قسط نمبر 10
از قلم
عشنا کوثر سردار اینڈ ٹیم
میں بالائی کمروں کی پر اسرایت، دادا جی، ان کی بلی سے Attachment
اور آئینہ کے بارے میں سوچتا ہوا الجھنے لگا تھا۔ سب بہت گنجل ہو رہا تھا اور میں سرا سلجھانے کے چکر میں خود بھی الجھتا جا رہا تھا۔
میں نے یکدم دادی اماں سے ملنے کی ٹھانی تھی۔ میں گاڑی میں بیٹھا تھا اور بے دھیانی سے گاڑی آگے بڑھا دی تھی راستہ جانے کیوں بہت طویل ہو گیا تھا یا میرا وہم تھا؟ میں ڈرائیو کرتے کرتے تھکنے لگا تھا اور دادی اماں کا گھر آ کر نہیں دے رہا تھا، راستوں پر غور کیا تھا، ہر راستہ وہی تھا مگر آج راستے جیسے پھیل گئے یا مجھے لگ رہا تھا؟ میرا دماغ ماؤف ہو رہا تھا اور میں نے تھک کر یکدم گاڑی روکی تھی اور مجھے شدید حیرت نے گھیر لیا تھا میں دوبارہ حویلی کے باہر تھا جہاں سے کچھ لمحوں گاڑی نکال کر لے گیا تھا۔ یہ کیسے ہوا تھا؟ میں اتنی دیر دادی اماں کی طرف جانے کے لیئے ڈرائیو کرتا تھا اور جیسے وقت گذرا تھا، سفر بھی کیا تھا مگر گاڑی روکی تھی تو مقام وہی تھا۔
مجھے حیرت نہیں ہوئی تھی، میرا ذہنی توازن ٹھیک تھا اور اعصاب مضبوط تھے۔
میں بھلکڑ بھی نہیں تھا۔ میں نے وہ سفر کیا تھا مگر کوئی نہیں چاہتا تھا میں دادی اماں سے ملوں۔ اور یہ میرا وہم نہیں تھا۔
میں اطمینان سے گاڑی سے اترا تھا۔ جب یکدم مجھے کسی نا معلوم طاقت نے پکڑ کر گرایا تھا اور میں زمین پر گھسیٹا جانے لگا تھا۔ یہ سب اتنا اچانک ہوا تھا کہ مجھے سوچنے سمجھنے کا وقت ہی نہیں ملا تھا۔ میرا وجود کوئی ان دیکھی طاقت جانے جہاں کھینچے لے جا رہی تھی۔ میں حواس باختہ سا تھا۔ مجھے یہاں وہاں کا کچھ ہوش نہ رہا تھا۔
میرا وجود ان بالائی بند کمروں کے پیچھے جا کر لمحہ بھر کو رکا تھا اور کسی ان دیکھی طاقت نے مجھے زمین سے پنجے نکال کر کسی آکٹوپس کی مانند جکڑنا شروع کر دیا تھا۔ اچانک ایک ہاتھ میری گردن کی پیچھے سے نکلا تھا جس نے میری گردن کو دبوچ لیا تھا اور انتہائی قبیبح غلاظت سے بھرا مکروہ مسخ چہرہ میرے سینے پر یکدم نمودار ہوا تھا۔ میں نے ہاتھ پاؤں مارے تھے مگر بے کار تھا جیسے۔ میں نے آنکھیں بند کر لیں تھیں تبھی آئینہ کا چہرہ دکھائی دیا تھا۔ وہ کچھ کہہ رہی تھی مجھے سنائی نہیں دے رہا تھا۔ وہ چیخ رہی تھی۔ اس کی نگاہوں میں خوف تھا اور جیسے مجھے اس عفریت سے بچانا چاہتی تھی وہ چیخ چیخ کر کچھ کہہ رہی تھی مگر جیسے میری سماعتیں مفلوج ہو گئی تھیں۔ میرا وجود ٹوٹ رہا تھا جیسے اور میری ہڈیاں جیسے چٹخ رہی تھیں۔ بند آنکھوں سے میں نے آئینہ کے پیچھے اماں کو کھڑے پایا تھا اور اماں آیت الکرسی پڑھتے واضح سنائی دیں تھیں، اماں کی وہ آواز میرے کانوں میں پڑی تھی اور میں جیسے لمحے میں اس عفریت کے پنجے سے باہر آیا تھا۔ میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا تھا میں کھلے آسماں کے نیچے لیٹا تھا۔ اور آس پاس کوئی نہ تھا میں ہمت کر کے اٹھا تھا جب مجھے آئینہ دکھا ئی دی تھی۔
وہ دور کھڑی میری طرف دیکھ رہی تھی۔ میرے اس کی طرف دیکھنے پر وہ آہستگی سے چلتی ہوئی میرے پاس آئی تھی۔ بہت قریب رک کی مجھے بغور دیکھا تھا پھر میرے چہرے کی کسی خراش کو اپنا ملائم ہاتھ رکھ کر نرمی سے چھوا تھا۔ مجھے اس سے کوئی خوف محسوس نہیں ہوا تھا۔ اس کی قربت، اس کا لمس جیسے عجیب راحت دے رہا تھا جب وہ دھیمے لہجے میں بولی تھی۔
"ریان، یہ دنیا ٹھیک نہیں، اس کے بارے میں سوچنا، کوئی تجسس رکھنا روا نہیں۔ میرا دل چاہتا ہے میں تمہارا ہاتھ تھاموں اور کسی اور دنیا میں لے جاؤں مگر تم ماننے کو تیار نہیں!
