Khamoshi episode 12 - ushna kausar sardar

Khamoshi episode 12 - ushna kausar sardar

 

 


قسط نمبر 12
رائٹرز:
عشنا کوثر سردار اور ٹیم
" میں نے جو کسی جادو کرنے والے سے مدد لینے کا فیصلہ کیا تھا اسکے لیئے مجھے یہاں پر گاؤں میں موجود قابل اعتماد لوگوں کی مدد چاہیئے چونکہ میں گاؤں میں نیا تھا اور کسی سے بھی واقف کار نا تھا یہی سوچ کر میں ناشتے کہ بعد حویلی سے باہر آ گیا اور گاؤں کی طرف جانے والی سڑک پر چلنے لگا میں ذہن ان پراسرار گتھیوں کو سلجھانے میں محو تھا چلتے چلتے میں ایک پگڈنڈی کی طرف آ گیا تھا جو آگے جا کر کوٹھری نما کمرے سے ہوتی ہوئی گاؤں کی کچی سڑک سے مل جاتی تھی اس کوٹھری نما کمرے کے ایک ساتھ ٹیوب ویل لگا تھا اور وہیں ایک بڑا برگد کا درخت جس کے نیچے بچھے پلنگ پر ایک ستر سے پچھتر سال کا ایک بوڑھا اونگھ رہا تھا میں جو اس کوٹھری کہ قریب پہنچا تو بابا جی شاید میرے قدموں کی آہٹ سن کر جاگ گئے تھے جبھی آنکھیں کھول کر اٹھ بیٹھے اور میری طرح غور سے سے دیکھنے لگے
میں سلام کر کے اس بابا کے پاس پلنگ پر بیٹھ بیٹھ گیا
" جی میں ابھی چند ماہ پہلے اپنی نوکری کی وجہ سے یہاں آیا ہوں "
" ہاں جبھی کہوں شکل کافی نئی سی لگ رہی ہے میں تو اس گاؤں کے چپے چپے سے واقف ہوں ہر بندے کے متعلق معلوم ہے مجھے یہی پلا پل کر جوان ہوا اور پھر اسی جگہ اپنے بال بھی سفید ہو گئے "
بابا جی یہ کہہ کر مسکرا ئے مسکرانے سے اس کے سامنے والے ٹوٹے دانت نظر آنے لگے اور اس کی کافی عمر ہونے کا پتہ دیتے تھے
اسکی یہ بات سن کر مجھے لگا کہ میں اس شخص سے کسی جادو کرنے والے کا پوچھتا ہوں یہ یقیناً کسی نا کسی سے واقف ہو گا
" بابا جی ایک بات پوچھ سکتا ہوں ؟"
ہاں پتر بسم اللّٰہ پوچھ "
بابا جی آپ کافی عمر رسیدہ ہیں یہاں کے لوگوں کو جانتے ہیں مجھے کسی جادو کرنے والے کا پتہ مل سکتا ہے جو کوئی ڈرامہ نا ہو اور قابل اعتماد بھی "
جادو کا نام سن کر وہ بابا جی ایک دم چوکنے ہو گئے اور میری طرف مشکوک نظروں سے دیکھنے لگے "
" کہاں سے آیا ہے تو پتر؟ "
میں نے حویلی کا نام لیا حویلی کا نام سننا تھا کہ وہ بابا جی فوراً الرٹ ہو گئے
" اچھا میں جبھی کہوں یہاں پر تو کوئی جادو کا نام نہیں لیت اور اگر لے یا کرے بھی تو بہت کم شازونادر ہی کوئی ہو گا مگر کسی کہ سامنے نہیں کیونکہ کہ ادھر بہت سال پہلے ایک واقعہ ایسا ہو چکا ہے کہ اب کوئی جادو کا نام سرعام نہیں لیتا بےشک ماہ سال میں اس قصے کی گرد بیٹھ گئی ہے مگر جب کوئی ایسی بات کرے بّڑے بوڑھے اسے چپ کروا دیتے ہیں "
واقعہ کی بات سن کر میرے کان کھڑے ہو گئے
" واقعہ کیسا واقعہ ؟ " میں نے سوالیہ انداز میں تیوریاں چڑھا کر بابا جی سے پوچھا
" یہ واقعہ بھی اسی حویلی سے جڑا ہے جہاں سے تم آئے ہو "
بابا جی کی بات مجھے چونکانے کیلیئے کافی تھی میں ایک دم سیدھا ہو گیا اور غور سے بابا کی بات سننے لگا
" مجھے اچھی طرح یاد ہے آج بھی وہ دن "
دور خلاؤں میں گھورتے ہوئے انہوں نے کہنا شروع کیا
" آج سے چند سال پہلے کی بات ہے یہ حویلی پہلے ہی بدروحوں اور جن بھوتوں کا مسکن ہونے کی وجہ سے مشہور تھی کوئی نا کوئی واقعہ اس حویلی سے منسوب ہوتا تھا کچھ لوگ یقین رکھتے تھے اور کچھ نہیں میں بھی ان لوگوں میں شامل تھا جنہیں اس بات پر یقین نہیں تھا کافی جادو کرنے والے عامل اور جادوگر پہلے بھی یہاں آکر اس حویلی کی شیطانی طاقتوں کو قابو کر کے بڑے عامل بننا چاہتے تھے تاکہ ان کی طاقتوں میں اضافہ ہو سکے مگر سب خواہش مند اس حویلی کی شیطانی طاقتوں اور بدروحوں کو اپنے قابو میں کرنے میں ناکام ہو کر واپس لوٹ جاتے تھے کہ ان میں ان طاقتوں سے مقابلہ کرنے کی طاقت اور علم نہیں تھا جب تک"
میں جو ان کی بات کافی انہماک سے سن رہا تھا جسے سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہو رہے تھے انہیں یوں اچانک رکتا دیکھ کر بے چینی سے بولا
" جب تک ؟ "
" جب تک ایک جادو کرنے والی عورت گاؤں آ کر اس حویلی کے متعلق نہیں پوچھنے لگی وہ بھی یہی مقصد لے کر یہاں آئی تھی اس نے حویلی کے عقب میں اپنا رہنے کا ٹھکانہ بنا لیا تھا جہاں دو قبریں بنی ہوئی تھیں سننے میں یہی آیا تھا کہ وہ کافی طاقتور جادو کرنے والی تھی جبھی اس کا سارا چلہ تقریباً مکمل ہو گیا تھا وہ پورن ماشی کی رات تھی جب اسے اپنے چلے کا آخری عمل کرنا "
