Khamoshi episode 14 - Ushna kausar sardar

 

Khamoshi novel


قسط نمبر 14
از قلم:
عشنا کوثر سردار
صبا جرال
ماورہ طلحہ
اقراء اسلم
خدیجہ عطا
مہوش ملک
سیّدہ فرحین نجم
کوثر ناز
عائشہ تنویر
رابعہ امجد
اقصیٰ سحر
ماہ نور نعیم
فاطمہ نور
اس نے غصے سے مجھ پر دوبارہ حملہ کیا میں نے فورا سے پہلے اپنی جگہ چھوڑی وہ اوندھے منہ بیڈ پر جا گری پھر کرنٹ کھا کر پلٹی اور مجھ پر حملہ کر دیا میں نے خود کو بچانے کی کوشش کی مگر میرا ھاتھ اسکے ناخنوں نے زخمی کر دیا میرے منہ سے بے اختیار چیخ نکلی میں منہ کے بل سایْیڈ ٹیبل سے جا ٹکرایا میری نگاھوں کی سامنے اندیرا چھانے لگا میں نے سر جھٹکا مجھے کیا کرنا چاہہْیے؟ اگر آج میں مر جاتا تو حویلی کا راز ، راز ھی رہ جاتا مجھے اپنے لیےْ نھی، کمزور لوگوں کے لیےْ جینا تھا
اپنے دوست اور دیگر لوگوں کا بدلہ لینا تھا
میں نے تیبل پر رکھا ھوا گلاس اٹھایا، اور اس میں بچا پانی اس پر پھینک دیا میری آنکھیں بند ھونے لگیں میں نے اسکی چیخیں سنیں بند ھوتی آنکھوں سے دیکھا کہ اسکے دونوں ھاتھ ھوا میں اٹھے اور ایک دوسرے کی مخالف سمت میں لہرانے لگے دفعتا اسکے وجود نے آگ پکڑ لی شعلوں کی تپش سے میرا بدن دہکنے لگا دیکھتے ھی دیکھتے وہاں راکھ کے ڈیھر کے سوا کچھ نا بچا اور تیز ھوا سے وہ راکھ کھڑکی کے راستے اڑتی چلی گئی
مجھے اپنے کمرے میں پلاسٹک جلنے کی بو محسوس ھویْ میں چونک پڑا یہ کس چیز کے جلنے کی بو ھے؟ میں حیران ھوتا ھوا ادھر ادھر دیکھنے لگا اور میری حیرت کی انتہا نہ رھی جب میں نے اپنے بریف کیس کو جلتے دیکھا میں نے دوڑ کر اسے اٹھایا اور کھلی فزا میں آگیا زمیں پر رکھ کر اسے کھولا تو اس میں موجود کتاب دھڑا دھڑ جل رھی تھی میں تماشایْ بنا تما شا دیکھتا رھا ؛ اور انتظار کرنے لگا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ھے
کیوں کر رھے ھو تم یہ سب آینہ کی آواز میرے کانوں میں پڑی میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو سامنے ھی آینہ نڈھال سی کھڑی تھی بھت تکلیف میں ھو تم؟ میں نے پوچھا تو اسنے اثبات میں سر ہلا دیا دیکھو آیْنہ ! میں نے اسے سمجھاتے ھوےْ مخاطب کیا یہ دنیا تمھارے لیےْ بھتر نھی ھے تمھیں اپنی دنیا میں جانا ھے اور اسنے میری بات کاٹ دی اور نم لہجے میں بولی میں اپنی دنیا میں چلی جاوْں گی مگر وہ میرے قریب آ گیْ اور میرا ھاتھ تھامتے ھوےْ دوبارا گویا ھویْ تم بھی چلو نہ میرے ساتھ اسکے آنسو میرے زخمی ھاتھ پر نمک بن کر گرنے لگے یہ ممکن نھی ھے آیْنہ میں نے اپنا ھاتھ واپس کھینچ لیا بریف کیس میں موجود کتاب اب جل کر راکھ ھو چکی تھی کاش میں خود کو ختم نہ کرتی وہ رونے لگی
کیا مطلب ھے تمھارا؟ تمنے خود کو ختم کیا تھا؟
ھاں ریان! اب تمھیں دیکھ کر اپنی جلد بازی اور نادانی کا احساس ھر لمحے تڑپاتا ھے مجھے تم مجھے کھل کر بتاوْ سب میں نے کہا تو وہ نفی میں سر ہلاتے ھوےْ پیچھے ہٹتی چلی گیْ ہر گز نھی ریان ! جلد یا بدیر میں تمھیں اہنے ساتھ لے جاوْں گی انتظار کرنا میرا،، بھت چاہتی ھوں می تمھیں اگر تم میرے نھی ھو سکتے تو کویْ بھی تمھیں حاصل نھی کر سکتا وہ میرے لیےْ ڈھیروں سوال چھوڑ کر، ا یہ کہتی ھویْ غایب ھو گییْ
میں حیرت کا بت بنا اس کی بات کا مطلب سمجنے کی کوشش کرتا رہا۔۔۔مجے یقین نہی ارہا تھا کہ ایینہ واقعی خودکشی ہے مگر اس نے ایسا کیوں کیا اس سوال کا جواب مجے تلاش کرنا تھا اور اس بارے میں ایینہ سے ذیادہ کویی اور مجے نہی بتا سکتا تھا اور ایینہ سے اگلوانا کویی اسان کام نہی تھا مگر مجے امید تھی کہ وہ بہت جلد مجے خود بتا دے گی کیونکہ میں جان گیا تھا ایینہ اپنا دکھ بانٹنے کے لیے کویی کاندھا ڈھونڈ رہی ہے اور مجے اسے یہ کاندھا میسر کر کے ساری حقیقت کا پتا لگانا تھا۔۔ایک اور بات میرے لیے انتہائی ناقابل یقین تھی کہ دھاگا میری کلایی سے کہاں جا سکتا ہے،اس دھاگے کی مجے اشد ضرورت تھی کیونکہ اس کے بغیر مجے کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا تھا۔۔اچانک مجے یاد ایا کہ دھاگہ تو میں نے نہاتے وقت اتار کر رکھا تھا۔۔۔۔یاد اتے ہی میں نے سر پر ہاتھ مارا کہ مج سے کیا ہو گیا اتنی لاپرواہی میں کیسے کر سکتا ہوں ،مگر اب سوایے خود کو کوسنے کے میرے پاس اور کویی چارا نہی تھا۔۔۔۔۔۔