Khamoshi episode 11 - ushna kausar sardar

Khamoshi episode 11 - ushna kausar sardar

 


قسط نمبر 11
از قلم: عشنا کوثر سردار اینڈ ٹیم
میں بہت کچھ جاننے گیا تھا مگر دادی اماں بزی تھیں سو میں بنا کچھ کہے یا پوچھے واپس لوٹ آیا تھا۔
ایفا حمزہ نے میرا ہاتھ تھام کر مجھے اس بھیانک چہروں کے شکنجے سے بہت آرام سے نکال لیا تھا۔ پچھلی بار جب گیا تھا تو دادی اماں نے بتایا تھا وہ مثبت طاقتوں کس منبع تھی اور بچپن سے آئینہ منفی طاقتوں کے زیر تھی۔ دادی نے یہ بھی بتایا تھا کہ ایفا نے کبھی اپنی ان طاقتوں کا استعمال نہیں کیا تھا مگر آئینہ دوستوں کے ساتھ شرارتوں میں اکثر ان منفی طاقتوں کا استعمال کرتی رہی تھی۔ دادی نے کہا تھا کہ ایفا صرف تب ان مثبت طاقتوں کا استعمال کرے گی جب کوئی اس کا بہت پیارا کسی مصیبت میں ہوگا۔
ایفا نے اگر آج مجھے مدد کی تھی کہ تھی تو کیا میں ایفا کے دل کے کہیں پاس تھا؟ یا وہ مجھ سے پہلے مل چکی تھی؟ یا ملتی رہی تھی؟ کیونکہ کئ بار مجھے آئینہ حمزہ نے بچایا تھا، میری مدد کی تھی تو کیا وہ ایفا حمزہ تھی؟ مگر اس نے کبھی نہیں کہا تھا کہ وہ ایفا حمزہ ہے، میں صرف ایک لڑکی سے ملا تھا، صرف ایک لڑکی کو جانا تھا جو کہ آئینہ حمزہ تھی۔ مجھ سے محبت آئینہ حمزہ کرتی تھی یا ایفا حمزہ؟ میں نہیں جانتا تھا۔ مگر میرا دل اس لڑکی کی طرف بے اختیار جیسے کھینچتا تھا، جیسے میرا اس سے کوئ گہرہ ربط تھا یا کوئ دل سے جڑا رشتہ تھا۔ تو کیا میں آئینہ حمزہ سے محبت کرنے لگا تھا؟ اسی باعث وہ بھی میرے آس پاس رہتی تھی اور مصیبت کے وقت مجھے مدد کرتی تھی؟ تو کیا جس نے ابھی کچھ دیر پہلے مجھے بچایا تھا وہ آئینہ تھی؟
تو کیا میں واقعی کسی ایسی لڑکی سے محبت میں مبتلا ہو چکا تھا جو اس دنیا میں تھی ہی نہیں؟
مجھے اندازہ نہیں ہوا تھا میں سوچوں میں اس قدر غلطاں تھا کہ میں وہیں گاڑی روک کر حویلی کے باہر ہی رک گیا تھا۔ اور بارش ہونے لگی تھی۔ میں بھیگنے لگا تھا۔ جب سامنے نگاہ گئ تھی۔ وہاں آئینہ کھڑی دکھائ دی تھی۔ میری طرف خاموشی سے تکتی۔ میں کچھ لمحوں تک خاموشی سے اس کی طرف دیکھتا رہا تھا پھر میں نے اس کے طرف قدم بڑھائے تھے اور اس کے مقابل رک گیا تھا۔
وہ تب بھی اسی خاموشی سے میری طرف دیکھتی رہی تھی۔ میں نے اس کی طرف بغور دیکھتے ہوئے اس کا ہاتھ تھاما تھا۔ وہ تب بھی کچھ نہیں بولی تھی۔ اور میرا دل عجیب طرح سے اس کی طرف کھینچنے لگا تھا۔ میرے اندر اضطرابی بڑھنے لگی تھی جب میں نے اس خاموشی کو توڑا تھا۔
"میں نہیں جانتا تم کون ہو مگر مجھے تم سے ایک خاص ربط جڑا نظر آتا ہے، میں نہیں جانتا تم زندہ ہو کہ نہیں، میں یہ بھی نہیں جانتا اگر محبت صرف زندہ لوگوں سے ہوتی ہے اور مرے ہوئے لوگوں سے نہیں مگر اگر یہ محبت ہے تو بہت عجیب ہے اور بے چین کرتی ہے ہر سو اضطرابی میں چلتی ہوئ ہر سمت پھیل گئ ہے تو مجھے اس کا سبب بھی نہیں معلوم، اور اگر تم ابھی کسی بات پر برہم ہو کر مجھے سپر مین بنا کر فضاؤں میں اڑا دو گی یا زمین سے تیس فٹ اوپر ہوا میں معلق کردو گی تو مجھے تب بھی تم سے یہ بے چینی والی محبت باقی رہے گی یا میرے اندر سے تم محبت کھرچ کر نکال دو گی؟ میں نہیں جانتا مگر ۔۔۔ میں چاہتا ہوں تم مجھے اس ربط اور خاموشی کے معنی بتا دو۔ میرے لئے یہ الجھنوں کا باعث ہے۔ تم اگر کوئ بری طاقت ہو، مر چکی ہو تو مجھے مار کیوں نہیں دیتیں؟ ہر بار مصیبت سے نکال کر بچا کیوں لیتی ہو؟ صرف اس لئے کہ تمہیں مجھ سے محبت ہے؟ مگر یہ کیسی محبت ہے آئینہ حمزہ؟ کیا کریں گے ہم اس محبت کا؟ اگر تم نقصان پہچانا چاہتی ہو تو اپنا کام پورا کرو اور واپس لوٹ جاؤ، میں تمہاری روح کو پرسکون دیکھنا چاہتا ہوں۔ " میں اس کی سمت تکتا ہوا بولا تھا۔ اس کا چہرہ ویسا ہی دلکش اور بے ریا تھا۔ وہ آنکھیں اتنی ہی شفاف تھیں کہ اس کا دل ان آنکھوں سے جھانک رہا تھا۔ اس کی آنکھیں آئینے جیسی شفاف تھیں۔ ہم دونوں برستی تیز بارش میں بھیگ چکے تھے وہ خاموش کھڑی تھی اور میں بھی۔ میں نے اس کے صبیح چہرے کو برستی بارش میں بھیگتے ہوئے دیکھا تھا اور ہاتھ بڑھا کر اس تازگی کو اپنے ہاتھوں پر محسوس کیا تھا اور دھیمے لہجے میں بولا تھا۔
"آئینہ میں تمہیں پرسکون دیکھنا چاہتا ہوں، تم نے کہا تھا تم مجھ سے محبت کرتی ہو! مجھے اچھا لگا تھا! تمہارا پاس آنا، ہر بار مجھے مصیبت سے نکالنا، میری مدد کرنا! مجھے اچھا لگتا ہے اور تب میں اپنے دل کو تمہارے دل کے قریب محسوس کرتا ہوں، مجھے خبر نہیں تمہارا دل دھڑکتا ہے کہ نہیں یا میرے دل کی کوئ آواز سنتا ہے کہ نہیں مگر مجھے تمہارا احساس اچھا لگتا ہے، کسی کی Existence اور ہونے کا احساس معنی رکھتا ہے چاہے تم زندہ ہو یا نہیں۔" میں نے اس کی خاموشی میں اس کی محبت کو اپنے اردگرد محسوس کیا تھا۔ اس نے میری سمت تکتے ہوئے اپنا ہاتھ میری گرفت سے نکالا تھا، اس کی آنکھوں میں ایک بے قراری واضح دکھائ دی تھی۔ اور شاید محبت بھی۔ میری سمت اسی طور دیکھتی وہ پلٹی تھی اور وہاں سے نکلتی چلی گئی تھی۔ تیز بارش کی باعث دور تک دھند پھیلی ہوئ تھی اور راستہ دکھائ نہیں دے رہا تھا، جانے وہ کس سمت گئ تھی مگر اب وہ مجھے دکھائ نہیں دے رہی تھی۔ میرے ارد گرد عجیب سا احساس پھیلا تھا۔ یہ محبت کے ہونے کا احساس تھا یا آئینہ حمزہ کے وہاں سے چلے جانے کس احساس!
میں سمجھ نہیں پایا تھا مگر میں اور الجھ گیا تھا۔
میں کچھ دیر وہاں مزید بارش میں بھیگتا رہا اور پھر قدم حویلی کی جانب موڑ لیے مجھے نہیں پتہ تھا کہ آئینہ حمزہ چپ کیوں تھی محبت کی شاہراہ پر وہ خود میرا ہاتھ تھام کے لے جانے کے بعد مزید چلنے سے کیوں انکاری تھی وہ مجھے اپنی طرف راغب کرنا چاہتی تھی اور اب اگر میں ہو رہا تھا تو وہ یہ لاتعلقی کیوں برت رہی تھی میں محبت کومحسوس کرنا چاہتا تھااس کے سنگ مگر وہ مجھے اپنے پاس نہیں آنے دے رہی تھی بس دور کھڑی مجھے تڑپا رہی تھی۔۔۔مجھے نہی پتہ تھا آئینہ حمزہ زندہ یا مردہ وہ اچھی طاقتوں کی مالک ہے یا بری طاقتوں کی میرا دل بس اس کا طلب گار تھا
جو فیلنگز میں آئینہ کے لیے رکھتا تھا وہ ایفا کے لیے نہی تھی میں اس بات کو بھی نظرانداز کر چکا تھا کہ آئینہ ہمیشہ مجھے نقصان پہنچاتی ہے جبکہ ایفا میری ہیلپ کرتی ہے ۔۔۔۔میں سوچوں میں مگن لاونج میں داخل ہوا دادا جی سامنے صوفے پر بیٹھے اخبار کی ورق گردانی میں مگن تھے کیٹی ان کے قدموں میں سو رہی تھی جبکہ کچھ فاصلے پر قالین پہ بیٹھا کرم دین سبزی بنا رہا تھا۔۔دروازہ بند ہونے کی آواز پر دونوں نے مجھے دیکھا میں سرسے پاوں تک مکمل بھیگا ہوا تھا میرے ہونٹ مسلسل بارش میں بھیگنے کے باعث نیلے یو رہے تھے جسم بھی ہلکے ہلکے کانپ رہا تھااوائل سردیوں کے دن تھے، میں دھیمے دھیمے کسی ہارے ہوئے جواری کی طرح چلتا صوفے پر ان بیٹھا دادا جی نے چشمے کے اوپر سے مجھے دیکھا۔۔۔
۔کیا ہوا برخودا نہا کر آرہے ہو کیا بارش میں انہوں نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا
دادا جی میں چینج کر کے آتا ہوں گیلے کپڑوں میں سردی محسوس ہو رہی ہے
کہتے ساتھ ہی میں چلا آیا۔۔ان کے سوال کو میں نے مکمل نظرانداز کر دیا
میں کمرے میں آیا تو کیٹی میرے بستر پر بیٹھی مجھے گھور رہی تھی اب تو میں اس بلی کی ایسی حرکتوں کا اتنا عادی ہو گیا تھا کہ اسے نظر انداز کرتا اپنی الماری سے کپڑے نکالنے لگا تاکہ جلدی سے کپڑے بدل سکوں کیونکہ بارش میں کافی دیر بھیگنے کے باعث فلو کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے تھے میں نہیں چاہتا تھا کہ اس ذہنی پراگندگی میں میں بیمار پڑ جاؤں اور اس حویلی کا جو راز جلد از جلدی کھوج نکالنا چاہتا تھا وہ کسی تاخیر کا شکار ہو میں جلد از جلد یہ کام مکمل کر کے اس حویلی سے اور اس کے بھیانک اثرات سے دور چلا جانا چاہتا تھا
ابھی میں کپڑے نکال ہی رہا تھا کہ مجھے پیچھے کچھ آہٹ سی محسوس ہوئی جب پیچھے موڑ کر دیکھا تو کیٹی غائب تھی ___ میں سر جھٹک کر واپس موڑ جانا چاہتا تھا کہ ایک چیز نے میری توجہ اپنی جانب کھینچ لی اور جسے دیکھ کر میں حیران کے ساتھ پریشان بھی تھا
ابھی کیٹی کچھ دیر پہلے جہاں بستر پر بیٹھی تھی وہاں وہی آنگوٹھی پڑی تھی جو کچھ عرصے پہلے آئینہ کے پاس دیکھی تھی میں آگے بڑھ آیا اور اس آنگوٹھی کو اٹھا کر غور سے دیکھنے لگا الٹ پلٹ کر اس کا جائزہ لیا بہت عجیب اور مختلف ساخت کی انگوٹھی تھی یہ اس پر باریک لفظوں سے وسط میں کچھ لکھا ہوا تھا عجیب سی زبان تھی کچھ سائنز بھی بنے ہوئے سائڈوں پر عجیب وغریب نقشوں ونگار بھی تھے میں نے احتیاط سے وہ انگوٹھی اپنی جینز کی اندورنی پاکٹ میں رکھ لی کیونکہ میں اب اسے سلطان چچا کے فون نمبر کی طرح کھونا نہیں چاہتا تھا شاید یہ انگوٹھی مجھے اس راز کو منکشف کرنے میں مدد دے جو اب میرا واحد مقصد بن کر رہا گیا تھا
