Khamoshi episode 05 - ushna sardar kausar

 

Khamoshi novel by ushna sardar kausar


قسط نمبر 5
مصنفین:
1: عشنا کوثر سردار
2: صبا جرال
3: ماورہ طلحہ
4: اقراء اسلم
5: خدیجہ عطا
6: مہوش ملک
7: سیّدہ فرحین نجم
8: کوثر ناز
9: عائشہ تنویر
10: رابعہ امجد
11: اقصیٰ سحر
12: ماہ نور نعیم
13 فاطمہ نور
اس لڑکی کا چہرہ اتنا بھیانک تھا کہ خوف سے میں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں .......
یہ میری بچپن سے ہی عادت تھی کہ جب بھی کسی چیز سے خوف زدہ ہوتا میں اپنی آنکھیں زور سے میچ لیتا........
اب بھی میں نے ایسا ہی کیا .....
کافی دیر بعد جب میں نے اپنی آنکھیں کھولیں تو وہ لڑکی وہاں سے غائب ہو چکی تھی......
میں نے سکھ کا سانس لیا اور بالائی منزل سے نیچے جانے لگا تاکہ دادا جان سے مل کر انہیں یہ اطلاع دے دوں کہ فی الحال مجھے جاب سے چھٹی نہیں مل سکی اس لیے ابھی گاؤں نہیں جا سکوں گا .......
نیچے آیا تو دیکھا دادا جان چائے پی رہے تھے اور ساتھ ہی ان کی پالتو بلی بھی بیٹھی تھی ........
میں نے دادا جان کو اپنے گاؤں نہ جانے کی اطلاع دی تو ان کی آنکھوں میں مجھے ایک خاص چمک نظر آئی ........
مجھے دل میں ندامت سی محسوس ہوئی کہ بوڑھا آدمی ہے اور تنہائی کے خوف سے مجھے یہاں حویلی میں روکنا چاہ رہا تھا جبکہ میں تو اپنے گاؤں جانے کے لیے بے تاب ہو رہا تھا........
اسی وقت اچانک میری نظر بلی پر پڑی تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میرے گاؤں نہ جانے کا فیصلہ سن کر اسے بھی خوشی ہوئی کیونکہ وہ اپنی آنکھوں میں ایک چمک لیے مجھے تکے جا رہی تھی .......
تب ہی مجھے اچانک خیال آیا تو ایک بار پھر میں نے دادا جان سے اس حویلی کے بارے میں پوچھا جس کا مجھے میرے کولیگ نے بتایا تھا.......
میرا پوچھنا تھا کہ دادا جان سخت غضبناک ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے
پیچھے پیچھے ان کی بلی بھی منہ سے عجیب و غریب آوازیں نکالتی چلی گئی........
میں حیران و پریشان بیٹھا دادا جان کے ناقابل فہم تاثرات اور رویے کے بارے میں سوچنے لگا.........
اپنے کمرے میں واپس جانے سے پہلے میں نے سوچا کہ دادا جان سے معزرت کر کے آئندہ ایسے سوالات نا پوچھنے کا وعدہ کر لوں
اسی غرض سے میں ان کے کمرے میں چلا گیا
دادا جان ایک کرسی پہ بیٹھے تھے اور انکی میری طرف ہشت تھی ......
میری معزرت پر جب انہوں نے اچانک میری طرف پلٹ کر دیکھا تو میری ایک زوردار چیخ نکل گئی ......
وہ دادا جان نہیں تھے بلکہ کسی بھیانک انسان کا چہرہ تھا
وہی انسان جو مجھے اکثر دادا جی کے چہرے میں نظر آتا تھا اس انسان کی انکھیں لہو رنگ ہو رہی تھیں وہ نہایت ہی غصے میں میری طرف دیکھ رہا تھا اس کے چہرے سے بھی عجیب سی وحشت ٹپک رہی تھی خوف سے میری ہتھلیاں پسینے سے بھیگ گئیں، میں نے فوراً بلی کی طرف دیکھا مگر یہ کیا بلی کی جگہ وہی ادھے جلے چہرے والی بھیانک لڑکی کھڑی تھی دونوں کے تاثرات ایک جیسے تھےمیں نے زور سے دوبارہ آنکھیں میچ لیں کچھ دیر تک میں اسی حالت میں کھڑا رہا
اچانک مجھے کسی نے ہلایا میں بدک کر پیچھے ہٹا فورا انکھیں کھولیں تو کرم دین مجھ سے کچھ فاصلے پر کھڑا حیرانگی سے مجھے دیکھ ریا تھا، اور دادا جی اور بلی کا نام و نشان تک نہی تھا