مجھ پر اعتبار نہیں کرتے یا محبت نہیں کرتے؟ محبت کرتے تو یقین کرتے نا؟۔" اس کی آنکھوں میں بے نام اداسی تھی۔ وہ افسردہ دکھائی دی تھی۔ اس کا لہجہ نرمی سے بھرا تھا اور اس کی آنکھیں جیسے شفاف آئینہ تھیں۔
"ایفا؟۔" میں نے بلا ارادہ اسے پکارا تھا۔
وہ حیران نہیں ہوئی تھی۔ چونکی نہیں تھی۔
"کہا تھا نا محبت کرتی ہوں تم سے؟ محبت راہنمائی کرتی ہے ریان الحق۔ میری محبت سمتوں کا تعین کرنے کو تیار ہے اگر تم ساتھ چلوں تو۔" اس کی مدھم سرگوشی میں کیسا بھید تھا میں ساکت سا اسے دیکھ رہا تھا۔ میں اسے یک ٹک دیکھ رہا تھا جب اس نے میری آنکھوں پر ہاتھ رکھا تھا اور اپنا چہرہ میری سماعتوں کے قریب کرتے ہوئے مدھم سرگوشی کی تھی۔
"محبت بند آنکھوں سے دیکھتی ہے ریان الحق، بن سنی آوازوں میں بازگشت تلاشتی ہے، ان کہی کو سنتی ہے اور ان کہی تم سمجھتے نہیں۔" اس کے لہجے میں شکوہ تھا۔ اس کے لہجے کی مٹھاس میری سماعتوں میں رس گھول رہی تھی، اس کی سانسوں کی مہک سے جیسے ساری فضا معطر تھی۔
میں نے آنکھوں سے اس کا ہاتھ ہٹایا تھا اور تبھی میں حیرت سے اسے دیکھتا رہ گیا تھا۔ اس کی آنکھیں سرخ ہونے لگیں تھیں اور ان لبوں کی ملائم مسکراہٹ سختی میں بدلنے لگی تھی وہ چیخی تھی اور اس کی چیخ میں اتنی طاقت تھی کہ میں فضاؤں میں اڑتا ہوا جانے کب دھم سے اپنے بیڈ پر آن گرا تھا۔
میرا جسم درد سے دکھنے لگا تھا۔ کچھ دیر تک میں نے عجب بدحواسی میں آنکھیں کھول کر کمرے کی چھت کو گھورا تھا پھر میری آنکھیں بند ہوتی چلی گئی تھیں۔
اتنا تو میں جانتا تھا کہ کوئی مسلسل مجھے حقیقت تک پہنچنے سے روک رہا تھا۔ اور کون تھا؟ دادا جی؟
ان کی بلی؟
آئینہ حمزہ؟ یا ایفا حمزہ؟
کون تھا؟ ان میں سے کوئی تو تھا۔ میں آئینہ حمزہ سے کل شب مل کر حیران نہیں ہوا تھا اور وہ کوئی خواب بھی یقیناً نہیں تھا۔
وہ بھیانک حقیقت تھی۔ تو کیا ایفا حمزہ اور اس کی دادی اماں بھی اس سب کا حصہ تھیں؟
میں بہت مثبت سوچنا چاہتا تھا مگر جانے کیوں میں ایفا حمزہ کی سچائی سمجھ نہیں پا رہا تھا۔
جاب کے بعد میں خود کو ریلکس کرنے کی غرض سے دریا کنارے آیا تھا۔ ڈوبتے آفتاب کے کئی رنگ پانی پر اپنا عکس بنا رہے تھے میں بے دھیانی میں چلتا ہوا دریا کے پاس پہنچا تھا جب یکدم دریا کی طغیانی بڑھنے لگی تھی۔ میں پیچھے نہیں ہٹا تھا اور تب آئینہ حمزہ نے یکدم آکر میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے وہاں سے کھینچ کر دور کر دیا تھا۔
میں اس کی طرف دیکھ کر مسکرایا تھا۔
"مجھے یقین تھا تم یہاں آؤ گی مگر میں ایک بات سمجھ نہیں پا رہا۔ تم میری خیرخواہ ہو یا کوئی دشمن؟ آج بتا دو۔ مجھے بچانا چاہتی ہو یا مارنا؟ آئینہ حمزہ!۔" میں نے اسے قدرے غصے سے دیکھا تھا۔
"میں تمہاری دشمن نہیں ہوں۔ دوست ہوں۔" وہ نرم لہجے میں بولی تھی۔ اور میں مسکرا دیا تھا۔
"کیسی خیر خواہ ہو؟ اچانک مجھے اٹھا کر کبھی ہوا میں معلق کر دیتی ہو اور کبھی دھڑام سے زمین پر گرا دیتی ہو۔ ایک لمحے میں میری خیر خواہ بنتی ہو، چاہتی ہو میں زمین سے تیس فٹ اوپر کی فضا میں تازہ آکسیجن کے مزے لوں اور کبھی تم چاہتی ہو میں سپر مین بن کر ہواؤں میں اڑنے لگوں اور کبھی تم مجھے میری اوقات میں لانے کو زمین زادہ بنا کر زمین کی طرف گرا دیتی ہو۔ مجھے تو سمجھ نہیں آتا تم کون ہو اور چاہتی کیا ہو؟ اب بتاؤ مجھے ہواؤں کی سیر کرانے آئی ہو یا چاہتی ہو میں زمیں پر ریگنے لگوں؟ ۔" میں نے طنز کیا تھا مگر وہ کچھ نہیں بولی تھی۔
تب میں نے گہری سانس لے کر اسے دیکھا تھا۔
"Look Ayiena Humza I'm not insane nor I'm an idiot so kindly refrain from playing such games with me, I know you ain't a ghost nor a bad spirit neither everything you are doing is a paranormal activity. I know you are alive. But I don't understand damn it why me? Why have you chosen me for such games?"
میں نے غصے سے اسے شانوں سے تھام کر جھنجھوڑا تھا۔ مگر اس نے میرے ہاتھ اپنے شانوں سے آہستگی سے ہٹائے تھے۔ اور پرسکون انداز میں چلتی ہوئی آگے بڑھنے لگی تھی۔ میں نے سرعت سے اس کا پیچھا کیا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگا تھا۔
"تم ایفا حمزہ ہونا؟۔" میں نے وثوق سے کہا تھا۔ مگر اس نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔
"تم آئینہ حمزہ نہیں ہو، میں جانتا ہوں ۔" میں نے یقین سے کہتے ہوئے اسے دیکھا تھا۔ تب میں نے الجھن سے اسے دیکھا تھا۔
"تم آئینہ حمزہ ہو؟ مگر تم مجھ سے محبت کیسے کر سکتی ہو؟ تم مر چکی ہو اور ۔۔"
"کیوں کیا مرے ہوئے لوگ محبت نہیں کرتے؟ ۔" اس نے تیزی سے میری بات کاٹ کر کہا تھا اور میں حیران رک گیا تھا۔
"کیا تم واقعئ آئینہ ہو؟ لیکن تم مجھ سے محبت کرتی ہو تو مجھ پر اتنا قہر کیوں برساتی ہو؟ سنو میں اس زمین آسمان کے سفر سے تنگ آ چکا ہوں اب چاہے تم مجھے سپر مین بناؤ یا تازہ آکسیجن لینے کو زمین سے تیس فٹ اوپر فضا میں معلق کر دو۔ میں تم سے نہیں ڈروں گا۔ تم جو کوئی بھی ہو مجھے تمہارے ہونے یا نا ہونے سے کوئی فرق نہیں ہوتا۔ " میں نے کہا تھا اور اسے حیرت میں مبتلا چھوڑ کر گاڑی میں بیٹھا تھا اور وہاں سے چلا آیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حویلی پہنچا تو ابھی تک آئینہ کا معصوم چہرہ نگاہوں میں گھوم رہا تھا. مگر شاید وہ ایفا تھی. بہر حال اس کا خیال ذہن سے جھٹک کر اپنے کمرے کی طرف بڑھنے لگا، پھر کچھ سوچ کر دادا جی کے کمرے کی طرف بڑھ گیا. میں اس وقت دیکھنا چاہتا تھا کہ دادا جی کے تاثرات کیا ھیں. وہ اپنے کمرے میں، کھڑکی کے پاس کھڑے کسی کتاب کا مطالعہ کر رہے تھے. وہ میری آمد سے بے خبر تھے. میں خاموشی سے ان کے پیچھے جا کھڑا ھوا اور ان کی کتاب پر نگاھیں دوڑانے لگا. وہ ایک پرانی کتاب تھی اور اس میں حیرانگی والی کوۂی بات نہ تھی مگر جس بات نے مجھے چونکا دیا وہ اس پر بنے نقش و نگار تھے. "میں نے ایسے نقش و نگار کہاں دیکھے ھیں" میں نے ھم کلامی کی. اور میں اچھل پڑا. انگوٹھی اور اس کتاب پر بنے نقش و نگار ایک سے تھے. دادا جی میری طرف متوجہ ہوئے تو وھی بھیانک چہرہ مجھے گھور رھا تھا.