" پھر ؟ "
" پھر کیا ؟ „ ایک ٹھنڈی سانس لی گئی
" اس رات میں اپنے دوستوں کے ساتھ گپیں لگا رہا تھا کہ پتہ نہیں کیسے باتوں کا رخ حویلی اور اس عامل عورت کی طرف مڑ گیا میں اپنے دوستوں میں کافی نڈر اور بہادر مشہور تھا باتوں باتوں نے میرے دوستوں نے مجھے سے شرط لگائی کہ اگر میں واقعی بہادر ہوں تو حویلی کے پچھواڑے آج کی رات گزاروں میرا ایک دوست یہ سب سن کر گھبرا گیا تھا مگر میں شرط سے پیچھے ہٹنے والا نہیں تھا بس پھر جادوگرنی کہ آخری عمل کو چھپ کر دیکھنے کیلئے میں حویلی کے عقب میں آگے درختوں اور جھاڑیوں کے پیچھے چھپ گیا اور خاموشی سے بیٹھ کر اس عورت کے عمل شروع کرنے کا انتظار کرنے لگا بارہ بجے ہی تھے کہ وہ عورت ایک ٹوٹی پھوٹی کوٹھری سے باہر آئی اس کے ہاتھ میں کچھ چیزیں تھی پورے چاند کی چاندنی میں ہر چیز واضح تھی اس نے ایک ایک کر کے سب چیزیں دونوں قبروں کے وسط میں رکھیں
پہلے اس نے اپنے گرد حصار کھینچا بعد میں سامنے رکھی انسانی کھوپڑی پر رکھ پڑھ کر پھونک ماری پھر عجیب وغریب موتیوں سے بنی مالا گلے میں پہن لی پھر ایک تھیلی میں سے ایک انگوٹھی نکالی دور سے دیکھنے پر اس انگوٹھی پر کچھ لکھا ہوا معلوم ہوتا تھا مگر فاصلے کی وجہ سے زیادہ واضح نا ہو سکا پھر اسی تھیلی میں سے اس نے ایک کتاب نکالی اور کھول کر منہ میں کچھ بڑبڑانے لگی میں چپ سادھے یہ سب دیکھ رہا تھا تھوڑا تھوڑا خوف بھی دل میں جڑ پکڑ رہا تھا کوئی پندرہ بیس منٹ گزرے ہونگے کہ ایسا لگا ماحول میں بھونچال آ گیا وہ دیئے اور شمعیں جو اس جادوگرنی نے روشن کر کے قبروں پر نصب کی تھیں ہوا سے پھڑ پھڑانے لگیں لیکن ہوا کا کہیں نام ونشان تک نا تھا پھر عجیب سی وحشت ناک آوازیں اور چیخیں سنائی دینا شروع ہو گئیں جو عمل کے ساتھ ساتھ بڑھ رہیں تھیں مجھے بہت ڈر لگ رہا تھا مگر میں واپس جا کر دوستوں میں بےعزت نہیں ہونا چاہتا تھا نا ہی باقی کی ساری زندگی بزدل اور ڈرپوک کے نام سے مشہور ہونا چاہتا تھا اسی لیے اپنی جگہ جم کر بیٹھا رہا اچانک ایک دم حصار کے باہر خودبخود آگ بھڑک اٹھی جسے دیکھ کر جادوگرنی ایک دم حواس باختہ ہو گئی آگ کے شعلے پھیلتے پھیلتے اردگرد اگی جھاڑیوں اور درختوں کو اپنی لپیٹ میں لینے لگی یوں آگ کو بڑھتا دیکھ کر جادوگرنی جو پیچھے ہوئی ہوئی تو اسکا ایک پاؤں حصار سے نکل گیا پاؤں کے حصار سے نکلنے کی دیر تھی کہ جادوگرنی کے کپڑوں میں آگے کے شعلے لپٹ گئے اب اس بھیانک شور میں جادوگرنی کی چیخیں بھی شامل ہو گئی تھیں آگ نے چاروں اور سے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا آگ بڑھتے بڑھتے حویلی کی پچھلی دیوار تک پہنچ گئی تھیں اس سے زیادہ مجھ میں دیکھنے کی تاب نہیں تھی بس میں جیسے تیسے گرتا پڑتا گھر پہنچا اور بستر میں جا کر دبک گیا میری وجود پر کپکپی طاری ہو چکی تھی پھر مجھے کچھ ہوش نا رہا اگلے دن میں اٹھا تو بخار میں پھنک رہا تھا گھروں والوں سے ہی پتہ چلا کے حویلی کے عقب میں خود بخود آگ بھڑک اٹھی تھی جس سے وہ جادو گرنی جل کر بھسم ہو گئی اور حویلی کا پچھلا سب بالائی حصہ جل بھی چکا کیونکہ ادھر لکڑی کا کام ہوا تھا سب دورازے کھڑکیاں جل گئے تھے "
بابا نے لمبی سانس لی اور کچھ توقف کیا میں جو خوف اور دہشت کی کیفیت میں یہ سب سن ر ہی تھا جب انگوٹھی اور کتاب کا زکر ہو رہا تھا تو چونک گیا
"کہیں یہ وہی انگوٹھی اور کتاب تو نہیں جو آئینہ کی ملکیت تھی اور دادا جان کے پاس وہ کتاب دیکھی تھی"
وہ دن اور آج کا دن اب یہاں کوئی سامنے تو جادو کا نام نہیں لیتا سب لوگ بہت ڈر گئے تھے اس واقعے سے"
"اور حویلی میں رہنے والے مکینوں کا کیا ہوا تھا؟"
میں نے ان سے استفسار کیا
حویلی میں صرف اس وقت ایک فرد ہی تھا ان کے متعلق کچھ پتہ نہیں چل سکا
بابا جی کی سب باتیں سننے کے بعد میں سلطان چچا سے جلد از جلد رابطہ کرنا چاہتا تھا کیونکہ میں میں معلوم کرنا چاہتا تھا اس رات حویلی میں کون موجود تھا کیا کسی کو جانی نقصان ہوا تھا؟
بابا جی سے تمام قصہ سننے کے بعد میں انگوٹھی اور کتاب کے تعلق پریقین تھا کہ یہ وہی کتاب اور انگوٹھی ہے بس اب یہ معلوم کرنا تھا کہ یہ دونوں چیزیں حویلی میں کیسے پہنچی؟
