Khamoshi Episode 13 - Ushna kausar sardar

 

Khamoshi novel

 

قسط نمبر 13
از قلم: عشنا کوثر سردار اور ٹیم
میں نے زور زور سے آیت الکرسی کا ورد شروع کیا اور اپنے چاروں طرف پھونکیں مارنے لگا میرے چاروں طرف آگ لگ گئیْ بد روحوں کی چیخوں سے میرے کان پھٹنے لگے میں نے اپنے کانوں پر ھاتھ رکھے اور ورد جاری رکھا تھوڑی دیر بعد شور تھمنے لگا ھوا کی شدت ختم ھو گئیْ ہر طرف سناٹا چھا گیا
زرد پتے بھی بے جان سے زمین پر پڑے تھے میں نے آنکھیں کھول دیں اور میرے منہ سے بے چیخ نکلی
میں حیرت سے اپنے سامنے پڑی شے کو دیکھ رھا تھا میرے سامنے ھی وہ صندوق پڑا تھا، جس کی تلاش میں، میں سر دھڑ کی بازی لگا چکا تھا مگر جیسے ہی میں اٹھ کر صندوق کی طرف بڑھا تھا وہ صندوق غائب ہو چکا تھا اور میں ششدر سا کھڑا دیکھتا رہ گیا تھا۔
یہ کیا تھا!
میرا سچائ تک پہچنا جیسے ہر بار کوئ ممکن بنا دیتا تھا۔ میں یہ سوچ کر ہی پیچ و تاب کھا کر رہ گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئینہ حمزہ میرے لئے معمہ تھی اور ایفا حمزہ میری سمجھ میں نہیں آ رہی تھی مگر میں نہیں جانتا تھا کہ اس میں ایسی کیا خاص کشش تھی کہ میں اس کی طرف کھنچا جا رہا تھا۔ بہت دن تک اس کے بارے میں سوچتا رہا تھا اور اب میں اس سے ملنے کے لئے کسی حادثے کا انتظار نہیں کر سکتا تھا جب وہ میری مدد کرنے آۓ اور میں اس سے ملوں۔
میں نے سوچتے ہوئے گاڑی اس کے گھر کے سامنے روک دی تھی۔ وہ آؤٹ پلیس میں بیٹھی کافی انجوائے کر رہی تھی مجھے دیکھ کر فوراً اٹھ کر میری طرف آئ تھی۔
"تم یہاں کیوں آئے ہو؟۔" وہ مجھے دیکھ کر کچھ حیراں ہوئ تھی۔
"سرے ڈھونڈنے!"
"کیا مطلب؟۔" وہ الجھنے لگی تھی۔
"مطلب یہ کہ اگر تم محبت کرتی ہو تو کہتی کیوں نہیں؟ میں تمہارا لمس پہچاننے لگا ہوں ایفا حمزہ، جب تم آس پاس ہوتی ہو تو مجھے محسوس ہو جاتا ہے۔" میں نے بغور اس کی سمت دیکھتے ہوئے کہا تھا اور چہرہ پھیر گئ تھی۔
"میں نے بتا دیا تھا کہ میں آپ کو نہیں جانتی۔ میں آپ سے کبھی نہیں ملی۔ آپ ایک لڑکی کو جانتے ہیں اور وہ آئینہ حمزہ ہے۔" وہ بضد تھی کہ جو وہ کہہ رہی تھی میں مان لوں۔ مگر میں نے سر نفی میں ہلا دیا تھا۔
"میں مان نہیں سکتا ایفا۔ کیونکہ میں تمہاری خوشبو پہچاننے لگا ہوں اور یہ خوشبو آئینہ کی نہیں ہے۔" میں نے ایفا کی آنکھوں میں الجھنوں کس جال دیکھا تھا۔ وہ جیسے ایک خوف سے سر انکار میں ہلانے لگی تھی۔
"تم آئینہ حمزہ سے محبت کرتے ہو اور آئینہ کی خوشبو تمہارے آس پاس رہتی ہے تم نے آئینہ کی موجودگی کو ارد گرد محسوس کیا ہے تم اسے ڈھونڈتے یہاں آئے ہو۔" وہ مجھے باور کرانے پر تلی تھی اور میں اس کی آواز میں واضح ارتعاش محسوس کر رہا تھا۔
میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اسے تھام کر قریب کیا تھا اور وہ حیران سی مجھے دیکھنے لگی تھی۔
"ایفا حمزہ تم انکاری ہس تو اس کا کوئ جواز ضرور ہے مگر میں تم سے وہ وجہ نہیں ہوچھوں گا مگر میں تمہاری آنکھوں کو پڑھنا چاہتا ہوں، مجھے اس کی اجازت دو!۔" میں نے اپنی مدھم سرگوشی میں چھپی بے چینی کو خود واضح سنا تھا۔
اور ایفا حمزہ سر انکار میں ہلاتی، میری ذبردست تکتی۔ قدم پیچھے کی طرف لینے گلی تھی۔ یکدم اس کا سر بہت زور سے ستون سے ٹکرایا تھا اور یہ اتفاق نہیں تھا ایسا لگا تھا جیسے کسی نے اس کا سر پکڑ کر پوری شدت سے پیچھے کی طرف ستون سے ٹکرا دیا ہو اور میں نے ایک لمحے کو ستون لڑکھڑاتے ہوئے دیکھا تھا میں ششدر رہ گیا تھا۔ مجھے لگا تھا کوئ غیبی طاقت وہ ستون ایفا حمزہ پر گرا دینا چاہتی تھی۔ تب ہی آن کی آن میں، میں نے ایفا حمزہ کا ہاتھ تھا کر اپنی طرف کھینچ لیا تھا وہ میرے شانے پر سر رکھ کر تکلیف سے کراہ اٹھی تھی۔ مجھے واضح انداز میں وہاں کسی غیبی طاقت کی موجودگی کا احساس ہوا تھا۔ میں نے ایفا کے سر پر ہاتھ رکھا تھا میرے ہاتھ پر ایفا حمزہ کا خون لگا تھا اس کے زخم سے خون رس رہا تھا یعنی اس کو چوٹ شدت سے لگی تھی وہ جو کوئ بھی طاقت تھی ایفا حمزہ کو نقصان پہچانا چاہ رہی تھی۔ پورا ماحول عجیب خوف سے بھر گیا تھا۔ جیسے کوئ زلزلہ آیا تھا, تیز ہوا چلنے لگی تھی اور خشک پتےاود چمگاڈریں ہمارے ارد گرد محاصرہ کرکے جیسے رقص کرنے لگیں تھیں۔ میں نے گردن موڑ کر دیکھا تھا میں حیران رہ گیا تھا۔ کچھ فاصلے پر وہی کالی بلی جس کا نام پُرکی تھا اطمینان سے کھڑی مسکراتی دکھائ دی تھی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس نے رقص شروع کر دیا تھا، میرا دل یکدم خوف سے بھر گیا تھا۔ دادی اماں نے بتایا تھا جہاں جہاں اور جب جب وہ بلی پُرکی رقص کرتے دکھائ دی تھی وہاں وہاں تب تب کسی کی موت واقع ہوئ تھی۔
یا اللہ! اب کوئ اور نہیں!