مجے پورا یقین تھا کہ دھاگہ باتھ روم سے غائب ہو چکا ہے،اب کبھی بھی میرے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا تھا مجے سنبھل کر رہنا تھا،میں نے بابا جی سے ملنے کا سوچا مجے یہ سب ان کو بتانا چاہیے تھا کیونکہ اب وہ ہی کویی راستہ نکال سکتے تھے میں وہاں سے سیدھا اس جگہ ایا جہاں اخری دفعہ میں ان سے ملا تھا مجے پوری امید تھی کہ وہ وہیں ہوں گے مگر مجے وہاں جا کر بہت مایوسی ہویی کیونکہ وہاں موجود ٹوٹی ہویی چارپائی خالی تھی ناجانے کیوں وہاں ہر طرف مجے عجیب سی یاسیت محسوس ہویی ہر چیز پہ جیسے اداسی چھایی ہویی ہو اور میرا دل وہ بھی ناجانے کیوں گھبرا رہا تھا جیسے کچھ غلط ہو گیا مگر کیا ۔۔۔۔۔میں کافی دیر وہاں کھڑا سوچتا رہا بابا جی کو کیسے ڈھونڈا جایے میں ان سے ہر دفعہ یہاں ہی تو ملتا تھا انہوں نے اپنا ٹھکانا بھی مجے نہی بتایا تھا۔۔۔اب میرے پاس وہاں سے انے کے علاوہ اور کویی چارہ نہی تھا میں وہاں سے پھر حویلی کی طرف اگیا ابھی حویلی سے کچھ فاصلے پر ہی تھا جب مجے ایک ادمی ملا وہ گاوں کا ہی ادمی تھا اور اسے میں نے پہلے بھی ایک دو دفعہ دیکھا تھا۔۔۔یہ مجے شاید بابا جی کے بارے میں کچھ بتادے،میں نے گاڑی وہیں سایڈ پہ روکی اور اتر کر ان کی طرف اگیا وہ ادمی بیٹھا حقہ گڑگڑا رہا تھا اس نے مجے حیرانگی سے دیکھا ۔۔۔میں نے دھیرے سے سلام کیا جس کا اس نے خالص پینڈو انداز میں جواب دیااور پھر سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھنے لگا
۔اپ مجے ان بابا جی کے بارے میں بتا سکتے ہیں جو گاوٴں کے باہر ٹیوبل کے پاس موجود درخت کے نیچے بیٹھتے تھے، مجے ان کا نام وغیرہ نہی پتا،اپ ان کا ٹھکانہ مجے بتا سکتے ہیں،میں اپنے لہجے کو باوجود کوشش کے بھی اس کے لہجے جیسا نا بنا پایا
جی ان کی تو پرسوں شام کو ہی موت ہو گیی تھی،اس نے افسردگی سے بتایا گیا تو میرے پیروں تلے سے زمین کسک گیی ایک اور بے گناہ کی جان چلی گیی
۔کیسے ہویی تھی کیا اپ بتا سکتے ہیں ،میرے لہجے کے ساتھ ساتھ انکھوں میں بھی نمی تھی
نہی جی یہ تو نہی پتا مگر ان کو بہت برے طریقے سے مارا گیا تھا،اس نے سادہ سے انداز میں مجے بتایا،میرے دماغ میں پہلے سے ہی خطرے کی گھنٹی بج رہی تھی تو یہ سب اسی حویلی والوں کا کارنامہ ہے ناجانے کتنوں کے خون سے ہاتھ رنگے گی یہ حویلی،میں چپ چاپ وہاں سے چلا ایا اتنا دکھ تو شاید مجے شمایم کی موت کا بھی نہی ہوا تھا جتنا اج بابا جی کی موت کا ہوا تھا،میری زندگی میں ان کی وجہ سے جو امید کی کرن جاگی تھی وہ پھر سے بج گیی تھی اور سب سے بڑی غلطی جو مج سے ہویی تھی وہ دھاگے کی بے احتیاطی تھی اب میرے سامنے چاروں طرف کنویں تھے اور نکلنے کا راستہ ندر تھا میری سمج میں نہی ارہا تھا کہ کیا کروں ایک ایک کر کہ میرے سب اپنے مج سے دور ہو رہے تھے اور میں بے بس کھڑا تماشہ دیکھ رہا تھا
میں وہاں سے حویلی واپس ایا،دادا جی لاونج میں بیٹھے ہوئے تھے ان کی میری جانب پشت تھی میں کترا کہ گزر جانا چاہتا تھا مگر اچانک کسی کی اواز میرے کانوں سے ٹکرایی
۔اس بوڑھے کا تو کام تمام ہو گیا،اور دھاگہ بھی ہمارے پاس اگیا ہے،کویی بڑی رازداری سے دادا جی کو بتا رہا تھا،میں نے سامنے دیکھا دادا جی کے بلکل سامنے ہی کویی ادمی بیٹھا کہ رہا تھا اس کو میں نے اس سے پہلے کبھی نہی دیکھا تھا۔۔اس کی بات سے میرے ذہن میں چھکڑ چلنے لگے تو یہ دادا جی نے کروایا مجے یقین نہی ارہا تھا دادا جی ایسا کیسے کر سکتے تھے اور پھر اچانک میرے ذہن میں یہ بات ایی کہ کیا دادا جی یہ بات جانتے تھے کہ میں کسی بابا جی سے ملتا ہوں،میں سوچوں میں گم تھا جب اچانک مجے احساس ہوا کہ وہ ادمی مجے دیکھ چکا اس کی نظروں کے تعاقب میں دادا جی نے بھی مڑ کے دیکھا جب میری حیرت کی انتہا نا رہی وہ دادا جی نہی تھے بلکہ وہی ادمی تھا جو اکثر دادا جی کے چہرے میں مجے نظر اتا وہ دونوں قہر الود نگاہوں سے مجے گھور رہے تھے میرا دل کانپ رہا تھا،
۔کیا ہوا ریان،دادا کی اواز مجے اپنے عقب سے سنایی دی میں نے مڑ کے دیکھا وہ ابھی ابھی لاونج میں ایے تھے اور مجے یوں بت بنا دیکھ کر حیرانگی سے پوچھ رہے تھے میں نے دوبارہ صوفے کی جانب دیکھا تو وہاں کویی نہی تھا
