا اس کو چھوڑ کر پورا کمرہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا اور مجھ سے کچھ ہی فاصلے پر اندھیرے میں چمکتی ہوئی بڑی بڑی انکھیں نظر آرہیں تھیں وہ کون لوگ تھے میں نہی جانتا تھا کیونکہ ان کے چہرے مجھے نظر نہی آرہے تھے میں نے بے ساختہ کتاب کو بند کر کے اپنے ساتھ لگا لیا میں اسے چھپانا چاہتا تھا مجھے سمجھ میں نہی ارہا تھا میں اب کیا کروں یہاں سے کیسے نکلوں
میں پاگلوں کی طرح چاروں طرف دیکھ رہا تھا ہر لمحے وہ انکھیں مجھے اپنے قریب محوس ہو رہیں تھیں اچانک کوئی چیز اوپر سے میرے ہاتھ پر گری میں ہڑبڑایا میرے بازو پر رینگتا ہوا وہ یقینا کوئی سانپ تھا گہرے سیاہ رنگ کا وہ موٹا اور کئی انچ لمبا سانپ میرے بازو پر رینگ رہا تھا خوف میری ہڈیوں میں سرایت کر گیا میں برف کی طرح بلکل منجمد تھا میرے دماغ نے کام کرنا بلکل چھوڑ دیا تھا سانپ کو اتنی محویت سے دیکھنےمیں مگن میں یہ بلکل بھول گیا تھا کہ وہ آنکھیں میرے اور نزدیک آرہیں ہیں اتنا خوفناک منظر میں نے اپنی پوری زندگی میں نہی دیکھا تھا میں چیخنا بھی چاہتا تھا مگر چیخ نہی پا رہا تھا میرے ہونٹوں کو کسی نے ایلفی سے جوڑ دیا ہو مجھے اپنی گردن پر بہت سارے ہاتھ محسوس ہوئے اس سے پہلے کے میں اپنے ہاتھ کو ہلاتا اس سانپ نے میرے بازو پہ ڈنگ مارا اور اپنا زہریلا زہر میرے اندر اتارا میں کسی بِن آب کے مچھلی کی طرح تڑپا اور مچلتے ہوئے اسے اپنے اپ سے دور کرنے لگا میری گردن پر بھی ہر لمحے دباؤ بڑھتا جا رہا تھا وہ کتاب نہ جانے کب میرے ہاتھ سے چھوٹ کر دور جا گری تھا وہ سانپ میری جلد سے چپک کر رہ گیا تھا میری سانس اکھڑ رہی تھی میرے گلے کو بہت زور سے دبایا جا رہا تھا مگر اس تکلیف سے ذیادہ جلن اور تکلیف میں اپنے بازو پہ محسوس کر رہا تھا زہر میرے جسم میں داخل ہو رہا تھا اپنی موت مجھے صاف دکھائی دے رہی تھی پھر مجھے لگا کسی نے اس سانپ کو کھینچ کر مجھ سے دور کیا ہو اور اپنی گردن سے دباؤ بھی مجھے کم ہوتا ہوا محسوس ہوا کسی نے اپنے ٹھنڈے لب میرے تپتے ہوئے بازو پر رکھے اور زہر کو میرے جسم سے چوس کر باہر نکالا جوں جوں زہر میرے جسم سے باہر نکل رہا تھا میرے تڑپتے وجود میں ایک سکون اتررہا تھا کسی نے پانی کا گلاس میرے ہونٹوں سے لگایا جو قطرہ قطرہ میرے اندر اتر کر مجھے زندگی بخش رہا تھا
۔ریان تم ٹھیک ہو اپنے بہت قریب مجے ایفا کی اواز سنائی دی ہمیشہ کی طرح وہ اج پھر آگیی تھی مجھے بچانے اج میں نے موت کو بہت قریب سے دیکھا اور محسوس کیا تھا اتنی تکلیف مجھے کبھی محسوس نہی ہویی تھی میں نے انکھیں کھول کہ اپنی اس مسیحا کو دیکھا وہ متفکر چہرہ لیے میرے طرف دیکھ رہی تھی پریشانی اس کے صبیح چہرے سے صاف چھلک رہی تھی
"ایفا"۔۔۔۔میں نے تڑپ کہ پکارا اور ایفا کا تو رواں رواں میرے بولنے کا منتظر تھا ریان تم بلکل پریشان مت ہو اب تم بلکل ٹھیک ہو میں اگیی ہوں ایفا نے پیار سے مجھے تسلی دی اور میں جانتا تھا کہ مجھے اب کویی فکر نہی اس کے ہوتے ہویے مجھے واقعی کچھ نہی ہو سکتا
چھوڑوں گی نہیں میں تمہیں ایفا غصے سے لبریز چنگاڑتی ہویی وہ ائینہ تھی ہم سے کچھ ہی فاصلے پہ کھڑی ہمیں قہر الود نگاہوں سے گھور رہی تھی
"تم کبھی اپنی حرکتوں سے باز نہی او گی، مر کے بھی تمہیں چین نہی ملا" ایفا نے ایک نفرت بھری نگاہ اس پر ڈالی