میں نے خوف کے مارے ایفا حمزہ کو ساتھ بھینچ لیا تھا۔ جیسے وہ میری متاعِ حیات تھی اور میں اسے کھونا نہیں چاہتا تھا۔ میں نے خشمگین نظروں سے اس بلی گھورا تھا۔ میں اس بلی کو رقص کرنے سے روکنا چاہتا تھا سو میں نے اپنے رب کو دل ہی دل میں پوری شدت سے پکارا تھا۔ میں نے ہاتھ بڑھا کر پاس پڑی میز سے گلدان اٹھایا تھا اور گھما کر پوری شدت سے بلی کی طرف اچھالا تھا اور گلدان پُرکی کے سر پر لگا تھا اور اس کے ساتھ ہی کئ خوفناک چیخیں اور آوازیں سنائ دی تھی اور میں نے اور ایفا نے کسی بدروحوں کو اس بلی سے نکل کر بھاگتے دیکھا تھا۔ وہ میری زندگی کا اب تک کا سب سے خوفناک ترین منظر تھا جس میں نے یہاں آ کر دیکھا تھا۔
وہ بدروحیں بجائے دور بھاگنے کے ہمارے ارد گرد جمع ہوکر مختلف آوازوں میں چیخنے لگیں تھیں جیسے وہ پُرکی کے اندر سے نکل کر شدید غم و غصے کا اظہار کر رہی تھیں۔
ایفا تکلیف سے نڈھال تھی اور میں پوری شدت سے چیخا تھا۔
"یا اللہ مدد!۔" کہنے کی ساتھ ہی میں جانے کیسے با آوازِ بلند پہلے سورة الفلق کا ورد کرنے لگا تھا اور پھر سورة الناس کا، میری آواز اتنی بلند تھی کہ ان بدروحوں اور جنات کی آوازیں دبنے لگیں تھیں، میرے ارد گرد رقص کرتی وہ بدی کی طاقتیں جیسے یکدم کمزور پڑنے لگیں تھیں میں جیسے ان پر غلبہ پانے لگا تھا۔ وہ ہیبت ناک اور قبیح چہروں والے میرے قد سے بھی زیادہ لمبے وجود کمزور ہو کر گرنے لگے تھے، ان کی گگھی بندھ گئ تھی، اس دوران میں نے ایفا حمزہ کے بیہوش وجود کو اپنے ساتھ بھینچے رکھا تھا تبھی وہ برائ کی وہ طاقتیں میرے ارد گرد سے غائب ہونے لگیں تھیں اور میں نے دیکھا تھا وہ بلی پُرکی بھی یکدم غائب ہو گئ تھی۔ ماحول یکدم تھم گیا تھا وہ ہر شے پر سکوت چھا گیا تھا۔ مجھے اب کچھ محفوظ محسوس ہوا تھا۔ میں نے سر جھکا کر ایفا حمزہ کو دیکھا تھا اس کے سر سے مسلسل خون رس رہا تھا اور وہ ہوش میں نہ تھی۔
"ایفا حمزہ۔" میں نے بے قراری سے اسے پکارا تھا۔ اس نے جواب نہیں دیا تھا اور تبھی میں اسے اٹھا کر گاڑی کی طرف دوڑا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایفا حمزہ کا چوٹ لگی تھی مگر رپورٹس سے جب تک کنفرمڈ نہیں ہوا تھا کہ وہ چوٹ شدید یا خطرے کا باعث نہیں تھی، میں پریشان رہا تھا۔ شکر تھا اس کو ہوش آگیا تھا۔ دادی اماں بھی وہاں پہنچ چکی تھیں۔ وہ کچھ متفکر دکھائ دی تھیں۔
"تمہیں اس بلی کو مارنا نہیں چاہئے تھا۔ اس طرح وہ طاقتیں اور غضبناک ہو سکتی ہیں۔" دادی اماں نے خدشہ بیان کیا تھا۔
"دادی وہ بلی مسکرائ تھی اور خوشی سے رقص کرنے کو تھی۔ اس نے ایفا حمزہ کو زخمی کیا تھا میں ڈر گیا تھا، اس کی مسکراہٹ خوفناک تھی اور مجھے لگا تھا کسی کی موت یقینی تھی۔ سو میں نے وہ اقدام کیا تھا۔" میں دادی اماں کو بتا نہیں سکا تھا کہ میں ایفا حمزہ کو کھونا نہیں چاہتا تھا۔
"ایفا حمزہ زخمی تھی اور وہ اپنی مثبت طاقتوں کا استعمال نہیں کر سکتی تھی اور مجھے لگا کسی مثبت طاقت نے مجھے ہمت دی ہے۔" میں بولا تھا تو دادی اماں نے سر ہلایا تھا۔
"ایفا حمزہ نے تمہیں مدد دی کیونکہ وہ خود درد سے نڈھال تھی سو اس نے اپنی وہ مثبت طاقتیں شاید تمہارے حوالے کر دی تھیں۔ بہرحال وہ مشکل وقت ٹل گیا مگر اب تمہیں سنھبل کر رہنا ہے۔ تم آج رات ہمارے گھر قیام کر لو۔ بلکہ میں تو چاہوں گی تم اپنا سامان اٹھا کر ہمارے گھر لے آؤ۔" دادی اماں نے میری فکر کر کے کہا تھا جب ایفا بولی تھی۔
"آپ اسے جانے دیں، یہ یہاں رہیں گے تو صورتِ حال اور بھی بگڑ سکتی ہے۔" اس کی آواز میں تشویش تھی۔ میں اسے بغور دیکھتے ہوئے سر ہلا کر باہر نکل آیا تھا۔
ابھی میں حویلی سے کچھ دور ہی تھا جب میں نے بابا جی کو درخت تلے بیٹھے دیکھا میں نے فوراً گاڑی روکی اور ان کے پاس چلا ایا وہ ایک ٹوٹی ہوئی پرانی چارپایی پر بیٹھے ہوئے تھے ان کی پشت میری طرف تھی اسی لیے وہ مجھے نہیں دیکھ سکے تھے
اسلام و علیکم بابا جی، میں نے دھیرے سے سلام کیا تو انہوں نے مڑکے مجھے دیکھا ایک مدھم سی مسکراہٹ ان کے بوڑھے جھریوں زدہ چہرے پہ آئی وہ فوراً اٹھ کھڑے ہوئے
اور مجھے جگہ دی میں بیٹھ گیا