" کیا ہوا ریان الحق بیٹا کوئ کام تھا ؟ "
دادا جی کی آواز پہ میں ایکدم چونکا تھا دادا جی تو باہر سے آرہے تھے پھر پلٹ کر کھڑکی کی طرف دیکھا تو وہاں کوئی نہ تھا آخر یہ کیا ہو رہا تھا کیا اصلیت ہے دادا جی کی ۔ کون ہیں دادا جی اماں نے تو ہمیشہ انکے کردار اخلاق اور شخصیت کی تعریف کی تھی تو پھر یہ شخص کون ہے ؟ میں خود ہی اپنے سوالوں میں الجھتا چلا جا رہا تھا ۔
" کہاں کھو گئے ہو ریان کوئی پریشانی ہے ؟ "
دادا جی اپنائیت سے کہتے میری جانب بڑھے تھے ۔
"نن نہیں دادا جی میں تو بس آپ سے گپ شپ لگانے کی نیت سے آیا تھا ۔" میں نے فوراً اپنی گھبراہٹ پہ قابو پاتے ہوئے کہا تھا حقیقتاً اب مجھے دادا جی سے بھی خوف محسوس ہوتا تھا ۔ میں حتی لامکان کوشش کرتا تھا کہ دادا جی سے زیادہ سامنا نہ ہو ۔
"شکر ہے تمہیں بھی میرا خیال آ ہی گیا ۔ کافی دن گزر چکے تم سے فرصت سے بات کئے ہوئے ۔ آؤ بیٹھو" ان کے شکوہ بھرے انداز پہ میں ان کی طرف دیکھ کر رہ گیا تھا ۔ کتنے شفیق لگ رہے تھے وہ اس پل کہیں کو بناوٹ نظر نہیں آرہی تھی کیا حقیقت تھی میں سمجھنے سے قاصر تھا ۔
میں بھی ان کے ساتھ جا کر بیٹھ گیا تھا کچھ دیر ان سے باتیں کرنے کے بعد اب مجھے ان سے ذرا سا بھی خوف محسوس نہیں ہورہا تھا۔ وہ اپنا ماضی بتاتے ہوئے ایک مہربان و شفیق ہستی لگ رہے تھے جو عمر کے اس حصےمیں تھوڑی سی توجہ ملنے سے بھی کھل سے جاتے ہیں ۔
میں نے انہیں پرکھنے کے لئے چند ایک باتیں اماں کی بارے میں بھی پوچھیں تھیں اور انہوں نے بلکل صحیح جواب دیا تھا تو وہ جو میرا ان پہ شبہ تھا کہ یہ دادا جی نہیں بلکہ انکی جگہ کوئی بہروپیا ہے وہ بھی جاتا رہا تھا۔
" دادا جی مجھے ایسا لگتا ہے کہ اس حویلی میں کئی اسرار پوشیدہ ہیں یا آسیب وغیرہ کا چکر ہے ۔کچھ ہے جو مسلسل مجھے پریشان کر رہا ہے میں جب سے یہاں آیا ہوں ایک رات بھی سکون سے نہیں گزار سکا ہوں ۔ "
اپنی بات پوری کر کے جب میں نے دادا جی کی طرف دیکھا تو ایکدم خوفزدہ ہوگیا تھا دادا جی کے چہرے چٹانوں سی سختی تھی طیش و غضب سے ان کی آنکھیں لال سرخ ہوچکی تھیں ۔
"تم کیسے کہ سکتے ہو ایسا۔ ؟؟ میں اتنے سالوں سے یہاں ہوں میں نے نہ کبھی کچھ ایسا دیکھا نا محسوس کیا ۔"
انہوں نے نہایت کڑک لہجے میں کہا تھا ۔
میں ابھی کچھ کہنے کی کوشش کر ہی رہا تھا جب وہ دوبارہ گویا ہوئے .