رات کے آخری پہر میری آنکھ عجیب و غریب آواز سے کھلی، مجھے یوں لگا کہ جیسے بہت دور سے کوئ مجھے پکار رھا ھے۔ میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ تھوڑی دیر ان آوازوں پر دھیان لگائے بیٹھا رھا اب کے کوئ آواز نہ آئ میں پرسکون سانس لیتا ھوا دوبارہ لیٹ گیا ابھی آنکھیں بند کی ھی تھیں کہ دوبارہ آواز آنے پر گھبرا کر بیٹھا اب کے آواز بہت قریب سے آئ تھی ”ریان اوپر آؤ“
میں میکانکی انداز میں اوپر چلتا گیا بالائ منزل کے ایک کمرے کا دروازہ کھلا تھا۔۔۔ میں نے سوچے سمجھے بغیر اندر قدم رکھ دیا اور شایْد یہی میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی اندر داخل ھوتے ھی میرے چودہ طبق روشن ھو گئے نہایت بھیانک چہرے والی ایک بڑھیا خون سے بھرے ایک پیالے میں ھاتھ ڈالے کچھ پڑھ رھی تھی اسکی آنکھیں بند تھیں اور اس کے گرد چمگادڑیں رقص کر رھی تھیں شاید وہ میری آمد سے بے خبر تھی مگر مجھے یہاں بلایا کس نے تھا؟ ریان ادھر دیکھو! میرے دائیں طرف سے آواز آئ میں نے چونکتے ھوۓ اس طرف دیکھا- اندھیرے کے باعث مجھے صاف دکھ نھیں رھا تھا کے اس سمت کون ھے؟ میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کے دیکھنے کی کوشش کرنے لگا اور میری حیرت کی انتہا نہ رھی جب میں نے وہاں آئینہ حمزہ کو روتے ھوۓ دیکھا؛؛؛تم؟ تم رو کیوں رھی ھو آئینہ؟۔میں تڑپ کر اسکی سمت بڑھا ؛؛؛میں تم سے بھت محبت کرتی ھوں ریان، تم بس وہ انگوٹھی مجھے دے دو، ورنہ تمھارے ساتھ بہت برا ھو ھوگا ایک طرف وہ مجھ سے محبت کا دعوی کر رھی تھی تو دوسری طرف مجھے میرے برے حشر سے دھمکا رھی تھی---میں آہستہ آھستہ چلتے ھوۓ اس کے پاس جا کھڑا ھوا ایک لمحے ک لیئے میں یہ بھول گیا کہ کہاں کھڑا ھوں ”بہت محبت کرتی ھو مجھ سے؟“ آنسو صاف کرتے ھوئے جب وہ بولی تو مجھے یوں لگا کہ جیسے اس کی آواز کسی کنویْیں سے آرھی ھے
”بہت زیادہ“
اگر تم مجھے اس انگوٹھی کا راز بتا دو تو میں تمھیں یہ انگوٹھی واپس کر دوں گا میں نے شطرنج کی بساط بچھائ میرا یہ کہنا تھا کہ وہ یکدم آگ بگولہ ھو گئ مجھے انگوٹھی واپس کرو وہ چلاتے ھوۓ بولی
"اوکے دیتا ھوں میں نے ڈرامائیْ انداز میں جیب میں ھاتھ ڈالا
"جلدی کرو" اس نے پریشانی سے بڑھیا کی طرف دیکھتے ھوۓ کہا "نھیں ریان یہ انگوٹھی اس کو ہر گز مت دینا" اچانک میرے پیچھے سے آواز آئیْ تو میں اچھل پڑا، میں نے پلٹ کر دیکھا ایفا؟؟؟
میرے منہ سے سرسراتا ھوا لفظ نکلا میں حیرت و انبساط کی تصویر بنا کھڑا کا کھڑا رہ گیا، کہ اچانک آیْینہ نے میری پشت پر حملہ کر دیا مجھے یوں لگا کہ میں ھوا میں اڑ رھا ھوں اور اس سے پہلے کہ میں بڑھیا کے سامنے رکھے ، ابلتے ھوئے خون کے پیالے میں جا گرتا، ایفا دوڑ کر آئیْ اور مجھے مخالف سمت میں دھکا دے دیاانگوٹھی اڑتی ھوئْ خون کے پیالے میں جا گری اس کے ساتھ ھی اس بڑھیا نے غصے سے آنکھیں کھول دیں میں زمین پر اس بری طرح گرا کہ سر چکرا کر رہ گیا انگوٹھی کے خون کے پیالے میں گرنے سے ہر طرف انتہایْ غلیظ بد بو پھیل گئیْ بڑھیا اور آئیْنہ نے مجھ پر ایک ساتھ حملہ کر دیا، وہ میرا منہ نوچنے لگیںاور میں حوش و حواس سے بیگانہ ھوتا چلا گیا آخری احساس اپنے لبوں سے نکلتے آیت الکرسی کے الفاظ، اور کسی کی ذور دار ٹھوکر پڑنے پر بالائیْ منزل سے نچلی منزل کا، سفرلڑھکتے ھوئےْ طے کرنے کا تھا مجھے حوش آیا تو خود کو اپنے بستر پرلیٹا پایاکرم دین نے بتایا کہ اس رات وہ تہجد ادا کرنے ک لیے اٹھے، تو میری چیخیں سن کر گھبرا گئےْ - میں بری طرح زخمی تھا دادا جی بھی آ گئے انہوں نے فورا شہر سے ڈاکٹر کو بلایا اور میری ٹریٹمنٹ شروع ھو گئیْ مجھے یہ بھی پتہ چلا کہ میری کئیْ ھڈیاں اپنی جگہ سے ہل چکی تھیں، اور میں پورے دو ھفتوں بعد حوش میں آیا تھا اس عرصے میں ایفا مسلسل ہہاں آتی رھی تھی ذہن پر زور ڈال کر گزرا وقت یاد کیا تومیں گہری سانس لے کر رہ گیا ڈاکٹر نے دو ہفتے کا بیڈ ریسٹ تجویذ کیا تھا مجھے اپنا بچ جانا کسی معجزے سے کم نہیں لگ رھا تھا
خیر جو ہونا تھا وہ تو ہو گیا تھا مجھے افسوس تو اس بات کا تھا کہ مجھ سے وہ انگوٹھی بھی کھو گئی تھی اور شاید یہ سارا ڈرامہ بھی اسی لیے رچایا گیا تھا کہ مجھ سے انگوٹھی واپس لے لی جائے،