اور سنا پتر سب ٹھیک ہے نا ،ان کا اشارہ کس طرف تھا میں اچھی طرح سمجھ گیا تھا، میں نے اپنے اور ایفا کے ساتھ ہونے والا واقعہ ان کے گوش کیا تو وہ پریشانی سے مجھے دیکھنے لگے"
تو پھر کیا کروں، میں نے بے بسی سے ان کی طرف دیکھا
تم ایک کام کرو،میرے ساتھ چلو
کہاں میں حیران ہوا
ساتھ والے گاؤں میں ایک عالم ہیں، وہ تعویز وغیرہ کرتے ہیں بہت نیک ہیں، دور دور سے لوگ ان کے پاس اتے ہیں، تم بھی ان کو حویلی کے بارے میں بتانا وہ تمہاری مدد کریں گے، انہوں نے کہا تو میں سوچ میں پڑھ گیا
چلیئے بابا جی چلتے ہیں، میں نے اٹھتے ہوئے کہا مگر ہم جائیں گے کیسے میرے پاس گاڑی ہے آپ آیئے، میں نے کہا تو وہ اٹھ کر میرے ساتھ آگئے
ہم وہاں سے ساتھ والے گاؤں آئے، وہ ذیادہ دور نہیں تھا یہ گاؤں ذیادہ بڑا نہی تھا گاؤں کے باہر ایک جھونپڑی کی طرف بابا جی نے اشارہ کر کے بتایا کہ وہ سامنے ہم دونوں گاڑی سے اتر کے وہاں تک آۓ، بابا جی نے دروازے پر دستک دی کچھ دیر بعد اندر سے کسی آدمی کی آواز آئی کہ اندر آجاؤ دروازہ کھلا ہے ہم اندر داخل ہوئے ایک بوڑھا آدمی چٹائی پہ نیم دراز تھا اس کے ہاتھ میں تسبیح تھی ہمیں دیکھ کر وہ اٹھ کر بیٹھ گئےبابا جی نے ان کو سلام کیا شاید وہ ان کو جانتے تھے میں نے بھی سلام کیا تو انہوں نے ہمیں بیٹھنے کا اشارہ کیا، وہاں کوئی روشنی وغیرہ نہیں تھی دیواروں میں موجود سوراخوں سے ہی سورج کی کرنیں اندر آرہی تھیں، بابا جی ان سے کچھ دیر باتیں کرتے رہے
پتر اب بتا اپنا مسئلہ، میں جو اپنے ہی خیالوں میں مگن تھا چونکا،
وہ سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھ رہے تھے میں نے شروع سے لے کہ آخر تک ان کو بتا دیا ، وہ دھیان سے میری بات سنتے رہے اور پھر کافی دیر خاموش رہنے کے بعد انہوں نے چٹائی کے ایک کونے میں بنے صندوق سے مجھے ایک شیشے کے ٹکڑا دیا میں نے اسے تھام لیا اور اسے الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا
اس کو اپنے پاس رکھنا ہر وقت، تمہارے ساتھ جو کچھ بھی اب ہو گا وہ مجھے نظر آئے گا میں جب دیکھوں گا سب تو پھر کچھ سوچوں گا کہ کیا کرنا ، تم نے یہ شیشہ اپنے پاس رکھنا اور رات کو تقریباً بارہ بجے کے بعد اس جگہ جانا جہاں قبریں ہیں، اور پھر جو ہو گا وہ میں دیکھ لوں گا اور ڈرنا مت تمہیں کچھ نہی ہو گا،پھر ہم ان سے اجازت لے کے واپس آگئے
میں نے عالم کے پاس لے جانے ہر بابا جی کا شکریہ ادا کیا تھا اور حویلی روانہ ہو گیا تھا ۔ میں اپنے اندر ایک ان دیکھی قوت محسوس کر رہا تھا ۔ اب مجھے لگنے لگا تھا کہ میں ضرور ان غائبی قوتوں سے مقابلہ کر پائوں گا ۔ میرا پاس بابا جی کا دیا ہوا دھاگہ بھی تھا ۔ عالم کا دیا ہوا شیشہ اور سب سے بڑھ کر ایفا کی طاقتیں بھی تھیں ۔ میں ایک نئے عزم اور حوصلے سے پراسرار حویلی کی طرف بڑھا تھا ۔ جو پوری شان و تمکنت سے سامنے ایستادہ تھی اور پہلی بار دیکھنے والے لوگوں کو غیر محسوس طریقے سے اپنی طرف متوجہ کر دیتی تھی ۔میں اس حویلی کو ان تمام ناپاک روحوں کے شر سے آزاد کرنا چاہتا تھا ۔
میں حویلی کے اندر گیا تو کرم دین سے سامنا ہوگیا تھا ۔ میں نے رک کر اس سے حال احوال دریافت کیا تھا ۔ اور تبھی اس نے بتایا کہ شمائم اندر کمرے میں میرا انتظار کر رہا ہے ۔
اس کی بات سن کر میں خوش ہوتے ہوئے کمرے کی طرف چلا گیا تھا۔ مجھے تھوڑی سی حیرانی بھی ہوئ تھی کہ شمائم بتائے بغیر کیسے آگیا ۔
میں جیسے ہی کمرے میں داخل ہو شمائم فوراً کھڑا ہوگیا تھا۔
میں اسے دیکھ کر خوشی سے اسکی طرف بڑھا تھا لیکن اس نےفوراً ہاتھ آگے بڑھادیا تھا جسے تھامتے ہوئے میں قدرے حیران ہوا تھا۔ شمائم کے اس رسمی علیک سلیک کے انداز سے میں قطعاً انجان تھا ۔
حال احوال دریافت کرلینے کے بعد شمائم کی نظر اچانک میری کلائ پر بندھے دھاگے پر پڑی تھی۔
" تم نے کالا دھاگہ کیوں پہن رکھا ہے ریان ؟؟" اس نے تعجب سے دھاگے کو دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔
تو جواب میں میں نے اسے بابا جی سے ملنے والا واقعہ بڑے پرجوش انداز میں بتایا تھا۔ اور یہ بھی کہ اب کوئ بری طاقت مجھے نقصان نہیں پہنچا سکتی تھی۔
اپنی بات کہ کر میں نے اس کے تاثرات جانچے تو مجھے بے نام سی مایوسی ہوئ تھی۔
اسکے تاثرات بلکل سپاٹ تھے۔ میں لمحے بھر کے توقف کے بعد اسے عالم کے بارے میں بتانے لگا تھا کہ وہ اچانک بولا ۔