"تمہاری ماں نے تو کہا تھا کہ جب تک تمہاری پوسٹنگ یہاں ہے تم میرے ساتھ ہی رہوگے لیکن لگتا ہے تمہیں اس بوڑھے آدمی کا ساتھ پسند نہیں آرہا" ۔ انہوں نے بھیگے لہجے میں کہا تھا ان کے چہرے کے تاثرات بھی قدرے نرم پڑ چکے تھے ۔
میں نے انتہائ شرمندگی محسوس کی تھی ۔ مجھے ان سے یہ ذکر نہیں کرنا چاہئے تھا اماں نے بتایا بھی تھا کہ حویلی انہیں کس قدر عزیز ہے ۔
"نہیں دادا جی ایسا کچھ نہیں ہے اور آپ ان سب باتوں کو ذہن سے نکال دیں ہو سکتا ہے میرا وہم ہو۔ " میں نے انہیں تسلی دے کر اپنے کمرے میں جانے کی جازت چاہی تھی ۔
اور اپنے کمرے میں جا کر میں بلکل حیران رہ گیا تھا ۔
ایفا حمزہ ... ؟؟ اس وقت یہاں ( میں نے از خود یہ نتیجہ اخذ کر لیا تھا کہ میری ملاقات جس سے ہوتی ہے وہ ایفا حمزہ ہے کیوں کہ آئینہ تو چھ سال پہلےاس دنیا سے جاچکی تھی )۔
ایفا بیڈ پہ بیٹھی بڑے ریلکس سے انداز میں کیٹی سے راز و نیاز میں مصروف تھی ۔
"تم اس وقت یہاں! ابھی دن ہی میں تو میں جواب دے کر آیا ہوں پھر کیوں آئ ہو ۔ " ؟
مجھے یکدم اس پر بے تحاشہ غصہ آیا تھا ۔ مجھے دیکھ کر وہ بے اختیار کھڑی ہوگئی تھی اور کیٹی بھی باہر چلی گئی تھی ۔
اس نے میری بات کا کوئی جواب نہیں دیاتھا تھا۔ اور مبہم سا مسکراتے ہوئے میرے قریب آگئی تھی پھر وہ میز کے قریب گئی اور جگ سے گلاس میں پانی انڈیلنے لگی تھی ۔
"تمہیں میری بات سمجھ نہیں آرہی کیا ؟؟" میں نے سرعت سے آگے بڑھ کر اسکا بازو دبوچتے ہوئے اسکا رخ اپنی جانب موڑا تھا ۔
اور جواباً وہ کھلکھلا کر ہنسنے لگی تھی
تو میں نے اچنبھے سے اسکی طرف دیکھا ۔
"تم غلطی پر ہو ریان الحق میں آئینہ حمزہ ہوں ۔ "
اس نے اپنی ہنسی کے درمیان میں کہا تھا۔
مجھے اس کی مسلسل ہنسی سے خوف محسوس ہوا تھا اور میں اسکا بازو چھوڑ کے دو قدم پیچھے کی طرف پلٹا تھا ۔ ٹھیک اسی وقت میری نظر سامنے سنگھار میز کے شیشے پر پڑی جہاں صرف میرا عکس تھا ۔ اور میرے سامنے کھڑی آئینہ شیشے میں کہیں بھی نہیں تھی میرے پورے جسم میں خوف کی شدید لہر دوڑی تھی ۔اور میں نے تیزی سے پیچھے کی طرف قدم بڑھائے تھے۔ میں نے جوں ہی دروازہ کھولنے کے لئے ہاتھ بڑھایا۔ میرے دروازے کی طرف بڑھتے ہاتھ پر کسی نے اپنا ہاتھ رکھ دیا تھا خوف سے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے تھے وہ نہایت مکروہ صورت کی کوئی بلا تھی اسکی گرفت انتہائی سخت تھی مجھے اپنے بچاؤ کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی ۔ اس بد صورت بلا کی مکروہ ہنسی میری سماعتوں کو مفلوج کر رہی تھی اس نے ہنستے ہوئے مجھے زور سے دھکا دیا تھا ۔ میری آنکھوں کے سامنے بلارادہ آئینہ کا چہرا ابھرا تھا اور میں اڑتے ہوئے میز کے سرے سے جا لگا تھا ۔۔
مجھے ہوش آیا تو دادا جی اور کرم دین کو اپنے کمرے میں ہی موجود پایا ۔ میرے سر پر کافی گہری چوٹ آئی تھی ۔
" تم گر کیسے گئے ریان حد ہے لاپرواہی کی ۔ یہ تو شکر ہے کہ کرم دین تمہارے کمرے کے باہر سے گزر رہا تھا تو آواز آنے پر تمہارے کمرے میں چلا آیا اور تمہیں یہاں گرا ہوا پایا ۔ ورنہ ہمیں صبح تک خبر ہی نہ ہوتی ۔ " دادا جی نے سرزنش کرتے ہوئےکہا ۔ میری آنکھوں کے سامنے سے رات کے مناظر گزرے تو میں نے بلارادہ پوچھ لیا تھا۔
"آئینہ آئی تھی یہاں رات کو ؟ "
"جی آئیں تھیں لیکن آپ نیم بے ہوشی کی حالت میں تھے تو وہ کچھ دیر بیٹھ کے چلی گئیں ۔ "
کرم دین کے جواب میں میں نے اثبات میں سر ہلایا تو گویا میں نے اس کے وجود کو ٹھیک محسوس کیا تھا وہ میرے قریب ہی تھی ۔
میرے سر میں ٹیسیں سی اٹھ رہی تھیں . دادا جی بھی مجھے آرام کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کمرے سے چلے گئے تھے ۔
اور تبھی میرے سیل فون پہ شمائم کا نمبر چمکا تھا ۔ میں اسکی بہن کی شادی میں بھی شرکت نہیں کر پایا تھا اس لئے اسکی ناراضگی کا سوچتے ہوئے میں نے کال ریسیو کر لی تھی ۔
"یار ریان کم از کم تم سے یہ امید نہیں تھی . "
میرا اندازہ صحیح نکلا تھا میرے نا جانے سے وہ خاصہ دل برداشتہ ہوا تھا ۔
میں شرمندگی سے اس سے معذرت کرنے لگا تھا تو میری لڑکھڑاتی آواز سن کر وہ یکدم پریشان ہوگیا تھا۔
کیا ہوا تمہیں ؟؟ طبعیت تو ٹھیک ہے ؟؟ وہ انتہائ فکرمندی سے گویا ہوا تھا مجھے اس پر ٹوٹ کر پیار آیا تھا ۔ شمائم سے دوستی میری زندگی کا قیمتی اثاثہ تھی جس پر مجھے بے حد ناز بھی تھا۔
" یار اب کیا بتاؤں ۔ میں جب سے دادا جی کی حویلی میں آیا ہوں میرے ساتھ کچھ نا کچھ ناقابل یقین ہوتا رہتا ہے ۔ اب اگر میں تمہیں کل کا واقعہ بتاؤں تو تمہیں بھی یقین نہیں آئے گا ۔ "
میں نے شمائم کو مختصراً کل کا واقعہ اور پچھلے دنوں کے دیگر واقعات بتائے تو میرے لہجے میں چھپی تھکن اور شکستگی کو محسوس کر وہ بھی کافی پریشان ہوگیا تھا اور اس نے حویلی آنے کا ارادہ کر لیا تھا ۔ اسکے آنے کا سن کر مجھے بھی قدرے اطمینان محسوس ہوا تھا شاید وہ خاطر خواہ حل بتا سکے یا کوئی مشورہ دے سکے ....