چینج کرنے کے بعد میں باہر دادا جی کے پاس آ کر بیٹھ گیا--- کرم دین بھاپ اڑاتا کافی کا مگ لے آیا
”ریان بیٹا مجھے شام میں اپنے دوست کے ھاں جانا ھے وہ آج کل بیمار ھے اور مجھ سے ملنا چاہتا ھے“ دادا جی کے ان الفاظ نے مجھے چونکا دیا
اوہ سب خیریت ھے نا دادا جی وہ زیادہ بیمار تو نھیں ھیں؟ میں نے کافی کا مگ سامنے میز پر رکھ دیا ارے نھیں، زیادہ پریشان ھونے والی بات نھیں ھے--موسمی تبدیلی کی وجہ سے کھانسی، اور فلو نے ان کو گھیر لیا ھے اب مجھے شام کا انتظار تھا دادا جی، کیٹی کو یہاں میرے پاس چھوڑتے جایئے گا، کہیں پیاری سی کیٹی کو بھی ٹھنڈ نہ لگ جاے میں نے میٹھی نگاھوں سے اسے دیکھتے ھوئے کہا تو وہ میاؤں کی آواز نکال کر میرے پاس آ بیٹھی میں نے اسے پیار کیا
نھیں بیٹا یہ میرے ساتھ جائے گی دادا جی نے کہا تو میں نے اطمینان محسوس کیا میرا مقصد پورا ھو چکا تھا میں تھوڑی دیر کے لیے کیٹی سے بھی چھٹکارہ چاہتا تھا شام میں دادا جی اور کیٹی کے جانے کے بعد میں دادا جی کے کمرے میں گیا اور ساییڈ ٹیبل پر رکھی کتابوں کو دیکھنے لگا جلد ھی مجھے اپنی مطلوبہ کتاب مل گئی اوراق پلٹ کر دیکھنے کے بعد ایک صفحے پر آ کر میرے ھاتھ رک گے میں گہری سانس لیتے ھوئے یکدم سیدھا ھو گیا میرا شک یقین میں بدل چکا تھا انگوٹھی اور کتاب پر بنے نقش و نگار ایک جیسے تھے میں نے اپنے پیچھے آہٹ سن کرپلٹا کھایا اور خوف سے میری گھگھی بند ھو گی دو چہرے مگر بدن ایک، مجھے لگا ایک چہرہ دادا جی کا ھے تو دوسرا آئینہ کا کتاب میرے ھاتھ سے گر چکی تھی اور اس کے ساتھ ھی میں بھی دنیا و مافیہا سے بے خبر ھوتا چلا گیا
جب مجے ہوش آیا تو میں اپنے کمرے میں تھا اور میرے آس پاس کوئی نہیں تھا بیہوش ہونے سے پہلے کا واقعہ میرے ذہن کے پردے پر لہرانے لگا دادا جی تو میرے سامنے اپنے دوست سے ملنے گئے تھے اور کیٹی بھی ان کے ساتھ تھی تو پھر وہ اتنی جلدی واپس کیسے آگئے مجھے یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی تھی اصل غم مجھے دادا جی کے آنے کا نہیں تھا بلکہ اس کتاب کو حاصل نہ کرنے کا تھا میں جب بھی کسی راز کی گہرائی میں جانے کی کے کوشش کرتا تو عین وقت پر کسی نا کسی وجہ سے ناکام ہو جاتا میرا دل ایک دم اس حویلی کی کمرے میں گھبرانے لگا میں فورا بستر سے اترا میرا ارادہ حویلی سے کچھ دیر کے لیئے دور جانے کا تھا
میں حویلی سے چلتا ہوا بہت دور نکل آیا جوں جوں حویلی سے دور جا رہا تھا ایک عجیب سا سکون دل میں اتر رہا تھا شام سے زرا پہلے کا ٹائم تھا ہوا چل رہی تھی میں یہاں کھل کے سانس لے سکتا تھا جبکہ حویلی میں تو ایک گھٹن سی محسوس ہوتی تھی ہر طرف اچانک مجھے احساس ہوا کہ جیسے کوئی میرے پیچھے آرہا ہے میں رک گیا اور مڑ کہ دیکھا تو مجھ سے کچھ فاصلے پر کیٹی تھی میرا غصہ آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگا مجھے جتنی گالیاں آتی تھیں میں نے دل ہی دل میں اسے دیں اگر میرا بس چلتا تو میں فوراً سے بھی پہلے اس کو جان سے ہی مار دیتا ہر وقت میری جاسوسی کرتی رہتی ہے میں نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا وہ عجیب سے انداز میں مجھے دیکھ رہی تھی جب کہ میری انکھوں میں اس وقت شدید غصہ تھا میں ایک قہر آلود نگاہ اس پہ ڈال کہ آگے بڑھ گیا مجھے پوری امید تھی کہ وہ میرے پیچھے ہی ہو گی اور واقعی میں ایسا ہوا تھا کچھ دور جا کہ میں نے مڑ کہ دیکھا تو وہ میرے پیچھے ہی چلی آرہی تھی
چلتے چلتے میں کافی آگے نکل گیا تھا، رات کا اندھیرا چھانے پر احساس ھوا کہ کافی وقت گزر گیا ھے، سو اب مجھے واپس اسی حویلی جانا تھا،
درختوں کے سرسراتے پتے عجیب ماحول پیدا کیے ھوئے تھے اچانک ھلکی سی سسکی میرے کانوں میں پڑی تو میں چونک پڑا اس حویلی میں آ کر چونکنا ھی میرے مقدر میں رھ گیا تھا شاید میں نے ارد گرد نگاہیں دوڑائیں۔ اندھیرا ھونے کے باعث مجھے دیکھنے میں تھوڑی دقت پیش آ رھی تھی وہ ایک خوبصورت لڑکی تھی، جو اپنا پاؤں پکڑے بیٹھی رو رھی تھی میں اس کے پاس گیا اور اندھیرے میں رات کے وقت باھر نکلنے کی وجہ پوچھی اس نے روتے ھوئے بتایا کہ اس کے ساتھ ایک حادثہ ھوا ھے، جس کی وجہ سے وہ اس وقت یہاں بے یار و مددگار بیٹھی ھے میں شش و پنج میں مبتلا ھو گیا کہ اس لڑکی کی مدد کروں یا اسے ایسے ھی چھوڑ جاؤں؟ پھر کچھ سوچ کر اسے اپنے ساتھ حویلی لے آیا وہ کافی زخمی تھی اس کی مرھم پٹی کرنے کے بعد اسے حویلی کے ھی ایک کمرے میں ٹھہرا دیا وہ اچھی شکل و صورت کی، گہری براوْن آنکھیں رکھنے والی پیاری سی لڑکی تھی
آئینہ؟ میں گہری سانس لے کر رہ گیا----اس لڑکی کی یاد بھی بے وقت ھی دل میں اتر آئی تھی
دادا جی ابھی تک واپس نھیں آئے تھے، تھکن سے نڈھال وجود لیئے میں اپنے بستر پر ایسا گرا کہ صبح ھی آنکھ کھلی۔۔۔۔۔۔ اگلی صبح میں منہ اندھیرے ھی جاکنگ کے لیے نکل گیا۔۔۔۔ روحا بھی میرے ساتھ تھی----سورج اپنی کرنیں بکھیرتا ھوا ، پوری آب و تاب سے نکل رھا تھا ھم دونوں ھی سنگی بنچ پر بیٹھ گئےروحا کے زخم اب بہت بہتر تھے اس نے ابھی تک اپنے بارے میں کچھ نھیں بتایا تھا اچانک وہ چونک پڑی یہ رنگ تمھارے پاس کہاں سے آئی؟ یہ تو اکثر آئینہ کے پاس ھوا کرتی تھی اس نے کہا تو میں حیران ھو گیا میں نے دیکھا کہ وہ انگوٹھی میری جیب سے نکل کر گر گئی تھی تم آئینہ حمزہ کو کیسے جانتی ھو؟ میں نے شک بھری نگاھوں سے اسے دیکھا بہت اچھی دوست ھوا کرتی تھی وہ میری اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور وہ دور فضاؤں میں اڑتے پرندوں کو گھورنے لگی
تم کیسے جانتے ھو اسے؟ اس نے گردن گھما کر میری طرف دیکھا---میں سوچ میں پڑ گیا آیا اس سے حویلی کے واقعات شیئر کروں یا نھیں کچھ سوچ کر میں نے اس سے اس کے بارے میں سب بتانے کو کہا وہ مان گئی اور رندھی آواز میں بولی
میں ایک یتیم اور بے سہارا لڑکی ھوں جب تک تایا زندہ تھے، تائی کا سلوک بہت اچھا تھا مرے ساتھ، پھر انکے بعد حالات برے ہوتے گئے آئینہ میری بہت اچھی دوست اور ھمراز ھوا کرتی تھی مگر حقیقت کی تلخ آندھی سب لے اڑی اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ھو گئے
ایک مرتبہ آئینہ مجھے اپنے گھر لے گئی ان دنوں اس کی حرکتیں کچھ پر اسرار سی تھیں وہیں اس کے بیڈ پر میں نے یہ رنگ دیکھی تو اسکی بابت پوچھا آئینہ ٹال گئی- زندگی میں پہلی بار میں نے اس کی آنکھوں سے خوف محسوس کیا تھا- اس دن کے بعد آیئنہ نے مجھ سے ملنا بہت کم کر دیا آج اچانک وہ میرے گھر آئی اور اپنے ساتھ چلنے کو کہا
تائی اماں نے آئینہ کے سامنے ہی مجھے خوب کوسا اور گھر سے نکال دیا
آئینہ نے میرے ساتھ دھوکہ کیا، وہ مجھے یہاں تنہا چھوڑ کر نجانے کہاں چلی گئی بھت تکلیف تھی اسکی آنکھوں میں
میں روحا کو بہت حیرت سے دیکھنے لگا اس لاچار لڑکی کے پاس رہنے ک لیئے کوئی ٹھکانا نہ تھا
میں نے اسے حویلی میں رہنے کی دعوت دی تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے میں نے اسے حویلی کے بارے میں سب بتانے کا فیصلہ کیا اور جیسے جیسے وہ سنتی جا رھی تھی اس کی آنکھوں میں خوف کے دریا اترتے چڑھتے جا رہے تھے
"آئینہ مر چکی ہے ؟ یہ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں۔ میں اپنی تائی کے مظالم کی وجہ سے نکل نہیں سکی لیکن آج تو میں آئینہ سے ملی ہوں. میں اس, بھوت حویلی میں نہیں رہ سکتی "
حیرت سے کہتے کہتے روحا بہت خوفزدہ ہو گئی تھی.
" آئینہ نے تمہیں تمہارے گھر سے نکال کر یہاں جنگل میں چھوڑ دیا, اگر تم کہیں اور بھی جاؤ تو وہ تمہارے پہچھے آسکتی ہے. بہتر ہے کہ تم یہاں ہمارے ساتھ ہو گی. "
میرا مقصد گو اسے خوفزدہ کرنا نہیں تھا لیکن جانے کیوں میں چاہتا تھا کہ اس, حویلی کے اسرار کھولنے میں, میں اکیلا نہ ہوں. شمائم کو رازدار بنانے کا مقصد بھی یہی تھا,. روحا تو پھر آئینہ کی دوست تھی وہ یقیناً میری مدد کر سکتی تھی.
روحا حویلی میں رہنے پر ہی راضی ہو گئی تھی. ویسے بھی جس طرح کل سے وہ غائب تھی اسکی تائی تو اسے اب گھر میں آنے نہ دیتیں, وہ جاتی بھی کہاں.
"آئینہ پر اس انگوٹھی کا بہت منفی اثر پڑا تھا, وہ بہت عجیب ہو گئی تھی لیکن پھر بھی وہ اسے چھوڑ نے پر راضی نہ تھی. ہمارے تعلقات خراب ہونے کی وجہ یہ انگوٹھی بھی تھی. میں نے کئی دفعہ آئینہ کو ایک بوڑھی عورت سے ملتے دیکھا, عام بزررگوں کے برعکس اس بڑھیا کے چہرے پر کوئی نور نہ تھا, بلکہ کہنا تو نہیں چاہئے لیکن اس کے چہرے پر عجیب کالا جادو کرنے والوں جیسی نحوست تھی "
روحا نے بتایا تو میں ایکدم بے تاب ہوا, شکر ہے آگے بڑھنے کا کوئی کلیو تو ملا, چاہے وہ بڑھیا میری کوئی مدد کرے یا نہ کرے لیکن پھر بھی کچھ تو پتہ چلے گا.
