Khamoshi Episode 1 - Ushna Kausar sardar

Khamoshi novel by ushna sardar kausar

  


قسط نمبر 1
مصنفین: (Writers)
1: عشنا کوثر سردار
2: اقصیٰ سحر
3: ماہ نور نعیم
4: فاطمہ نور
5: خدیجہ عطا
6: مہوش ملک
7: سیّدہ فرحین نجم
8: کوثر ناز
9: عائشہ تنویر
10: رابعہ امجد
11: صبا جرال
12: ماورہ طلحہ
13: اقراء اسلم
"میں ریان الحق قمر ہوں، جاب کے سلسلے میں حال ہی میں میری منتقلی ایبٹ آباد ہوئی تو میں خاصہ آکسائیٹڈ تھا، رشتے کے ایک دادا تھے جو بہت بڑی حویلی میں تنہا رہ رہے تھے، اماں کی تاکید تھی میں ان کے ساتھ قیام کروں اور کسی اور پر بھروسہ بالکل نہ کروں، اماں کو میری بہت فکر تھی اور میں نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ جلد نیا گھر دیکھ کر اماں کو بھی اپنے پاس بلا لوں گا ۔ یہاں آکر اچھا لگا تھا، موسم شہر کی با نسبت اچھا تھا اور رشتے کے وہ دادا ابا بھی نائس پرسن تھے، ان کی اولادیں بیرونِ ملک جا بسی تھیں ایسے میں دادا ابا تنہا یہاں رہتے تھے انھیں کتابیں پڑھنے کا شوق تھا اور میں نے
ان کے ساتھ کتابوں کے بارے میں ڈسکس کرنا ایک معمول بنا لیا تھا۔
وہ اچھے انسان تھے مگر ان کی ایک کالی بلی تھی اور مجھے بلیاں کچھ زیادہ پسند نہیں تھیں مگر بلی کچھ عجیب سی تھی، جیسے وہ کوئی بہت اداس روح تھی اور میری جانب جب تکتی تھی تو جیسے اس کی اداسی اور بڑھ جاتی تھی، اس کی آنکھیں عجیب رنگ کی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
اور اس کی آنکھوں سے کبھی کبھی عجیب سی وحشت بھی ٹپکتی تھی اور اپنی طرف کھینچتی بھی تھی خوف اور کشش کا عجیب سا امتزاج تھا اس بلی کی آنکھوں میں
جب میں اس کی طرف دیکهتا تو ایسا لگتا جیسے وہ مجهے ہی گھور رہی ہو
ایک شام میں اور دادا جان شام کی چائے پینے گھر کے لان میں بیٹھے تھے موسم سرما کے اوائل دن تھے ہوا میں ہلکی سی خنکی تھی ایسا موسم مجھے بہت اداس کر دیا کرتا تھا دادا جان بھی آج کافی خاموش تھے اپنے بچوں کو یاد کر کے وہ اداس سے ہو گئے تھے چائے کے کپ پکڑے ہم دونوں اپنی اپنی سوچوں میں گم تھے بلی ہمارے پاس ٹیبل کے قریب ہی بیٹھی تھی کہ اچانک بلی چیخنے لگ گی اور اونچی آواز میں رونے لگی میں اور دادا جان ہڑبڑا گئے دادا جان اٹھنے لگے لیکن میں نے ان کو روک دیا اور خود بلی کی طرف گیا.
بلی کی طرف جاتے ہوئے میرے دل میں خوف کی زور دار لہر اٹھ رہی تھی جسم کا رواں رواں کانپ گیاتھا...بلی پہلے سے زیادہ بےچین لگ رہی تھی ڈرتے ہوئے میں اس کے پاس جا کے بیٹھ گیا جیسے ہی میں اس کے پاس بیٹھا اس نے رونا بند کر دیا اور مجھے ایسی نظروں سے دیکھا کے میں اندر تک ہل گیا
اور میں ایکدم بنا پلٹے کمرے کی طرف بھاگا اس کی آنکھوں میں سفاک چمک تھی جس نے مجھے لرزا کر رکھ دیا دادا جان میری اس کیفیت سے پریشان سے ہو گئے میرے پیچھے وہ بھی کمرے میں آگئے اور مجھے آرام سے بیٹھنے کو کہا اور پوچھا ریان الحق کیا ہوا تمہیں؟