میں آج افس جانے کی پوزیشن میں نہی تھا مجھے کمزوری بھی محسوس ہو رہی تھی میں اپنے جسم کو ارام دینے کے ساتھ ساتھ اپنے ذہن کو بھی ارام دینا چاہتا تھا کیونکہ میرا ذہن بہت الجھ چکا تھا میں نے سوچا چلو بیمار ہونے کے ہانے ہی یہ کام بھی ہو جایے گا ذہن ریلکس ہو گا تو کچھ سوچنے کے قابل بھی ہو جاوں گا میں لیٹ گیا مگر نیند نہی ارہی تھی ایسے ماحول میں ویسے بھی کسی نارمل انسان کو نیند نہی اسکتی تھی،میں نے سایڈ ٹیبل کی دراز سے سلیپنگ پلز نکالیں اور پانی کے ساتھ بمشکل نگل لیں میں سلیپنگ پلز بہت کام یوز کرتا تھا مگر اج مجبوری تھی،میرا دیہان پھر سے آئینہ کی طرف چلا گیا،یہ آئینہ اور ایفا جب سے میری زندگی میں اییں تھیں کچھ بھی اچھا نہی ہو رہا تھا،
انہی سوچوں میں گم میں نا جانے کب نیند کی خوبصورت وادیوں میں اتر گیا، میں کئی گھنٹے سوتا رہا شام سے کچھ دیر پہلے جب شمائم مجھ سے ملنے ایا تو کرم دین نے مجھے اٹھایا میں نے ایک نظر گھڑی کی طرف دیکھا دن کے چار بج رہے تھے اور میں دس بجے سویا تھا۔۔شمائم میرے کمرے میں ہی آگیا میں اسے دیکھ کر بہت خوش ہوا مگر وہ میری حالت دیکھ کر پریشان ہو گیا شمایم نے مجھ سے میری اس حالت کا راز پوچھ ہی لیا میں جانتا تھا کہ وہ اسی لیے آیا اور اب میں بھی تھک گیا تھا یہ راز چھپاتے چھپاتے۔۔۔۔۔میں نے شروع دن سے لے کر اسے سارا کچھ بتا دیا وہ حیران پریشان سا مجھے دیکھتا رہا اسے شاید امید نہیں تھی کہ میں اتنا بہادر ہوں اب تک اکیلا ہی اتنا کچھ سہتا آیا ہوں ۔۔۔۔اس نے میری کسی بات کا کوئی جواب نا دیا وہ چپ چاپ سنتا رہا اور اخر میں جب میں نے اس سے ان سب کا کوئی حل تلاش کرنے کو کہا تو اس نے مجھے صرف اتنا کہا کہ میں اس کے ساتھ چل کے اس کے گھر رہوں
مجے شمائم سے یہ امید نہیں تھی، میں نے ایک ناراض سی نگاہ اس پہ ڈالی ۔۔۔
یار پلیز تو بیشک ناراض ہو جا مگر تجھے میرے ساتھ جانا ہو گا میں تمہیں اب یہاں اکیلا چھوڑ کے نہیں جا سکتا، اور اگر تم نہ مانے تو میں آنٹی کو فون کر کہ سب بتا دوں گا۔۔۔۔اس نے مجھے دھمکی دی
تم ایسا کچھ نہی کرو گے آئی سمجھ۔۔۔میں نے اسے گھور کے دیکھا
جی ہاں میں ایسا ہی کروں گا اگر تم میرے ساتھ نا گئے تو، اس نے میرے گھورنے کا بلکل نوٹس نہیں لیا
ہم ابھی کچھ اور بولنے ہی والے تھے کہ اچانک دروازے پر کھٹکا ہوا میں نے اس سمت دیکھا کیٹی دروازے میں کھڑی خشمگی نگاہوں سے گھور ہی تھی اس کی آنکھوں میں اس وقت ازحد غصہ تھا ۔۔۔یہ ہی ہے وہ جس نے میرا جینا حرام کیا ہوا نہ جانے کیسی بلی ہے یہ یہاں جو کچھ بھی ہوتا نا یہ کرتی ہے۔۔۔میں نے شمائم کے کان میں سرگوشی کی وہ بھی اسی کی جانب متوجہ تھا اس کا چہرہ پسینے سے شرابور تھا میں نے اس کا کاندھا ہلایا۔۔۔مگر وہ میری طرف متوجہ نا یوا مجھے تشویش ہونے لگی وہ یک ٹک بلی کی طرف دیکھے جا رہا تھا چہرے پر ایک عجیب سی دہشت تھی مجھے اس کی حالت سمج میں نا آئی۔۔۔اچانک کیٹی واپس چلی گئی بنا کچھ کیے، شمائم ابھی بھی اسی جانب دیکھ رہا تھا ،
۔شمائم۔۔۔میں نے اس کو ہلایا وہ چونک کر میری طرف متوجہ ہوا
کیا ہوا یار۔۔۔۔
یہ بلی ہے۔۔اس نے سوالہ نظروں سے میری طرف دیکھا۔۔۔۔۔میں نے اثبات میں سر ہلا دیا تو وہ عجیب سی نظروں سے مجھے دیکھنے لگا
.ریان دروازے پہ کوئی بلی نہی بلکہ ایک نہایت ہی ڈراونی شکل کا آدمی کھڑا تھا۔۔۔اس کی بات پر مجھے حیرت کا جھٹکا لگا یہ کیسے ہو سکتا ۔۔۔۔میں نے خوف دیکھا وہ کیٹی تھی
ریان پلیز میرے ساتھ چلو یار تمہاری جان کو خطرہ۔۔۔پلیز میرے ساتھ چلو۔۔۔۔یہ کوئی عام حویلی نہی ہے یہاں کچھ بھی ٹھیک نہی ہے تم چلو ۔۔۔میں ہاتھ جوڑتا ہوں تمہارے سامنے اپنی جان کو خطرے میں مت ڈالو پلیز۔۔۔
شمایم تم اتنی جلدی ڈر گئے میں تو اتنے دنوں سے یہ سب دیکھ رہا ہوں اور تمہیں پتا میں نے کئی بار دادا جی کو بھی کسی ڈراونے انسان کے روپ میں دیکھا ۔میں نے ایک اور راز کھولا اس کا منہ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ گیا
تو کیا وہ بھی انسان نہیں۔۔۔اس نے میری طرف دیکھتے ہویے پوچھا ۔۔۔یار یہ ہی تو پتہ لگانا۔۔۔۔گڈ تم لگاو پتے ۔۔۔میں جارہا ہوں اور آنٹی کو فون کر کہ سب بتادوں گا۔۔اس نے اٹھتے ہوئے کہا تو میں سچ میں پریشان ہو گیا ۔اس سے کچھ بعید نا تھا وہ کچھ بھی کر سکتا تھا۔۔
اچھا یار بیٹھو تو سہی۔۔۔ارام سے بات کرتے ہیں میں نے اسے دوبارہ سے بٹھا لیا
"یار, یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ یہ سب ڈرامہ ہوں, کوئی ٹرک وغیرہ, یا کوئی نفسیاتی بیماری "
میں نے شمائم کا خوف دور کرنے کی کوشش کی میں نہیں چاہتا تھا کہ وہ جا کر یہ سب اماں کو بتائے یہ اور بات کے اتنے دن کے ذہنی اکھاڑ پچھاڑ کے بعد میں خود ان سب مافوق الفطرت چیزوں کا قائل سا ہو گیا تھا
" نہیں یار، یہ سب کوئی آسیب، بھوت پریت کا چکر لگتا ہے، دوسری صورت میں یہ جادو ٹونا بھی یو سکتا ہے
دادا جی اتنی بڑی اور قیمتی اراضی کے مالک ہیں۔
اولاد ملک سے باہر, کوئی دور، نزدیک کا رشتہ دار بھی جائیداد کے لئے کالا جادو اور نظر بندی وغیرہ کرا سکتا ہے. ایسے عملیات میں جانوروں کا واضح استعمال ہوتا ہے. جوجو کی موت اور یہ کیٹی کچھ تو گڑبڑ ہے . "
میری بات نے شمائم پر اچھا اثر ڈالا تھا. اب وہ خوف کو جھٹک کر حالات کا تجزیہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور اسکی بات سے مجھے سلطان چاچا کا نمبر بھی یاد آیا, واقعی کوئی مجھے ان سے بھی رابطے سے روک رہا ہے. اگر مسئلہ جائیداد کا ہی ہے تو اصل وارث تو وہ ہیں نا. اماں سے دوبارہ انکا نمبر کوں گا بلکہ فوراً سیل میں سیو کروں گا پہلے کی طرح پرچی بنانے کی بیوقوفی نہیں کروں گا.