کچھ نہی دادا جی،میں نے خود پہ قابو پاتے ہویے کہا تو وہ سر ہلا کر اگے بڑھ گیے البتہ میں کیی لمحوں تک وہاں کھڑا ان عجیب وغریب مناظر اور واقعات کے بارے میں سوچتا رہا میرا ذہن بلکل ماوف ہو چکا تھا کسی بات کا سرا ہاتھ نہی ارہا تھا اور نا ہی یہ سب میری سمج میں ارہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے پہلے تو صرف مجے ڈرایا جاتا تھا مگر اب تو ایے روز کسی کو مار دیا جاتا جس کا صاف مطلب تھا کہ میں حویلی چھوڑ جاوں اور یہ سب مجے ڈرانے دھمکانے کے لیے ہی کیا جا رہا تھا کبھی کبھی تو مجے لگتا کہ جیسے میں ان سب کا قاتل ہوں کیوں میں ان کو بھی اپنے ساتھ شامل کرتا تھا،ناجانے اب کس کی باری تھی اور اگر میں اب تک زندہ تھا تو اس کی سب سے بڑی وجہ ایفا تھی جو مجے ہر دفعہ بچانے اجاتی ورنہ یہ حویلی مجے بھی کب کا نگل چکی ہوتی اور باقی لوگوں کی طرح میں بھی اج زمین کے نیچے دبا ہوتا،میری سمج میں نہی ارہا تھا کہ میں کیا کروں،میں اندر جانے کی بجایے باہر لان میں ان بیٹھا میں نے ایک نظر پوری شان و شوکت سے گردن اکڑایے کھڑی حویلی کو دیکھا جو باہر سے ہی انے والوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی تھی طرز و تعمیر کے لہاظ سے یہ واقعی شاہکار تھی،اس کی ہر اینٹ میں اداسی اور یاسیت بسیرا کیے ہویے تھی جو انے والوں کو بھی اپنے جیسا بنا دیتی اور اس کا منہ بولتا ثبوت میں خود تھا جب میں اس حویلی میں ایا تھا ایک خوش باش اور زندہ دل انسان تھا مگر اج اداسی میری روح تک میں سرایت کر گیی تھی میرے لب مسکرانا بھول گیے تھے ہر وقت کسی نا کسی انہونی ہونے کا خوف میرے اندر کنڈلی مارے بیٹھا رہتا جس سے میں ہزار کوشش کے باوجود بھی پیچھا نہی چھڑا پا رہا تھا۔۔۔۔سوچوں کی وادی میں ناجانے میں مزید کہاں تک بھٹکتا جب ایک عجیب سی اواز نے میرا دیہان اپنی طرف کھینچا میں نےغور کیا تو یہ کسی بچے کے رونے کی اواز تھی اور اواز کی سمت کا اندازہ لگایا تو مجے لگا کہ یہ اواز تو گیٹ کی طرف سے ارہی تھی میں نے سامنے دیکھا تو ایک بچہ روتا ہو چلا ارہا تھا میں حیران ہوا یہ اندر کیسے اگیا کیونکہ گیٹ تو بند تھا اور یہ بچا تھا کون۔۔۔۔میں اٹھ کہ اس کی جانب بڑھا وہ دیکھنے میں بہت ہی پیارا تھا میں فوراً اسکی جانب بڑھا اور اسے اٹھا لیا وہ مسلسل رو رہا تھا میں اسے پچکارنے لگا بچے مجے شروع ہی سے بہت پسند تھے ان کو دیکھ کے مچل سا جاتا اور اب بھی ایسا ہی ہوا تھا میں نے بنا سوچے کہ وہ کون ہے کہاں سے ایا اور کیوں ایا اسے اٹھا لیا میرے پچکارنے کی وجہ سے وہ اب تھوڑا چپ ہو گیا تھا میں اس سے باتیں کرنے لگا جن کا وہ اپنی توتلی زبان میں جواب دینے کی کوشش کرتا اس کا دیہان مسلسل میرے کالر کی جانب تھا اور اس کی وجہ تھی شاید میری شرٹ پہ لگے خوبصورت چمکیلے بٹن اور بچے تو چمکتی ہویی چیزوں کی طرف ویسےبھی بہت متوجہ ہوتے ہیں۔۔میرا دیہان اس کی نیلی انکھوں کی جانب تھا جن میں ایک خاص قسم کی کشش تھی جو دیکھنے والے کو جھکڑ سا لیتی۔۔۔۔اس کا ہاتھ اب میری گردن تک پہنچ گیا تھا۔۔۔اور ناجانے کیوں مجے ایسے لگ رہا تھا جیسے میں اڑرہا ہوں مگر میرا دیہان اس کی انکھوں سے ہٹتا تو میں کچھ اور دیکھتا نا اس کے ہاتھوں کا دباو میری گردن پہ بڑھتا جا رہا تھا مگر میں تو اس کی طرف دیکھنے میں اس قدر مگن تھا کہ اردگرد کا بلکل دیہان نہی تھا میری گردن پہ دباو اس قدر بڑھ چکا تھا کہ مجے سانس لینے میں بھی اب دشواری ہونے لگی تھی یک دم میں چونکا وہ پورے زور سے میری گردن دبا رہا تھا میں نے ایک ہاتھ سے اسے تھامے رکھا اور دوسرے ہاتھ سے اپنی گردن چھڑانے کی کوشش کرنے لگا مگر ہر گزرتے لمہے کے ساتھ میری گردن پہ اس کا دباو بڑھ رہا تھا میں نے چھوڑ کے دونوں ہاتھوں سے اپنی گردن چھڑانے کی کوشش کی مگر ناکام ہو رہا تھا اور حیرت کی بات تو یہ تھی کہ میرے چھوڑنے کے باوجود بھی وہ گرا نہی تھا میں تڑپ رہا تھا مجے اپنی موت بہت قریب دکھایی دے رہی تھی میں بلکل بے بس تھا کسی چڑیا کی مانن جو شکاری کے ہاتھ میں بلکل بے بس سی پھڑپھڑا رہی ہو یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے کیی روحیں میرے اس پاس میری بے بسی پر قہقے لگا رہی ہوں وہ چھوٹا سا بچہ کسی بچھو کی طرح مج سے چمٹ گیا تھا اور ڈنگ پہ ڈنگ مار رہا تھا اور میں تکلیف سے تڑپ رہا تھا میں نے چیخنے کی کوشش کی مگر اواز کہیں دور ہلق میں پھنس گیی اور پھر میری انکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا بیہوش ہونے سے پہلے مجے یوں محسوس ہو جیسے میری گردن پر اس کے ہاتھوں کی گرفت ڈھیلی پڑھ گیی ہو اور یہی شاید میری خوش قسمتی تھی کہ میں ایک دفع پھر زندہ بچ گیا تھا مجے اپنے بہت قریب دادا جی کی اواز سنایی دی تھی مطلب اج مجے دادا جی نے بچا لیا تھا اس کے بعد مجے ہوش نہی رہا تھا...