"تم اس قدر بے وقوف تو نہیں تھے ریان تم نے کیسے بابا کی بات پر یقین کر لیا؟" اسکی آنکھوں میں استہزا کے کئ رنگ تھے۔
"مجھے لگتا ہے یہ بھوت پریت، روحیں بد روحیں کچھ بھی نہیں یہ کوئ شعبدہ بازی کر رہا ہے تمہارے ساتھ، تمہاری آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے۔ ہو سکتا ہے وہ بابا ہی ہوں ان سب کے پیچھے ۔ "میں حیرت سے اسے تکنے لگا تھا اسکے تاثرات غیر واضح تھے۔ تاہم اسکی بات نے پل بھر کے لئے مجھے یہ رخ دیکھنے پر بھی مجبور کردیا تھا ۔لیکن بابا کو عمر کے اس حصے میں یہ سب کر کے کیا حاصل ہوسکتا تھا۔
شمائم پھر سے بولا تھا۔ "ذرا میں بھی تو دیکھوں اس دھاگے کی خاصیت کو۔ اتار کے دیکھاؤ تو۔ "
وہ آنکھوں میں دلچسپی لئے میری طرف دیکھ رہا تھا۔ نجانے کیوں لیکن آج مجھے شمائم کے تاثرات کچھ عجیب لگ رہے تھے۔ میں وہ دھاگہ اتارنے لگا تھا جبھی میرے سیل فون کی رنگ ٹون بجی۔ میں نے موبائل کان سے لگایا اور دوسری طرف سےجو میں نے سنا وہ میرے اوسان خطا کرنے کے لئے کافی تھا۔
شمائم کی والدہ نے زارو قطار روتے ہوئے بتایا تھا کہ شمائم حویلی کے لئے نکلا تھا لیکن ایک بدترین روڈ ایکسیڈنٹ میں اسکی موت واقع ہوگئ ہے۔ یہ سن کر جیسے میرے اوپر قیامت ٹوٹ پڑی تھی شمائم میرا بچپن کا بیلی تھا ہر سکھ دکھ میں میرا ساتھی تھا جسے ان منحوس روحوں نے مجھ سے چھین لیا تھا ۔مجھے یقین تھا کہ یہ انہی طاقتوں کی کارستانی ہے مجھے آئینہ حمزہ کی دھمکی یاد آئ تھی ۔ اور اب یہ منہوس روحیں شمائم بن کر میرے ہاتھ سے دھاگہ بھی اتار لینا چاہتے تھے ۔
میں نے ڈبڈبائ آنکھیں اٹھا کر سامنے دیکھا تھا لیکن اب وہاں کوئ بھی نہیں تھا۔
مجھے شمائم کی موت کا بہت دکھ تها وہ میرا بچپن کا دوست جگری یار تھا اس کی اس طرح موت پر میں شاکڈ تھا اسکی موت مجھے انہی بدروحوں کی کارستانی معلوم ہوتی تھی کیونکہ اس حویلی کی حقیقت اور تمام حالات میں نے شمائم سے ڈسکس کئے تھے میں غم سے نڈھال ماؤف ذہن سے سوچ رہا تھا کہ کیا کرنا چاہئے تھا مجھے شمائم کے جنازے پر جانا چاہئے یا نہیں کیا میں وہاں تک پہنچ پاؤں گا کیا میرا جانا مناسب ہے مگر میں کیسے جا سکتا ہوں مجھے یہ بدروحیں نہیں جانے دیں گی یہ سوچ آتے ہی میں نے جانے کا ارادہ ترک کر دیا میں شدید صدمے سے دو چار تھا اس وقت مجھے کسی غمگسار کی ضرورت تهی
جس سے میں اپنا درد بانٹ سکتا ایسے میں مجھے ایفا کی یاد آئی اس وقت میں اس سے ملنا چاہتا تھا تاکہ شمائم کی موت کا غم غلط کر سکوں مگر ایفا کی حالت بھی ایسی نہ تھی کہ یہ روح فرسا خبر اسے سنائی جاتی میں اس حالت میں اسے پریشان بھی نہیں کرنا چاہتا تھا مگر اس کڑے وقت میں ایک وہی تھی جس سے مل کر باتیں کر کے میں اپنا دھیان بٹا سکتا تھا اور اس صدمے سے باہر نکل کر اگلا لائحہ عمل سوچ سکتا تھا ایک وہی تھی جس سے مل کر مجھے سکون مل سکتا تھا ایفا سے ابھی شمائم کی موت کو مخفی رکھوں گا جب وہ مکمل صحتیاب ہوگی تب اسے بتاؤں گا یہ سوچتے ہی میں گھر سے ایفا سے ملنے اس کے گھر کی طرف چل پڑا
ایفا اب ہاسپٹل سے گھر شفٹ ہو گئی تھی اور اس کی طبیعت بھی پہلے سے ٹھیک تھی مجھے دیکھ کے وہ کافی خوش ہوئی میں کافی دیر اس سے باتیں کرتا رہا، کچھ دیر بیٹھ کے واپس آگیا، میرا حویلی جانے کا بلکل دل نہیں کر رہا تھا دل کر رہا تھا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے بھاگ جاؤں کہیں بہت دور جہاں اس حویلی کا خیال تک بھی مجھے نا آئے مگر نہیں ایسے نہیں اب میں ایسے نہی جا سکتا یہ حویلی شمائم کی قاتل ہے میں اس سے بدلہ لیے بغیر کیسے جا سکتا ہوں
ہاں اب میں لڑوں گا ان سب طاقتوں سے جن سے میں پہلے ڈرتا تھا مگر اب میں ان کا مقابلہ کروں گا اب یا تو میں ان سب کو ختم کروں گا یا پھر خود مر جاؤں گا پہلے میرا یہاں انے کا مقصد کچھ اور تھا مگر اج سے میرا مقصد صرف بد لہ لینا ہے اپنے جوجو کی موت کا اور اپنے بھائیوں جیسے دوست کی موت کا ،یہ بدروحیں اور دوسری شیطانی طاقتیں صرف اپنی طاقت کا استعمال کر سکتی تھیں مگر مجھے اب اپنی عقل کا استعمال کرنا تھا اور عقل، بلند حوصلے اور بہادری سے بڑی کوئی طاقت نہی ہوتی،