میں نے کہا دادا جان بلی کی آنکھوں میں عجب سی سفاکی تھی اور اس کے رونے میں بلا کا درد اس بلی میں کچھ خاص بات ہے دادا جان مسکرائے اور بولے ایسا نہیں ہے بیٹا تمہیں کچھ وہم ہوا ہے بے ضرر سی بلی ہے دو تین سال سے میرے پاس ہے سردیوں کی شاموں میں اکثر بلیاں ایسی آوازیں نکالتی ہیں تم پریشان نہ ہو مگر میرا دل ان سب باتوں کو تسلیم نہیں کر رہا تھا نہ کی ذہن اس بات کو مان رہا تھا دادا جان نے مجھے آرام کی تلقین کی اور کمرے سے باہر نکل گئے میں آرام سے بیڈ پر لیٹ گیا اب میرا خوف قدرے کم ہو چکا تھا میں اسی بلی کے بارے میں سوچنے لگا اور دل میں ٹھان لیا کہ اس کا سراغ لگا کر ہی رہوں گا کی بلی میں ایسی کیا بات ہے جو اپنی طرف کھینچتی ہے میں انہی سوچوں میں غلطاں تھا کہ اچانک وہ بلی میرے کمرے میں آگئی اور میرے بیڈ کے پاؤں والی سائیڈ زمین پر پنجوں کے بل بیٹھ کر میری طرف دیکھنے لگی
میں اس کی آمد سے پریشان ہو گیا تھا۔ میں نے غور سے اس کی آنکھوں میں دیکھا مگر مجھے کوئی سفاکیت، اسرار، مقناطیسی قوت نظر نہیں آرہی تھی۔
تو کیا واقعی یہ میرا وہم ہے؟
کیا بلی میں ایسا کوئی اسرار پوشیدہ نہیں؟
کیا اس کی آنکھوں میں کوئی مقناطیسی قوت نہیں؟
میرا دماغ ان سوالوں کو سوچتے ہوئے مفلوج ہو رہا تھا اس کے ساتھ ساتھ میں نیند کی پر سکون وادی کا مسافر بن گیا تھا۔
آنکھیں بند ہونے سے پہلے جو آخری منظر میں نے دیکھا وہ بلی کا محویت سے میری طرف دیکھنا تھا۔ میں خوشنما وادیوں میں گھوم رہا تھا کہ میرے حواسوں نے کچھ عجیب سا محسوس کیا تھا
میں نے آنکھیں کھولیں اور خود کو حویلی کے داخلی دروازے کے سامنے پایا۔
پوری حویلی تاریکی اور دھند میں لپٹی ہوئی تھی۔
حویلی کا داخلی دروازہ پوری طرح کھلا تھا۔ جبکہ داخلی دروازے کے عین وسط میں کسی قیمتی دھات سے بنا قدیم طرز کا ایک چھوٹآ صندوق رکھا تھا۔ صندوق کے ادھ کھلے دروازے سے مدھم روشنی پھوٹ رہی تھی شاید صندوق میں کوئی شمع جلا کر رکھی گئی ہے یہ سوچ کر جونہی میں آگے بڑھا بہت ساری چمگادڑیں ایک ساتھ صندوق سے نکلیں
اور مجھ سے چمٹ گئیں ....... خوف و دہشت کے مارے میں آنکھیں بند کر کے چیخنے لگا اور اپنے دونوں ہاتھوں سے انہیں پرے ہٹانے لگا .......
میری چیخ و پکار سن کر دادا جان بھی باہر نکل آئے
ریان الحق ..... کیا ہوا بیٹا
تم ٹھیک تو ہو
دادا جان کی حیرت بھری پریشان آواز میری سماعتوں سے ٹکرائی
میں نے یکدم اپنی آنکھیں کھولیں
اس صندوق اور چمگادڑوں کا تو کہیں نام و نشان ہی نا تھا اور میں پاگلوں کی طرح چیختے ہوئے اپنا منہ نوچ رہا تھا
دادا جان ...... ابھی یہیں پہ ایک صندوق میں چمگادڑیں دیکھی ہیں
میں نے شرمندگی سے ہکلاتے ہوئے جواب دیا.......
یہاں کچھ بھی نہیں ہے ریان بیٹا
شاید تم نے کوئی بھیانک خواب دیکھ لیا ہے اور نیند میں چلتے ہوئے یہاں آ گئے ہو
سو جاؤ اب
یہ کہتے ہوئے دادا جان اندر کی طرف چل پڑے اور مجبورا مجھے بھی ان کی تقلید کرنا پڑی____“
Post a Comment (0)
Previous Post Next Post