جب مجے ہوش ایا تو میں اپنے کمرے میں تھا دادا جی میرے پاس بیٹھے ہویے تھے میرے ہوش میں اتے ہی وہ فوراً میری طرف متوجہ تھے ان کے چہرے سے پریشانی واضح دکھائی دے رہی تھی
۔ریان بیٹا تم ٹھیک ہو نا ،انہوں نے فکرمندی سے پوچھا جس پر میں نے اہستہ سے اثبات میں سر ہلا دیا
بیٹا کیا ہو تھا تمہیں اور تم حویلی کے پچھلے حصے کی طرف کیا لینے گیے تھے،تم وہاں بے ہوش پڑے تھے،میں تو سخت پریشان ہو گیا تھا وہ تو شکر ہے میں ویسے ہی ٹہلتا ٹہلتا ادھر چلا گیا تھا ورنہ تم ناجانے کب تک بیہوش پڑے رہتے تمہیں کتنی دفعہ سمجایا کہ اپنے کام سے کام رکھا کرو ناجانے کیا جاسوسی کرتے رہتے ہو،وہ اپنے دیہان میں کہ رہے تھے مگر میرا دیہان تو حویلی کے پچھلے حصے میں اٹک گیا تھا میں وہاں کیسے پہنچا مجے اچھی طرح یاد تھا کہ میں تو لان میں بیٹھا ہوا تھا پھر وہاں کیسے پہنچ گیا۔۔۔۔۔دادا جی کچھ دیر بیٹھے رہے اور پھر مجے اپنا خیال رکھنے کی تایید کر کے باہر چلے گیا ۔۔۔۔میں پیچھے لیٹا اپنے ساتھ ہونے والے واقعے کے بارے میں سوچنے لگا جو میرے رونگٹے کھڑے کرنے کے لیے کافی تھا مجے اپنا زندہ بچنا ایک معجزہ لگ رہا تھا۔
میں لاونج میں صوفے پر بیٹھا کافی کی چسکیاں لے رہا تھا۔
ریان یہاں کیا کر رھے ھو؟
میرے عقب سے دادا جی کی آواز آیْ آو میرے ساتھ بیٹھو آکے، کافی دن ھو گے، گپ شپ بھی نھی لگایْ میں خاموشی سے ان کے ساتھ ھو لیا دادا جی نے لان میں بچھی کرسیوں پربیٹھنے کا اشارہ کیا- داداجی آپکی کیٹی کیسی ھے؟میں نے انکی چہرے کا بغور معایْنہ کیا؛؛؛ ؛؛؛بھت بھتر ھےوہ؛؛؛؛؛ ریان مججے تم سے ایک کام ھے اگر کردو ، تو تمہاری میربانی ھو گی-؛؛؛؛ جی جی دادا جان بولیں کیا کام ھے؟ میں انکے اجنبی لہجے، کو سن کر حیران سا ھوا کرم دین کچھ دنوں کے لیےْ اپنے گھر گیا ھے، اور مجھے تھوڑا سامان منگوانا ھے---کیا لا دو گے؟؟؟؟-----میرے حامی بھرنے پر انھوں نے ایک لسٹ مجھے تھمایْ میں نے اس پر نظر دوڑایْ اس پر کھانے پینے کا ھلکا پھلکا سامان درج تھا ؛میں ابھی جاتا ھوں دادا جی؛؛؛؛؛ میں ان سے اجازت لے کر حویلی سے باہر آ گیا ہلکی ہلکی ھوا چل رھی تھی میں قریبی جنرل سٹور پہ گیا اور سامان خرید کر حویلی واپس آ گیا پھر دادا جی کے آرام کی خاطر مٰیں کچن میں گیا اور سامان ریک پر رکھ دیا تم کچن میں کیا کر رھے ھو ریان؟ ارے ایفا تم ؟ْ؟؟؟؟ مجھے خوشگوار حیرت نے گھیر لیا کیسی ھو؟ طبیعت کیسی ھے؟؟؟؟ میں بے قراری سے اسکی طرف بڑھا میں ٹھیک ھوں تم نے تو خبر ھی نھی لی میری دوبارہ؟ْ؟؟؟ چہرے سے عیاں ھوتی خفگی اور آنکھوں میں پھیلی اداسی میرا دل کٹ کر رہ گیا ایفا حالات ھی کچھ ایسے ھو گےْ تھے کہ میں خود سے بھی غافل تھا، تم اندر چل کر بیٹھو، میں تمہارے لیےْ چاےْ بنا کر لاتا ھوں، پھر تسلی سے ساری تفصیل بتاوْں گا میں نے گہری سانس لے کر اسے کہا تو وہ اثبات میں سر ہلاتے ھوےْ وہاں سے چلی گیْ میں چاےْ بنانے کی غرص سے واپس سلیف کی طرف بڑھا اور میرے منہ سے چیخوں کا طوفان امڈتا چلا آیا وہ سارا سامان جو میں نے کیبنٹ میں رکھنے کی غرص سےتھیلے سے نکالا تھا، انکی جگہ چمگادڑیں، بچھو اور کیڑے مکوڑے رقص کر رھے تھے اور مجھے یوں لگا کہ وہ سارے میری طرف بڑھ رھے ھیں___!