مجھے شدت سے رات کا انتظار تھا، رات کے پورے بارہ بجے جیسے کے عالم صاحب نے کہا تھا میں حویلی کے پچھلے حصے کی طرف اگیا ہر طرف سناٹے کا راج تھا، میں دھیمے دھیمے قدم اٹھاتا اس حصے کی طرف اگیا جہاں قبریں تھیں اس دن کی طرح اج بھی ان پر دیے جل رہے تھے میں کچھ فاصلے پر کھڑا ان کی جلتی ہوئی لو کو دیکھنے لگا جو ہوا کے چلنے کے باعث بھی بجھ نہی رہی تھی، میں اگے بڑھنے لگا تھا جب مجھے کسی کی اواز ایی۔۔۔۔رک جاو۔۔۔۔اور میرے قدم واقعی تھم گئے تھے میں نے ادھر ادھر دیکھا آواز کا تعین کرنے کی کوشش کی مگر وہاں سوائے میرے کوئی نہی تھا میں نے اللہ کا نام لے کے پھر سے قدم اگے بڑھایا مجھے پھر وہی اواز سنایی دی مگر اب کی بار ایک کی بجایے ذیادہ اوازیں تھیں جو مجھے اگے بڑھنے سے روک رہی تھیں اور جوں جوں میں اگے بڑھ رہا تھا اوازیں ذیادہ اور تیز ہوتی جارہی تھیں مگر اب میرے قدم نہی رکے تھے میں نے اگے بڑھ کے دیا اٹھا لیا اور وہ اوزایں چیخوں میں تبدیل ہو گئیں میں نے دیے کی لو میں دیکھا مجھے اج پھر سے مختلف چہرے نظر ارہے تھے
جو مجے گھورنے کے ساتھ چیخ بھی رہے تھے اچانک یہ ساری چیخیں شمائم کی چیخوں میں بدل گییں وہ زور زور سے چیخ رہا تھا اور مج سے مدد کی درخواست کر رہا تھا اور خود کو بچانے کے لیے کہ رہا تھا، پھر وہ چیخیں شمایم کی چیخوں پر حاوی ہو گییں اس کی چیخیں دب گییں اور مجے ایسے لگا جیسے وہ دم توڑ گیا ہو میں اس وقت بلکل جنونی انداز میں دیے کی لو کو دیکھ رہا تھا اچانک میرے چاروں طرف مختلف چہروں والی مخلوق اگئی جو قہر الود نگاہوں سے مجھے گھور رہے تھے اور مجھے دیے کو واپس رکھنے کو کہہ رہے تھے اچانک مجھے ایک اواز سنایی دی ریان دیا بجھا دو میں تمہارے ساتھ ہوں اور میں پہچان گیا تھا یہ اواز عالم صاحب کی تھی جو کہیں بہت دور سے ارہی تھی میں نے دیے کی لو کو ایک نظر دیکھا اور پھونک مار دی پھونک مارنے کی دیر تھی حویلی دہشت ناک چیخوں سے گونج اٹھی اچانک ان سب نے میری طرف بڑھنا شروع کر دیا مجے اپنی موت دکھائی دینے لگی وہ سب میرے بہت قریب ارہے تھے پھر اچانک کسی ان دیکھی قوت نے میرے گرد حصار باندھ دیا اور مجھے پھر سے عالم صاحب کی اواز سنایی دی ریان شیشے کو نکالو جیب سے اور چاروں طرف کرو اور ایسا کرنے کی دیر تھی وہ سب ایک دم سے غائب ہو گئے
۔ریان فوراً یہاں سے چلے جاو ، انہوں نے مجھے دوبارہ کہا میں نے اس پاس دیکھا سب کچھ پہلے جیسا تھا میں دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا حویلی کے اندرونی حصے کی جانب بڑھ گیا اور اس رات جتنی پرسکون نیند مجے ایی تھی شاید ہی اس حویلی میں پہلے کبھی ایی ہو
صبح ناشتے کے دوران میں نے نوٹ کیا کہ دادا جی کی طبیعت کچھ ٹھیک نھی ھے وہ بھت نڈھال لگ رھے تھے میں نے چاےْ کا کپ اٹھاتے ھوےْ ان سے سوال کیا آپکی طبیعت ٹھیک نھی لگ رھی دادا جی! سب خیریت ھے نہ؟ ناشتہ کرتے کرتے وہ ایک لمحے کو رکے اور میری طرف عجیب نگاھوں سے دیککھنے لگے، جیسے کہ رھے ھوں انجان کیوں بن رھے ھو ریان پھر گلہ کھنکھارتے ھوےْ بولے طبیعت تو ٹھیک ھے، بس سر میں تھوڑا درد ھے، اب کچھ دیر آرام کروں گا تو ٹھیک ھو جاےْ گا عجیب بےزاری تھی ان کے لہجے میں؛ میں نے چاےْ پی کر کپ میز پر رکھا اور کھڑے ھو کر کرسی پیچھے دھکیلی، پھر ان کو سلام کرتے ہوۓ باہر آگیا
اوہ شٹ! اپنی کار کا حشر نشر دیکھ کر میں کھول اٹھا پچھلے دونوں پہیے پھٹ چکے تھے، جبک بونٹ پر عجیب و غریب نشانات لگے ھوےْ تھے، جیسے کسی نے اپنا سارا عْصہ اسی پر اتارا ھو میں اشتعال میں آ گیا اب کیا کروں پھر کچھ سوچ کر روڈ تک پیدل جانے کا فیصلہ کیا، کہ آگے اللہ کویْ نہ کویْ سبب بنا ھی دے گا بس میں بیٹھا میں آج کی اہم ترین میٹنگ کے بارے میں سوچ رھا تھا ملک کی امیر ترین کمپنی ، سے اگر یہ میٹنگ کامیاب ھہ جاتی تو ، کمپنی کو تو جو فایْدہ ھوتا سو ھوتا، میری بھی پروموشن ھو جاتی، میں دل ھی دل میں خدا سے اپنی کامیابی کی دعایْیں کر رھا تھا اچانک بس جھٹکے سے رک گیْ اور سارے مسافر، جن میں زیادہ تر دفتری ملازمین شامل تھے ، نیچے اترنے لگے میں نے بھی اپنا بیگ سنبھالا اور نیچے اترنے لگا ڈرایْور پر میری نظر پڑی تو وہ مجھے کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رھا تھا میں سر جھٹک کر نیچے اتر گیا؛ میرے اترتے ھی بس فراٹے بھرتی ھویْ نظروں سے اوجھل ھو گیْ یہ کیا؟ میں حیرانگی سے ادھر ادھر دیکھنے لگا ایک بھت بڑے جنگل میں، میں تنھا کھڑا تھا، وہاں کسی ذی روح کا نام و نشان بھی نھی تھا میرے دیکھتے ھی دیکھتے وہاں گھپ اندھیرا چھا گیا ، اور مجھے لگا کہ بھت ساری چمگادڑوں نے مجھ پر حملہ کر دیا----میں نے اپنے حواس مجتمع کیےْ اور قرآنی آیات کا ورد کرنے لگا ندھرے میں مجھے جلتی ھویْ چمگادڑیں صاف دکھایْ دے رھی تھیں میں نے ورد جاری رکھا تھوڑی دیر بعد اندھیرا چھٹا تو میں اپنے آفس کے سامنے کھڑا تھا میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ میں بروقت یہاں پہنچ گیا تھا، بصورت دیگرمجھے بھت بڑے خسارے سے دو چار ھونا پڑتا اور مجھے یہ بھی اندازہ ھو گیا تھا کہ حویلی میں موجود بری طاقتوں کا بھت حد تک خاتمہ ھو چکا ھے
حویلی میں موجود بری طاقتوں کا خاتمہ ہو چکا ہے یا یہ میری خیال خامی ہے اس کا فیصلہ وقت اور.آگے پیش آنے والے حالات نے کرنا تھا کہ وہ کیا رخ اختیار کرتے ہیں آج کی میٹنگ کامیاب رہی تھی میرا ذہن ایک طرف سے پرسکون ہوا ذہن میں بہت سارے خیال امڈے چلے آ رہے تھے میں نے اپنی زندگی میں کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں کبھی ایسی حالات سے گزروں گا مجھے نہیں پتہ تھا کہ میرے اندر اتنی ہمت اور حوصلہ پتہ نہیں کہا سے آئے گا کہ میں بدروحوں شیطانی طاقت کا سامنا کروں گا بلکہ ان کا مقابلہ بھی کرونگا مگر وہی بہت سارے ایسے واقعات تھے جنہوں نے مجھے دکھی اور آفسردہ بھی کیا انہیں میں سے حالیہ واقعہ شمائم کی موت تھی ____ مجھے اس کا بہت دکھ تھا پتہ نہیں دل میں یہ خیال کیوں آتا تھا کہ شائم کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ میری وجہ سے ہوا ہے نا میں اسے حویلی بلاتا نا حویلی کی نحوست اس کا پیچھا کرتی اور وہ ایسے انجام کا شکار ہوتا وہ شخص میری دوستی کی خاطر اس حویلی میں آیا تھا اس دن دادی کی بلی پرُکی کا ڈانس پتہ نہیں کیوں بار بار میری سوچوں کی سطح پر اتر رہا تھا دادی نے کہا تھا کہ جب بھی کسی کی موت واقع ہونی ہو پرکی ڈانس کرنا شروع حویلی کی شیطانی طاقتیں یہ نہیں چاہتی تھی کہ شمائم میری مدد کرے اور میں یا شمائم حویلی میں رہے کار ایکسیڈنٹ تو بہانہ ہے ورنہ کیٹی آئینہ میں موجود بری طاقتوں کو وہ وجود حویلی میں کھٹکتا تھا یہ میرے لیے ان کی طرف سے بیغام تھا کہ میں بھی چپ چاپ حویلی سے چلا جاؤں ورنہ میرا حال بھی شائم جیسا ہوگا انہیں سوچوں میں غلطاں میں نے حویلی کا رخ کیا
ابھی میں لان سے گزر راہ تھا کہ میں نے کچھ عجیب کراہنے کی آوازیں سنی جیسے کوئی تکلیف میں ہو آواز کے ماخذ کی سمت بڑھا تو دیکھا ایک چیئر کے نیچے کیٹی زخمی ہوئی کراہ رہی ہے میں جب اس کے قریب جا کر بیٹھا تو وہ عجیب انداز میں غرانے لگی
اور آہستہ آہستہ پیچھے ہو رہی تھی مگر لنگڑانے کے باعث اس سے ٹھیک طرح چلا بھی نہیں جا رہا تھا میں نے کرم دین کو آواز دی
" کرم دین تم نے کیٹی کو ڈاکٹر کو دیکھایا "
" جی نہیں ریان میاں بڑے صاحب ہی اسکی مرہم پٹی کر رہے ہیں "
" اچھا ایسا کریں آپ میرے کمرے میں چائے پہنچا دیں "
کمرے میں آ کر کچھ دیر میں نے آرام کیا اس دوران کرم دین مجھے چائے بھی دے گیا تھا چائے پی کر میں فریش محسوس کر رہا تھا وقت گزاری کیلئے ادھر ادھر کتاب کی تلاش میں دیکھنے لگا لیکن مجھے کمرے میں کوئی کتاب نظر نا آئی تو راکنگ چیئر پر جا کر بیٹھ گیا اچانک ایک خیال بجلی کی طرح میں ذہن میں کوندا اور مجھے ترغیب دینے لگا پھر اپنے دل کو اس کام پر آمادہ کر کے میں اٹھ کھڑا ہوا کمرے سے باہر نکلنے سے پہلے ایک نظر اپنی کلائی پر بندھے دھاگے کو دیکھا اور واپس پلٹ کر تکیے کے کور کے اندر سے عالم کا دیا شیشہ بھی نکا لیا اب میرا منزل بلائی حصہ تھا میں احتیاط سے سڑھیاں چڑھتا اوپر کی طرف بڑھ رہا تھا اگرچہ یہ سہہ پہر کا وقت تک اور سوچ کی اچھی خاصی روشنی دیواروں پر پڑھ رہی تھی مگر پتہ نہیں کیوں بالائی منزل میں اک عجیب طرح کا اندھیرا رہتا تھا ویرانگی اور وحشت درودیوار سے ٹپکتی تھی میں احتیاط سے قدم بہ قدم سیڑھیاں چڑ کر اوپر آیا تو پتہ نہیں کسی کمرے کے روشن دان سے اچانک ایک چمگادڑ چیں چیں کرتی میری طرف بڑھی میں نے بروقت اپنا سر نیچے کر کے چہرے کو بچایا اگر عالم بابا کا دھاگہ میری کلائی میں نا ہوتا تو شاید میں خوف سے بے ہوش ہو چکا ہوتا یا شاید اتنے خوفناک اور دہشت ماک واقعات اور حالات کا سامنا کیا ہے کہ شاید خوف کی شدت کم ہو گئی جو بھی تھا آج میں بالائی منزل کو دیکھنا چاہتا تھا کوئی سراغ کوئی تلاش تھی جو مجھے اوپر اس ویران پورشن تک لے آئی تھی