کیا ہوا ریان بابو، اپ ٹھیک تو ہیں نا، انہوں نے نزدیک آکر میرے ماتھے پر ہاتھ پھیرا
۔کرم دین ابھی یہاں دادا جی تھے وہ کہاں گئے، میرا اشارہ اس کرسی کی طرف تھا جہاں وہ کچھ دیر پہلے بیٹھے تھے
وہ تو جی کب کے سو گئے ہیں،
کیا مجھے حیرت کا جھٹکا لگا ایسا کیسے ہو سکتا ابھی تو یہیں تھے میں بڑبڑایا، کرم دین کو شاید سنائی نہیں دیا تھا
ریان بابو آپ بھی جا کر سو جائیں رات بہت ہو گئی ہے میں حویلی کے دروازے بند کر رہا تھا جب آپ کو ایسے کھڑے دیکھا، اس کا اشارہ ریان اچھی طرح سمجھ گیا اس نے اثبات میں سر ہلا دیا تو کرم دین چلا گیا، ایک بات تو کنفرم ہو گئی تھی کہ اس حویلی میں ان تینوں کے علاوہ کوئی اور بھی انسان رہتا ہے جو مختلف اوقات میں مختلف جگہوں پر دادا جی کے روپ میں اس سے ملتا تھا
اور وہ لڑکی ۔۔۔۔ذہن پھر الجھا،
ہو سکتا کوئی لڑکی بھی ہو اس انسان کے ساتھ، بلی اور دادا جی پہ اس کا شک ایک دفعہ پھر ختم ہو گیا تھا
اگلے چند روز بهی یونہی گزر گئے. کبهی میرے جوتے غائب ہو جاتے تو کبهی میرے استری شدہ کپڑے . کمرے کا دروازہ ہر روز بند کر کے سونے کے باوجود صبح کو کهلا ہوا ملتا. بلی کی پراسرار جاسوسی اور دادا جان کی پراسرار خاموشی کچھ بهی تو نہیں بدلا تها. ہاں اتنا ضرور ہوا تها کہ میں نے دادا جان کے سامنے اپنی منتشر سوچیں اور بوکهلاہٹ چهپانا سیکھ لیا تها.
اتنے دن میں کم از کم یہ تو ثابت ہو گیا تها کہ اگر یہاں کوئی بهوت پریت یا آسیب ہے بهی تو وہ مجهے نقصان نہیں پہنچانا چاہتا. بلکہ اب تو یوں لگتا تها جیسے وہ تمام واقعات کے زریعے میری توجہ حاصل کرنا چاہ رہا ہے. کچھ ہے جو وہ میری مدد سے سلجهانا چاہتا ہے.
عام دنوں کے برعکس اتوار کو میں دیر تک سوتا ہوں. اس دن بهی میں قدرے دیر سے جاگا. نہا دهو کر فرصت سے تیار ہوا. سائیڈ ٹیبل سے اپنا والٹ اور گاڑی کی چابی اٹهائی اور باہر کی جانب قدم بڑهائے.
دادا جان ٹی وی پر کوئی سیاسی تبصرہ دیکهنے میں محو تهے. میری آہٹ پر مڑ کر مجهے دیکها اور انکے چہرے کے تاثرات ایک مشفق مسکراہٹ میں بدل گئے. میری تیاری دیکھ کر وہ حیرت سے گویا ہوئے کہاں چل دیئے برخوردار. ہم تو آج آپ کے ساتھ شطرنج کی ایک بازی کهیلنے کا ارادہ لیئے بیٹهے تهے . ارے کیوں نہیں دادا جان میں بس دو گهنٹے میں واپس آ جاوں گا کچھ ضروری کام ہے.. دادا جان سے اجازت لے کر میں تقریبا گیارہ بجے گهر سے نکلا اور گاڑی اسی کیفے کے راستے پر ڈال دی جہاں آئینہ سے میری پہلی ملاقات ہوئی تهی.
میں گهر سے آئینہ سے ملنے آیا تها، مجهے نہ جانے کیوں یقیں تها کہ وہ مجهے مل جائے گی. اور اب جب میں کیفے کی پارکنگ میں کهڑا تها تو خود کی حماقت پر غصہ آ رہا تها. ایک لڑکی جس کے نام کے علاوہ میں کچھ بهی نہیں جانتا، جس سے میری صرف ایک ملاقات ہوئی ہے اور جس ملاقات کا اختتام بهی انتہائی ناخوشگوار انداز میں ہوا ہے میں اس سے ملنے آیا ہوں یہ سوچ کر مجهے حیرت بهی ہو رہی تهی اور خود پر غصہ بهی آ رہا تها.
بحرحال اب تو میں آ ہی چکا تها لہذا گاڑی پارک کی اور کیفے کی عمارت میں داخل ہو گیا. کیفے میں بہت کم لوگ تهے
میں ایک سرسری نظر گردونواح پر ڈال کر اس میز کی طرف بڑها جہاں اس خوبصورت لڑکی کو میں حیران پریشان چهوڑ آیا تها...