" کہاں ہوتی ہے وہ, اس کا گھر یا کوئی ٹھکانہ"
" نہیں, میں اسے پہچان سکتی ہوں لیکن اس کے بارے ميں کچھ نہیں جانتی "
روحا کے انکار نے میری امیدوں پر اوس گرا دی کہ اچانک مجھے خیال آیا, اس بارے ميں دادی ماں ضرور کچھ جانتی ہوں گی.
رات کو میں اپنے کمرے میں بیٹھا افس کا کام کر رہا تھا جب کسی نے زور زور سےدروازہ کھٹکھٹایا میں فوراً کام چھوڑ کر اٹھا اور دروازہ کھولا وہاں روحا تھی اس کا حلیہ دیکھ کر میں ششدر رہ گیا اس کے بال بکھرے ہوئے تھے اور چہرے پر دہشت چھائی ہوئی تھی مجھے دیکھ کر اس کے منہ سے بس اتنا نکلا ریان۔۔۔۔۔
کیا ہوا روحہ تم ٹھیک ہو میں نے اس سے پوچھا تو وہ رونے لگ گئی کیا ہوا کچھ تو بتاؤ ریان میرے کمرے میں کوئی ہے میں نے خود دیکھا وہ خوف سے کانپ رہی تھی آؤ میرے ساتھ میں دیکھتا ہوں ہم نے کمرے دروازہ کھولا تو کمرہ بلکل خالی تھا میں پیچھے مڑا تو میں نے کسی کو کمرے سے نکلتے ہوئے دیکھا
میں نے روحہ سے کہا تم اپنے کمرے کا لاک لگا لو اندر سے اور سنو کچھ بھی ہو دروازہ مت کھولنا
میرے کمرے سے نکلتے ہی اس نے فوراً دروازہ بند کر لیا میرا خیال تھا کہ مجھے حویلی کے پچھلے حصے کی طرف جانا چاہیے کیونکہ جب میں کمرے سے نکلا تھا تو وہ آدمی راہداری سے باہر نکل رہا تھا اور اس راہداری کا دروازہ حویلی کے لان میں کھلتا تھا جس کا مطلب صاف تھا کہ وہ باہر کی جانب گیا ہے میں فورا اس جانب بڑھا جب میں نے راہداری کے آخر میں جو دروازہ تھا اس کا ہینڈل گھمایا تو وہ بند تھا مجھے سخت حیرت ہوئی میرے سامنے ہی تو وہ آدمی باہر نکلا تھا میں نے زور لگایا تو دروازہ کھل گیا یوں لگ رہا تھا پہلے کسی نے دروازے کو پکڑ رکھا ہو اور اب اچانک چھوڑ دیا میں باہر نکلا باہر لان میں چاند کے باعث ہر طرف روشنی پھیلی ہوئی تھی میں چلتا ہوا حویلی کے پچھلے حصے کی طرف اگیا اچانک مجھے احساس ہوا کہ کوئی میرے پیچھے ہے میں فوراً مڑا مگر کوئی نہیں تھا میں نے اسے اپنا وہم جانا اور چلنے لگا کچھ دیر بعد مجھے پھر یہ وہم ہوا مگر جب مڑا تو کچھ نہیں تھا البتہ قدموں کی آواز آرہی تھی کچھ دیر بعد ایسی ہی آواز مجھے اپنے آگے بھی سنائی دینے لگی میرا دل کانپ رہا تھا مگر ان سب کے باوجود بھی میں چلتا رہا، پھر قدموں کی آواز میرے دائیں بائیں سے بھی آنے لگی یوں جیسے میں چاروں طرف سے گھیر لیا گیا ہوں میں نے رک کے چاروں طرف دیکھا مگر کوئی نظر نا آیا میں نے دل ہی دل میں آیت الکرسی اور سورت اخلاص پڑھنی شروع کر دی
میں حویلی کے پچھلے حصے میں پہنچ گیا تھا اب چاند کی روشنی میں ہر چیز واضح دکھائی دے رہی تھی میں اچانک چلتے چلتے رک گیا قدموں کی آواز آنا بھی فوراً بند ہو گئی میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اب کیا کروں کیونکہ یہاں ایسا کچھ نہیں تھا اندھیرے میں جھینگروں کی آواز کے علاوہ اور کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔۔۔۔میں نے چاروں طرف مڑ کے دیکھا کچھ بھی نہ تھا میرا ارادہ اب واپس جانے کا تھا میں جانے کے لیے مڑا مگر پھر رک گیا مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے پیچھے کچھ ہے میں نے اس سمت دیکھا ۔۔۔۔اپنے سے کچھ فاصلے پر مجھے دو جگہوں پر دیئے جلتے نظر آئے میں اہستہ آہستہ چلتا ہوا وہاں پہنچا قریب جا کر مجھے احساس ہوا کہ وہ تو دو قبریں تھیں جن پر دیئے جل رہے تھے یہ قبریں میں نے اس سے پہلے تو نہی دیکھیں تھیں میں نے ہاتھ بڑھا کر اپنے نزدیک والی قبر سے دیا اٹھا لیا وہ مٹی کا بنا ہوا چھوٹا سا دیا تھا اور کافی پرانا بھی لگ رہا تھا اس دیئے کی لو کو میں نے غور سے دیکھا تو مجھے مختلف قسم کے انسانوں کے چہرے نظر آئے میرے دل میں نہ جانے کیا خیال ایا کہ میں نے پھونک مار کے دیا بجھا دیا اور دیا بجھنے کی دیر تھی کہ ہر طرف چیخوں کی آواز سنائی دینے لگی حویلی میں جیسے زلزلہ آگیا چیخوں کی آوازیں اس قدر بلند تھیں کہ مجھے اپنے کانوں کے پردے پھٹتے ہوئے محسوس ہوئے دیا میرے ہاتھ سے گر گیا میں نے دونوں ہاتھ اپنے کانوں پہ رکھ لیئے درخت بھی زور زور سے ہلنے لگے ہوا اس قدر تیز ہو گئی کہ مجھے لگا کہ میں اڑ جاؤں گا ابھی ہوا میں آنکھوں میں چبھنے والی ریت بھی شامل تھی میں نے زور سے آنکھیں میچ لیں۔۔۔۔۔کچھ دیر بعد جب حالات کچھ پرسکون ہوئے تو میں نے ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھولیں۔۔۔میں دنگ رہ گیا میرے چاروں طرف عجیب و غریب چہروں والی مخلوق تھی انہوں نے مجھے گھیرا ہو تھا وہ سب مجھے قہر الود نگاہوں سے گھور رہے تھے مگر کوئی بھی میرے نزدیک نہیں آرہا تھا میں یہاں سے بھاگ بھی نہی سکتا تھا میں نے دل ہی دل میں خدا کو مدد کے لیے پکارا نہ جانے کیوں مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے آج میرا آخری دن ہو۔۔۔۔اور اگر میں مر گیا تو۔۔۔۔یہ حویلی سارے راز اپنے سینے میں ہی دبائے ہمیشہ آنے والوں لوگوں کو پریشان کرتی رہے گی نہ جانے اور کتنے بے موت مارے جائیں گے اور کتنوں کے خون سے یہ اپنے ہاتھ رنگے گی نہیں ایسا نہیں ہو سکتا کبھی بھی نہیں
میں کسی کو بے موت نہی مرنے دوں گا اور کیا پتا میرے مرنے کے بعد کوئی اور ریان اتنی طاقت نا رکھتا ہو کہ وہ اس حویلی کے سینے میں دفن رازوں کو کھوج پائے ہر کسی کے پاس میرے جیسی مستقل مزاجی نا ہو جو ایسے حالات سے ڈر کر بھاگنے کی بجائے ان کا سامنا کرنے کی ہمت رکھتا ہو
وہ تمام اب بھی مجھے گھور رہے تھے۔
میں نے کبھی بہت پہلے کسی سے سنا تھا کہ ایسی بد روحیں اور جنات آگ سے ڈرتے ہیں میں نے دل ہی دل میں آیت الکرسی کا ورد شروع کر دیا میری ہمت بڑھنے لگی تھی میں نے آگے بڑھ کے دوسری قبر پہ جلتا دیا پکڑ لیا تو اچانک ان سب نے چیخنا شروع کر دیا میں جوں ہی آگے بڑھا وہ سب چیختے ہوئے پیچھے ہٹنے لگے میرا راستہ صاف ہو رہا تھا۔
مجھے اس بات کا پتا چل گیا تھا کہ جب تک یہ دیا میرے ہاتھ میں ہے وہ میرا کچھ نہی بگاڑ سکتے اور اسی سوچ سے میرے اندر اور ہمت بڑھ گئی میں نےتب حویلی کے اندرونی حصے کی طرف بڑھنا شروع کر دیا وہ سب چیختے ہوئے میرے پیچھے آرہے تھے میں نے دیئے کو مضبوطی سے تھام رکھا تھا کیونکہ یہ دیا میری زندگی کی علامت تھا میں نے جوں ہی حویلی کےاندرونی حصے میں قدم رکھا تو وہ سب رک گئے میں نے فوراً دیا زمین پر پھینک دیا
دیا بجھنے کی دیر تھی حویلی میں جیسے پھر سے زلزلہ آگیا ہو وہ پوری حویلی چیخوں سے گونجنے لگی میں میں نے اندر داخل ہوتے ہی دروازہ بند کر لیا تھا
اچانک مجھے لگا جیسے سب کچھ پرسکون ہو رہا ہو
ریان کیا ہوا بیٹا مجھے اپنے قریب دادا جی کی آواز سنائی دی میں نے فوراً انکھیں کھولیں وہ میرے پاس کھڑے حیرانگی سے مجھے دیکھ رہے تھے کچھ نہیں دادا جی میں نے فورا اپنی حالت پر قابو پا لیا تو پھر سو جاؤ بہت رات ہو گئی ہے
جی دادا جی میں نے اثبات میں سر ہلایا تو وہ چلے گئے ان کے پیچھے ہی میں بھی اپنے کمرے میں آگیا
________
میں آفس سے نکلا تھا جب دادی اماں کا خیال آیا تھا اور میں نے گاڑی ان کے گھر کی طرف موڑ دی تھی اور وہ پہلا دن تھا جب ایفا حمزہ سے باضابطہ میرا سامنا ہوا تھا۔ میں اسے دیکھ کر چونکا تھا وہ ہو بہو آئینہ حمزہ سی تھی۔ میری نظریں اسے حیرت سے تکنے لگیں تھیں۔
اس نے نگاہ چُرا کر چہرے کا رخ پھیرا تھا اور مجھے اندر جانے کا راستہ دیا تھا۔ مجھے اس کی آنکھوں میں تیرتی ایک ہلکی سی شناسائ کی لکیر واضح دکھائ دی تھی۔ اور تبھی میں بولا تھا۔
"تم ایفا حمزہ ہو نا؟ اب جھوٹ مت کہنا کہ تم نہیں ہو۔ میں جانتا ہوں تم مجھے جانتی ہو۔" میں پر یقین لہجے میں کہتا ہوا اس کے سامنے رکا تھا۔ میرے لہجے میں اتنا بھرپور یقین تھا کہ وہ حیران رہ گئ تھی۔
"ہاں میں ایفا حمزہ ہوں لیکن آپ کون؟۔" وہ مجھ سے اجنبی بن جانا چاہتی تھی اور مجھے لگا تھا میں اس سے کئ بار ایفا حمزہ سے ملا تھا۔ تبھی میں پریقین لہجے میں بولا تھا۔
"تم ہو نا؟۔"
نہیں، میں نہیں ہوں!۔" وہ انکاری تھی۔
"تم ہی ہو!۔"
"میں آئینہ نہیں ہوں!"