سامنے کی طرف برآمدہ بنا ہوا تھا اس سے دو راہداریاں نکلتی تھیں جن میں آمنے سامنے کمرے بنے ہوئے تھے کچھ کمرے پچھلی جانب تھے
میں راہداریوں میں سے گزرتا ہوا ان کمروں کے اندر جھانک رہا تھا
گردوغبار جالوں سے اُٹے پرانے فرنیچر اور کاٹھ کباڑ بھرے یہ کمرے مکڑیوں اور چمگاڈروں کی آماجگاہ میں راہداریوں سے ہوتا ہوا ایک پتلی سی گلی نما گیلری سے ہوتا ہوا آہستہ آہستہ پچھلی طرف بنے رہائشی کمروں کی طرف آ گیا عجیب وحشت اور گھپ اندھیرہ عجیب سی بدبو چاروں اور پھیلی ہوئی میں نے موبائل کی ٹارچ لائٹ آن کی اور ایک روشنی کی لکیر مجھ سے آگے بنتی چلی گئی ہر طرف جالے دھول پھر میری نظر کمروں کی طرف چلی گئی ہر کمرے کا دروازہ بند تھا اور عجیب دھاگوں اور دھجیوں سے ان میں لگی کنڈیوں کو باندھا ہوا تھا جیسے یہ دھاگے تالوں کا کام دے رہیں ہوں میں جوں ہی ایک کمرے کی طرف بڑھا تاکہ آگے بڑھ کر اس کو کھول سکوں ایسا لگا کہ کسی نادیدہ قوت نے مجھے اس کی طرف بڑھنے سے روک دیا ہو میرے قدم آگے بڑھنے سے قاصر تھے میں ایک ایک کر کے ہر کمرے کی طرف بڑھا مگر ہر بار کسی طاقت نے مجھے پیچھے دھکیل دیا اب بس آخری کمرہ رہ گیا تھا میں پچھلے تجربوں کا سوچ کر اسے ایسے ہی چھوڑ کر واپس مڑ جانا چاہتا تھا کہ میری نظر اس کمرے کی کنڈی سے ہوتی ہوئی اس میں اڑے دھاگے پر پڑ گئی اس میں دھاگہ تو ڈالا ہوا تھا پر اس کو گرہ نہیں لگائی گئی تھی یا شاید وقت کے ساتھ یہ گرہ کھول گئی تھی اس دھاگہ نما دھجی کا سرا ہی کنڈی میں اٹکا ہوا تھا
باقی دھاگہ نیچے جھول رہا تھا میں اس کمرے کی طرف بڑھا اور میری حیرت کی کوئی انتہا نا رہی جب بغیر کسی رکاوٹ کے میں اسکے سامنے جا کھڑا ہوا دروازے سے کچھ پرے ایک بڑی سی شیشے کی کی کھڑکی بھی تھی جو اس قدر دھول سے اٹی ہوئی تھی کہ اندر جھانکا ناممکن تھا میں نے کمرے میں جانا بہتر سمجھا اور کمرے کا دروازہ اندر کی طرف دھکیل دیا وہ چرچڑاہٹ کی آواز کے ساتھ شور کرتا کھلتا چلا گیا جیسے ہی میں نے اندر قدم رکھا کوئی چیز سر سے ہوتی ہوئی اچانک میرے قدموں میں آ گری میں ایک دم بدک کر پیچھے ہٹا کہ وہ ایک انسانی کھوپڑی تھی میرا دہشت سے دل دھک دھک کرنے لگا پھر خود کو ہمت دلاتا سائڈ سے ہو کر کمرے کا جائزہ لینے لگا کمرے میں عجیب وغریب چیزیں پڑی ہوئی تھی دو تین انسانی ڈھانچے کہ ہڈیاں چند جلے ہوئے دئیے ادھ جلی موم بتیاں کچھ مرتبان ایک کپڑے کا تھیلا جس میں کچھ بھرا ہوا تھا گرد سے اٹی مالائیں ایک طرف ایک مرتبان ٹائپ شیشے کی بوتل میں عجیب سرخی مائل کالا گدلا محلول کچھ مٹی کہ برتن اور ایک دو اسی سے بنی ہانڈیاں میں اس بند تھیلے کی طرف بڑھا ہاتھ سے اس کی مٹی کو جھاڑا ایک کھانسی کا دورہ تھا جو مجھ پر اس دھول سے لاحق ہو گیا کھانس کھانس کر جب میرا پیٹ تک درد کرنے لگا تو میں نے گہرے گہرے سانس لیے پھر سے تھیلے کی طرف ہاتھ بڑھایا ہاتھ ڈال کر جو پہلی چیز باہر نکالی وہ عجیب سے سفوف کی پڑیاں تھیں جنہیں میں نے میز پر ڈال کر دوبارہ ہاتھ ڈالا میرے ہاتھ میں سخت سی جلد نما کوئی چیز آئی اسے باہر نکالا تو وہ ایک کتاب تھی جب اس کتاب کی سطروں پر نظر ڈالی یہ دادا جان کے پاس موجود کتاب سے ملتی جلتی کتاب تھی میں نے اسے ایک ہاتھ سے پکڑ کر دوبارہ تھیلے میں ہاتھ ڈالا ایک عجیب نرم گیلی چپچپی سی چیز میں ہاتھ میں. آ گئی جو گرم بھی تھی میں نے جو ہاتھ باہر نکالا تو فوراً ڈر کر اسے دور زمین پر پھینک دیا وہ ایک مری ہوئی چمگادڑ تھی -