"کیا بات ہے ریان تمہیں چائے بنانے میں اتنا وقت لگ گیا ۔۔ ؟؟ " ایفا کی آواز پر میں نے پلٹ کر دیکھا تو وہ دونوں ہاتھ باندھے دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑی تھی۔
اور وہ چمگاڈریں اور کیڑے مکوڑے بھی نجانے کہاں غائب ہوگئے تھے۔
ایفا کے چہرے پر گہری چمک تھی اور ایک زہر آلود مسکراہٹ تھی۔ تھوڑا سا غور کرنے پر مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ ایفا نہیں آئینہ تھی۔
"تو آئینہ یہ تم ہو" میں نے ایک قہر بھری نگاہ اس پر ڈالی تھی۔ میری بات سن کر وہ کھل کھلا کر ہنس دی تھی۔
"یو نو ریان_! تمہیں تو میں حاصل کر کے ہی رہونگی اور تم کچھ بھی نہیں کر پائوگے۔ دیکھنا ایک دن میں تمہیں بھی اپنی دنیا میں لے جائونگی۔" وہ چیلنجنگ انداز میں کہہ کر ایکدم غائب ہوگئ تھی۔
میں نے سر جھٹک کر دوبارہ سے چائے بنانے کی نیت کی۔ میں اب آئینہ کی کسی بات پر خاطر خواہ دھیان نہیں دیتا تھا۔ حالانکہ میری جگہ کوئ بھی ہوتا تو شمائم کی موت کے بعد کبھی بھی یہاں نہیں رہتا۔ لیکن شمائم کی موت سے مجھے ایک نیا حوصلہ اور عزم ملا تھا جس نے مجھے نڈر بنا دیا تھا۔ اب کچھ بھی ہوجائے میں پیچھے نہیں ہٹوں گا۔ میں نے اٹل فیصلہ کر لیا تھا کہ میں حویلی کو تمام بری طاقتوں سے پاک کر کے رہوں گا پھر چاہے اس سب میں مجھے اپنی جان سے بھی ہاتھ کیوں نہ دھونا پڑے۔ اور دادا جی کی شخصیت بھی بےحد پراسرار تھی مجھے تمام سچائ کا پتا لگانا تھا۔
میں اپنی سوچوں میں گم تھا جب مجھے محسوس ہوا جیسے میرے ارد گرد دھواں ہی دھواں بھر گیا ہو۔ میرا سانس اٹک رہا تھا۔ اور بری طرح سے کھانسی شروع ہوگئ تھی۔ دھوئیں نے تمام منظر کو دھندلا دیا تھا کچھ دکھائ نہیں دے رہا تھا۔ اچانک دھویں کی بیچ دو بڑی بڑی لال سرخ آنکھیں چمکیں تھی جو میرے قریب آرہی تھیں وہ یقیناً انسان کی آنکھیں نہیں تھیں۔ میں انتہائ خوفزدہ ہوگیا تھا۔ دھوئیں کے باعث آنکھیں شدید دکھ رہی تھیں اور اوپر سے وہ لہو رنگ آنکھیں جو قریب آتی چلی جا رہی تھیں میں نے سختی سے آنکھیں میچ لیں تھیں۔ میرا دم گھٹ رہا تھا۔ میں کھانس کھانس کے دہرا ہو رہا تھا اور جب کھانسی کی شدت سے بے دم ہونے لگا تھا تب ایسا لگا تھا جیسے دھواں ختم ہورہا ہو کوئ میرے قریب آیا تھا اس نے مجھے پانی پلایا پھر مجھے کہیں لے جایا گیا تھا۔
میں نیم بے ہوشی کی حالت میں محسوس کر رہا تھا لیکن پہچاننے سے قاصر تھا۔ اور جب طبعیت پوری طرح سے سنبھلی تو میں نے دادی کو اپنے قریب بیٹھے ہوئے پایا ۔
"مم ۔۔۔ میں یہاں کیسے آیا ۔۔ ؟؟ " میں حیرت سے کہتے فوراً اٹھ بیٹھا تھا۔ مجھے اٹھتا دیکھ دادی میرے قریب ہوگئیں تھیں۔
"تمہیں یہاں ایفا لے کر آئ ہے۔ وہ تم سے ملنے حویلی گئ تھی۔ جب کچن سے اسے تمہاری بری طرح سے کھانسنے کی آواز آئ۔ تم کچن میں بند ہوگئے تھے۔ ایفا نے بہت مشکل سے تمہیں باہر نکالا اور پھر ہاسپٹل لے گئ۔ اور وہاں سے ڈائریکٹ یہاں لے آئ ۔" دادی نے تفصیل سے بتایا تھا ۔
" اور ایفا اب کہاں ہے ؟؟ " دادی کی بات ختم ہونے پر میں نے بیڈ کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے پوچھا تھا۔
"ایفا کسی ضروری کام سے باہر گئ ہوئ ہے تھوڑی دیر تک آجا ئے گی۔ تب تک تم بھی آرام کرو ۔" دادی نرمی سے کہتے ہوئے وہاں سے چل دیں تھیں.
اور پھر جب ایفا شام تک نہیں لوٹی تو میں دادی سے اجازت لے کر حویلی کے لئے روانہ ہوگیا تھا۔ راستے میں شدید پیاس لگی تو میں نے ارد گرد دیکھا وہاں قریب ہی بہت سارے گھر تھے۔ میں ایک گھر کے قریب چلا گیا کہ ایک گلاس پانی پی سکوں۔ ابھی میں دروازے پر دستک دینے ہی والا تھا کہ کسی کی آواز ہر مجھے رکنا پڑا۔
وہ ایک پکی عمر کی عورت تھی جو ہانپتے ہوئے میرے قریب آئ تھی۔
"بابو جی آپ نئے لگتے ہو لیکن اس گھر میں مت جائو۔" اس عورت نے میرے قریب پہنچ کر کہا تھا ۔
"لیکن کیوں مجھے تو بس ایک گلاس پانی چاہئیے تھا۔" میں نے استفسار کرتے ہوئے اسے بتایا تھا ۔
"اچھا آپ آؤ میرے ساتھ میں پلاتی ہوں آپکو پانی۔" وہ مجھے ساتھ لئے پہلے والے گھر سے تھوڑا دور ایک گھر میں لے گئ۔ اور ایک پرانی سی چار پائ پر بیٹھایا ۔
"آپ نہیں جانتے لیکن اس گھر میں جانے سے آپ کے لئے بہت خطرہ تھا۔" اس عورت نے پانی کا گلاس مجھے پکڑاتے ہوئے کہا تھا ۔
" ایسی کیا بات ہے اس گھر میں ؟؟" میں نے حیرت سے سوال کیا تھا ۔
میرے سوال کے جواب میں وہ عورت جس کا نام شاہدہ تھا بتانے لگی
"وہ گھر علیم الدین کا تھا علیم الدین اور شفیق الرحمان شفیق الرحمان کو جانتے ہو نا آپ ؟؟ " وہ جو بڑی حویلی ہے وہ اسی کی ہے ۔