ایک دن ایفا مجھے باہر لے کے گئی اس دن موسم بھی اچھا تھا ہم دونوں بہت خوش تھے اچانک ایفا کو گھر سے فون اگیا اسے ارجنٹ بلایا گیا وہ جانا تو نہیں چاہتی تھی مگر میں نے زبردستی بھیج دیا اور اسے امید دلائی کہ میں گھر چلا جاؤں گا وہ مجھے اپنا خیال رکھنے کی تاکید کر کے چلی گئی میں کچھ دیر اکیلا ہی واک کرتا رہا پھر جب تھکاوٹ محسوس ہونے لگی تو قدم گھر کی جانب موڑ لیے جب اچانک پیچھے سے مجھے کسی نے پکارا میں نے مڑ کے دیکھا تو وہ اس دن والے بابا تھے میں رک گیا وہ دھیمے دھیمے قدم اٹھاتے میرے پاس ائے اور پھر مجھے اس حال میں دیکھ کہ حیران ہو گیے
کیا ہوا پتر تو ٹھیک تو ہے نا یہ سب کیسے ہوا، انہوں نے پریشانی سے میری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا
میں نے بھی بنا کچھ چھپائے ان کو ساری بات بتا دی وہ حیران پریشان سے مجھے دیکھتے رہے
پتر یہ تو واقعی بہت برا ہوا، میں نے تجھے اس دن بھی بتایا تھا ناکہ یہ حویلی بہت خطرناک ہے
بابا جی میں اس حویلی کے تمام رازوں سے پردہ اٹھانا چاہتا ہوں، میں نے کہا تو وہ حیرت سے مجے دیکھنے لگے پھر کچھ توقف کے بعد بولے، مگر بیٹا یہ سب اتنا اسان نہی ہے، انہوں نے میرے کاندھے پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
مگر ناممکن تو نہیں ہے نا، میں ہمت نہی ہارنا چاہتا تھا وہ کچھ دیر مجھے دیکھتے رہے
بیٹا اگر تم واقعی ایسا چاہتے ہو تو میں تمہاری مدد کر نے کے لیے تیار ہوں، انہوں نے کہا تو میں نے بے یقینی سے انہیں دیکھا
نہیں میں اپ کی جان خطرے میں کیسے ڈال سکتا ہوں وہاں کچھ بھی ہو سکتا، میں نے ان کو فورا منع کر دیا کیونکہ میں نہی چاہتا تھا کہ وہ میری وجہ سے کسی مصیبت میں پھنسیں،
ارے نہی پتر کچھ نہی ہوتا اور ویسے بھی میں نے پاؤں قبر میں لٹکائے ہیں اگر کچھ ہو بھی جائے گا تو خیر ہے موت تو آنی ہی آنی ہے ایسے آجائے گی، ان کی بات پر میں سوچ میں پڑ گیا اور پھر میں نے اثبات میں سر ہلا دیا آتے وقت انہوں نے اپنے کلائی سے ایک کالے رنگ کا دھاگا اتار کر میری کلائی میں باندھ دیا میں نے حیرانگی سے ان کی طرف دیکھا
پتر میرے دادا جی نے مجھے برسوں پہلے یہ دھاگا دیا تھا اور اسے کبھی بھی اتارنے کو نہیں کہا تھا اب تمہیں اس کی ضرورت ہے جب تک یہ دھاگا تمہاری کلائی پہ رہے گا کوئی باہر کی چیز یا بدروح وغیرہ تمہارا کچھ نہی بگاڑ سکتی اس دھاگے میں بہت طاقت ہے یہ تمہیں ہر مصیبت سے بچائے گا ،
انہوں نے مجھے سمجھایا تو میں نے سر اثبات میں ہلا دیا
سردیوں کی ٹھنڈی، یخ بستہ ھوائیں ھڈیوں میں اتر کر کپکپانے پر مجبور کر رھی تھیںحویلی کے پچھواڑے میں لگے درختوں کے پتے ھواؤں کے سنگ ادھر ادھر اڑ رھے تھے میں ایک کیاری کے پاس ھی دھوپ سینکنےبیٹھ گیا ھاتھ میں بندھے دھاگے کو دیکھتے میں سوچنے لگا کہ میرا اگلا قدم کیا ھونا چاھیْے اچانک کیٹی میرے سامنے سے گزرتی چلی گئیْ میں نے ایک نظر اسے دیکھا اور نگاھیں ھٹا لیں مگر اگلے پل مجھ پر کیٹی کے زخمی ھونے کا انکشاف ھوا میں چونک پڑا اسے کیا ھوا وہ لڑکھڑاتی ھوئیْ میرے سامنے سے گذرتی چلی گئی کیا بلی کے زخمی ھونے کا تعلق انگوٹھی کے خون میں گرنے سے ھے؟؟؟
اس عرصے میں میری دادا جی سے بھی کوئیْ تفصیلی بات نہ ھوئیْ تھی کچھ سوچ کر میں دادا جی کے پاس جانے ھی لگا تھا کہ وہ خود میرے پاس آ گئےْ پاس ھی رکھی ایک پرانی سی کرسی پر بیٹھتے ھوئےْ بولے "کیسے مزاج ھیں برخودار"
"بہت بہتر ھوں دادا جی آپ سنائیں آپ کی طبیعت کیسی ھے؟"
میں نے اپنے ھاتھ میں پہنا دھاگا چھپا لیا میری طبیعت کو کیا ھونا ھے؟ وہ چونک پڑے عمر کا تقاصا بھی تو ھے نہ میری بات پر وہ بے اختیار ہنس پڑے، مھجھے نجانے کیوں لگا کہ جیسے وہ کچھ چھپا رھے ھیں ان کا لہجہ انکی خرابیْ طبیعت کی چغلی کھا رھا تھا میں آئیْنہ کے بارے میں سوچنے لگا جو اتنے دنوں سے منظر سے غائب تھی تو کیا اسے بھی کوئیْ نقصان پہنچا ھے؟؟؟
کیا سوچنے لگے برخودار دادا جی نے میری انکھوں کے سامنے ہاتھ لہرایا تو میں چونکا اور نفی میں سر ہلا دیا
دادا جی یہ کیٹی کو کیا ہوا یہ ایسے کیوں چل رہی ہے، میں نے کیٹی کے بارے میں دادا جی سے سوال کیا، میں ان کے تاثرات دیکھنا چاہتا تھا مگر میری بات سن کے ان کے تاثرات بلکل نارمل تھے
ارے یہ تو مجھے بھی نہی پتا کہ اس کو کیا ہوا، مجھے اس کے بارے میں کرم داد نے بتایا تھا کہ یہ لنگڑا کے چل رہی ہے تو میں نے اسے دوائی لگائی ہے، ان کے چہرے پر ہلکی سی پریشانی کے سائے تھے جو شاید کیٹی کے زخم کو لے کر تھے