میں نے دل میں ارادہ کرتے ہوئے شمائم کی بات آگے بڑھائی
" ہاں یار، یہی تو میں کہہ رہا ہوں جوجو کی کی موت بہت پراسرار تھی. اس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے اور جوجو بھی یہ آئینہ، ایفاء جو بھی ہیں کبھی ان کے پاس بخوشی جاتا تو کبھی نہیں اور یہ بلی بھی ان میں سے کسی ایک سے مانوس ہے, میں نے اسے روڈ پر , اپنے کمرے میں آئینہ ساتھ کھیلتے دیکھا ہے,."
میں نے بھی اپنے ذہن میں کڑیاں جوڑیں.
" یہی تو آٰئینہ کا یہاں آنا جانا ہے لیکن دادا جی اور وہ پہلے سے ایک دوسرے کو نہیں جانتے. تو ایسا کرو دادا جی سے معلوم کر کہ یہ بلی انہیں کہاں سے ملی ہے. "
شمائم اب جوش سے مشورہ دے رہا تھا کچھ دیر پہلے والے منظر کا اثر اب اس, کے دماغ پر نہیں تھا.
میری چھٹیاں ختم ہونے میں ابھی ایک ہفتہ ہے میں سوچ رہا ہوں کہ میں وہ ایک ہفتہ تیرے ساتھ اس حویلی میں گزاروں ۔ شمائم کسی طور بھی ان حالات میں مجھے اکیلے حویلی میں چھوڑنے پر راضی نہیں تھا ۔
میری بھی جیسے دلی مراد بر آئی تھی اسکے یہاں ہونے سے مجھے کافی جزباتی سہارا ملتا اور ہم دونوں کے ایک ساتھ ہونے سے شاید یہ گھتیاں بھی کسی طرح سلجھ جاتیں ۔
میں نے دادا جی کو شمائم کے بارے میں بتایا تو انہوں نے کوئی اعتراض نہیں کیا تھا ۔ میں ان کے چہرے کے تاثرات سے بھی کوئی اندازہ نہیں لگا سکا تھا۔
اگلے روز شمائم اپنی چند ضروری چیزوں کے ساتھ حویلی میں آگیا تھا۔ میں اسکا اس طرح سے اپنا خیال رکھنے پر تہہ دل سے اسکا ممنون ہوا تھا۔ میں نے اپنے برابر والا کمرہ اس کے لئے سیٹ کروادیا تھا۔ کچھ دیر آرام کرنے کے بعد ہم دونوں میرے کمرے میں سر جوڑے آئیندہ کا لائحہ عمل تیار کر رہے تھے جب یکدم اس نے سر اٹھا کر پوچھا ۔
" ریان ایک بات پوچھوں "
"ہوں " ۔ میں نے اسکی طرف دیکھا تھا ۔
"وہ آئینہ یا ایفا جو کوئی بھی ہے. کیا تمہارے دل میں بھی اس کے لئے فیلنگز ہیں؟"
اسکا سوال سن کر میں حیران رہ گیا تھا یہ وہ سوال تھا جو میں خود سے پوچھنے سے بھی کتراتا تھا۔
میری آنکھوں کے سامنے آئینہ حمزہ کا صبیح چہرا اسکی بے ریا مسکراہٹ آئی تھی وہ جس طرح سے میری فکر کرتی تھی مجھے اچھا لگتا تھا۔ لیکن پتا نہیں گڑ بڑ کہاں تھی وہ اچانک سے بدل کیسے جاتی تھی۔ ابھی میں انہی سوچوں میں گم تھا جب شمائم بولا
"ریان کیا حویلی میں کوئی لڑکی بھی رہتی ہے؟؟ "
وہ باہر کی طرف دیکھتے ہوئے بولا تھا ۔
" نہیں یار " میں نے بھی اسکی نگاہوں کا تعاقب کیا تو وہاں کوئی نہیں تھا ۔ لیکن شمائم مسلسل باہر ہی دیکھے جا رہا تھا ۔
"میں ابھی آیا ۔" شمائم یہ کہ کر فوراً باہر چلا گیا اور میں اسے آوازیں دیتا رہ گیا تھا ۔
____________
شمائم نے کمرے سے باہر نکلنے کے بعد ادھر ادھر نگاہ دوڑائی تو اسے ایک لڑکی باہر کے گیٹ کی طرف جاتی دکھائی دی اس نے بلکل کالا لباس زیب تن کیا ہوا تھا ہوا سے اسکے لمبے بال یہاں وہاں گردش کر رہے تھے اس نے تھوڑا سا رخ موڑ کے دیکھا تو اسکی خوبصورتی دیکھ کے شمائم کی آنکھیں چندھیا گئی تھیں وہ خود کو روک نہیں پایا تھا اور اسکے پیچھے چلتاچلا گیا۔ وہ لڑکی جب گیٹ کے پاس پہنچی تو گیٹ خود بخود کھلتا چلا گیا تھا اور وہ باہر چلی گئی تھی شمائم بھی اسکے پیچھے بھاگا تھا۔ اسکے پیچھے بھاگتے بھاگتے شمائم کو یکدم احساس ہوا کہ وہ لڑکی اب کہیں بھی نہیں تھی اور وہ ایک ویرانے میں پہنچ گیا تھا اس نے گول گھوم کے دیکھا تو وہاں کسی ذی روح کا کوئی وجود نہیں تھا۔ وہ بےحد خوف محسوس ہوا تھا۔
"یہ میں کہاں آگیا ہوں؟؟ اب حویلی کیسے جاؤں گا."