"وہ مری ہوئی چمگادڑ بے اختیار میں نے دور پھیکی اور اس سرخی مائل محلول کے مرتبان کی طرف بڑھ گیا بڑی دقت سے اس مرتبان کا ڈھکن کھولا ڈھکن کھولنے کی دیر تھی ایک تیز پرانے بدبودار خون کی باس ایسا لگا نتھنوں میں گھسی جا رہی ہو کہ ایک دم ابکائی کرنے کا من کیا جلدی سے اس مرتبان کو بند کر کے میں نے اردگرد دیکھا اب ایسا کچھ بھی خاص نہیں تھا ادھر میں کمرے سے واپس پلٹ آیا ابھی میں کمرے سے ہی تھا کہ نظر دائیں طرف جاتی سیڑھیوں کی طرف اٹھ گئی یہ سیڑھیاں بل کھاتی ہوئی نیچے کی طرف جا رہی تھیں میں قدم بے اختیار ان سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئے جیسے ہی میں سیڑھی کے آخری سرے پر پہنچا تو میری حیرت کی انتہا نا رہی یہ سیڑھیاں حویلی کے عقب میں جا کر اختتام پزیر ہوتی تھیں آگے درخت اور جھاڑیاں تھیں دائیں طرف ایک دائیں طرف موڑ تھا موڑ سے آگے وہی دو قبریں بنی ہوئی تھیں یعنی کہ اس حویلی کے پیچھے حصہ سے بالائی منزل تک جایا جا سکتا ہے میں نے پر سوچ انداز سے پھر پیچھے موڑ کر دیکھا میں ابھی واپس موڑ کر انہیں سیڑھیوں سے حویلی کے اندر جانا چاہتا تھا جس طرف میں میں یہاں آیا تھا کیونکہ حویلی کے پچھلے حصے سے گھوم کر وااپس فرنٹ کی طرف آنے میں کافی فاصلہ تھا اور وقت بھی لگ جاتا ابھی میں واپس مڑ ہی رہا تھا کہ میں نے غرانے کی آواز سنی آواز سمت دیکھا تو کیٹی پتہ نہیں قبروں کی طرف سے کہاں سے نکل کر میرے سامنے کھڑی سرخ آنکھوں سے غرا رہی تھی میں اسے نظر انداز کرتا واپس مڑ گیا سیڑھیاں چڑھ جو واپس آیا تو اس آخری کمرے کے سامنے سے گزرتے ہوئے دفعتاً میری نظر کھڑی کی سمت اٹھ گئی اندر کا منظر دہشت ناک اور خوفزدہ کر دینے والا تھا ایک جلی شکل والی بوڑھیا کالا لباس پہنے سرخ آنکھوں میں گھور رہی تھی اس کے کالے چغے پر سرخ خون لگا ہوا تھا ہر طرف بال بکھرے ہوئے ہاتھ میں مری ہوئی چمگادڑ اس کی شکل اتنی مکروہ اور وحشت ناک تھی کہ میں آگے کی طرف بڑھا جب میں اس کے دروازے کی طرف پہنچا تو ایک نظر اندر جھانکا میں ٹھٹھک کر رک گیا اندر کسی ذی روح کا نام ونشان تک نا تھا میں واپس کھڑکی کی طرف آیا وہی چڑیل نما بڑھیا اب کھڑکی کے ساتھ کھڑکی اپنے لمبے دانتوں کو نکالے مکروہ ہنسی ہنس رہی تھی میں نے فوراً راہدای کی طرف بھاگا سامنے کی طرف آ کر اندر کی طرف بنی سیڑھیوں کی طرف دوڑ لگا دی ہانپتا ہوئے اپنے کمرے میں آ کر دم لیا میرے ہاتھ میں وہی کتاب اب بھی موجود تھی چاروں طرف نظر دوڑائی کہ اس کتاب کو چھپانے کیلئے محفؤظ جگہ چاہیے تھی تاکہ دوبارہ غائب نا ہو سکے میری نظر اپنے بریف کیس کہ طرف گئی اس میں ایک خفیہ خانہ بھی تھا میں نے اسے جلدی سے کھول کر اس خانے میں رکھ دیا اور بیڈ پر بیٹھ لمبے لمبے سانس لینے لگا
تھوڑی دیر بعد میں نارمل ہوزیشن میں آگیا ساییڈ ٹیبل پر رکھا، پانی کا گلاس اٹھایا اور بسم اللہ پڑھ کر تین سانسوں میں پینے لگا مٰیں نے تھوڑا سا پانی بچایا اور حفظ ماتقدم کے طور پر اس پر آیت الکرسی پڑھ کر دم کر دیا میں بیڈ کراوْن سے ٹیک لگا کر بالایْ منزل کے بارے میں سوچنے لگا اچانک بند کھڑکی زوردار آواز سے کھلی اور میں چونک پڑا آندھی کی صورت میں ایک بگولہ اندر داخل ھوا اور دیکھتے ھی دیکھتے اسنے اسی بڑھیا کی شکل اختیار کرلی جسکا میں اوپر دیدار کر کے آیا تھا میں کرنٹ کھا کر بیڈ سے اتر آیا اسکی آنکھوں سے بہتے لہو کی سرخی میں اپنی آنکھوں میں محسوس کر سکتا تھا کھچڑی نما بال ھوا میں اڑ رھے تھے لمبے لمبے ناخنوں میں میں سے تازہ خون بہ رھا تھا، وہ میری طرف بڑھنے لگی میں مطمیْن تھا کہ کم از کم دھاگے کی موجودگی میں وہ میرا بال بھی بیکا نھی کر سکتی اسنے مجھے گھورتے ھوےْ آگے بڑھنا شروع کیا اور میری گردن دبوچ لی میرا سانس رکنے لگا دم والا دھاگا ، کیا اپنا اثر کھو چکا تھا؟؟؟؟ میں حیران و پریشان اپنا دم گھٹتا محسوس کرتا رھا میری آنکھیں بند ھونے لگیں اس سے پہلے کہ فرشتہ اجل مجھے آدبوچتا، ایفا کی آواز مجھے زندگی کی طرف لوٹنے پر مجبور کرنے لگی ریان! آنکھیں کھولو، حوش کرو ریان، ابھی تم نے اس حویلی کو بدروحوں سے آزاد کروانا ھے میرے تاریک ذہن میں روشنی کا نقطہ چمکا اور میں نے پوری قوت سے اسے پرے دھکا دے دیا میں اپنی گردن مسلنے لگا میں نے اپنی ہتھیلی کو دیکھا تو وہ خالی تھی دھاگے کا نام و نشان بھی نھیں تھا۔
جاری ہے
Post a Comment (0)
Previous Post Next Post