"کب تک بچاو گی تم ریان کو بولو کب تک۔۔۔۔ریان صرف میرا ہے اور اسے اپنے ساتھ اپنی دنیا میں لے جانے کے لیے کچھ بھی کر سکتی ہوں"
وہ اس وقت کویی بھپری ہویی شیرنی دکھائی دے رہی تھی ایفا سے لڑنا اس کے بس میں نہی تھا ورنہ وہ اب تک اسے مار چکی ہوتی
"تم ریان کا بال بھی بانکا نہی کر پاو گی میرے ہوتے ہویے، تمہارے اس شیطانی ارادے میں کبھی بھی میں تمہیں کامیاب نہی ہونے دوں گی" ایفا نے میرے سر کو اپنی گود میں رکھا ہوا تھا میں بے سدھ سا لیٹا ان کی باتیں سننے اور سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا
"یہ تو وقت بتایے گا" ایینہ کے چہرے پر مکارانا خاص چمک تھی
"تم خود بھی حرام موت مری ہو اور کچھ حاصل نہی ہوا تمہیں، اب خدا کے واسطے دوسروں کو جینے دو چھوڑ دو ریان کا پیچھا پلیز۔۔۔۔" ایفا نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑے تو آئینہ نے ایک بلند قہقہہ لگایا جیسے اس کی بے بسی پر ہنس رہی ہو
"ریان تمہارا نہیں میرا ہے صرف میرا اور اسے پانے کے لیے میں تمہاری جان بھی لے سکتی ہوں" وہ کہتے ساتھ ہی غائب ہو گیی،
ایفا نے میری طرف دیکھا
ریان پلیز انکھیں کھولو، دیکھو اس سے ڈرنے کی کویی ضرورت نہی یہ کچھ نہی کر سکتی صرف خالی دھمکیاں دے سکتی جب تک میں زندہ ہوں تمہیں کچھ نہی ہونے دوں گی، ایفا نے کہا تو میں نے اثبات میں سر ہلا دیا اس کی انکھیں پانیوں سے لبریز تھیں میرے دل کو کچھ ہوامیں نے ہاتھ بڑھا کر اس کے انسو اپنی پوروں پہ چن لیے تو ایک پھیکی سی اداس مسکان نے اس کے چہرے کا احاطہ کیا
"بچپن میں آئینہ کی حرکات کیسی تھیں؟ میرا مطلب ھے کچھ غیر معمولی، باتیں یا حرکتیں تمہیں چونکا دیتی تھیں؟"
میرے غیر متوقع سوال پر ایفا چونک کر مجھے دلکھنے لگی--------کچھ لمحے توقف کے بعد بولی "ہاں ریان! اس نے گہری سانس بھری آئیْنہ میں بہت طاقت ھوا کرتی تھی، اکثر وہ بلا وجہ ھی مجھ سے جھگڑ پڑتی ایک باراس نے اس زور سے میرے منہ پر تھپڑ مارا کہ پورے ہفتے میرے گال پر سے نشان نھیں گیا"
ایفا کی بات سن کر میں سوچ میں پڑ گیا
"آیْینہ بچپن سے ھی بری خصلت کی مالک بچی تھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں بدی کی طاقت زور پکڑتی گیْ، یہاں تک کہ ہمیشہ جینے کی خواہش نے اسکو اپنی ھی جان لینے پر مجبور کر دیا----"
"تم اس بات سے با خبر ھو کہ آیینہ ھی اپنی قاتل تھی؟"
میں نے پوچھا تو ایفا کی آنکھوں میں آنسو آ گےْ
"کہنے کو تو وہ میری بہن تھی ریان مگر اسکی حرکات مجھ سے مکمل مختلف تھیں کبھی کبھی وہ اپنی باتوں سے مجھے ڈرا دیتی تھی یہاں تک کہ ایک بار میں نے ایک روح فرسا منظر دیکھا" ایفا اتنا کر خاموش ھو گیْ ماحول میں عجیب سی اداسی طاری تھی کچھ لمحوں بعد وہ دوبارہ بولی تو اسکے لہجے سے کرب عیاں تھا
"وہ ایک سہانی صبح تھی ہلکی ہلکی ھوا چل رھی تھی بادل بھی آسمان پر اٹھکیلیاں کرتے پھر رھے تھے میں اور آئینہ صحن میں بیٹھے، موسم انجواےْ کر رھے تھے اچانک بارش شروع ھو گیْ آیْینہ ہمیشہ بارش سے گھبراتی تھی ایک بار باتوں باتوں میں اس نے مجھے بتایا تھا کہ بارش میں اسے عجیب سی چیزیں نظر آتیں ھیں، بہر حال یہ بات آئی گئی ھو گئی اس صبح بھی آئینہ بے چین ھو گئی وہ بھاگتی ھوئی اندر چلی گیْ میں نے پہلے تو کویْ نوٹس نہ لیا، مگر جب کافی دیر بعد بھی وہ واپس نہ آیْ تو میں اسے بلانے چل دی پورے گھر میں کھیں بھی نہ تھی وہ صرف کچن دیکھنا باقی تھا میرا رخ کچن کی جانب تھا اور وہاں پہنچ کر میں نے جو منظر دیکھا، وہ بہت خوفناک تھا ریان!" ایفا کے منہ سے بے اختیار سسکی نکلی میں اس کے بولنے کا انتظار کرتا رھا