"میں نے کب کہا کہ آئینہ ہو؟۔" میں محظوظ ہوا تھا۔
"میں ایفا حمزہ ہوں۔"
"اور تمہیں خبر کیسے ہوئ کہ میں آئینہ حمزہ کو جانتا ہوں؟۔" میں نے اسے پرسکون انداز میں مسکراتے ہوئے دیکھا تھا۔
"دادی اماں نے بتایا تھا کہ تم آئینہ کے دوست ہو اور۔۔"
"اور تم جانتی ہو میں کچھ عرصہ قبل یہاں آیا ہوں اور آئینہ چھ برس پہلے مر چکی ہے۔" میں نے اسے جتایا تھا۔
وہ خاموش ہوکر مجھے دیکھنے لگی تھی۔ اور تبھی میں نے یقین سے اسے دیکھا تھا۔
"پہلی بار مجھے تم کب ملیں تھیں؟ مجھے یاد نہیں مگر میں جانتا ہوں میں تم سے مل چکا ہوں۔ میں ہر بار آئینہ حمزہ سے نہیں ملا یہ بات اب میں سمجھ چکا ہوں مگر تم مجھے کہاں کہاں اور کب کب ملیں میں یہ بات تم سے سننا اور جاننا چاہتا ہوں۔ " میں نے پر یقینی سے پوچھتے ہوئے اسے جانچتی نظروں سے دیکھا تھا۔ اور بغور مجھے دیکھتے ہوئے پلٹی تھی اور جانے لگی تھی جب میں نے آگے بڑھ کر اس کی کلائ تھام لی تھی۔ اس کی کلائ حرارت سے پُر تھی جیسے میں اس کلائ کو پہلے بھی تھام چکا تھا۔ وہ حیرت سے مجھے دیکھنے لگی تھی۔
"تم مجھے مدد کرتی رہی ہو نا؟ وہ تم ہی ہو جس نے مجھ سے محبت کا اظہار کیا تھا؟ تم ہی میری راہبر بنی رہیں تھیں اب تک؟ اور تم ہی تھیں جس کا دل میرے لئے دھڑکتا رہا تھا؟ تبھی تم میرے آس پاس رہ کر مجھے ہمیشہ مصیبتوں سے نکالتی رہیں اور مجھے بچاتی رہیں؟۔" میں نے مکمل یقین سے کہتے ہوئے اسے دیکھا تھا۔ اس نے نفی میں سر ہلایا تھا اور اپنی کلائ میری گرفت سے آزاد کراتے ہوئے بولی تھی۔
"میں آپ سے کبھی نہیں ملی! میں آپ کو نہیں جانتی۔" کہنے کے ساتھ ہی وہ پلٹی تھی اور وہاں سے نکلتی چلی گئ تھی۔ اور میں حیران کھڑا اسے جاتا دیکھ رہا تھا جب مجھے دادی نے پکارا تھا۔
"تم یہاں؟۔" وہ مجھے وہاں دیکھ کر حیران ہوئیں تھیں۔ "تم کب آۓ؟۔"
"بس ابھی دادی اماں، یہ ایفا تھی نا؟" میں نے دور جاتی ایفا کی ذبردست اشارہ کیا تھا۔
دادی اماں نے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
"مجھے یقین ہے تم ایفا حمزہ سے پہلے کبھی نہیں ملے۔ بہرحال آؤ بیٹھو۔ " انھوں نے مجھے دیکھتے ہوئے صوفہ کو طرف اشارہ کیا تھا اور میں آرام سے بیٹھ گیا تھا۔
"دادی اماں آپ یقیناً جانتی ہیں کہ آئینہ حمزہ مجھ سے کیوں ملی؟ مجھے جانے کیوں لگتا ہی کہ آپ اس گتھی کو سلجھا سکتی ہیں، جیسے کوئ نہ کوئ سرا آپ کے ہاتھ ضرور ہے۔" میں نے واضح انداز میں کہہ کر شک کی کوئ صورت باقی نہیں رکھی تھی۔ اور لمحہ بھر کو وہ خاموشی سے دیکھنے لگیں تھیں پھر گویا ہوئ تھیں۔
"میں نہیں جانتی آئینہ حمزہ تم سے کیوں ملی یا ملنے کے لئے تمہیں کیوں چنا۔ مگر میں بتا چکی ہوں آئینہ حمزہ منفی طاقتوں کا منبع تھی اور کسی جادو گرنی سے ملنے اکثر وہ جاتی تھی۔ آئینہ کی بلی جس کا نام پُرکی
تھا وہ بھی بہت عجیب تھی۔ پہلے میں نے پُرکی کا نوٹس نہیں لیا تھا۔ وہ کئ سالوں سے آئینہ کے ساتھ تھی۔ بچپن میں وہ پُرکی کو کہیں سے اٹھا لائ تھی۔ مجھے یا اس کے والدین کو بلیاں بالکل پسند نہیں تھیں مگر آئینہ کی اس سے انسیت دیکھ کر ہم نے پُرکی کو گھر میں ٹھہرانے کی اجازت دے دی تھی۔
مگر میں نے غور کیا تھا اکثر آئینہ پُرکی سے باتیں کرتی پائ گئ تھی اور پُرکی کئ مختلف آوازوں میں اس کی بات کا جواب دیتی تھی۔
جیسے کئ لوگ باری باری باتیں کرتے ہیں۔
مجھے تشویش ہوئ تھی میں نے جانا تھا کہ وہ پُرکی کوئ معمولی بلی نہیں تھی۔ شاید اس میں ایک سے زیادہ جنات یا بد روحیں تھیں۔ اور تب میں نے اس پُرکی کو گھر سے نکال دیا تھا۔ مگر پُرکی کے گھر سے جاتے ہی میرے بیٹے اور بہو ایک ایکسیڈنٹ میں مارے گئے تھے پھر آئینہ حمزہ کی ایک قریبی دوست روحا بھی اچانک ٹیرس سے گر کر چل بسی تھی اور اس کے بعد آئینہ بھی ایک کار ایکسیڈنٹ میں انتقال کر گئ تھی۔
"روحا مر چکی ھے؟" میں یکدم چونکا تھا۔
یا اللہ یہ کیا ہو رہا تھا۔
روحا آئینہ حمزہ کی دوست تھی تو مجھ سے کیوں ملی تھی؟ میں نے دادی پر روحا کی حقیقت عیاں کئے بنا ان کی بات سننا جاری رکھی تھی۔
"روحا جان گئ تھی کہ پُرکی میں بہت سے جنات یا بدروحیں ہیں اور روحا کو یہ بات بھی معلوم ہو چکی تھی کہ آئینہ کسی witch یا جادو گرنی سے ملتی تھی۔ روحا آئینہ کو اس سب میں الجھنے سے باز رکھتی تھی یہ بات وہ جادو گرنی جان گئ تھی سو ایک دن اس Witch نے روحا کو ٹیرس سے گرا کر مار دیا۔
جس رات روحا کی موت واقع ہونا تھے پُرکی بہت خوش اور پرسکون تھی اور اسی شام جب میں چھت پر کسی کام سے گئ تھی میں نے پُرکی جو خوشی سے رقصں کرتے خود دیکھا تھا اور اس سے اگلے دن خبر آئ تھی کی روحا انتقال کر گئ۔ پھر جب آئینہ کے ممی ڈیڈی کا ایکسیڈنٹ ہونا تھا اس شام بھی وہ بلی سامنے سڑک پر شب بھر رقص کرتی رہی تھی۔ اور جب آئینہ کی موت واقع ہونا تھی اس شب بھی اس بلی کو میں نے گھر کے سامنے شب کے پچھلے پہر خوشی سے رقص کرتے دیکھا تھا۔ میں نہیں جانتی اس بلی کا کیا سلسلہ ہمارے خاندان سے جڑا تھا جو اس نے ہمارے گھر کے تین لوگوں کی جان لی، لیکن میں نے اسی لئے ایفا حمزہ کو یہاں سے دور بجھوا دیا تھا۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ روحا، میرے بیٹے اور بہو اور آئینہ کے بعد اب اور کسی کو یہاں اس گھر میں کوئ نقصان ہو۔
میں نے سنا تھا اس منحوس بلی نے اس کے بعد کسی پرانی حویلی میں قیام کر لیا تھا۔ کسی نے بتایا تھا حویلی کے مالک کو بلی بارش میں بھیگتی ہوئ ملی تھی اور اس پر ترس کھا کر اٹھا کر اسے گھر لے گیا تھا۔ میں نے سنا ہے برائ کی طاقتیں کبھی مرتی نہیں بس جگہ بدلتی ہیں سو ہو سکتا ہے اس کالی بلی پُرکی کے اس پرانی حویلی کے قیام سے وہاں ایسے واقعات ہو رہے ہوں اور پرکی چونکہ آئینہ حمزہ سے منسلک تھی سو شاید اسی باعث آئینہ اسی پرانی حویلی کے کہیں آس پاس بھٹک رہی ہو وہ تم سے ملی ہو۔ ایسی روحیں جن کی طبعی موت واقع نہیں ہوتی وہ اکثر بھٹکتی رہتی ہیں۔" دادی اماں کے بتانے پر میں نے لمحہ بھر کو خاموشی سے انھیں دیکھا تھا اور بولا تھا۔
"دادی اماں، شاید آپ کو سن کر حیرت ہو میں روحا سے بھی ملا ہوں وہاں وہ حویلی کے آس پاس ملی تھی اور میں نے اسے حویلی کے ایک کمرے میں ٹھہرایا تھا۔ مگر اسے آئینہ حمزہ کی موت کے بارے میں کچھ پتہ نہیں تھا۔" بات کرتے ہوئے میرے اندر سنسی سی دوڑ رہی تھی اور رونگٹے کھڑے ہو رہے تھے۔ جیسے ان بری طاقتوں کو خبر ھے کہ ہم ان کی بات یہاں کر رہے ہیں۔ میری رگوں میں خوف کی واضح لہر محسوس ہوئ تھی۔ میری نسوں میں جیسے خون منجمد ہونے لگا تھا۔
یکدم تیز ہوا چلنے لگی تھی اور گھر کا بھاری سامان اڑنے لگا تھا اور یہاں سے وہاں چمگاڈریں اڑنے لگیں تھیں۔ میں اور دادی اماں حیران رہ گئے تھے۔ یکدم ایفا حمزہ وہاں آئ تھی اس نے میرا اور دادی کا ہاتھ تھاما تھا اور لے کر تیزی سے چلتی ہوئ گھر سے باہر نکلی تھی۔ دادی اماں بلند آواز میں آیت الکرسی پڑھنے لگی تھیں۔ ماحول یکدم پرسکون ہو گیا تھا۔
ایفا حمزہ نے میری سمت دیکھے بنا میرا ہاتھ چھوڑ دیا تھا۔ اور میں اس کی سمت دیکھنے لگا تھا۔
اس نے بنا میری طرف دیکھے دادی اماں کا ہاتھ تھاما تھا اور چلتی ہوئ گھر کے اندر واپس چلی گئ تھی۔ میں حیرت میں وہیں کھڑا دیکھتا رہ گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ پہلی دفعہ نہیں تھا کہ ایفا نے میری مدد کی.میں یہاں دادی ماں سے مدد لینے آیا لیکن مزید الجھ گیا, روحا بھی ایک روح تھی تو آخر وہ مجھ سے کیا چاہتی تھی؟ کیوں ملی تھی مجھے ؟
کوئی سرا ہاتھ نہ آتا تھا. ایفا اور دادی کے گھر جانے کے بعد میں حویلی کی طرف چل دیا
تو گویا وہ ایفا حمزہ ہی تھی جو مجھے ہمیشہ ان بری طاقتوں سے بچاتی آرہی تھی ۔
تو اسکا مطلب ایفا حمزہ بھی مجھے چاہتی ہے لیکن پھر وہ اتنی خاموش کیوں تھی؟ ۔
میں واپس حویلی جانے کی بجائے پارک میں چلا گیا تھا اور ایک سنگل بینچ پہ بیٹھا ایفا حمزہ کے بارے میں سوچ رہا تھا ۔ جب ایک بوڑھی عورت میرے قریب آکر بیٹھی وہ بڑے بڑے سانس لے رہی تھی اور بری طرح سے ہانپ رہی تھی ۔ میں نے تھوڑا سا غور کیا تو اس نے نیچے زمین پر اپنے پائوں کے پاس ایک بڑا سا تھیلا رکھا ہوا تھا ۔ شاید اس تھیلے کے بوجھ نے اسے اس قدر تھکا دیا تھا ۔ یقیناً اس میں گروسری کا سامان تھا ۔ اس نے اپنا پسینہ پونچھا اور پھر سے کھڑے ہو کر تھیلا اٹھانے لگی تھی اسکی مشکل کو دیکھتے ہوئے مجھ سے رہا نہیں گیا تھا .