اس نے نہایت پریشانی کے عالم میں سوچا تھا۔ اس لڑکی کی ایک جھلک سے وہ ایسے سحر میں جھکڑا تھا کہ ارد گرد کا کوئی ہوش نہیں رہا تھا اور بغیر کچھ سوچے سمجھے اس کے پیچھے دوڑ پڑا تھا۔ اسکا پورا وجود پسینے سے شرابور تھا ۔ اچانک پیچھے سے کسی نے اسکے شانوں پر ہاتھ رکھا تھا۔ اس نے ڈرتے ڈرتے پیچھے مڑ کے دیکھا تو اسکی چیخیں نکل گئی ںتھیں ۔ سفید لباس میں ایک بے حد ڈراؤنی صورت کی لڑکی کھڑی تھی۔ خوف سے اسکی گھگھیا بندھ گئی تھی ۔ وہ دل ہی دل میں میں آیت الکرسی پڑھنے لگا ۔ لیکن گھبراہٹ میں اسے آیت الکرسی بھی بھول رہی تھی ۔ اور تب ہی اس بلا نے اسے گردن سے دبوچا اور ایک خوفناک چیخ ماری تھی شمائم اچھل کر ایک گڑھے میں جا گرا تھا ۔ اسے لگ رہا تھا کہ شاید اب وہ زندہ نہیں بچے گا ۔
----------------
میں پاگلوں کی طرح شمائم کو ڈھونڈ رہا تھا۔ کرم دین بھی میرے ساتھ تھا۔ ہم نے حویلی کے آس پاس کا سارا علاقہ دیکھ لیا تھا شمائم کہیں بھی نہیں ملا تھا وہ تو یہاں کے راستوں سے بھی انجان تھا جبھی کرم دین کی آواز پر میں چونک اٹھا تھا ۔
"ریان بابا یہاں آئیے کرم دین نے مجھے اشارہ کر کے بلایاتھا ۔ "
وہاں شمائم اوندھے منہ پڑا ہوا تھا اور ہوا سے مٹی اڑ کر اسکے وجود کو گرد آلود کر رہی تھی کرم دین جلدی سے پانی لے آیا تھا میں نے فوراً اسکو سیدھا کرتے ہوئے اسکے منہ پہ پانی کے چھینٹے مارے تو وہ ہوش میں آگیا تھا لیکن وہ انتہائی خوفزدہ تھا اسکی آنکھوں میں ہراس تھا۔ میں اور کرم دین اسے سہارا دے کر حویلی لے گئے اور کمرے میں لے جا کر سلا دیا تھا ۔ دادا جی بھی شمائم کے حوالے سے کافی فکرمند ہوگئے تھے ۔ میں پوری رات سوئی جاگی کیفیت میں شمائم کے سرہانے بیٹھا رہا تھا۔
صبح تک شمائم کی طبعیت بھی کافی بہتر ہو گئی تھی۔ مگر وہ ہنوز ڈرا ہوا تھا اس کی اس حالت کا ذمہ دار میں خود کو سمجتا تھا نہ میں اسے یہاں رہنے دیتا اور نہ اسے کے ساتھ یہ سب ہوتا میں اپنے ساتھ ساتھ اس کی جان کو بھی خطرے میں ڈال رہا تھا اگر اسے کچھ ہو جاتا تو اس سے اگے میں کچھ سوچنا نہی چاہتا تھا
دوپہر کو اس نے ہمارے ساتھ لنچ کیا آج دادا جی بھی حسب معمول کھانے کی ٹیبل پہ چپ چپ تھے جس کا شمائم کا تو پتہ نہی میں نے نوٹس ضرور لیا تھا، کیٹی بھی ان کے پاس نہی تھی خیر اس کے ہونے یا نہ ہونے سے ہمیں کوئی فرق نہی پڑتا تھا بلکہ اس کا نہ ہونا ہی بہتر تھا
اچانک دادا جی اٹھے اور بنا کچھ کہے اپنے کمرے میں چلے گئے میں نے حیرانگی سے ان کی طرف دیکھا۔ شمائم بھی کچھ دیر بعد اٹھ کہ چلا گیا وہ بھی ارام کرنا چاہتا تھا میں نے کرم داد کو کافی لانے کے لیے کہا اور اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا وہ میرے سامنے بیٹھ گیا
کرم دین اگر میں تمہیں کہوں کہ اس حویلی میں میرے ساتھ کئی واقعات ہوئے ہیں مطلب کہ میں نے یہاں کئی لوگوں کو دیکھا تو کیا تم یقین مکرو گے، میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کرم دین کے پسینے چھوٹ رہے تھے وہ حیران پریشان سا مجھے دیکھ رہا تھا
اس کا چہرہ دیکھ کہ مجھے احساس ہوا کہ مجھے یہ بات اس سے نہیں کہنی چاہیئے تھی میں نے ایک دم سے ہنسنا شروع کر دیا تو وہ کچھ خجل سا ہو گیا شاید اسے اندازہ ہوا تھا کہ میں مزاق کر رہا ہوں اور میں خود یہی چاہتا تھا کہ وہ اس بات کو سیریس نا لے
اپ نے تو مجے ڈرا ہی دیا، اس کے چہرے پر چھایا خوف جو میری بات سن کر آیا تھا اب قدرے کم ہو گیا میں بس مسکرا کر رہ گیا
اچانک اسے کچن میں کچھ کام یاد آیا تو وہ اٹھ کر چلا گیا اس کے جانے کے بعد میں بھی اٹھا اور پھر ساکت رہ گیا آئینہ حمزہ میرے سے کچھ فاصلے پر کھڑی تھی اس کی آنکھوں میں موجود تاثرات میں سمجھ نہ پایا وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی میرے پاس آئی میں نے رخ پھیر لیا
تمہارا دوست کیوں آیا ہے یہاں
ویسے ہی وہ کچھ دن میرے ساتھ رہنے آیا ہے مگر کل جو اس کے ساتھ ہوا اچھا نہیں ہوا جس نے بھی یہ سب کیا میں اسے چھوڑوں گا نہی میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا میں اس کے تاثرات جاننا چاہتا تھا نہ جانے کیوں مجھے لگتا تھا جیسے ان سب کے پیچھے اسی کا ہاتھ ہے مگر اس کے چہرے پر کچھ بھی غیر معمولی نہیں تھا میری بات سن کے بھی وہاں ہمیشہ کی طرح سکون ہنوز قائم تھا
تم اس کو کہو یہاں سے چلا جائے اس کی بات پر مجھے سخت حیرت ہوئی بھلا اسے کیوں اور کیا اعتراض تھا شمائم کے یہاں رہنے سے