اس نے درمیان میں رک کر مجھ سے پوچھا تھا میں نے کہا ہاں میں جانتا ہوں۔ جس پر شاہدہ نے اثبات میں سر ہلایا اور پھر سے بتانے لگی
"علیم الدین اور شفیق الرحمان بڑے پکے دوست تھے۔ علیم الدین روز حویلی جاتا تھا شفیق الرحمان کے پاس دونوں خوب باتاں کرتے شطرنج کھیلتے تھے۔ اسی طرح ایک شام علیم الدین شام کو حویلی سے گھر آیا تو رات کو اس کی طبعیت عجیب سی ہوگئ دوا دے کر سلایا۔ لیکن صبح تک اسکی موت ہوگئ تھی۔ اور گلے میں ایسے نشان تھے جیسے کسی نے گلا گھونٹ کر مارا ہو اور آنکھیں باہر کو ابل رہی تھیں ۔ اسکی موت پہ اسکی بیٹی گل بانو کا رو رو کر برا حال ہو گیا تھا۔ باپ کی موت نے جیسے اسے نیم پاگل کر دیا تھا۔ ماں سنبھالتے تھک رہی تھی۔ اور پھر پتا نہیں کیا ہوا لیکن اس حادثے بعد اب جو کوئ بھی علیم الدین کے دروازے سےاندر جاتا ہے اسکی چند روز میں بڑی بھیانک موت ہوجاتی ہے۔ گل بانو کا رویہ بلکل عجیب ہوگیا ہے لوگوں کو نقصان پہنچاتی ہے عجیب عجیب حرکتیں کرتی ہے۔ سب کہتے ہیں کہ اس پہ کسی آسیب نے قبضہ کر لیا ہے۔ یہاں کے لوگ اس بات کے گواہ ہے۔" شاہدہ نے اپنی بات ختم کر کے پانی کا گلاس ہونٹوں سے لگایا تھا۔
"تفتیش تو ہوئ ہوگی نا تو کچھ پتا نہیں چلا کہ علیم الدین کا قاتل کون ہے ؟؟ "میں نے اسکے پانی پینے تک انتظار کیا اور پھر اپنے ذہن میں آئے سوال کو زبان دی۔
"نہیں جی کچھ پتہ نہ چل سکا۔ لیکن علیم الدین کے مرنے کے بعد گل بانو چیخ چیخ کے کہتی تھی کہ کےحویلی نے اس کے ابا کو مارا ہے۔ میں نے ایک روز آرام سے اس سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ اس دن علیم الدین نے شفیق الرحمان کو کئ بار شطرنج کے کھیل میں ہرایا تھا اسی وجہ سے انہوں نے اسکے ابا کو قتل کیا ہے لیکن پھر کچھ روز تک گل بانو بھی چپ کر گئ اب تو اسے اپنا ہوش بھی نہیں رہتا ۔ شاہدہ نے تاسف سے ایک گہری سانس بھری تھی۔"
اور میرے دماغ میں جیسے جھکڑ سے چل رہے تھے میں انگنت سوالوں کی پوٹلی اٹھا کر وہاں سے چل دیا تھا
میں تھک ہار کر حویلی پہنچا ذہن اتنا الجھا ہوا تھا کہ سیدھا اپنے کمرے میں چلا گیا میں کچھ دیر سکون چاہتا روز ہی کچھ نا کچھ نیا ہوئے چلا جا رہا تھا کوئی شخص کب تک ان حالات کے سامنے کھڑا رہ سکتا ہے کبھی ایفاء آئینہ لگتی تو کبھی آئینہ ایفا کبھی دادا جان شفیق دادا لگتے تو کبھی کسی بدصورت بدروح کی طرح بھیانک جو حقیقت تھی وہ سراب لگنے لگا تھا اور جو سراب وہ حقیقت یا اللہ تو ہی میری مدد کر بے شک تو ہی علم والا ہے جو بھی میری مدد کرتا ہے وہ پراسرار طریقے سے مر جاتا ہے بظاہر حادثہ معلوم ہوتا ہے مگر مجھ سے بڑھ کر کون جان سکتا ہے یہ سب حادثات نہیں اس حویلی کے برے جنات اور شیطانی روحیں ہے جو یہاں پر کسی کو بھی سکون سے رہنے نہیں دینا چاہتی وہ کتاب بھی جل گئی وہ انگوٹھی بھی آئینہ کی دوست روحا کی بدروح کی چالاکی سے میرے ہاتھ سے چلی گئی اور اب وہ عالم بابا والا دھاگہ بھی اے میرے مولا ان سے ملنے کا کوئی سبب بنا دے
ابھی میں بیٹھا یہی سب سوچ رہا تھا کہ اچانک میری سماعتوں نے ایک نسوانی آواز سنی آواز جانی پہچانی لگ رہی تھی
" بس ابھی سے تھک گئے تم ابھی تو ابتداء ہے ابھی تو شروعات ہیں تم چاہتے ہو کہ سب کچھ ٹھیک ہوئے جائے تو تمہارے لیے یہی بہتر ہے کہ تم میری بات مان لو آ جاؤ میرے پاس میرے ساتھ چلو میں تمہیں دوام بخش دونگی ہمیشگی جیسے کوئی آب حیات پی لے میرے ہو جاؤ پھر آسانیاں ہی آسانیاں ہیں میرے پاس آ جاؤ ہمیشہ کیلئے بس ایک دفعہ صرف ایک دفعہ موت کا مزا چکھنا ہے ایک دفعہ یہ کڑوا گھونٹ پینا ہے پھر کوئی تمہیں مجھ سے الگ نہیں کر سکے گا پھر ہم ہمیشہ ساتھ رہیں گی محبت ہو گی خوشیاں ہونگی دوام ہو گا ہاہاہاہاہاہا "
ایک دم چنگھاڑتے ہوئے قہقہوں سے کمرے کے درودیوار ہلنے لگے مجھے ایسے لگا کان کے پردے پھٹ جائیں گے
"اور اگر تم نے بات نا مانی تو نقصان اٹھاؤں گے ایک ایک کرکے اپنے پیاروں اپنے دوستوں سے ہاتھ دھونا پڑے گا تمہارے حق میں یہی بہتر ہے کہ میری بات مان لو فائدے میں رہو گے پسند کرتے ہو نا مجھے میرے چہرے کو وہی تو ہوں میں جسے تم ڈھونڈتے ہو ہاہاہاہا "
ان چنگھاڑتے قہقہوں کو روکنے کیلئے میں نے آیت الکرسی زور زور سے بلند آواز میں پڑھنا شروع کر دی ایک اذیت ناک چیخ کی آواز سنائی دی اور پھر خاموشی چھا گئی میں نے تھک کر آنکھیں بند کر لیں
☆☆☆☆
میری آنکھ دروازے کی ٹھک ٹھک کی آواز سے کھلی اپنے اردگرد ایک نظر دوڑائی دروازے کو کوئی کھٹکا رہا تھا میں نے آواز دے کر پوچھا