"کہاں جانا ہے آپ کو ؟؟ میں آپکی ہیلپ کر سکتا ہوں" ۔ میں نے جھکتے ہوئے اسکا تھیلا اٹھا لیا تھا ۔
وہ ایک نگاہ مجھ پہ ڈال کر آگے بڑھ گئ تھی ۔ اسکا انداز ناقابل فہم تھا ۔ تا ہم میں وہ تھیلا اٹھا کر اسکے پیچھے ہی چل دیا تھا ۔
ہم پارک سے کافی دور ایک ویرانے میں آگئے تھے ۔ ارد گرد سناٹا تھا ۔ میں حیران تھا کہ یہ بوڑھی عورت مجھے کہاں لے آئ تھی میں اسے مخاطب کرنے ہی والا تھا کہ یکایک وہ پلٹی اور اسکی صورت دیکھ کہ میں بے اختیار پیچھے پلٹا تھا روحا ؟؟
اور وہ بوڑھی عورت ؟.؟ مجھے سمجھنے میں دیر نہیں لگی تھی ۔
"تم کیا چاہتی ہو ؟؟ مجھے یہاں کیوں لائ ہو .. ؟؟" مجھے ذرا خوف محسوس نہیں ہوا تھا ۔
وہ دائیں طرف بڑھنے لگی تھی جہاں ایک بوسیدہ سا کھنڈر نما گھر تھا ۔ جسے دیکھ کر میں حیران رہ گیا تھا ۔ مجھے اچھی طرح یاد تھا ابھی چند ثانیے پہلے ارد گرد صرف ویرانہ تھا ۔ یہ سب دیکھ کر مجھے بھاگ جانا چاہئے تھا۔ لیکن جانے کس بات نے مجھے اتنا نڈر کر دیا تھا ۔ میں جانتا تھا کہ روحا اب زندہ نہیں ہے اسکو بھی انہیں بد روحوں نے مارا تھا۔ تو پھر اب کہیں

قسط نمبر 11
از قلم: عشنا کوثر سردار اینڈ ٹیم
میں بہت کچھ جاننے گیا تھا مگر دادی اماں بزی تھیں سو میں بنا کچھ کہے یا پوچھے واپس لوٹ آیا تھا۔
ایفا حمزہ نے میرا ہاتھ تھام کر مجھے اس بھیانک چہروں کے شکنجے سے بہت آرام سے نکال لیا تھا۔ پچھلی بار جب گیا تھا تو دادی اماں نے بتایا تھا وہ مثبت طاقتوں کس منبع تھی اور بچپن سے آئینہ منفی طاقتوں کے زیر تھی۔ دادی نے یہ بھی بتایا تھا کہ ایفا نے کبھی اپنی ان طاقتوں کا استعمال نہیں کیا تھا مگر آئینہ دوستوں کے ساتھ شرارتوں میں اکثر ان منفی طاقتوں کا استعمال کرتی رہی تھی۔ دادی نے کہا تھا کہ ایفا صرف تب ان مثبت طاقتوں کا استعمال کرے گی جب کوئی اس کا بہت پیارا کسی مصیبت میں ہوگا۔
ایفا نے اگر آج مجھے مدد کی تھی کہ تھی تو کیا میں ایفا کے دل کے کہیں پاس تھا؟ یا وہ مجھ سے پہلے مل چکی تھی؟ یا ملتی رہی تھی؟ کیونکہ کئ بار مجھے آئینہ حمزہ نے بچایا تھا، میری مدد کی تھی تو کیا وہ ایفا حمزہ تھی؟ مگر اس نے کبھی نہیں کہا تھا کہ وہ ایفا حمزہ ہے، میں صرف ایک لڑکی سے ملا تھا، صرف ایک لڑکی کو جانا تھا جو کہ آئینہ حمزہ تھی۔ مجھ سے محبت آئینہ حمزہ کرتی تھی یا ایفا حمزہ؟ میں نہیں جانتا تھا۔ مگر میرا دل اس لڑکی کی طرف بے اختیار جیسے کھینچتا تھا، جیسے میرا اس سے کوئ گہرہ ربط تھا یا کوئ دل سے جڑا رشتہ تھا۔ تو کیا میں آئینہ حمزہ سے محبت کرنے لگا تھا؟ اسی باعث وہ بھی میرے آس پاس رہتی تھی اور مصیبت کے وقت مجھے مدد کرتی تھی؟ تو کیا جس نے ابھی کچھ دیر پہلے مجھے بچایا تھا وہ آئینہ تھی؟
تو کیا میں واقعی کسی ایسی لڑکی سے محبت میں مبتلا ہو چکا تھا جو اس دنیا میں تھی ہی نہیں؟
مجھے اندازہ نہیں ہوا تھا میں سوچوں میں اس قدر غلطاں تھا کہ میں وہیں گاڑی روک کر حویلی کے باہر ہی رک گیا تھا۔ اور بارش ہونے لگی تھی۔ میں بھیگنے لگا تھا۔ جب سامنے نگاہ گئ تھی۔ وہاں آئینہ کھڑی دکھائ دی تھی۔ میری طرف خاموشی سے تکتی۔ میں کچھ لمحوں تک خاموشی سے اس کی طرف دیکھتا رہا تھا پھر میں نے اس کے طرف قدم بڑھائے تھے اور اس کے مقابل رک گیا تھا۔
وہ تب بھی اسی خاموشی سے میری طرف دیکھتی رہی تھی۔ میں نے اس کی طرف بغور دیکھتے ہوئے اس کا ہاتھ تھاما تھا۔ وہ تب بھی کچھ نہیں بولی تھی۔ اور میرا دل عجیب طرح سے اس کی طرف کھینچنے لگا تھا۔ میرے اندر اضطرابی بڑھنے لگی تھی جب میں نے اس خاموشی کو توڑا تھا۔
"میں نہیں جانتا تم کون ہو مگر مجھے تم سے ایک خاص ربط جڑا نظر آتا ہے، میں نہیں جانتا تم زندہ ہو کہ نہیں، میں یہ بھی نہیں جانتا اگر محبت صرف زندہ لوگوں سے ہوتی ہے اور مرے ہوئے لوگوں سے نہیں مگر اگر یہ محبت ہے تو بہت عجیب ہے اور بے چین کرتی ہے ہر سو اضطرابی میں چلتی ہوئ ہر سمت پھیل گئ ہے تو مجھے اس کا سبب بھی نہیں معلوم، اور اگر تم ابھی کسی بات پر برہم ہو کر مجھے سپر مین بنا کر فضاؤں میں اڑا دو گی یا زمین سے تیس فٹ اوپر ہوا میں معلق کردو گی تو مجھے تب بھی تم سے یہ بے چینی والی محبت باقی رہے گی یا میرے اندر سے تم محبت کھرچ کر نکال دو گی؟ میں نہیں جانتا مگر ۔۔۔ میں چاہتا ہوں تم مجھے اس ربط اور خاموشی کے معنی بتا دو۔ میرے لئے یہ الجھنوں کا باعث ہے۔ تم اگر کوئ بری طاقت ہو، مر چکی ہو تو مجھے مار کیوں نہیں دیتیں؟ ہر بار مصیبت سے نکال کر بچا کیوں لیتی ہو؟ صرف اس لئے کہ تمہیں مجھ سے محبت ہے؟ مگر یہ کیسی محبت ہے آئینہ حمزہ؟ کیا کریں گے ہم اس محبت کا؟ اگر تم نقصان پہچانا چاہتی ہو تو اپنا کام پورا کرو اور واپس لوٹ جاؤ، میں تمہاری روح کو پرسکون دیکھنا چاہتا ہوں۔ " میں اس کی سمت تکتا ہوا بولا تھا۔ اس کا چہرہ ویسا ہی دلکش اور بے ریا تھا۔ وہ آنکھیں اتنی ہی شفاف تھیں کہ اس کا دل ان آنکھوں سے جھانک رہا تھا۔ اس کی آنکھیں آئینے جیسی شفاف تھیں۔ ہم دونوں برستی تیز بارش میں بھیگ چکے تھے وہ خاموش کھڑی تھی اور میں بھی۔ میں نے اس کے صبیح چہرے کو برستی بارش میں بھیگتے ہوئے دیکھا تھا اور ہاتھ بڑھا کر اس تازگی کو اپنے ہاتھوں پر محسوس کیا تھا اور دھیمے لہجے میں بولا تھا۔
"آئینہ میں تمہیں پرسکون دیکھنا چاہتا ہوں، تم نے کہا تھا تم مجھ سے محبت کرتی ہو! مجھے اچھا لگا تھا! تمہارا پاس آنا، ہر بار مجھے مصیبت سے نکالنا، میری مدد کرنا! مجھے اچھا لگتا ہے اور تب میں اپنے دل کو تمہارے دل کے قریب محسوس کرتا ہوں، مجھے خبر نہیں تمہارا دل دھڑکتا ہے کہ نہیں یا میرے دل کی کوئ آواز سنتا ہے کہ نہیں مگر مجھے تمہارا احساس اچھا لگتا ہے، کسی کی Existence اور ہونے کا احساس معنی رکھتا ہے چاہے تم زندہ ہو یا نہیں۔" میں نے اس کی خاموشی میں اس کی محبت کو اپنے اردگرد محسوس کیا تھا۔ اس نے میری سمت تکتے ہوئے اپنا ہاتھ میری گرفت سے نکالا تھا، اس کی آنکھوں میں ایک بے قراری واضح دکھائ دی تھی۔ اور شاید محبت بھی۔ میری سمت اسی طور دیکھتی وہ پلٹی تھی اور وہاں سے نکلتی چلی گئی تھی۔ تیز بارش کی باعث دور تک دھند پھیلی ہوئ تھی اور راستہ دکھائ نہیں دے رہا تھا، جانے وہ کس سمت گئ تھی مگر اب وہ مجھے دکھائ نہیں دے رہی تھی۔ میرے ارد گرد عجیب سا احساس پھیلا تھا۔ یہ محبت کے ہونے کا احساس تھا یا آئینہ حمزہ کے وہاں سے چلے جانے کس احساس!
میں سمجھ نہیں پایا تھا مگر میں اور الجھ گیا تھا۔
میں کچھ دیر وہاں مزید بارش میں بھیگتا رہا اور پھر قدم حویلی کی جانب موڑ لیے مجھے نہیں پتہ تھا کہ آئینہ حمزہ چپ کیوں تھی محبت کی شاہراہ پر وہ خود میرا ہاتھ تھام کے لے جانے کے بعد مزید چلنے سے کیوں انکاری تھی وہ مجھے اپنی طرف راغب کرنا چاہتی تھی اور اب اگر میں ہو رہا تھا تو وہ یہ لاتعلقی کیوں برت رہی تھی میں محبت کومحسوس کرنا چاہتا تھااس کے سنگ مگر وہ مجھے اپنے پاس نہیں آنے دے رہی تھی بس دور کھڑی مجھے تڑپا رہی تھی۔۔۔مجھے نہی پتہ تھا آئینہ حمزہ زندہ یا مردہ وہ اچھی طاقتوں کی مالک ہے یا بری طاقتوں کی میرا دل بس اس کا طلب گار تھا
جو فیلنگز میں آئینہ کے لیے رکھتا تھا وہ ایفا کے لیے نہی تھی میں اس بات کو بھی نظرانداز کر چکا تھا کہ آئینہ ہمیشہ مجھے نقصان پہنچاتی ہے جبکہ ایفا میری ہیلپ کرتی ہے ۔۔۔۔میں سوچوں میں مگن لاونج میں داخل ہوا دادا جی سامنے صوفے پر بیٹھے اخبار کی ورق گردانی میں مگن تھے کیٹی ان کے قدموں میں سو رہی تھی جبکہ کچھ فاصلے پر قالین پہ بیٹھا کرم دین سبزی بنا رہا تھا۔۔دروازہ بند ہونے کی آواز پر دونوں نے مجھے دیکھا میں سرسے پاوں تک مکمل بھیگا ہوا تھا میرے ہونٹ مسلسل بارش میں بھیگنے کے باعث نیلے یو رہے تھے جسم بھی ہلکے ہلکے کانپ رہا تھااوائل سردیوں کے دن تھے، میں دھیمے دھیمے کسی ہارے ہوئے جواری کی طرح چلتا صوفے پر ان بیٹھا دادا جی نے چشمے کے اوپر سے مجھے دیکھا۔۔۔
۔کیا ہوا برخودا نہا کر آرہے ہو کیا بارش میں انہوں نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا
دادا جی میں چینج کر کے آتا ہوں گیلے کپڑوں میں سردی محسوس ہو رہی ہے
کہتے ساتھ ہی میں چلا آیا۔۔ان کے سوال کو میں نے مکمل نظرانداز کر دیا
میں کمرے میں آیا تو کیٹی میرے بستر پر بیٹھی مجھے گھور رہی تھی اب تو میں اس بلی کی ایسی حرکتوں کا اتنا عادی ہو گیا تھا کہ اسے نظر انداز کرتا اپنی الماری سے کپڑے نکالنے لگا تاکہ جلدی سے کپڑے بدل سکوں کیونکہ بارش میں کافی دیر بھیگنے کے باعث فلو کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے تھے میں نہیں چاہتا تھا کہ اس ذہنی پراگندگی میں میں بیمار پڑ جاؤں اور اس حویلی کا جو راز جلد از جلدی کھوج نکالنا چاہتا تھا وہ کسی تاخیر کا شکار ہو میں جلد از جلد یہ کام مکمل کر کے اس حویلی سے اور اس کے بھیانک اثرات سے دور چلا جانا چاہتا تھا
ابھی میں کپڑے نکال ہی رہا تھا کہ مجھے پیچھے کچھ آہٹ سی محسوس ہوئی جب پیچھے موڑ کر دیکھا تو کیٹی غائب تھی ___ میں سر جھٹک کر واپس موڑ جانا چاہتا تھا کہ ایک چیز نے میری توجہ اپنی جانب کھینچ لی اور جسے دیکھ کر میں حیران کے ساتھ پریشان بھی تھا