تو پھر ٹھیک ہے میں بھی چلا جاتا ہوں اب حیران ہونے کی باری آئینہ حمزہ کی تھی ۔۔اور ویسے بھی میں خود بھی یہاں رہ رہ کی تنگ آگیا ہوں ۔۔۔میں نے لاؤنج کے دیوار پہ لگی پیٹنگ کی طرف دیکھتے ہویے کہا نہ جانے کیوں مجے ایسا لگ رہا تھا کہ میں اس جگہ گیا ہوں مگر کب اور کیسے ۔۔۔
تم یہاں سے نہی جا سکتے اگر یقین نہی تو آزما لو اس نے مسکراتے ہوئے کہا میں نے اس کی طرف دیکھا مگر میرا دھیان اس کی طرف نہیں تھا اور نہ ہی میں نے سنا تھا کہ اس نے کیا کہا
اچانک مجھے یاد آیا کہ یہ تو وہی جگہ جہاں آئینہ حمزہ نے مجھے پہنچایا تھا ۔میں نے ایک بار پھر دیوار کی جانب دیکھا ۔۔۔۔
۔یہ وہی جگہ نا جہاں تم۔۔۔میں نے پیٹنگ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اس پوچھا مگر میری بات ادھوری رہ گئی کیونکہ آئینہ حمزہ تو وہاں تھی ہی نہیں ۔۔۔میں حیران ہوا وہ کہاں جا سکتی ہے ابھی تو یہی تھی اور کیا کہہ رہی تھی وہ میں یاد کرنے کی کوشش کرنے لگا مگر کچھ یاد نہ آیا پھر میں سر جھٹک کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا
آئینہ حمزہ مجھے اکثر ملتی تھی، دکھائی دیتی تھی۔ مگر وہ جسے کچھ Calm ہو گئی تھی اتنے دنوں سے اس نے کچھ کہا نہیں تھا نہ ری ایکٹ کیا تھا، شاید اس لئے بھی کہ محبت کرتی تھی اور شاید یہ رعایت محبت کے باعث دے رہی تھی؟ میں سمجھ نہیں پایا تھا۔ آئینہ حمزہ کی خاموشی کی باوجود
واقعات ذہن ماؤف کر دینے والے تھے اور تسلسل تھم نہیں رہا تھا۔ میں نے اس دن کام جلد ختم کیا تھا تو بنا سوچے سمجھے گاڑی دادی اماں کی گھر کی طرف موڑ لی تھی۔
مجھے جانے کیوں لگا تھا کہ میں گھر سے دادی اماں کی گھر نہیں جا پاؤں گا، اس دن کے واقعے کے بعد میں نے دادی کے گھر جانے کی دوبارہ ہمت نہیں کی تھی، میں ڈرا یا خوفزدہ نہ تھا مگر کیسے وہاں جانے سے میری راہ روکتا رہا تھا اور میں ہونے والے واقعات کے تسلسل میں رہا تھا مگر مجھے جانے کیوں لگتا تھا کہ اس سب ہونے کے سرے دادی اماں کے گھر سے کہیں جڑے ہوئے تھے اور میری چھٹی حس مسلسل مجھے اکسا رہی تھی کہ ایک بار مجھے دادی اماں سے ملنا چاہئے۔
میں نے دادی اماں کے گھر کے سامنے گاڑی روکی تھی اور میں میں گیٹ پر لاک دیکھ کر حیران رہ گیا تھا۔
دادی اماں کہاں گئی تھیں؟ اب میں ان کو کیسے ڈھونڈتا؟
تو میری چھٹی حس صحیح کہہ رہی تھی کہ اس حویلی میں ہونے والے واقعات کا سرا کہیں نہ کہیں دادی اماں سے جڑا تھا۔
آئینہ حمزہ کا مجھے ملنا اور پھر ایفا حمزہ کا ذکر کھلنا, بلی کی عجیب و غریب کاروائیاں اور اکثر آئینہ حمزہ کا اردگرد دکھائ دینا۔
کوئ تو ربط جڑتا تھا۔
میں مایوس سا پلٹا تھا۔
جب عین سامنے کچھ فاصلے پر ایک تین سالہ بچہ اپنی ماں کے ساتھ ہاتھوں میں غبارے تھامے کھڑا دکھائ دیا تھا۔ اس کی ماں شاپ سے کچھ لے رہی تھی اور وہ ہاتھ میں غبارے تھامے میری طرف دیکھتا ہوا مسکرایا تھا۔ وہ اتنا کیوٹ تھا کہ میں اس کی طرف دیکھ کر مسکرائے بنا نہیں رہ سکا تھا۔ مگر یکدم مجھے چونکنا پڑا تھا۔ اس کے غباروں پر کیوٹ کیوٹ سے چہرے بنے تھے اور وہ چہرے مسکرا رہے تھے بچہ ان غباروں کے ساتھ کھیلتا خوش دکھا ئی دے رہا تھا۔ یکدم اس کے ہاتھ سے غبارے چھوٹ گئے تھے اور اُڑتے ہوئے دور نکلنے لگے تھے، اور اس بچے نے جیسے مدد کے لئے میری طرف دیکھا تھا۔ وہ معصوم چہرے والا چھوٹا بچہ اداس اور بےقرار دکھائی دیا تھا مجھے جانے کیوں اس معصوم بچے کا اداس ہونا اچھا نہیں لگا تھا اور میں فوراً غباروں کی طرف لپکا تھا اور آن کی آن میں ہاتھ بڑھا کر میں نے ان غباروں کو تھام لیا تھا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا اس بچے کی طرف دیکھا تھا وہ معصوم چہرہ تشکر سے مسکرایا تھا میں مسکرایا تھا اور اس کے غباروں کو لے کر آگے بڑھنے لگا تھا جب یکایک ان غباروں میں مسکراتے کیوٹ چہرے قبیبح و غلیظ بھیانک چہروں میں بدلنے لگے تھے میں دنگ رہ گیا تھا مگر اس سے پہلے کہ میں غباروں کو ہوا میں اچھالتا ان چہروں نے غباروں سے نکل کر مجھ پر حملہ کردیا تھا اور میرے چہرے اور گردن سے بری طرح لپٹ گئے تھے مجھے ان بھیانک غلیظ چہروں سے کراہت آنے لگی تھی میری سانس رکنے لگی تھی۔ میں زیاد کو چھڑانے کی حتی المکاں کوشش کرنے لگا تھا۔ میری آواز نہیں نکل رہی تھی اور میرا دم جیسے گھٹا جا رہا تھا۔ میں نے یکدم آئینہ کو اپنی طرف بڑھتے دیکھا تھا اس نے میرا ہاتھ تھاما
Khamoshi All Previous Episodes