آئینہ نے خود پر مٹی کا تیل چھڑک رکھا تھا اگر مجھے وہاں پہنچنے میں ایک لمحے کی بھی تاخیر ھو جاتی تو جلتی تیلی اپنا کام دکھا جاتی" ایفا اب ہچکیوں سے رونے لگی تھی
"پتہ ھے ریان" وہ دوبارہ گویا ھویْ
"اس وقت جب میں نے آیْنہ کو بچایا تو پہلے تو وہ مجھ پر بھت غصے ھویْ مگر بعد میں میرے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی اس کے الفاظ مجھے آج بھی یاد ھیں ریان اسنے مجھے کہا تھا"
تم نے مجھے کیوں بچایا ایفا مرنے دیتیں مجھے کم از ک اس روز روز کے عذاب سے تو جان چھوٹتی"
وہ اذیت میں تھی، مرنا چاہتی تھی وہ موت کی دعایْیں کرتی تھی اور بری طاقتیں اسے یہ سب کرنے پر مجبور کرتی تھیں خاص طور پر پرکی جس کو دادی نے گھر سے نکال دیا تھا" میں سانس روکے ایفا کو سن رھا تھا
"مجھے اور بھی بہت کچھ پتہ چلا ھے ایک کتاب سے" میں نے کہا تو ایفا نے چونکے بغیر کہا
"وہ یقینا آیْینہ کی ڈایْری ھو گی، جو ایک دن پرکی کے ہتھے چڑھی تو پھر آیْنہ کی رازدار نہ رھی ایفا نے کہا اب چونکنے کی باری میری تھی
" تم نے سنا ہو گا نا ریان ؟ کہ برائی اور بدی کی طاقتں بدروحیں ہر اس شخص کو اپنی طرف کھینچتی ہیں جو اپنے اندر انہیں کی طرح برائی کی طاقت رکھتا ہے یا اس سے انجان ہوتا ہے جو برائی اس کے اندر پنہاں ہوتی ہے ایک خاص کشش رکھتیں ہیں یہ مخلوقات ایک دوسرے کیلئے جیسے جیسے مقناطیس ایک دوسرے کو کھینچتے ہیں بالکل بالکل یہی آئینہ کہ ساتھ ہوا تھا بچپن میں میں دادی جو اس کی ان عجیب و غریب حرکات کو اسی کی شرارت سمجھ کر نظر انداز کرتے تھے آہستہ آہستہ ہمیں یہ ادراک ہوتا چلا گیا کہ یہ شرارت نہیں بدی اور شر کی قوت ہے جو اس کے اندر جڑ پکڑ چکی ہے جسے ہم کسی نصحت، سرزنش سختی یا مار سے قابو نہیں کر سکتے نا نکال سکتے ہیں اور اسکی اس قوت کو شہ تب ملی جب ایک دن وہ کہیں سے ایک بلی لے کر آئی ہمیں اس وقت تک اندازہ نہیں تھا کہ جس بلی کو ہم اسکی رحم دل طبعیت پر محمول کر کے اپنے گھر میں جگہ دے چکے ہیں وہ ایک بدروح ہے ہم نے اکثر تنہائی میں راتوں کے پچھلے پہر آئینہ کو پرکی سے سے باتیں کرتے دیکھا مگر نظر انداز کر دیا لیکن آئینہ کی بڑھتی ہوئی شر انگیز حرکتیں شرارتیں دادی اور مجھے ٹھٹھکنے پر مجبور کرنے لگیں آئینہ کی اس طرح خودکشی ایک ایک ناکام کوشش نے مجھے دہلا کر رکھ دیا تھا میں نے سب کچھ دادی کو بتا دیا اس دن سے دادی آئینہ پر نظر رکھنے لگیں جبھی وہ مجھ سے پہلے پرکی کی حقیقت اور اصل معاملے کی تہہ تک پہنچ چکیں تھیں ایک دن دادی نے رات کو آئینہ کو پرکی کے ساتھ سرگوشیاں کرتے سنا وہ کہہ رہی تھی "
" پرکی میرا دل چاہتا ہے میں کسی کو ماروں پرندوں کو جلا دوں اپنے دشمنوں کو سسکنے پر مجبور کر دوں مگر میری طاقت اتنی طاقت ور نہیں میں بھی تمہاری طرح طاقت ور ہونا چاہتی ہوں"
"اور تب دادی کی حیرت کی انتہاء نہیں رہی جب انہوں نے پرکی کو بولتے اور جواب دیتے سنا