ابھی کیٹی کچھ دیر پہلے جہاں بستر پر بیٹھی تھی وہاں وہی آنگوٹھی پڑی تھی جو کچھ عرصے پہلے آئینہ کے پاس دیکھی تھی میں آگے بڑھ آیا اور اس آنگوٹھی کو اٹھا کر غور سے دیکھنے لگا الٹ پلٹ کر اس کا جائزہ لیا بہت عجیب اور مختلف ساخت کی انگوٹھی تھی یہ اس پر باریک لفظوں سے وسط میں کچھ لکھا ہوا تھا عجیب سی زبان تھی کچھ سائنز بھی بنے ہوئے سائڈوں پر عجیب وغریب نقشوں ونگار بھی تھے میں نے احتیاط سے وہ انگوٹھی اپنی جینز کی اندورنی پاکٹ میں رکھ لی کیونکہ میں اب اسے سلطان چچا کے فون نمبر کی طرح کھونا نہیں چاہتا تھا شاید یہ انگوٹھی مجھے اس راز کو منکشف کرنے میں مدد دے جو اب میرا واحد مقصد بن کر رہا گیا تھا
چینج کرنے کے بعد میں باہر دادا جی کے پاس آ کر بیٹھ گیا--- کرم دین بھاپ اڑاتا کافی کا مگ لے آیا
”ریان بیٹا مجھے شام میں اپنے دوست کے ھاں جانا ھے وہ آج کل بیمار ھے اور مجھ سے ملنا چاہتا ھے“ دادا جی کے ان الفاظ نے مجھے چونکا دیا
اوہ سب خیریت ھے نا دادا جی وہ زیادہ بیمار تو نھیں ھیں؟ میں نے کافی کا مگ سامنے میز پر رکھ دیا ارے نھیں، زیادہ پریشان ھونے والی بات نھیں ھے--موسمی تبدیلی کی وجہ سے کھانسی، اور فلو نے ان کو گھیر لیا ھے اب مجھے شام کا انتظار تھا دادا جی، کیٹی کو یہاں میرے پاس چھوڑتے جایئے گا، کہیں پیاری سی کیٹی کو بھی ٹھنڈ نہ لگ جاے میں نے میٹھی نگاھوں سے اسے دیکھتے ھوئے کہا تو وہ میاؤں کی آواز نکال کر میرے پاس آ بیٹھی میں نے اسے پیار کیا
نھیں بیٹا یہ میرے ساتھ جائے گی دادا جی نے کہا تو میں نے اطمینان محسوس کیا میرا مقصد پورا ھو چکا تھا میں تھوڑی دیر کے لیے کیٹی سے بھی چھٹکارہ چاہتا تھا شام میں دادا جی اور کیٹی کے جانے کے بعد میں دادا جی کے کمرے میں گیا اور ساییڈ ٹیبل پر رکھی کتابوں کو دیکھنے لگا جلد ھی مجھے اپنی مطلوبہ کتاب مل گئی اوراق پلٹ کر دیکھنے کے بعد ایک صفحے پر آ کر میرے ھاتھ رک گے میں گہری سانس لیتے ھوئے یکدم سیدھا ھو گیا میرا شک یقین میں بدل چکا تھا انگوٹھی اور کتاب پر بنے نقش و نگار ایک جیسے تھے میں نے اپنے پیچھے آہٹ سن کرپلٹا کھایا اور خوف سے میری گھگھی بند ھو گی دو چہرے مگر بدن ایک، مجھے لگا ایک چہرہ دادا جی کا ھے تو دوسرا آئینہ کا کتاب میرے ھاتھ سے گر چکی تھی اور اس کے ساتھ ھی میں بھی دنیا و مافیہا سے بے خبر ھوتا چلا گیا
جب مجے ہوش آیا تو میں اپنے کمرے میں تھا اور میرے آس پاس کوئی نہیں تھا بیہوش ہونے سے پہلے کا واقعہ میرے ذہن کے پردے پر لہرانے لگا دادا جی تو میرے سامنے اپنے دوست سے ملنے گئے تھے اور کیٹی بھی ان کے ساتھ تھی تو پھر وہ اتنی جلدی واپس کیسے آگئے مجھے یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی تھی اصل غم مجھے دادا جی کے آنے کا نہیں تھا بلکہ اس کتاب کو حاصل نہ کرنے کا تھا میں جب بھی کسی راز کی گہرائی میں جانے کی کے کوشش کرتا تو عین وقت پر کسی نا کسی وجہ سے ناکام ہو جاتا میرا دل ایک دم اس حویلی کی کمرے میں گھبرانے لگا میں فورا بستر سے اترا میرا ارادہ حویلی سے کچھ دیر کے لیئے دور جانے کا تھا
میں حویلی سے چلتا ہوا بہت دور نکل آیا جوں جوں حویلی سے دور جا رہا تھا ایک عجیب سا سکون دل میں اتر رہا تھا شام سے زرا پہلے کا ٹائم تھا ہوا چل رہی تھی میں یہاں کھل کے سانس لے سکتا تھا جبکہ حویلی میں تو ایک گھٹن سی محسوس ہوتی تھی ہر طرف اچانک مجھے احساس ہوا کہ جیسے کوئی میرے پیچھے آرہا ہے میں رک گیا اور مڑ کہ دیکھا تو مجھ سے کچھ فاصلے پر کیٹی تھی میرا غصہ آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگا مجھے جتنی گالیاں آتی تھیں میں نے دل ہی دل میں اسے دیں اگر میرا بس چلتا تو میں فوراً سے بھی پہلے اس کو جان سے ہی مار دیتا ہر وقت میری جاسوسی کرتی رہتی ہے میں نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا وہ عجیب سے انداز میں مجھے دیکھ رہی تھی جب کہ میری انکھوں میں اس وقت شدید غصہ تھا میں ایک قہر آلود نگاہ اس پہ ڈال کہ آگے بڑھ گیا مجھے پوری امید تھی کہ وہ میرے پیچھے ہی ہو گی اور واقعی میں ایسا ہوا تھا کچھ دور جا کہ میں نے مڑ کہ دیکھا تو وہ میرے پیچھے ہی چلی آرہی تھی
چلتے چلتے میں کافی آگے نکل گیا تھا، رات کا اندھیرا چھانے پر احساس ھوا کہ کافی وقت گزر گیا ھے، سو اب مجھے واپس اسی حویلی جانا تھا،
درختوں کے سرسراتے پتے عجیب ماحول پیدا کیے ھوئے تھے اچانک ھلکی سی سسکی میرے کانوں میں پڑی تو میں چونک پڑا اس حویلی میں آ کر چونکنا ھی میرے مقدر میں رھ گیا تھا شاید میں نے ارد گرد نگاہیں دوڑائیں۔ اندھیرا ھونے کے باعث مجھے دیکھنے میں تھوڑی دقت پیش آ رھی تھی وہ ایک خوبصورت لڑکی تھی، جو اپنا پاؤں پکڑے بیٹھی رو رھی تھی میں اس کے پاس گیا اور اندھیرے میں رات کے وقت باھر نکلنے کی وجہ پوچھی اس نے روتے ھوئے بتایا کہ اس کے ساتھ ایک حادثہ ھوا ھے، جس کی وجہ سے وہ اس وقت یہاں بے یار و مددگار بیٹھی ھے میں شش و پنج میں مبتلا ھو گیا کہ اس لڑکی کی مدد کروں یا اسے ایسے ھی چھوڑ جاؤں؟ پھر کچھ سوچ کر اسے اپنے ساتھ حویلی لے آیا وہ کافی زخمی تھی اس کی مرھم پٹی کرنے کے بعد اسے حویلی کے ھی ایک کمرے میں ٹھہرا دیا وہ اچھی شکل و صورت کی، گہری براوْن آنکھیں رکھنے والی پیاری سی لڑکی تھی
آئینہ؟ میں گہری سانس لے کر رہ گیا----اس لڑکی کی یاد بھی بے وقت ھی دل میں اتر آئی تھی
دادا جی ابھی تک واپس نھیں آئے تھے، تھکن سے نڈھال وجود لیئے میں اپنے بستر پر ایسا گرا کہ صبح ھی آنکھ کھلی۔۔۔۔۔۔ اگلی صبح میں منہ اندھیرے ھی جاکنگ کے لیے نکل گیا۔۔۔۔ روحا بھی میرے ساتھ تھی----سورج اپنی کرنیں بکھیرتا ھوا ، پوری آب و تاب سے نکل رھا تھا ھم دونوں ھی سنگی بنچ پر بیٹھ گئےروحا کے زخم اب بہت بہتر تھے اس نے ابھی تک اپنے بارے میں کچھ نھیں بتایا تھا اچانک وہ چونک پڑی یہ رنگ تمھارے پاس کہاں سے آئی؟ یہ تو اکثر آئینہ کے پاس ھوا کرتی تھی اس نے کہا تو میں حیران ھو گیا میں نے دیکھا کہ وہ انگوٹھی میری جیب سے نکل کر گر گئی تھی تم آئینہ حمزہ کو کیسے جانتی ھو؟ میں نے شک بھری نگاھوں سے اسے دیکھا بہت اچھی دوست ھوا کرتی تھی وہ میری اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور وہ دور فضاؤں میں اڑتے پرندوں کو گھورنے لگی
تم کیسے جانتے ھو اسے؟ اس نے گردن گھما کر میری طرف دیکھا---میں سوچ میں پڑ گیا آیا اس سے حویلی کے واقعات شیئر کروں یا نھیں کچھ سوچ کر میں نے اس سے اس کے بارے میں سب بتانے کو کہا وہ مان گئی اور رندھی آواز میں بولی
میں ایک یتیم اور بے سہارا لڑکی ھوں جب تک تایا زندہ تھے، تائی کا سلوک بہت اچھا تھا مرے ساتھ، پھر انکے بعد حالات برے ہوتے گئے آئینہ میری بہت اچھی دوست اور ھمراز ھوا کرتی تھی مگر حقیقت کی تلخ آندھی سب لے اڑی اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ھو گئے
ایک مرتبہ آئینہ مجھے اپنے گھر لے گئی ان دنوں اس کی حرکتیں کچھ پر اسرار سی تھیں وہیں اس کے بیڈ پر میں نے یہ رنگ دیکھی تو اسکی بابت پوچھا آئینہ ٹال گئی- زندگی میں پہلی بار میں نے اس کی آنکھوں سے خوف محسوس کیا تھا- اس دن کے بعد آیئنہ نے مجھ سے ملنا بہت کم کر دیا آج اچانک وہ میرے گھر آئی اور اپنے ساتھ چلنے کو کہا
تائی اماں نے آئینہ کے سامنے ہی مجھے خوب کوسا اور گھر سے نکال دیا
آئینہ نے میرے ساتھ دھوکہ کیا، وہ مجھے یہاں تنہا چھوڑ کر نجانے کہاں چلی گئی بھت تکلیف تھی اسکی آنکھوں میں
میں روحا کو بہت حیرت سے دیکھنے لگا اس لاچار لڑکی کے پاس رہنے ک لیئے کوئی ٹھکانا نہ تھا
میں نے اسے حویلی میں رہنے کی دعوت دی تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے میں نے اسے حویلی کے بارے میں سب بتانے کا فیصلہ کیا اور جیسے جیسے وہ سنتی جا رھی تھی اس کی آنکھوں میں خوف کے دریا اترتے چڑھتے جا رہے تھے
"آئینہ مر چکی ہے ؟ یہ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں۔ میں اپنی تائی کے مظالم کی وجہ سے نکل نہیں سکی لیکن آج تو میں آئینہ سے ملی ہوں. میں اس, بھوت حویلی میں نہیں رہ سکتی "
حیرت سے کہتے کہتے روحا بہت خوفزدہ ہو گئی تھی.
" آئینہ نے تمہیں تمہارے گھر سے نکال کر یہاں جنگل میں چھوڑ دیا, اگر تم کہیں اور بھی جاؤ تو وہ تمہارے پہچھے آسکتی ہے. بہتر ہے کہ تم یہاں ہمارے ساتھ ہو گی. "
میرا مقصد گو اسے خوفزدہ کرنا نہیں تھا لیکن جانے کیوں میں چاہتا تھا کہ اس, حویلی کے اسرار کھولنے میں, میں اکیلا نہ ہوں. شمائم کو رازدار بنانے کا مقصد بھی یہی تھا,. روحا تو پھر آئینہ کی دوست تھی وہ یقیناً میری مدد کر سکتی تھی.
روحا حویلی میں رہنے پر ہی راضی ہو گئی تھی. ویسے بھی جس طرح کل سے وہ غائب تھی اسکی تائی تو اسے اب گھر میں آنے نہ دیتیں, وہ جاتی بھی کہاں.
"آئینہ پر اس انگوٹھی کا بہت منفی اثر پڑا تھا, وہ بہت عجیب ہو گئی تھی لیکن پھر بھی وہ اسے چھوڑ نے پر راضی نہ تھی. ہمارے تعلقات خراب ہونے کی وجہ یہ انگوٹھی بھی تھی. میں نے کئی دفعہ آئینہ کو ایک بوڑھی عورت سے ملتے دیکھا, عام بزررگوں کے برعکس اس بڑھیا کے چہرے پر کوئی نور نہ تھا, بلکہ کہنا تو نہیں چاہئے لیکن اس کے چہرے پر عجیب کالا جادو کرنے والوں جیسی نحوست تھی "
روحا نے بتایا تو میں ایکدم بے تاب ہوا, شکر ہے آگے بڑھنے کا کوئی کلیو تو ملا, چاہے وہ بڑھیا میری کوئی مدد کرے یا نہ کرے لیکن پھر بھی کچھ تو پتہ چلے گا.
" کہاں ہوتی ہے وہ, اس کا گھر یا کوئی ٹھکانہ"
" نہیں, میں اسے پہچان سکتی ہوں لیکن اس کے بارے ميں کچھ نہیں جانتی "
روحا کے انکار نے میری امیدوں پر اوس گرا دی کہ اچانک مجھے خیال آیا, اس بارے ميں دادی ماں ضرور کچھ جانتی ہوں گی.