میں نہیں جانتا تھا کہ آئینہ حمزہ مجھ سے دوبارہ کبھی ملے بھی کہ نہیں مگر میں ایک آس سے اس کافی شاپ میں آیا تھا اور مجھے حیرت ہوئی تھی جب میں نے بہت اطمینان سے اسے بیھٹے
Espresso coffee
کے سپ لگاتے دیکھا تھا وہ میری طرف متوجہ ہوئی تھی اور ہلکے سے مسکرائی تھی جب میں اس کے سامنے جا رکا تھا۔ اس نے میری طرف دیکھا تھا اور مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا تھا میں خاموشی سے اس کے سامنے بیٹھ گیا تھا جب وہ مسکرائی تھی۔
"تم کافی لو گے؟ پتہ ہے میری دادی کہتی ہیں کسی سے پہلی بار ملوں تو اسے مٹھاس آفر کرنا چاہئیے زبان پر مٹھاس گھلے تو رشتے مضبوط بنتے ہیں۔" وہ مسکرائی تھی۔
"میں کافی میں شکر نہیں لیتا، آئی لائیک بلیک کافی۔ اور یہ ملنے کی لئے نہیں بچھڑنے کے لئے کہا گیا ہے کہ بچھڑوں تو مٹھاس کھانا چاہئے، رشتے مضبوط رہتے ہیں اور رشتوں میں مٹھاس گھلی رہتی ہے۔ بہرحال تم یہاں میرا انتظار کیوں کر رہی تھیں؟۔" میں نے اس کی طرف دیکھا تھا۔ وہ مسکرائی تھی۔
"کس نے کہا کہ میں کسی کا انتظار کر رہی تھی ؟۔" وہ پُر اعتمادی سے مسکرائی تھی۔ میں نے خاموش ہو کر بغور اسے دیکھا تھا۔ اس نے جیسے آنکھوں ہی آنکھوں میں جیسے پوچھا تھا کہ ایسے کیوں دیکھ رہے ہو اور تبھی میں نے کہا تھا۔
"تم مجھے جانتی ہو اور پری ٹنڈ کر رہی ہو جیسے نہیں جانتی؟۔" میں نے پوچھا تھا اور وہ مجھ سے دھیان ہٹا کر شیشے کے اس پار برستی بارش کو دیکھنے لگی تھی جیسے وہ میری باتوں کو سنی ان سنی کر رہی تھی۔
"کب سے جانتی ہو؟ تم جان بوجھ کر مجھے یہاں کافی شاپ میں ملی نا؟۔" میں نے ہو چھا تھا اور وہ مسکراتے ہوئے مجھے دیکھنے لگی تھی۔
"تمہیں تو ڈی ٹیکٹو ہونا چاہئے تھا ہر بات کی کھال نکالتے ہو اور ایسے گھور گھور کر جائزہ لیتے ہو جیسے آج ہی سب سراغ لگا لو گے۔" وہ بات کو مذاق میں اڑاتے ہوئے بولی تھی۔
اور میں اسے خاموش ہوکر دیکھنے لگا تھا۔ ویٹر کافی سرو کر گیا تھا اور اس نے کپ اٹھا کر میرے سامنے رکھ دی تھی اور اطمینان سے بولی تھی۔
"کچھ وقت سکون کے لئے آئے ہو تو آرام سے کافی پیو اور باقی باتوں کو دماغ سے نکال دو، بیچارے دماغ کو کبھی تنہا بھی چھوڑ دیا کرو آزادی اس بیچارے کا بھی حق ہے۔" آئینہ حمزہ میری طرف دیکھتی ہوئی بولی تھی اور میں نے اسے خاموشی سے دیکھا تھا۔
بہت دیر باتیں کرنے کے بعد اچانک مجهے احساس ہوا کہ وہ کچھ اداس ہو گئی ہے اس سے پہلے کہ میں کچھ پوچهتا وہ خود ہی بول پڑی تم نے آنے میں بہت دیر کر دی. اس کے چہرے پر تاسف کے رنگ مزید گہرے ہو گئے. لگ ہی نہیں رہا تها کہ یہ وہ ہی شوخ اور چنچل لڑکی ہے جو کچھ دیر پہلے میرے ساتهہ بیٹهی تهی.
اس نے اپنی بند مٹهی کو میرے سامنے کهولا. اس میں چمگادڑ کا ایک پر تها. یہ لے جاؤ ریان اور اگلی دفعہ وہ صندوق دکهے تو اس میں یہ پر رکھ کر ایک سیاہ ڈائری نکال لینا. تمهیں بہت سے سوالوں کے جواب مل جائیں گے. یہ کہہ کر وہ رکی نہیں. اور اسے روکنے یا مڑ کر دیکهنے کی ہمت مجھ میں تهی ہی نہیں. میرا پورا وجود آندهیوں کی زد میں تها. نہ جانے کب تک میں وہیں بیٹها رہا. اور پهر بوجهل قدموں سے اٹھ کر باہر نکل آیا...
Post a Comment (0)
Previous Post Next Post