" اس کیلئے تمہیں دوام چاہیے دوام ہمیشگی امر ہو جانا آب حیات پینا پڑے گا تمہیں مزید طاقتں حاصل کرنی ہونگی اور طاقتور بننا ہو گا "
" ہاں ہاں پرکی میں یہی چاہتی ہوں میں میں ایسا ہی چاہتی ہوں امر ہونا طاقتور ہونا مجھے مجھے بتاؤ پیاری یہ سب یہ سب کیسے ممکن ہو گا مجھے کیا کرنا ہو گا پرکی ؟"
" تمہیں تمہیں مرنا پڑے گا اس کے لیے خود کو ختم کرنا پڑے گا جبھی جبھی دوام تمہارا مقدر ہو گا "
" کیا" آئینہ کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا
"بس یہی تک دادی کے سننے کی ہمت رہی ریان پھر انہوں نے اسی وقت پرکی کو پکڑ کر گھر سے نکال دیا آئینہ کو بھی خوب جھاڑا مگر اس نے رو رو چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لیا تھا وہ پرکی کو دوبارہ ڈھونڈ کر لانا چاہتی تھی مگر دادی نے اس کی ایک نہ چلنے دی پھر ہم نے دیکھا آئینہ چپ چپ رہنے لگی بات چیت کرنا چھوڑ دی ہم کرتے بات بھی تو کاٹ کھانے کو دوڑتی پھر وہ دیر دیر تک گھر سے غائب رہنے لگی ہمارے پوچھنے پر لڑنا شروع کر دیتی کہ تم لوگ مجھے چین سے جینے کیوں نہیں دیتے چھوڑ دونگی ایک دن تم کو اس دنیا کو سب کو
"مجھے یہ اسکی ڈائری سے ہی پتہ چلا تھا کہ پرکی کو اس رات جس رات دادی نے نکالا تھا کوئی بوڑھے آدمی ترس کھا کر اپنی حویلی لے گئے تھے اور پرکی کی غیبی آواز یا کشش نے آئینہ کو بھی اس حویلی کا رخ کرنے پر مجبور کر دیا اور ادھر ہی اسے کوئی ایسی طاقت ملی کہ اس نے موت کو زندگی پر ترجیح دی ایک دن ایک کار ایکسیڈنٹ میں اسکی وفات ہو گئی ہم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ ایکیسڈنٹ دوسرے بندے کی غطی سے ہوا تھا یا آئینہ خود جان کر گاڑی کے سامنے آ گئی تھی -"
میں نے چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لیا تھا دادی آئیں دیکھیں آئینہ کو کیا ہوا ہے مگر وہ کب کی دنیا چھوڑ چکی تھی آئینہ کی موت سے چند روز پہلے آئینہ کی ایک دوست روحا نے خودکشی کی تھی جو اکثر آئینہ کے پاس آتی تھی مگر روحا اور آئینہ کی کوئی لڑائی چل رہی تھی اور اس کے بعد پہلے روحا پھر آئینہ اس دنیا سے چلیں گیئں
" اسکی موت کے بعد عجیب وغریب واقعات گھر میں رونما ہونے لگے کبھی آئینہ کے کمرے سے چلنے پھرنے کی آوازیں آتیں اور کبھی ہنسنے کی کبھی کبھی مجھے لگتا میرے پیچھے کوئی کھڑا ہے کبھی آئینہ کی شکل رات کے پچھلے پہر مجھے سوتے میں گھورتے پائی گئی کبھی اسکی کوئی سرگوشی سنائی دیتی دادی بھی ان سب سے تنگ آ چکیں تو ایک دن میرے ساتھ ایک بہت بڑے عالم اور پہنچے ہوئے بزرگ کے پاس گئیں اور ادھر ہی بہت عجیب وغریب اور حیرت انگیز باتیں پتہ چلیں"
میں جو کافی انہماک سے ایفاء سے آئینہ کی کہانی سن رہا تھا فوراً بولا
" وہ کیا ؟ "
" وہ یہ کہ پرکی ایک بلی نہیں بلکہ کسی جادوگرنی کی بدروح ہے جو ان بابا جی کی حویلی میں چلاء کاٹتے ہوئے خوفزہ ہونے کے باعث اور بری طاقتوں کے مقابلے میں کم طاقتور ہونے کے باعث جل کر مر گئی تھی اسکی روح بلی کے بہروپ میں جگہ جگہ پھرتی تھی وہیں کہیں اس نے آئینہ کو دیکھا اور اس کی دیوانی ہو گئی اور برائی کی کشش کی وجہ سے آئینہ اسے گھر لے آئی وہ جادوگرنی آئینہ کو ہمیشہ کی زندگی کی ترغیب دیتی تھی جب دادی نے پرکی کو نکالا تو وہ اپنے اصل کی طرف دوبار لوٹ گئی اپنی کشش کے باعث پرکی نے آئینہ کو بھی حویلی بلانا شروع کر دیا جہاں اسکی طلاقت بہت زیادہ تھی انہیں عالم سے پتہ چلا کہ پرکی آئینہ سے حویلی میں ایک چلہ کٹوا رہی تھی جبھی وہ غائب رہتی تھی اس چلے سے آئینہ کی طاقت میں بے پناہ اضافہ ہوا وہ دوام کا چلہ تھا جس کے اختتام پر آئینہ کو اپنی جان خود لینی تھی اور پھر یہی ہوا وہ اپنی جان دے چکی تھی عالم کے مطابق اس جادوگرنی کی روح اب بھی حویلی میں بھٹکتی پھرتی ہے