رات کو میں اپنے کمرے میں بیٹھا افس کا کام کر رہا تھا جب کسی نے زور زور سےدروازہ کھٹکھٹایا میں فوراً کام چھوڑ کر اٹھا اور دروازہ کھولا وہاں روحا تھی اس کا حلیہ دیکھ کر میں ششدر رہ گیا اس کے بال بکھرے ہوئے تھے اور چہرے پر دہشت چھائی ہوئی تھی مجھے دیکھ کر اس کے منہ سے بس اتنا نکلا ریان۔۔۔۔۔
کیا ہوا روحہ تم ٹھیک ہو میں نے اس سے پوچھا تو وہ رونے لگ گئی کیا ہوا کچھ تو بتاؤ ریان میرے کمرے میں کوئی ہے میں نے خود دیکھا وہ خوف سے کانپ رہی تھی آؤ میرے ساتھ میں دیکھتا ہوں ہم نے کمرے دروازہ کھولا تو کمرہ بلکل خالی تھا میں پیچھے مڑا تو میں نے کسی کو کمرے سے نکلتے ہوئے دیکھا
میں نے روحہ سے کہا تم اپنے کمرے کا لاک لگا لو اندر سے اور سنو کچھ بھی ہو دروازہ مت کھولنا
میرے کمرے سے نکلتے ہی اس نے فوراً دروازہ بند کر لیا میرا خیال تھا کہ مجھے حویلی کے پچھلے حصے کی طرف جانا چاہیے کیونکہ جب میں کمرے سے نکلا تھا تو وہ آدمی راہداری سے باہر نکل رہا تھا اور اس راہداری کا دروازہ حویلی کے لان میں کھلتا تھا جس کا مطلب صاف تھا کہ وہ باہر کی جانب گیا ہے میں فورا اس جانب بڑھا جب میں نے راہداری کے آخر میں جو دروازہ تھا اس کا ہینڈل گھمایا تو وہ بند تھا مجھے سخت حیرت ہوئی میرے سامنے ہی تو وہ آدمی باہر نکلا تھا میں نے زور لگایا تو دروازہ کھل گیا یوں لگ رہا تھا پہلے کسی نے دروازے کو پکڑ رکھا ہو اور اب اچانک چھوڑ دیا میں باہر نکلا باہر لان میں چاند کے باعث ہر طرف روشنی پھیلی ہوئی تھی میں چلتا ہوا حویلی کے پچھلے حصے کی طرف اگیا اچانک مجھے احساس ہوا کہ کوئی میرے پیچھے ہے میں فوراً مڑا مگر کوئی نہیں تھا میں نے اسے اپنا وہم جانا اور چلنے لگا کچھ دیر بعد مجھے پھر یہ وہم ہوا مگر جب مڑا تو کچھ نہیں تھا البتہ قدموں کی آواز آرہی تھی کچھ دیر بعد ایسی ہی آواز مجھے اپنے آگے بھی سنائی دینے لگی میرا دل کانپ رہا تھا مگر ان سب کے باوجود بھی میں چلتا رہا، پھر قدموں کی آواز میرے دائیں بائیں سے بھی آنے لگی یوں جیسے میں چاروں طرف سے گھیر لیا گیا ہوں میں نے رک کے چاروں طرف دیکھا مگر کوئی نظر نا آیا میں نے دل ہی دل میں آیت الکرسی اور سورت اخلاص پڑھنی شروع کر دی
میں حویلی کے پچھلے حصے میں پہنچ گیا تھا اب چاند کی روشنی میں ہر چیز واضح دکھائی دے رہی تھی میں اچانک چلتے چلتے رک گیا قدموں کی آواز آنا بھی فوراً بند ہو گئی میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اب کیا کروں کیونکہ یہاں ایسا کچھ نہیں تھا اندھیرے میں جھینگروں کی آواز کے علاوہ اور کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔۔۔۔میں نے چاروں طرف مڑ کے دیکھا کچھ بھی نہ تھا میرا ارادہ اب واپس جانے کا تھا میں جانے کے لیے مڑا مگر پھر رک گیا مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے پیچھے کچھ ہے میں نے اس سمت دیکھا ۔۔۔۔اپنے سے کچھ فاصلے پر مجھے دو جگہوں پر دیئے جلتے نظر آئے میں اہستہ آہستہ چلتا ہوا وہاں پہنچا قریب جا کر مجھے احساس ہوا کہ وہ تو دو قبریں تھیں جن پر دیئے جل رہے تھے یہ قبریں میں نے اس سے پہلے تو نہی دیکھیں تھیں میں نے ہاتھ بڑھا کر اپنے نزدیک والی قبر سے دیا اٹھا لیا وہ مٹی کا بنا ہوا چھوٹا سا دیا تھا اور کافی پرانا بھی لگ رہا تھا اس دیئے کی لو کو میں نے غور سے دیکھا تو مجھے مختلف قسم کے انسانوں کے چہرے نظر آئے میرے دل میں نہ جانے کیا خیال ایا کہ میں نے پھونک مار کے دیا بجھا دیا اور دیا بجھنے کی دیر تھی کہ ہر طرف چیخوں کی آواز سنائی دینے لگی حویلی میں جیسے زلزلہ آگیا چیخوں کی آوازیں اس قدر بلند تھیں کہ مجھے اپنے کانوں کے پردے پھٹتے ہوئے محسوس ہوئے دیا میرے ہاتھ سے گر گیا میں نے دونوں ہاتھ اپنے کانوں پہ رکھ لیئے درخت بھی زور زور سے ہلنے لگے ہوا اس قدر تیز ہو گئی کہ مجھے لگا کہ میں اڑ جاؤں گا ابھی ہوا میں آنکھوں میں چبھنے والی ریت بھی شامل تھی میں نے زور سے آنکھیں میچ لیں۔۔۔۔۔کچھ دیر بعد جب حالات کچھ پرسکون ہوئے تو میں نے ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھولیں۔۔۔میں دنگ رہ گیا میرے چاروں طرف عجیب و غریب چہروں والی مخلوق تھی انہوں نے مجھے گھیرا ہو تھا وہ سب مجھے قہر الود نگاہوں سے گھور رہے تھے مگر کوئی بھی میرے نزدیک نہیں آرہا تھا میں یہاں سے بھاگ بھی نہی سکتا تھا میں نے دل ہی دل میں خدا کو مدد کے لیے پکارا نہ جانے کیوں مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے آج میرا آخری دن ہو۔۔۔۔اور اگر میں مر گیا تو۔۔۔۔یہ حویلی سارے راز اپنے سینے میں ہی دبائے ہمیشہ آنے والوں لوگوں کو پریشان کرتی رہے گی نہ جانے اور کتنے بے موت مارے جائیں گے اور کتنوں کے خون سے یہ اپنے ہاتھ رنگے گی نہیں ایسا نہیں ہو سکتا کبھی بھی نہیں
میں کسی کو بے موت نہی مرنے دوں گا اور کیا پتا میرے مرنے کے بعد کوئی اور ریان اتنی طاقت نا رکھتا ہو کہ وہ اس حویلی کے سینے میں دفن رازوں کو کھوج پائے ہر کسی کے پاس میرے جیسی مستقل مزاجی نا ہو جو ایسے حالات سے ڈر کر بھاگنے کی بجائے ان کا سامنا کرنے کی ہمت رکھتا ہو
وہ تمام اب بھی مجھے گھور رہے تھے۔
میں نے کبھی بہت پہلے کسی سے سنا تھا کہ ایسی بد روحیں اور جنات آگ سے ڈرتے ہیں میں نے دل ہی دل میں آیت الکرسی کا ورد شروع کر دیا میری ہمت بڑھنے لگی تھی میں نے آگے بڑھ کے دوسری قبر پہ جلتا دیا پکڑ لیا تو اچانک ان سب نے چیخنا شروع کر دیا میں جوں ہی آگے بڑھا وہ سب چیختے ہوئے پیچھے ہٹنے لگے میرا راستہ صاف ہو رہا تھا۔
مجھے اس بات کا پتا چل گیا تھا کہ جب تک یہ دیا میرے ہاتھ میں ہے وہ میرا کچھ نہی بگاڑ سکتے اور اسی سوچ سے میرے اندر اور ہمت بڑھ گئی میں نےتب حویلی کے اندرونی حصے کی طرف بڑھنا شروع کر دیا وہ سب چیختے ہوئے میرے پیچھے آرہے تھے میں نے دیئے کو مضبوطی سے تھام رکھا تھا کیونکہ یہ دیا میری زندگی کی علامت تھا میں نے جوں ہی حویلی کےاندرونی حصے میں قدم رکھا تو وہ سب رک گئے میں نے فوراً دیا زمین پر پھینک دیا
دیا بجھنے کی دیر تھی حویلی میں جیسے پھر سے زلزلہ آگیا ہو وہ پوری حویلی چیخوں سے گونجنے لگی میں میں نے اندر داخل ہوتے ہی دروازہ بند کر لیا تھا
اچانک مجھے لگا جیسے سب کچھ پرسکون ہو رہا ہو
ریان کیا ہوا بیٹا مجھے اپنے قریب دادا جی کی آواز سنائی دی میں نے فوراً انکھیں کھولیں وہ میرے پاس کھڑے حیرانگی سے مجھے دیکھ رہے تھے کچھ نہیں دادا جی میں نے فورا اپنی حالت پر قابو پا لیا تو پھر سو جاؤ بہت رات ہو گئی ہے
جی دادا جی میں نے اثبات میں سر ہلایا تو وہ چلے گئے ان کے پیچھے ہی میں بھی اپنے کمرے میں آگیا
________
میں آفس سے نکلا تھا جب دادی اماں کا خیال آیا تھا اور میں نے گاڑی ان کے گھر کی طرف موڑ دی تھی اور وہ پہلا دن تھا جب ایفا حمزہ سے باضابطہ میرا سامنا ہوا تھا۔ میں اسے دیکھ کر چونکا تھا وہ ہو بہو آئینہ حمزہ سی تھی۔ میری نظریں اسے حیرت سے تکنے لگیں تھیں۔
اس نے نگاہ چُرا کر چہرے کا رخ پھیرا تھا اور مجھے اندر جانے کا راستہ دیا تھا۔ مجھے اس کی آنکھوں میں تیرتی ایک ہلکی سی شناسائ کی لکیر واضح دکھائ دی تھی۔ اور تبھی میں بولا تھا۔
"تم ایفا حمزہ ہو نا؟ اب جھوٹ مت کہنا کہ تم نہیں ہو۔ میں جانتا ہوں تم مجھے جانتی ہو۔" میں پر یقین لہجے میں کہتا ہوا اس کے سامنے رکا تھا۔ میرے لہجے میں اتنا بھرپور یقین تھا کہ وہ حیران رہ گئ تھی۔
"ہاں میں ایفا حمزہ ہوں لیکن آپ کون؟۔" وہ مجھ سے اجنبی بن جانا چاہتی تھی اور مجھے لگا تھا میں اس سے کئ بار ایفا حمزہ سے ملا تھا۔ تبھی میں پریقین لہجے میں بولا تھا۔
"تم ہو نا؟۔"
نہیں، میں نہیں ہوں!۔" وہ انکاری تھی۔
"تم ہی ہو!۔"
"میں آئینہ نہیں ہوں!"