دادا جی ایک بات پوچھوں، میں نے اچانک ان سے سوال کیا
ہاں بیٹا پوچھو، ان کا دھیان ابھی بھی اس طرف تھا جہاں سے کچھ دیر پہلے کیٹی گئی تھی مگر ان کو شاید نہی پتا تھا کہ کیٹی اس طرف گئی ہے وہ ناجانے کیا کھوج رہے تھے ادھر
دادا جی یہ حویلی کے پچھواڑے جو قبریں ہیں وہ کس کی ہیں، میری بات سے دادا جی کے چہرے پر ایک تاریک سا سایہ اگیا وہ حیرانگی سے مجھے دیکھنے لگے
تم وہاں کیوں گئے تھے، وہ غصے سےمجھے دیکھنے لگے، سنو تم یہاں کام کے سلسلے میں ائے ہو تو اسی پر دھیان دو، حویلی کی کسی بات سے تمہارا کوئی مقصد نہیں، جاؤ جا کہ ارام کرو، وہ غصے سے کہتے ہوئے وہاں سے چلے گئے اور میں حیران پریشان سا بیٹھا رہا مجھے ان کا غصہ کرنا سمجھ نہیں آیا تھا
رات کو میں نماز پڑھنے مسجد جا رہا تھا، دادا جی بھی لاؤنج میں بیٹھے ہوئے تھے کیٹی ان سے کچھ فاصلے پر بیٹھی دودھ پی رہی تھی میں نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا اس نے بھی مجھے نظریں اٹھا کہ دیکھا اور پھر دوبارہ سے اپنے کام میں مصروف ہو گئی، دادا جی اس کی طرف دیکھ رہے تھے اور ان کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی مجھے حیرانگی ہوئی اذان ہو گئی تھی اور وہ ابھی تک بیٹھے ہوئے تھے ان کی عمر کے لوگ تو ذیادہ وقت عبادت میں گزارتے تھے مگر سچ تو یہ تھا کہ میں نے ان کو آج تک کبھی نماز پڑھتے تو دور کی بات تسبیح کرتے بھی نہی دیکھا تھا
دادا جی میں نے پکارا، تو وہ میری طرف دیکھنے لگے
دادا جی اذان ہو گئی ہے آپ نماز ادا کرنے جاتے ہیں، میری بات سن کر انہوں نے حیرانگی سے مجھے دیکھا ان کے چہرے پر عجیب سے تاثرات تھے
ارے بیٹا تم جا کے پڑھو او ہم گھر میں ہی پڑھ لیں گے انہوں نے نظریں چراتے ہوئے کہا
مگر دادا جی گھر میں نماز میں یہ بات سن کے کچھ حیران سا ہوا
وہ کیا ہے نا بیٹا کہ ہمارے گھٹنوں میں درد ہے تو ہم گھر پر ہی پڑھ لیں گے، انہوں نے کہا تو میں سر ہلاتا ہوا باہر نکل آیا، دادا جی کا اس طرح نماز سے پیچھا چھڑانا میری سمجھ سے بالاتر تھا میں سارے راستے ان کے بارے میں سوچتا آیا کہ آخر دادا جی نے نماز کے لیے مسجد جانے سے منع کیوں کیا اور اج سے پہلے بھی میں نے ان کو کبھی مسجد جاتے نہی دیکھا تھا واک کرنے کے لیے وہ کئی کئی میل دور چلے جاتے اور نماز کی دفعہ ان کے گھٹنوں میں درد یہ بات مجھے بہت عجیب سی لگ رہی تھی
جب میں نماز پڑھ کے واپس ایا تو وہ تب بھی لاونج میں بیٹھے ہوئے تھے اور کیٹی بھی ادھر ہی تھی دادا جی نے اتنی جلدی نماز پڑھ لی میں نے دل میں سوچا کیا پتا انہوں نے پڑھی ہی نا ہو اور ویسے بھی اتنی جلدی تو نماز پڑھی بھی نہی جاتی تو مطلب دادا جی نے نماز پڑھی ہی نہیں مگر کیوں نہیں پڑھی؟
میں روحا کے کمرے میں اس کا حال پوچھنے گیا وہ بستر پر لیٹی کوئی کتاب پڑھنے میں مصروف تھی میں نے بنا دستک دیئے اندر جانا مناسب نا سمجا اور دروازے کو ہلکا سا کھٹکھٹایا وہ بدک کر اٹھ بیٹھی اور پھر مجھے دیکھ کر اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آگئی اس نے مجھے اندر آنے کا اشارہ کیا میں اندر داخل ہو گیا مگر پھر ٹھٹک گیا روحا انتہائی عجیب و غریب حلیے میں تھی اس نےریشمی نائٹی پہنی ہوئی تھی جس میں سے اس کا بدن صاف نظر آرہا تھا میں نے فورا چہرہ دوسری طرف پھیر لیا جسکا روحا نے فوراً اندازہ لگا لیا اس نے ایک نظر اپنے حلیے پہ ڈالی اور پھر ہلکی سی مسکراہٹ لیے میری طرف بڑھی
کیا ہوا ریان وہ جان بوجھ کے میرے سامنے آگئی
روحا میں چلتا ہوں مجھے لگتا میں غلط وقت پر آگیا ہوں صبح ملیں گے، میں کہتے ساتھ ہی جانے لگا مگر پھر رکنا پڑا کیونکہ میری کلائی روحا کے ہاتھ میں تھی مگر پھر اچانک وہ بدک کر پیچھے ہٹی جیسے اسے کوئی کرنٹ لگا ہو مجھے اس کے اسطرح پیچھے ہٹنے پر از حد حیرانگی ہوئی
کیا ہے تمہارے پاس وہ چیخی اس کی انکھوں میں شعلے تھے جن میں مجضے لگا میں جل کر بھسم ہو جاؤں گا
میں جان گیا تھا کہ یہ بابا جی کے دیئے دھاگے کا اثر ہے. وہ جانے کیا چاہتی تھی لیکن میں نے فوراً اس کے کمرے سے جانا مناسب سمجھا, وہ زندہ نہیں تھی یہ بات میں جانتا تھا لیکن اگر کوئی اور مجھے اسکے کمرے میں یوں دیکھ لیتا تو یہ میرے لئے بہتر نہ ہوتا.