ہمیں بابا جی سے پتہ چلا کہ میں اچھائی اور نیکی کی طاقتیں رکھتی ہوں اور اسے اس وقت ہی اسعتمال کر سکتی ہوں جب کوئی میرا بہت اپنا مشکل میں ہو گا جس سے میں محبت کرتی ہونگی"
" بابا جی کے مطابق حویلی میں جس جادوگرنی کی روح بھٹکتی ہے اور جس کا شر سب سے زیادہ ہے اس کے پاس ایک انگوٹھی اور کتاب تھی اسی کتاب کے عملیات کے ذریعے اس جادوگرنی نے اتنی طاقت حاصل کی کہ اپنے چلے کو اختتام تک بخیر و عافیت پہنچایا مگر آخری رات کا عمل بہت سخت تھا اور وہیں پر اپنے ڈر جانے کی وجہ سے شیطانی قوتوں نے اسے جلا کر بھسم کر دیا مگر وہ تب تک کافی شر کی قوتیں کو اپنا محکوم بنا چکی تھی اس نے دوام حاصل کر لیا تھا وہ کوئی بھی روپ دھار سکتی تھی جبھی بلی کا روپ دھار کر کبھی پرکی کبھی کیٹی کے روپ میں سامنے آتی رہی اس کے ہاتھ میں ایک انگوٹھی تھی جس میں اس حویلی میں موجود بدروح شیطانی طاقتوں کا اثر ہے پہلے وہ انگوٹھی جادوگرنی کے پاس تھی لیکن پھر آئینہ نے وہ قوتیں اپنے کنٹرول میں کرنے کیلئے اس جادوگرنی سے لے لی تاکہ اس کی طاقت میں اضافہ ہو جائے جبھی وہ انگوٹھی تمہارے ہاتھ لگتی ہے تو آئینہ کس نا کسی طرح وہ تمہارے پاس رہنے نہیں دیتی وہ اب اس انگوٹھی کی طاقت سے اپنے سب مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے اور اسکا سب سے بڑا مقصد تمہیں حاصل کرنا اور اپنی دنیا میں لے کر جانا ہے جس کیلئے تمہارا مرنا ضروری ہے ___ "
" کیا ؟ "
میں جو دم سادھے اس کے انکشافات سن رہا تھا آخری بات پر چپ نا رہ سکا
اور ایک اور بات بتاوں تمہیں جس دن ایینہ کی موت واقع ہویی تھی اس دن میں نے پرکی کو اپنے گھر میں دیکھا تھا وہ ناچ رہی تھی خوشی اس کے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی اس نے ایینہ کے کمرے میں موجود ساری چیزوں کو اگ لگا دی تھی اور اس اگ کے گردساری رات رقص کیا تھا میں کچن سے دادی کے لیے پانی لینے گیی تھی جب مجے ایینہ کے کمرے میں روشنی دکھائی دی اور وہاں جا کہ میں نے یہ عجیب و غریب منظر دیکھا۔۔۔۔۔یہ بات میں نے دادی کو بھی نہی بتایی تھی کیونکہ صبح تک وہ وہاں سے جا چکی تھی اور رات کو جو اگ جلایی تھی اس کا بھی نام و نشان تک نہی تھا
مگر دادی نے تو مجھے بتایا تھا کہ ایینہ کی موت کار ایکسیڈینٹ میں ہوئی تھی، میں کچھ یاد انے پر بولا ،
۔ہاں دادی سب کو یہی بتاتی ہیں بدنامی کے ڈر سے تمہیں بھی اسی لیے یہ بتایا ہو گا مگر حقیقت اس کے بر عکس ہے ایینہ نے اپنی جان خود لی تھی
۔ایفا نے مجے بہت کچھ بتایا تھا اور ان میں سے کچھ باتیں میں نے کتاب میں بھی پڑیں تھیں۔۔۔میں ایک بات سے خوش بھی تھا چلو کسی راز سے تو پردہ اٹھا تھا۔۔۔۔یہ کتاب کیی بار میں نے دادا جی کو بھی پڑھتے دیکھا تھا اب اس سارے معاملے میں دادا جی کیوں شامل تھے مجے اس بات کا پتا لگانا تھا
........