"میں نے کب کہا کہ آئینہ ہو؟۔" میں محظوظ ہوا تھا۔
"میں ایفا حمزہ ہوں۔"
"اور تمہیں خبر کیسے ہوئ کہ میں آئینہ حمزہ کو جانتا ہوں؟۔" میں نے اسے پرسکون انداز میں مسکراتے ہوئے دیکھا تھا۔
"دادی اماں نے بتایا تھا کہ تم آئینہ کے دوست ہو اور۔۔"
"اور تم جانتی ہو میں کچھ عرصہ قبل یہاں آیا ہوں اور آئینہ چھ برس پہلے مر چکی ہے۔" میں نے اسے جتایا تھا۔
وہ خاموش ہوکر مجھے دیکھنے لگی تھی۔ اور تبھی میں نے یقین سے اسے دیکھا تھا۔
"پہلی بار مجھے تم کب ملیں تھیں؟ مجھے یاد نہیں مگر میں جانتا ہوں میں تم سے مل چکا ہوں۔ میں ہر بار آئینہ حمزہ سے نہیں ملا یہ بات اب میں سمجھ چکا ہوں مگر تم مجھے کہاں کہاں اور کب کب ملیں میں یہ بات تم سے سننا اور جاننا چاہتا ہوں۔ " میں نے پر یقینی سے پوچھتے ہوئے اسے جانچتی نظروں سے دیکھا تھا۔ اور بغور مجھے دیکھتے ہوئے پلٹی تھی اور جانے لگی تھی جب میں نے آگے بڑھ کر اس کی کلائ تھام لی تھی۔ اس کی کلائ حرارت سے پُر تھی جیسے میں اس کلائ کو پہلے بھی تھام چکا تھا۔ وہ حیرت سے مجھے دیکھنے لگی تھی۔
"تم مجھے مدد کرتی رہی ہو نا؟ وہ تم ہی ہو جس نے مجھ سے محبت کا اظہار کیا تھا؟ تم ہی میری راہبر بنی رہیں تھیں اب تک؟ اور تم ہی تھیں جس کا دل میرے لئے دھڑکتا رہا تھا؟ تبھی تم میرے آس پاس رہ کر مجھے ہمیشہ مصیبتوں سے نکالتی رہیں اور مجھے بچاتی رہیں؟۔" میں نے مکمل یقین سے کہتے ہوئے اسے دیکھا تھا۔ اس نے نفی میں سر ہلایا تھا اور اپنی کلائ میری گرفت سے آزاد کراتے ہوئے بولی تھی۔
"میں آپ سے کبھی نہیں ملی! میں آپ کو نہیں جانتی۔" کہنے کے ساتھ ہی وہ پلٹی تھی اور وہاں سے نکلتی چلی گئ تھی۔ اور میں حیران کھڑا اسے جاتا دیکھ رہا تھا جب مجھے دادی نے پکارا تھا۔
"تم یہاں؟۔" وہ مجھے وہاں دیکھ کر حیران ہوئیں تھیں۔ "تم کب آۓ؟۔"
"بس ابھی دادی اماں، یہ ایفا تھی نا؟" میں نے دور جاتی ایفا کی ذبردست اشارہ کیا تھا۔
دادی اماں نے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
"مجھے یقین ہے تم ایفا حمزہ سے پہلے کبھی نہیں ملے۔ بہرحال آؤ بیٹھو۔ " انھوں نے مجھے دیکھتے ہوئے صوفہ کو طرف اشارہ کیا تھا اور میں آرام سے بیٹھ گیا تھا۔
"دادی اماں آپ یقیناً جانتی ہیں کہ آئینہ حمزہ مجھ سے کیوں ملی؟ مجھے جانے کیوں لگتا ہی کہ آپ اس گتھی کو سلجھا سکتی ہیں، جیسے کوئ نہ کوئ سرا آپ کے ہاتھ ضرور ہے۔" میں نے واضح انداز میں کہہ کر شک کی کوئ صورت باقی نہیں رکھی تھی۔ اور لمحہ بھر کو وہ خاموشی سے دیکھنے لگیں تھیں پھر گویا ہوئ تھیں۔
"میں نہیں جانتی آئینہ حمزہ تم سے کیوں ملی یا ملنے کے لئے تمہیں کیوں چنا۔ مگر میں بتا چکی ہوں آئینہ حمزہ منفی طاقتوں کا منبع تھی اور کسی جادو گرنی سے ملنے اکثر وہ جاتی تھی۔ آئینہ کی بلی جس کا نام پُرکی
تھا وہ بھی بہت عجیب تھی۔ پہلے میں نے پُرکی کا نوٹس نہیں لیا تھا۔ وہ کئ سالوں سے آئینہ کے ساتھ تھی۔ بچپن میں وہ پُرکی کو کہیں سے اٹھا لائ تھی۔ مجھے یا اس کے والدین کو بلیاں بالکل پسند نہیں تھیں مگر آئینہ کی اس سے انسیت دیکھ کر ہم نے پُرکی کو گھر میں ٹھہرانے کی اجازت دے دی تھی۔
مگر میں نے غور کیا تھا اکثر آئینہ پُرکی سے باتیں کرتی پائ گئ تھی اور پُرکی کئ مختلف آوازوں میں اس کی بات کا جواب دیتی تھی۔
جیسے کئ لوگ باری باری باتیں کرتے ہیں۔
مجھے تشویش ہوئ تھی میں نے جانا تھا کہ وہ پُرکی کوئ معمولی بلی نہیں تھی۔ شاید اس میں ایک سے زیادہ جنات یا بد روحیں تھیں۔ اور تب میں نے اس پُرکی کو گھر سے نکال دیا تھا۔ مگر پُرکی کے گھر سے جاتے ہی میرے بیٹے اور بہو ایک ایکسیڈنٹ میں مارے گئے تھے پھر آئینہ حمزہ کی ایک قریبی دوست روحا بھی اچانک ٹیرس سے گر کر چل بسی تھی اور اس کے بعد آئینہ بھی ایک کار ایکسیڈنٹ میں انتقال کر گئ تھی۔
"روحا مر چکی ھے؟" میں یکدم چونکا تھا۔
یا اللہ یہ کیا ہو رہا تھا۔
روحا آئینہ حمزہ کی دوست تھی تو مجھ سے کیوں ملی تھی؟ میں نے دادی پر روحا کی حقیقت عیاں کئے بنا ان کی بات سننا جاری رکھی تھی۔
"روحا جان گئ تھی کہ پُرکی میں بہت سے جنات یا بدروحیں ہیں اور روحا کو یہ بات بھی معلوم ہو چکی تھی کہ آئینہ کسی witch یا جادو گرنی سے ملتی تھی۔ روحا آئینہ کو اس سب میں الجھنے سے باز رکھتی تھی یہ بات وہ جادو گرنی جان گئ تھی سو ایک دن اس Witch نے روحا کو ٹیرس سے گرا کر مار دیا۔
جس رات روحا کی موت واقع ہونا تھے پُرکی بہت خوش اور پرسکون تھی اور اسی شام جب میں چھت پر کسی کام سے گئ تھی میں نے پُرکی جو خوشی سے رقصں کرتے خود دیکھا تھا اور اس سے اگلے دن خبر آئ تھی کی روحا انتقال کر گئ۔ پھر جب آئینہ کے ممی ڈیڈی کا ایکسیڈنٹ ہونا تھا اس شام بھی وہ بلی سامنے سڑک پر شب بھر رقص کرتی رہی تھی۔ اور جب آئینہ کی موت واقع ہونا تھی اس شب بھی اس بلی کو میں نے گھر کے سامنے شب کے پچھلے پہر خوشی سے رقص کرتے دیکھا تھا۔ میں نہیں جانتی اس بلی کا کیا سلسلہ ہمارے خاندان سے جڑا تھا جو اس نے ہمارے گھر کے تین لوگوں کی جان لی، لیکن میں نے اسی لئے ایفا حمزہ کو یہاں سے دور بجھوا دیا تھا۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ روحا، میرے بیٹے اور بہو اور آئینہ کے بعد اب اور کسی کو یہاں اس گھر میں کوئ نقصان ہو۔
میں نے سنا تھا اس منحوس بلی نے اس کے بعد کسی پرانی حویلی میں قیام کر لیا تھا۔ کسی نے بتایا تھا حویلی کے مالک کو بلی بارش میں بھیگتی ہوئ ملی تھی اور اس پر ترس کھا کر اٹھا کر اسے گھر لے گیا تھا۔ میں نے سنا ہے برائ کی طاقتیں کبھی مرتی نہیں بس جگہ بدلتی ہیں سو ہو سکتا ہے اس کالی بلی پُرکی کے اس پرانی حویلی کے قیام سے وہاں ایسے واقعات ہو رہے ہوں اور پرکی چونکہ آئینہ حمزہ سے منسلک تھی سو شاید اسی باعث آئینہ اسی پرانی حویلی کے کہیں آس پاس بھٹک رہی ہو وہ تم سے ملی ہو۔ ایسی روحیں جن کی طبعی موت واقع نہیں ہوتی وہ اکثر بھٹکتی رہتی ہیں۔" دادی اماں کے بتانے پر میں نے لمحہ بھر کو خاموشی سے انھیں دیکھا تھا اور بولا تھا۔
"دادی اماں، شاید آپ کو سن کر حیرت ہو میں روحا سے بھی ملا ہوں وہاں وہ حویلی کے آس پاس ملی تھی اور میں نے اسے حویلی کے ایک کمرے میں ٹھہرایا تھا۔ مگر اسے آئینہ حمزہ کی موت کے بارے میں کچھ پتہ نہیں تھا۔" بات کرتے ہوئے میرے اندر سنسی سی دوڑ رہی تھی اور رونگٹے کھڑے ہو رہے تھے۔ جیسے ان بری طاقتوں کو خبر ھے کہ ہم ان کی بات یہاں کر رہے ہیں۔ میری رگوں میں خوف کی واضح لہر محسوس ہوئ تھی۔ میری نسوں میں جیسے خون منجمد ہونے لگا تھا۔
یکدم تیز ہوا چلنے لگی تھی اور گھر کا بھاری سامان اڑنے لگا تھا اور یہاں سے وہاں چمگاڈریں اڑنے لگیں تھیں۔ میں اور دادی اماں حیران رہ گئے تھے۔ یکدم ایفا حمزہ وہاں آئ تھی اس نے میرا اور دادی کا ہاتھ تھاما تھا اور لے کر تیزی سے چلتی ہوئ گھر سے باہر نکلی تھی۔ دادی اماں بلند آواز میں آیت الکرسی پڑھنے لگی تھیں۔ ماحول یکدم پرسکون ہو گیا تھا۔
ایفا حمزہ نے میری سمت دیکھے بنا میرا ہاتھ چھوڑ دیا تھا۔ اور میں اس کی سمت دیکھنے لگا تھا۔
اس نے بنا میری طرف دیکھے دادی اماں کا ہاتھ تھاما تھا اور چلتی ہوئ گھر کے اندر واپس چلی گئ تھی۔ میں حیرت میں وہیں کھڑا دیکھتا رہ گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ پہلی دفعہ نہیں تھا کہ ایفا نے میری مدد کی.میں یہاں دادی ماں سے مدد لینے آیا لیکن مزید الجھ گیا, روحا بھی ایک روح تھی تو آخر وہ مجھ سے کیا چاہتی تھی؟ کیوں ملی تھی مجھے ؟
کوئی سرا ہاتھ نہ آتا تھا. ایفا اور دادی کے گھر جانے کے بعد میں حویلی کی طرف چل دیا
تو گویا وہ ایفا حمزہ ہی تھی جو مجھے ہمیشہ ان بری طاقتوں سے بچاتی آرہی تھی ۔
تو اسکا مطلب ایفا حمزہ بھی مجھے چاہتی ہے لیکن پھر وہ اتنی خاموش کیوں تھی؟ ۔
میں واپس حویلی جانے کی بجائے پارک میں چلا گیا تھا اور ایک سنگل بینچ پہ بیٹھا ایفا حمزہ کے بارے میں سوچ رہا تھا ۔ جب ایک بوڑھی عورت میرے قریب آکر بیٹھی وہ بڑے بڑے سانس لے رہی تھی اور بری طرح سے ہانپ رہی تھی ۔ میں نے تھوڑا سا غور کیا تو اس نے نیچے زمین پر اپنے پائوں کے پاس ایک بڑا سا تھیلا رکھا ہوا تھا ۔ شاید اس تھیلے کے بوجھ نے اسے اس قدر تھکا دیا تھا ۔ یقیناً اس میں گروسری کا سامان تھا ۔ اس نے اپنا پسینہ پونچھا اور پھر سے کھڑے ہو کر تھیلا اٹھانے لگی تھی اسکی مشکل کو دیکھتے ہوئے مجھ سے رہا نہیں گیا تھا .
"کہاں جانا ہے آپ کو ؟؟ میں آپکی ہیلپ کر سکتا ہوں" ۔ میں نے جھکتے ہوئے اسکا تھیلا اٹھا لیا تھا ۔
وہ ایک نگاہ مجھ پہ ڈال کر آگے بڑھ گئ تھی ۔ اسکا انداز ناقابل فہم تھا ۔ تا ہم میں وہ تھیلا اٹھا کر اسکے پیچھے ہی چل دیا تھا ۔
ہم پارک سے کافی دور ایک ویرانے میں آگئے تھے ۔ ارد گرد سناٹا تھا ۔ میں حیران تھا کہ یہ بوڑھی عورت مجھے کہاں لے آئ تھی میں اسے مخاطب کرنے ہی والا تھا کہ یکایک وہ پلٹی اور اسکی صورت دیکھ کہ میں بے اختیار پیچھے پلٹا تھا روحا ؟؟
اور وہ بوڑھی عورت ؟.؟ مجھے سمجھنے میں دیر نہیں لگی تھی ۔
"تم کیا چاہتی ہو ؟؟ مجھے یہاں کیوں لائ ہو .. ؟؟" مجھے ذرا خوف محسوس نہیں ہوا تھا ۔
وہ دائیں طرف بڑھنے لگی تھی جہاں ایک بوسیدہ سا کھنڈر نما گھر تھا ۔ جسے دیکھ کر میں حیران رہ گیا تھا ۔ مجھے اچھی طرح یاد تھا ابھی چند ثانیے پہلے ارد گرد صرف ویرانہ تھا ۔ یہ سب دیکھ کر مجھے بھاگ جانا چاہئے تھا۔ لیکن جانے کس بات نے مجھے اتنا نڈر کر دیا تھا ۔ میں جانتا تھا کہ روحا اب زندہ نہیں ہے اسکو بھی انہیں بد روحوں نے مارا تھا۔ تو پھر اب کہیں
Post a Comment (0)
Previous Post Next Post