اس کے کمرے سے میں نکلا تو تیزی سے لان میں آ کر بیٹھ گیا . اسکے تاثرات یقیناً خوفزدہ کرنے والے تھے لیکن میں خوفزدہ ہونے کی بجائے تسلی سے بیٹھ کر سوچنا چاہتا تھا کہ روحا اور آئینہ کا کیا تعلق ہے, کیا وہ آپس میں اب بھی دوست ہیں اور اس منحوس صورت بڑھیا کے زیر اثر ہیں ؟
میں اپنی سوچوں میں گم تھا کہ اچانک سامنے ایفا آگئ. اور مجھ سے کافی فاصلے پر رکھی کرسی پر بیٹھ گئی.
" ہیلو ریان, کیسے ہو ؟ کہاں گم ہو ؟ طبعیت بہتر ہے اب ؟ "
اس نے عادت کے خلاف اوپر تلے سوال کئے.
" اللہ کا شکر ہے, تم سناؤ ؟"
میرے جواب پر اسکا رنگ متغیر ہو گیا تھا.
" ہاں, ٹھیک ہوں, دادی تمہارا پوچھ رہی تھیں, یہ تمہارے ہاتھ میں کیا ہے ؟ دکھانا "
خود کو سنبھال کر اس نے بات شروع کی تو اچانک اسکی نظر میری کلائی پر بندھے دھاگے پر پڑی, اگر ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی روحا والا واقعہ نہ ہوا ہوتا تو میں اس کے جھانسے میں آ جاتا, لیکن اب میں جان گیا کہ یہ آئینہ, ایفا کے روپ میں مجھ سے پڑھا ہوا دھاگہ حاصل کرنے آئی ہے. اللہ کے کلام میں بہت برکت ہے, تب ہی میرے اللہ کا شکر کہنے پر بھی اسکی حالت غیر تھی.
" آئینہ ڈئیر, آؤ اور اتار لو, میں نے ہاتھ اس کے قریب کیا اور ایک. طویل چیخ کے ساتھ وہ غائب ہو گئی.
میں و ہیں بیٹھا سوچتا رہا, اس حویلی میں ایک نہیں کئ آسیب تھے, ایک تو وہ طاقتیں تھیں جو حویلی کے پچھواڑے مجھے ملیں تھیں, اللہ جانے وہ جنات کے قبائل تھے یا کیا, لیکن وہ بہت زیادہ اور بہت روپ بدل کر ڈرانے والے تھے, ان پر آگ کا خوف تھا, تب سے ہی میں نے اپنے پاس لائٹر رکھنا شروع کر دیا تھا.
بابا نے بھی بتایا تھا کہ ان کو قبضے میں لے کر اپنی طاقت بڑھانے کی خواہش بہت لوگوں کی تھی.
لیکن وہ جادوگرنی بڑھیا اور روحا, آئینہ آگ سے نہیں ڈرتے تھے, ان سے بچنے کے لئے میں قرآنی آیات کا ورد کرتا جو اگر مارے خوف کے یاد نہ آتیں تو یہ مجھے نقصان پہنچا دیتیں یا ایفا ان کے مقابلے ميں اپنی مثبت طاقتوں کے ساتھ میری مدد کرتی.
بہرحال جوبھی تھا اب ان سب کے مقابلے میں میرے پاس دو ہتھیار آگئے تھے. اب میں آگے بڑھنے اور انگوٹھی اور کتاب کا راز معلوم کرنے کی کوشش کر سکتا تھا.
اگلے دن میں نے آفس کے فون سے اماں کا نمبر ملایا ۔ جب سے چچا سلطان کا نمبر کیٹی کے عتاب کا نشانہ بنا تھا تب سے نجانے کیا مسئلہ تھا اماں سے رابطہ ہی نہیں ہو پا رہا تھا ۔ بیل مسلسل جا رہی تھی اور میں دل کی گہرائیوں سے دعا مانگ رہا تھا کہ اماں کال پک کر لیں ۔
"ہیلو !" اماں کی نحیف سی آواز میری سماعتوں سے ٹکرائ تو میرے رگ و پے میں خوشی کی لہر دوڑ گئ
اور یقیناً یہ بھی دہشت ناک حویلی اور وہاں کے باسیوں کی مہربانی تھی جو میں اپنی ماں سے بات کرنے کے لئے بھی ترستا رہا تھا ۔
مجھ سے رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے اماں بے حد پریشان تھی ۔ میں نے کچھ دیر اماں سے بات کر کے انہیں تسلیاں دی اور پھر چچا سلطان کا نمبر مانگ کر ریسور کریڈل پر ڈال دیا ۔
اب میں بے صبری سے موبائل اسکرین کو گھور رہا تھا ۔ اماں نے کہا تھا وہ کسی کو بول کر نمبر بھیجوا دے گی ۔ آج میں حویلی جانے سے پہلے ہی چچا سلطان سے بات کر لینا چاہتا تھا ۔ ان سے بات کرنے کے بعد دادا جی کی پر اسرار شخصیت کے بارے میں شاید کوئ کلیو مل جاتا ۔
پتا نہیں اماں کو نمبر بھیجنے میں اتنی تاخیر کیوں ہو رہی تھی ۔
ابھی میں یہ ہی سوچ رہا تھا ۔ جب پیون دروازہ ناک کر کے اندر آیا اسکا ہاتھ میں ایک بڑا سا پیکٹ تھا ۔
"سر یہ آپکے لئے آیا ہے ۔ "
"میرے لئے ؟۔ کس نے بھیجا ہے"۔ میں نے اچنبھے پیکٹ کو دیکھتے ہوئے استفسار کیا ۔