میرا ذہن بھٹک کر انگوٹھی کی طرف چلا گیا اس پر عجیب سے نقش و نگار، مجھے حیرت میں ڈال رھے تھے آخر آیْینہ اس انگوٹھی سے کیا مقاصد حاصل کرتی تھی یقینا وہ انگوٹھی بدی کی طاقتیں رکھتی تھی، اور آیْینہ بھی اس سے دلی سکون حاصل کرتی ھو گی میں ایفا کی طرف چلا گیا وہ لان میں بیٹھی، موسم انجواےْ کر رھی تھی مجھے دیکھ کر خوش ھو گئی
اوہ ریان! کیسے ھو تم؟ میں ٹھیک، تم سناوْ میں بھی مسکراتے ھوےْ اسکے سامنے کرسے پر بیٹھ گیا بھت بہتر ھوں اب، تمہارا کیسے آنا ھوا آج؟ خیریت ھے نہ؟ ھاں سب خیرہت ھی ھے،، میں سنجیدہ ھوا تم سے آیْینہ کے بارے میں ایک بات پوچھنی تھی ھاں ھاں بولو آیْینہ کے پاس، وہ انگوٹھی کہاں سے آیْ تھی، جس کو لے کر وہ بھت پریشان تھی میں نے پوچھا تو ایفا نے ایک گہرا سانس لیا بھت پہلے کی بات ھے، ایفا گویا ھویْ ایک دن میں اور آیْینہ مارکیٹ میں شاپنگ کر رھے تھے اچانک آیْینہ کی طبیعت خراب ھو گئْ اسکی بھت عجیب حالت تھی آنکھیں سرخ انگارہ ھو رھی تھیں میں گھبرا گیْ میں نے اس سے پہلے آیْینہ کو ایسی حالت میں کبھی نہ دیکھا تھا میں نے اس سے ڈاکٹر سے چیک اپ کے لیےْ کہا مگر وہ ٹال گیْ پھر مجھے زبر دستی، ایک ویرانے میں لے گیْ یہ جگہ مارکیٹ سے تھوڑے فاصلے پر تھی میری حیرت کی انتہا نہ رھی جب پرکی وہاں ایک انگوٹھی لے کر آیْ، یہ وھی انگوٹھی تھی ریان، جو آیْنہ ایک بار پھر گما چکی ھے میرے پوچھنے پر کہ یہ انگوٹھی اس کے پاس کہاں سے آیْ، آیْینہ ٹال گیْ حیرت کی بات یہ تھی کہ تھوڑی ھی دیر بعد اسکی طبیعت بلکل ٹھیک ھو گیْ اسی رات عجیب واقعہ پیش آیا رات کے تیسرے پہر پیاس کی شدت سے میری آنکھ کھلی تو پینے کی غرض سے مجھے کچن میں جانا پڑا آیْینہ کے کمرے کے سامنے سے گزرتے ھوےْ مجھے عجیب سا احساس ھوا میں داوازہ کھول کر اندر داخل ھویْ آیْینہ سٹڈی ٹیبل پر اپنی ڈایری چھوڑ کر واش روم گیْ تھی اتنی رات کو آخر وہ کیا لکھ کر رھی تھی مجھے تجسس ھوا میں جلدی سے وہاں تک گیْ اور اسکی ڈایْری پڑھنے لگی اس پر آج مارکیٹ کی روداد لکھ رھی تھی ایفا خاموش ھو گیْ- پھر؟؟؟
میں نے بے قراری سے پوچھا اس پر جو جملے درج تھے میں انھیں مرتے دم تک نھی بھول سکتی وہاں درج تھا "پرکی اگر آج تم میری گھر بھول جانے والی انگوٹھی مجھے نہ پہنچاتی، تو میں مر جاتی میری زندگی کا آخری دن ھوتا دوام حاصل کرنے کی خواہش، خواب ھی رھ جاتی شکریہ پرکی میں ڈایْری پڑھ کر میں واپس آگیْ مجھے بھت دکھ ھوا کہ میری بہن نجانے کن راھوں کی مسافر بن چکی تھی ایفا کا اداس لہجہ میری برداشت سے باہر تھا اسے تسلی دے کر میں واپس حویلی آ گیا
مجھے یاد تھا کہ ابتدائی دنوں میں جب میں یہاں رہ رہا تھا تو ایک دن آفس سے واپسی پر میں نے قبرستان والے روڈ پر دادا جی کو دیکھا تھا, ان دنوں میرے ساتھ اتنے پراسرار واقعات نہیں ہوئے تھے, سو میں نے آرام سے گاڑی روک کر انہیں آواز دی.
"دادا جی آپ یہاں کہاں, آئیں میرے ساتھ چلیں. "
میں نے ان کے چہرے کے تاثرات پر غور کئے بناء پوچھا تھا.
" آپ اتنی دور پیدل کیوں آگئے اور اس ویرانے میں کیا کام؟ "
" ہممم ہمارا دوست ہے ادھر علیم الدین, اس سے ملنے ہی آیا تھا۔ "
دادا جی کے جواب پر میں نے زیادہ کرید نہیں کی تھی کیونکہ ان دنوں میں یہاں کے حالات سے اتنا واقف نہ تھا, لیکن اب کڑی سے کڑی ملاؤں تو بہت کچھ مشکوک لگتا ہے.