"کون ہے"
"ریان میاں میں ہوں کرم دین بڑے صاحب چائے کا پوچھ رہے ہیں کہ آپ ان کے ساتھ پیں گے یا بعد میں"
" کرم دین داداجان سے کہو میں پہلے فریش ہونگا جب دل کرے گا خود بنا کر پی لونگا "
" اچھا بیٹا " کچھ دیر بعد دور ہوتے قدموں کی آواز سنائی دی
میں کچھ دیر یوں ہی پڑا رہا پھر فریش ہونے واش روم چلا گیا
جب میں شاور لے کر باہر نکلا تو شام کے پانچ بج رہے تھے باہر کافی ٹھنڈا ہوا چل رہی تھی میں خود کو فریش محسوس کر رہا تھا چند گھنٹے پہلے کی جو کثافت اور تھکن دل دماغ پر چھائی ہوئی تھی وہ تھوڑی دیر آرام کرنے کے باعث دور ہو چکی تھی میں باہر لان میں آ گیا ٹھنڈی ہوا کو اپنے اندر محسوس کیا تو ہلکا پھلکا سا محسوس کرنے لگا لان میں ایک نظر دوڑائی کیٹی مجھے کہیں بھی نظر نہ آئی میری نگاہ حویلی کی عمارت کا طواف کرنے لگیں حویلی اگرچہ پرانی اینٹیک لُک رکھتی تھی جو اسکی خوبصورتی میں اضافہ کرتی تھی خوبصورت محرابیں بالکنیاں چوڑے چوڑے دروازے اور ستون کوئی بھی اس حویلی کے سحر میں گرفتار ہو سكتا تھا میں ٹہلتے ٹہلتے حویلی کی بیک سائڈ پر آ گیا مغرب کا وقت شروع ہونے والا تھا ایک عجیب منظر دیکھ کر میرے قدم ٹھٹک کر رک گئے حویلی سے چند فٹ دور بنی قبروں پر دیئے جل رہے تھے مجھے بے حد حیرانگی ہوئی ایسا کون ہے جو ان قبروں پر اس وقت دیے جلاتا ہے یہ قبریں بھی میرے لیے کسی معمے سے کم نہیں دادا جان سے پوچھو تو وہ نظریں چرا کر بات بدل دیتے ہیں اور کرم دین ہے کہ اسے کچھ خبر نہیں میں چلتا ہوا ان قبروں کے نزدیک پہنچا اس قبر کے ساتھ ایک درخت تھا جس کے پتے غیر فطری انداز میں حل رہے تھے میں جو اسے با غور دیکھ رہا تھا ایک دم ڈر کر پیچھے ہٹا کوئی عورت بال کھولے اس درخت کی ٹہنی پر اس وقت بیٹھی تھی میں دل میں ڈرتے ڈرتے بظاہر گرج کر بولا کون ہو تم اسوقت یہاں کیا کر رہی ہو میرے بولنے پر وہ لڑکی ٹہنی پر سے اتنے سہج سہج کر اتری جیسے کسی نادیدہ قوت نے اسے بانہوں میں لے کر اتارا ہو اس کی شکل دیکھی تو میں سراسمیہ رہ گیا
☆☆☆☆☆
وہ کوئی اور نہیں روحا تھی اس کے چہرے اور آنکھوں سے عجبیب وہشت ٹپک رہی تھی آنکھوں میں سرخ ڈورے بال کھلے اور بکھرے ہوئے اس ملگجے اندھیرے میں اس پہر اس ویرانے میں وہ کوئی بھٹکی ہوئی روح لگ رہی تھی اپنی ہی سوچ پر مجھے اچانک بے اختیار ہنسی آئی کہ وہ تو اصل میں ایک بدروح تھی جسے مر کر بھی سکون نہیں ملا تھا اور انتقام کی آگ میں اس کہ روح اسی حویلی میں بھٹکتی رہتی تھی بےچین بے سکون
" تم ؟ " میرے منہ سے بے اختیار نکلا
" ہاں میں تمہیں کیا لگتا ہے میں یہ حویلی چھوڑ کر چلی گئی ہونگی ہاہاہا نہیں اتنی آسانی سے میں اس حویلی اور تمہاری جان نہیں چھوڑوں گی بہت پیار ہے نا آئینہ کو تم سے اب میں تمہارے ذریعے آئینہ سے بدلہ لونگی انتقام لونگی میں سنا تم نے ہاہاہا "
ہنستے ہوئے وہ اور بھی بھیانک لگ رہی تھی اس کی آنکھیں لال سرخ انگارہ بنی ہوئی تھی جن سے وحشت ٹپک رہی تھی
" تم اس وقت یہاں کیا کر رہی ہو اور یہ دیئے ؟" میں نے قبروں کے دیوں کی طرف سوالیہ نگاہ کی
"یہی تو وقت ہوتا ہے ہمارا نکلنے کا اس وقت ہم دنیا پر راج کرتے ہیں سہ پہر کے اختتام سے صبح صادق سے پہلے تک ہمارا دن شروع ہوتا ہے ہم بھٹکتے ہیں گلیوں میں ویرانوں میں ہمارا مسکن بنا دیا ہے اللہ نے کھنڈرات صحرا گہرے سمندر دریا پہاڑ ویرانے ان پر ہمارا ہی راج ہوتا ہے جبھی تو بڑے بوڑھے اس وقت بچوں کو نکلنے سے منع کرتے ہیں"
"کیوں خوار کر رہی ہو خود کو اس بدلے کہ آگ میں کچھ نہیں ملنے والا تمہیں اپنی روح کو سکون دے دو مرنے کے بعد اپنی اصل کی طرف واپس لوٹ جاؤ"
میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی
" کیوں کیوں بھول جاؤں میں کیوں چھوڑ دوں مجھے بھی دوام چاہیے ہمیشگی اس کی آنکھوں میں وحشت ناک کرب ہلکورے لینے لگا کیا برا کیا تھا میں نے دوستی ہی تو کی تھی روکا ہی تو تھا اپنی دوست کو غلط کاموں سے شیطانی طاقتوں کے پاس اپنی روح گروی رکھنے سے پر اس نے میری ایک نا سنی جب اسے شک ہوا کہ میں اسکی ان غیبی برائی کی قوتوں کے متعلق جان گئی ہوں اس نے مجھے چھت سے دھکا دے دیا سب کو یہی لگا کہ میں نے چھت سے کود کر جان دے دی میرے ماں کو بھی یہی لگا کوئی حقیقت کی تہہ تک نہیں پہنچا اور میری روح بے چین پھرتی رہی پھر مجھے تو وہی ٹھکانہ بنانا تھا جہاں میرے انتقام کی آگ ٹھنڈی ہو گی مجھے اپنی قوتیں بڑھانی ہیں اور طاقت ور مزید طاقتور ہونا ہے ہاہاہا چاہے اسکے لیے کتنی ہی جانیں لینی پڑیں کتنوں کو ہی تنگ کرنا پڑے اور تمہیں ہی کیوں نا مارنا پڑے بہت محبت ہے نا اسے تم سے تمہیں تو میں ضرور اذیت پہنچاؤنگی تاکہ اسے اذیت ہو"