"میں نہیں جانتا سر یہ ڈاکیا دے کر گیا ہے ۔" پیون نے پیکٹ میرے میز پہ رکھتے ہوئے کہا ۔
اس کے جانے کے بعد میں نے اس پیکٹ کو الٹ پلٹ کر دیکھا ۔ نام اور ایڈریس تو میرا ہی تھا لیکن بھیجنے والا کا نام نظر نہیں آرہا تھا ۔ میں نے تجسس کے ہاتھوں مجبور اسے کھول کر دیکھا تو اندر خوبصورت پیکنگ میں ایک گڑیا تھی ۔ مجھے حیرت کا شدید جھٹکا لگا تھا ۔ بھلا مجھے ایسا تحفہ کون بھیج سکتا تھا۔
اچانک موبائل کی میسج ٹون بجی تو میں قدرے چونک گیا ۔ شاید اماں نے نمبر بھیج دیا تھا ۔ میں نے گڑیا کو میز پہ رکھتے ہوئے موبائل ہاتھ میں لیا ۔ میرا اندازہ صحیح تھا اسکرین پہ سلطان چچا کا نمبر جگمگا رہا تھا ۔ میں نے فوراً نمبر کو موبائل میں سیو کیا ۔ اب میں کوئ رسک نہیں لینا چاہتا تھا ۔ سلطان چچا کا نمبر ملا کر میں کان سے لگانے لگا تو میری مظر گڑیا پہ پڑی ۔ ایسا محسوس ہوا تھا جیسے گڑیا میں حرکت ہوئ ہے میں موبائل کان سے ہٹا کر گڑیا کو غور سے دیکھنے لگا ۔ لیکن اب وہ بلکل ساکت تھی۔ میں نے سر جھٹکتے ہوئے دوبارہ موبائل کان سے لگایا تو گڑیا میں پھر حرکت ہوئ اور وہ ایک فٹ کی گڑیا پیروں پہ کھڑی ہو گئ یہ یقیناً میرا وہم نہیں تھا وہ پلاسٹک کی گڑیا حرکت کر رہی تھی ۔ میں خوفزدہ ہوگیا تھا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس گڑیا کی ہیئیت ایک نہایت قبیح صورت میں بدل گئ ۔ اسکے چہرے پہ ایک زہر آلود مسکراہٹ رینگ رہی تھی ۔ اور وہ دونوں ہاتھ بڑھائے اوپر اٹھتے ہوئے میری طرف آنے لگی ۔ خوف سے میرے پسینے چھوٹ رہے تھے۔ میں وہاں سے بھاگنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن میں حرکت نہیں کر پارہا تھا ۔ گڑیا نے مجھے گرفت میں لے لیا تھا وہ مجھ سے بری طرح چمٹی ہوئ تھی اور دونوں ہاتھوں سے میری گردن دبا رہی تھی ۔میں نے بلاختیار اپنی کلائیوں کو دیکھا بابا جی کا دیا کالا دھاگہ غائب تھا میں شاید صبح عجلت میں باتھ روم میں ہی بھول گیا تھا ۔ گڑیا کے خوفناک لمبے ناخن میری گردن میں کھب رہے تھے۔ میں بے بسی کی عالم میں خود کو چھڑانے کی کوشش کر رہا تھا ۔ لیکن چھڑا نہیں پا رہا تھا ۔ اور اسی اثناء میں میرے ہاتھ میز پہ پڑے گلاس سے ٹکرایا تھا اور وہ نیچے گر کر پاش پاش ہو گیا تھا اور جبھی عملے کے کچھ لوگ شور سن کر آفس میں آگئے تھے ۔
سر کیا ہوا ؟ آر یو فائن ۔۔ ؟؟ وہ لوگ پریشانی سے مجھے دیکھنے لگے تھے۔
ان کی آواز سے میرے حواس کچھ بحال ہوئے تو میں نے فوراً اپنے ہاتھوں کو گردن سے ہٹایا اور ارد گرد دیکھا ۔گڑیا ویسے ہی میز پہ پڑی ہوئ ہئ تھی۔ میں نے ایک قہر بھری نظر اس پہ ڈالی اور اسے زمین پر پھینک کر بے دردی سے روندا ۔ اسکی پوری شکل بگڑ گئ تھی ۔لیکن تب بھی میرا اشتعال کم نہیں ہوا تھا ۔ مجھے لگا کہ وہ اب بھی مجھ پر ہنس رہی ہے میں نے اسے اٹھا ونڈو سے دور پھینک دیا ۔ سب لوگ مجھے حیرت سے دیکھ رہے تھے تبھی پیون پانی لے کر آگیا میں نے فوراً غٹاغٹ پانی چھڑایا تو جیسے اندر کچھ سکون پہنچا تھا ۔ پانی پی کر میں ںسب کو ورطئہ حیرت میں چھوڑ کر موبائل اور بیگ اٹھاتے ہوئے وہاں سے چل دیا تھا ۔
میں نے گاڑی کا رخ دریا کی طرف کر لیا تھا ۔ دریا کنارے پہنچ کر میں خود کو کچھ پر سکون کرنا چاہتا تھا ۔ آج میرے ساتھ بہت ہی عجیب اور عقل کو دنگ کرنے والا واقعہ رونما ہوا تھا ۔ دریا کے بہتے پانی پر سوچ نظریں جمائے میں نے موبائل نکالا تھا اور سلطان چچا کا نمبر ملا کر موبائل کان سے لگایا تھا ۔ بیل جا رہی تھی میں گہری سانس لیتے ہوئے کال رسیو ہونے کا انتظار کرنے لگا تھا ۔
" Hello! sultan speaking, who is calling?