علیم الدین کا گھر گاؤں کی حدود میں تھا اور اس روڈ پر گھنے جنگل اور ویران قبرستان کے سوا کچھ نہ تھا , اور وہاں جگہ یہاں سے اتنے فاصلے پر تھی کہ گھر میں گاڑی موجود ہونے کے باوجود پیدل جانا بذات خود ایک مشکوک عمل تھا.
بہرحال پہلے جو بھی ہوا تھا لیکن اب میں ہر چیز, یر واقعے پر نظر رکھے ہوئے تھا.اس معاملے کو حل کرنا ہی اب میرا مقصد زندگی تھا.
میں اس حویلی میں جو کچھ بھی پراسرار طاقتیں تھیں ان سے پردہ ہٹانا چاہتا تھا اس کیلئے مجھے کسی عالم کی ضرورت تھی جو مجھے ان طاقتوں سے لڑنے کا حل بھی بتا سکے کرم دین کی دی ہوئی روحانی چیزیں کافی نہیں تھی میرے لیے جبھی میں نے اس نمبر پر کال ملا دی جو مجھے کرم دین نے دیا تھا ___ کافی حلیم آواز کے مالک تھے عالم نوراللّہ میں نے انہیں سب ماجرہ کہہ سنایا میں نہیں چاہتا تھا کہ کوئی اس بات کو جانے کے میں کسی عالم سے رابطے میں ہوں اسی لیے حویلی سے باہر نکل آیا تھا جب عالم نوراللّٰہ کے گوش گزار سب باتیں کر دیں اور ان کے تسلی دینے اور یقین دلانے کے بعد کہ وہ میری مدد کریں گے طمانت کی ایک لہر تھی جو میرے رگ وپے میں اتر گئی تھی عالم نوراللّٰہ مجھ سے ملنا چاہتے تھے جبھی میں ان کا پتہ پوچھ کر آدھے گھنے بعد ان کے سامنے تھے
عالم نوراللّٰہ ایک باریش شخصیت تھے عمر یہی کوئی ساٹھ پینسٹھ سال کے لگ بھگ ہوگی مگر ان کی داڑھی اور سر کے بال سفید تھے ویسا ہی سفید براق لباس زیب تن کیا ہوا تھا ہاتھ میں تسبیح اور نگاہوں میں شرم اور حیا کہ بہت کم آنکھ اٹھا کر دیکھتے تھے مگر جب بھی دیکھتے تو اگلا بندہ ان کے رعب سے اپنی نگاہ جھکا لیتا تھا عجیب وقار اور تمکنت تھی ان کی شخصیت میں ان کی رہائش گاہ انہیں کی طرح سادہ تھی ایک پلنگ اس کے ساتھ تپائی ایک میز اور کرسی جس پر لکھنے کا سامان دھرا تھا اور اسی کے ساتھ ایک شیشے کی الماری جس میں دبیز جلد کی کتابیں ترتیب سے رکھیں تھی تپائی پر قرآن پاک کا نسخہ بھی ركھا ہوا تھا
" ہاں تو میاں ریان تمہاری جتنی بھی باتیں سنی اس سے لگتا تو یہی ہے کہ حویلی پر بہت سے بری طاقتوں کا قضبہ ہے اور میرا اندازہ ہے کہ وہ کافی عرصے سے اس حویلی کو اپنے رہنے کا ٹھکانہ بنائے ہوئے ہیں اب مزید باتوں کا پتہ تو وہاں جا کر جائزہ لینے اور عمل کرنے کے بعد ہی پتہ چل سکتا یے "
عالم صاحب تسبیح کا آخر ورد کرنے کے بعد بولے
" جی ٹھیک ہے ___ لیکن میری گزارش سمجھیں یا خواہش کے میں نہیں چاہتا کہ حویلی میں مرے علاوہ کسی کو آپ کی آمد کا پتہ چلے "
میں نے مؤدب ہو کر اپنی عرض ان کے گوش گزار کی
" ہوں میاں اس کیلئے تو آپ کو خود ہی کوئی حل ڈھونڈنا پڑے گا "
" جی جی میں تیار ہوں کچھ نا کچھ سوچتا ہوں کیا یہ ممکن نہیں کہ آپ حویلی جا ایک جائزہ آج ہی لیں ؟ "
میں حویلی کہ ماحول کو جلد از جلد بدلنا چاہتا تھا جبھی آج ہی سے اس کام کی پیش رفت ہو یہی سوچ کر اپنی خواہش کو زبان پر لے آیا
" ٹھیک ہے میاں ہم چلنے پر راضی ہیں "
یہ کہہ کر عالم نوراللّٰہ نے اپنی تسبیح قرآن پاک کا نسخہ اور ایک پانی کی بوتل اور چند تعویز کی ایک پوٹلی بنائی اور چلنے کیلئے تیار ہو گئے