یہ کہہ کر اس نے اپنے دونوں ہاتھ میری سمت کیے اور میں سنبھل ہی نا پایا ایسا لگا جیسے کسی نے مجھے بہت پریشر سے دھکا دیا ہے میں ہوا میں اڑتا دور زمین پر جا گرا اور شدت سے کراہنے لگا اچانک زمین پر بہت ساری چونٹیاں اور حشرات رینگنے لگے اور بڑھتے بڑھتے وہ میری ہی سمت آ رہے تھے پھر انہوں نے چاروں طرف سے مجھے گھیر لیا اور اور میرا گوشت نوچنے لگے میں تکلیف سے کراہ بھی نہیں سکا اذیت ہی اذیت تھی اور جب حد سے بڑھی تو میں ہوش سے بیگانہ ہو گیا
میں تھک گیا ھوں ایفا، بہت زیادہ میں نے ایفا کے سامنے اپنا حال دل بیان کیا تھکن اوڑھے لوگ راستے میں ھی گر جاتے ھیں منزل ان کے لیئے سراب ھوتی ھے تمھیں اپنا مقصد حیات بھول گیا ؟؟؟؟؟
ایفا کے یہ الفاظ مجھے پھر سے جینے پر اکسانے لگے مجھے حوش آیا تو خود کو اپنے بیڈ پر پا کر حیران رہ گیا میری راہبر، میرے سامنے بیٹھی میرے دکھ سمیٹ رھی تھی اس نے مجھے بتایا کہ وہ مجھ سے ملنے آئی تو مجھے زمین پر چاروں شانے چت پڑا دیکھ کر گھبرا گئی بڑی مشکل سے کرم دین کی مدد سے مجھے کمرے تک پہنچایا اور ڈاکٹر سے رجوع کرنے کی بجاےْ، قرآن پاک پڑھ کر دم کیا، جس سے مجھے فورا آرام آ گیا کرم دین واپس آ چکے تھے "صاحب میں آپ کے لیئے کچھ لے کر آیا ھوں" کرم دین نے کمرے میں داخل ھو کر کہا تو میں اور ایفا دونوں چونک پڑے
"میرے گاؤں میں مولوی صاحب رہتے ھیں بہت اللہ والے ھیں وہ آپکی مشکوک سرگرمیاں ، حیران کر دینے والے سوالات، مجھے بہت کچھ سمجھا گئے تھے اپنے گاؤں گیا تو آپکے لیئے یہ لیتا آیا اب انھیں حفاظت سے رکھیئے گا انھوں نے مجھے ایک دم کی ھوئی انگوٹھی، اور ایک خوشبو والا رومال دیا ساتھ ھی عالم صاحب کا رابطہ نمبر بھی دیا کی بوقت ضرورت ان سے رابطہ کر سکوں"
میں نے انگوٹھی فورا پہن لی جبکہ رومال اپنی جیب میں حفاظت سے رکھ لیا انکے جانے کے بعد میں ایفا کی طرف متوجہ ھوا، جو مسکراتے ھوۓ مجھے ھی دیکھ رھی تھی میں بھی مسکرا دیا خدا کی طرف سے غیبی مدد پر، میں دل ھی دل میں اسکا شکر ادا کرتا، آنکھیں موند کر بیڈ کراوْن سے ٹیک لگا گیا
ھم بہت جلد اس حویلی کو بد روحوں سے آزاد کروانے میں کامیاب ھو جائیں گے ریان ایفا کی بات سن کر مجھے بہت خوشی ھوئی میں مسکراتا ھوا سیدھا ھوا اور آنکھیں کھولتا ھوا بولا "تم میرے ساتھ ھو؟ شک کر رھے ھو مجھ پر؟"
وہ ھلکا سا ناراض ھوئی کہیں تم آئینہ ھی نہ ھو؟
میں نے اسے جانچتی نگاھوں سے دیکھا پہلے تو وہ مجھے گھور کر دیکھتی رھی پھر اپنا دائیاں ھاتھ میرے سامنے کر دیا یہ دیکھو ریان، یہ انگوٹھی مجھے بابا کرم دین نے دی ھے، تا کہ تمھاری ہیلپ کروانے کے ساتھ ساتھ میں دوبارہ ان شیطانی طاقتوں کا نشانہ بننے سے محفوظ رھوں اسنے کہا تو میں نے سکون کا سانس لیا چلو اب کوئی تو نشانی ھے، جس سے میں تمھیں پہچان لیا کروں گا میں نے کہا تو ایفا نے اثبات میں سر ہلا دیا اوکے ریان اب میں چلتی ھوں اپنا خیال رکھنا اب تم جلدی سے ٹھیک ھو جاؤ کہ میں مزید تمھیں یوں بستر پہ پڑا نہیں دیکھ سکتی ایفا نے کھڑے ھوتے ھوۓ کہا تو میں نے اثبات میں سر ہلا دیا وہ خدا حافظ کہتی رخصت ھو گئی میں تانے بانے بننے لگا کہ مجھے کیا کرنا چاییْے میں نے اپنا موبائل اٹھایا اور کرم دین کا دیا نمبر ملا کر عالم صاحب سے بات کی وہ میرے نیکی کے اس کام سے بہت خوش ھوئے مجھے ڈھیروں دعایْیں دیں پھر انکی ہدایات بغور سننے کے بعد میں نے ایفا کا کال ملائی میں نے اسے عالم صاحب سے کی گئی گفتگو تفصیل سے بتائی اور اسے اسکے حصے کا کام بھی بتایا کہ آج رات ٹھیک بارہ بجے اسے کیا کرنا ھے
"دیکھو ایفا تمہاری ذرا سی بے احتیاطی مجھے اس دنیا سے جانے پر مجبور کر سکتی ھے لہذا تمھیں بہت سوچ سمجھ کے، اور پوری احتیاط سے یہ کام کرنا ھو گا"
"میں سمجھ سکتی ھوں ریان الحق قمر! تم بے فکر رھو اللہ سب بہتر کرے گا" اسکا پر امید لہجہ میرے حوصلے بڑھا گیا
پھر ادھر ادھر کی باتیں کر کے میں نے سیل آف کر دیا میں دادا جی کے کمرے میں گیا بے چینی ان کے انگ انگ سے ٹپک رھی تھی کیا ھوا دادا جی سب خیریت ھے نہ؟ میں نے پوچھا تو وہ ٹھٹک کر رک گئے تم کب جا رھے ھو یہاں سے؟
دادا جی کے اس سوال پر میں بھونکچا رہ گیا وہ دادا جی میں مجھ سے کوئی جواب نہ بن پایا ارے میں تو مذاق کر رھا تھا تم جب تک چاہو یہاں رہ سکتے ھو، اسے اپنا ھی گھر سمجھنا.!
جاری ہے
Post a Comment (0)
Previous Post Next Post