(ہیلو سلطان بات کر رہا ہوں کون بات کر رہا ہے)
Hello! Sultan chacha, I 'm Reyan ul Haq
(ہیلو سلطان چچا میں ریان الحق بات کر رہا ہوں)
" کون ریان الحق ؟ "
میں نے اپنی والدہ کا نام لیا
" اچھا آپا کے بیٹے ہو تم کیسے ہو کیا حال چال ہے ؟ "
" میں ٹھیک آپ سنائیں "
ادھر ادھر کی باتوں کے بعد میں اصل مدعا پر آ گیا
کافی عرصہ ہو چکا آپ نے کبھی حویلی کا چکر نہیں لگایا "
" بس مصروفیت کی وجہ سے مکن نہیں ہوا تم سناؤ سب خیریت ہے نا "
" جی بس اللّٰہ کا شکر ہے آج کل حویلی میں قیام ہے ادھر جاب کی وجہ سے ہوں "
" اوہ یہ تو بہت اچھی بات ہے ابا جان کیسے ہیں ؟ "
ان کی بات پر میں چونک گیا وہ دادا جان کا پوچھ رہے تھے اسکا مطلب ہے وہ دادا جان کے متعلق کچھ نہیں جانتے "
" جی ٹھیک ہیں وہ بلکہ انہوں نے مجھے اپنے ساتھ قیام کرنے کیلئے روکا ہوا ہے یہاں"
" ہممم یہ تو اچھی بات ہے وہ تنہائی نہیں محسوس کرتے ہونگے پھر ویسے بھی ان کے دوست علیم الدین ان سے ملنے آتے رہتے ہیں کافی دوستی ہے ان دونوں میں ایک ساتھ شطرنج کھلتے ہیں کمپنی ملی رہتی ہے ابا جان کو "
so i 'm not much worried about him
( اسی لیے میں ان سے متعلق زیادہ پریشان نہیں ہوں )
سلطان چچا کی اس بات نے مجھے چونکنے پر مجبور کر دیا وہ دادا جان کے کس دوست کی بات کر رہے تھے میں نے اپنے قیام کے دوران کبھی کسی دوست کو بھی حویلی آتے یا دادا جی کو کہیں جاتے نہیں دیکھا تھا کجا کہ شطرنج کھیلنا
" سلطان چچا میں نے کبھی علیم الدین کو نہیں دیکھا "
" اچھا یہ تو حیرت کی بات ہے ورنہ شام ہوئی نہیں اور علیم الدین صاحب حویلی پہنچے نہیں شطرنج کی باری پہ باری لگتی تھی مگر ان دونوں دوستوں کا دل ہی نہیں بھرتا تھا "
" آپ نے بھی تو کبھی موڑ کر خبر نہیں لی کہ حویلی کیسی ہے دادا جان کیسے ہیں "
" بس مصروفیت ہی کچھ ایسی رہی یہاں کی زندگی ہی بہت فاسٹ اور مشینی ہے اور جھیملے ہی زندگی کہ اتنے تھے ایک دفعہ گاؤں کے کسی جاننے والے نے بہت سال پہلے حویلی میں آگ لگنے کی خبر دی تھی جس پر میں نے پریشان ہو کر ابا جان کو فون کیا تھا مگر وہاں سے کسی نے فون اٹھایا ہی نہیں مجھے تشویش بھی تھی لیکن پھر میں ادھر کچھ بیمار رہا تو دوبارہ فون نا کر سکا پھر جاب کے مسائل اور بات آئی گئی ہو کر میرے ذہن سے نکل گئی "
آگ کا ذکر ان کے بھی منہ سے سن کر میں چونکا
" اب تو تم آ گئے تو ریان بیٹا بابا جان کا خوب خیال رکھنا اور مجھے خیریت کی اطلاع بھی دیتے رہنا "
میں الجھے ذہن کے ساتھ ان کی بات کا جواب ہوں ہاں میں دیتا رہا پھر خدا حافظ بول کر فون رکھ دیا
میں نے تو الجھن دور کرنے اور دادا جان کے متعلق جاننے کیلئے سلطان چچا کو فون کیا تھا
مگر ان سے بات کر کے میرا ذہن مزید الجھ گیا تھا یہ علیم الدین کون تھے اور چکر کیا تھا اس کے متعلق تو دادا جان ہی بتا سکتے تھے یہ سب جاننے کیلئے مجھے حویلی پہچنے کی جلدی تھی جب میں ادھر پہنچا تو دادا جان لان میں بیٹھے شام کی چائے پی رہے تھے اور حسب معمول کیٹی ان کے پاؤں میں بیٹھی تھی مجھے دیکھ کر وہ تھوڑی غرائی پھر چپ ہو کر بیٹھ گئی
" آؤ _ آؤ _ برخوردار اچھے وقت پر آئے ہو شام کی چائے پیو___"
یہ کہہ کر دادا نے میرے لیے چائے نکالی اور سامنے ٹیبل پر رکھ دی ادھر ادھر کی باتوں کے بعد میں نے ان سے وہ سوال پوچھ ہی لیا جو میں کب سے ان سے پوچھا چاہا رہا تھا
"دادا جی یہ علیم الدین صاحب کون ہیں اور اب حویلی کیوں نہیں آتے ؟"
میں جو دادا جی کی طرف ہی دیکھ رہا تھا مجھے ایسا لگا علیم الدین کا نام سن کر ان کے چہرے پر ایک رنگ آ کر گزر گیا ہو انہوں نے چائے کا کپ ٹیبل پر رکھا اور بولے
" میں نے کرم دین کو اپنی دوائیاں لانے کیلئے کہا تھا ذرا دیکھ کر آتا ہوں ابھی تک لایا ہے یا نہیں ؟
یہ کہہ کر وہ چیئر سے اٹھ کر اندر چلے گئے اور میں ان کے اس ردعمل سے حیران پریشان بیٹھا خود کلامی میں سوچ رہا تھا کہ اس کا مطلب ہے دادا جان علیم الدین کے بارے میں یا تو بات کرنا نہیں چاہتے یا کچھ بھی بتانا جبھی وہ کترا کر اٹھ کر چلے گئے ہیں خیر کہیں نا کہیں سے علیم الدین کے متعلق جان کر ہی چین سے بیٹھوں گا "
میں نے پختا ارادہ کیا
********
دادا جی کا اس طرح اٹھ کر جانا انھیں مشکوک بنا گیا تھا -ان کے اٹھ کے جانے کے بعد میں نے بلی کی طرف دیکھا وہ عجیب نگاھوں سے مجھے گھور رھی تھی میں چہل قدمی کے لیےْ حویلی سے باہر آ گیا- ٹھنڈی ھوا کے سنگ چلتا ھوا میں ماحول میں کھو سا گیا دھیمی دھیمی ھوا بھت بھلی لگ رھی تھی اچانک میں چونک پڑا سامنے ایک بہت دلکش لڑکی کھڑی، میری طرف مسکرا کر دیکھ رھی تھی، میں اس کی مسکراہٹ میں ڈوبتا چلا گیا دفعتا مجھے یوں لگا کہ جیسے ھوا میں تیزی آ گئیْ ھو، آھستہ آھستہ وہ اتنی تیز ھو گئیْ کہ مجھے زمین سے اپنے قدم اکھڑتے ھوئےْ محسوس ھوئےْ اس لڑکی کے کھلے بال ھوا میں اڑنا شروع ھو گئےْ ھوا میں سرسراھٹ محسوس ھوتے ھی مجھے یوں لگا ک جیسے بھت ساری روحیں مل کر رو رھی ھوں اس لڑکی کے قدم زمین سے اوپر اٹھے اور ھوا میں تیرتی ھوئیْ میری طرف بڑھن لگی،
ھوا سے زرد پتے بھی ادھر ادھر اڑتے ھوئےْ شور مچانے لگےوہ بلکل میرے قریب آ گئی۔ اس سے پہلے کی وہ مجھے نقصان پہنچاتی، میں اس کی پہنچ سے دور ہو گیا مگر مجھے یہ دیکھ کر حیرت کا جھٹکا لگا کہ میرے پیچھے بھی ایسی ھی ایک لڑکی تھی میں نے چاروں طرف نگاہیں دوڑائیں اور میں چکرا کر رہ گیا لمبے لمبے سفید لباسوں میں، ایسی بہت سی روحیں میری طرف اڑتی چلی آ رھی تھیں
Post a Comment (0)
Previous Post Next Post