میں انہیں ساتھ لے جانے سے پہلے حویلی کی خبر جاننا چاہتا تھا کہ عالم صاحب کو کوئی مسئلہ نا ہو سب سے پوشیدہ رکھ کر لے جانے میں یہی سوچ کر میں نے کرم دین کو فون ملایا اور اسے یہی کہا کہ میں آج لیٹ آؤنگا دادا جان کو مطلع کر دو تو کرم دین نے مجھے بتایا کہ دادا جی کہیں گئے ہوئے ہیں اور ان کی واپسی عشاء کے بعد ہو گی میرے لیے یہ خبر بہت اچھی تھی اب میں دادا جی کی غیر موجودگی میں آرام سے عالم نوراللّٰہ کو بالائی منزل اور حویلی کے عقب والی جگہ دیکھا سکتا ہوں یہی سوچتے ہوئے میں نے گاڑی سٹارٹ کر دی -
☆☆☆☆
میں لاوٴنج میں بیٹھا ٹی وی دیکھنے میں مگن تھا، دادا جی میرے سامنے والے صوفے پر اکر بیٹھ گیے، میں نے ریموٹ سے ٹی وی کا والیوم کم کر دیا
"کیسے ہو" دادا جی نے خود ہی بات شروع کر لی شاید وہ بھی باتوں کے موڈ میں تھے تبھی تو میرے پاس ایے تھے
میں بلکل ٹھیک ہوں، میں نے بھی مسکراتے ہویے جواب دیا اس سے پہلے کے دادا جی یا میں کچھ بولتا کرم دین نے اکہ بتایا کہ کویی عالم صاحب مجھ سے ملنے ایے ہیں میں نے ایک چور سی نگاہ دادا جی پر ڈالی اور میرا اندازہ بلکل درست ثابت ہوا تھا دادا جی کے سرخ وسفید چہرے پر غصے کی لہریں واضح تھیں، مگر کیوں ۔۔۔۔اس بات کا میرے پاس جواب نہی تھا میں نے کرم دین کو عالم صاحب کو باہر بٹھانے کو کہا اور دادا جی سے معذرت کرتا ہوا باہر نکل گیا۔۔۔عالم صاحب مجھے دیکھتے ہی کھڑے ہو گیے میں نے بھی ادب سے ان کو سلام کیا اور بیٹھنے کا اشارہ کیا، کرم دین کو میں نے چایے لانے کےلیے بولا اصل مقصد اس کو وہاں سے ہٹانا تھا
کیسے ہو بیٹا، وہ بھی شاید اسی کے جانے کے انتظار میں تھے تبھی اس کے جاتے ہی فورا بولے
میں نے ان کو اپنے ساتھ ہونے والے تمام واقعات سنا دیے،
میں سب جانتا ہوں بیٹا اور اسی لیے اب تمہاری مدد کرنے ایا ہوں، انہوں نے میری طرف دیکھتے ہویے کہا میں نے ایک نگاہ اپنے چاروں طرف ڈالی ناجانے کیوں ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے کوئی ہمارے اس پاس موجود ہو، اور عالم صاحب شاید سمجھ چکے تھے میری الجھن۔۔۔۔فکر مت کرو میرے ہوتے ہویے کویی تمہارا کچھ نہی بگاڑ سکتا، انہوں نے کہا تو میں سر ہلا کر رہ گیا۔۔۔۔عالم صاحب اپنا قیام حویلی میں کرنا چاہتے تھے مگر اس کے لیے دادا جی سے اجازت لینا ضروری تھا اور مجھے پوری امید تھی وہ کبھی بھی اجازت نہیں دیں گے
جب میں نے یہ بات عالم صاحب کو بتایی تو وہ بھی کچھ توقف کے لیے خاموش ہو گیے اور پھر کچھ سوچنے کے بعد بولے
تم نے مجھے بتایا تھا نا کہ تمہیں دادا جی پر شک ہے کہ وہ بھی زندہ نہیں، اب اس بات کا بھی پتہ چل جایے گا۔۔۔ان کی بات پر میں سوالیہ نظروں سے ان کی طرف دیکھنے لگا۔۔۔۔دیکھو اگر تو دادا جی زندہ ہویے تو ان کو میرا اس حویلی میں قیام نہیں پتا لگے گا اور اگر وہ زندہ نہی ہیں تو پھر وہ مجھے دیکھ سکتے ہیں۔۔۔۔مگر ایسا ہو گا کیسے، میں نے کچھ الجھن بھرے انداز میں پوچھا۔
جاری ہے
Khamoshi All Previous Episodes
Khamoshi Episode 01 Khamoshi Episode 02 Khamoshi Episode 03 Khamoshi Episode 04 Khamoshi Episode 05 Khamoshi Episode 06 Khamoshi Episode 07 Khamoshi Episode 08 Khamoshi Episode 09 Khamoshi Episode 10 Khamoshi Episode 11 Khamoshi Episode 12 Khamoshi Episode 13 Khamoshi Episode 14 Khamoshi Episode 15 Khamoshi Episode 16 Khamoshi Episode 17 Khamoshi Episode 18 Khamoshi Episode 19 (Last Episode)