Khamoshi episode 03 - by ushna kausar sardar

 

Khamoshi novel by ushna sardar

 


قسط نمبر 3
مصنفین: (Writers)
1: عشنا کوثر سردار
2: اقصیٰ سحر
3: ماہ نور نعیم
4: فاطمہ نور
5: خدیجہ عطا
6: مہوش ملک
7: سیّدہ فرحین نجم
8: کوثر ناز
9: عائشہ تنویر
10: رابعہ امجد
11: صبا جرال
12: ماورہ طلحہ
13: اقراء اسلم
میں اپنا بیگ رکھ کے اس کی جانب تقریبابھاگا تھا، لیکن یہ دیکھ کہ میں مزید حیران رہ گیا کہ سیڑھیاں سنسان پڑی تھیں، میں ایک ہی جست میں سیڑھیاں پھلانگتا اوپر پہنچا، پوری راہداری کسی اجڑی ہوئی دلہن کی طرح منہ بسیرے میرے سامنے تھی
مجھے اوپر پہنچنے میں چند سیکنڈ ہی لگے ہونگے، بلی سرے سے غائب تھی ... یہ کیا ہو رہا ہے یہاں ..میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تھا، سارے کمرے دیکھنے کے باوجود بھی مجھے وہ بلی اور میری شرٹ دکھائی نہ دی میں الٹے قدموں نیچے کی جانب بھاگا، تھکن، فریش، آرام سب ذہن سے نکل گیا .. میرا رخ دادا جی کے کمرے کی جانب تھا ...
" دادا جی میں نے محسوس کیا ہے کہ اس حویلی میں کچھ گڑبر ہے آج میرے آفس کا کولیگ بتا رہا تھا کہ یہاں چند سال پہلے کسی بزرگ کا قتل کرکے آگ لگادی گئی تھی" میں نے دادا جی کے صبح والے طنز کو نظر انداز کرتے ہوئے الماری کی سمت منہ کیئے کھڑے دادا جی سے سوال کیا تو دادا جی کے چہرے پر ایک سایہ سا لہرا کر گذر گیا میں نے محسوس کیا کہ انکے چہرے پر پسینے کے چند قطرے یکدم ابھر آئے تھے انکی پیشانی کی لکیریں بھی مزید واضح ہوگئی تھی مجھے انکے چہرے کا ایک حصہ واضح نظر آرہا تھا خوف کی ایک لہر میرے پاؤں کے تلوؤں سے جان خارج کررہی تھی
دادا جی نے یکدم پلٹ کر میری سمت دیکھا تو خوف سے میری سانسیں حلق میں اٹک گئی
" اچھا " دادا جی کی جگہ موجود اسی صبح ڈائنگ ٹیبل والے آدمی سے ملاقات ہوئی تو میں چینخ بھی نہ سکا میں نے فوراً پلٹ کر دروازے کی سمت دیکھا وہ اپنے آپ بند ہوچکا تھا
فرار کی کوئی راہ نہ تھی میری آنکھیں خوف سے باہر کو ابل آئی تھی میں نے انہیں اپنی سمت آتے دیکھ کرزور دار چیخ ماری اور بے ہوش ہوگیا ۔۔
کافی دیر بعد آنکھ کھلی ہوش میں آ کر چند لمحے تو مجھےسمجھ ہی نہیں آیا کہ میں کہاں ہوں. جب میں نے حواس بحال کر کےجگہ شناخت کی اور بیہوشی سے پہلے کے واقعات یاد کئے تو بے اختیار اٹھ بیٹھا.
میں توہمات پر یقین نہیں رکھتا تھا لیکن میرے ساتھ ہونے والے ناقابل یقین حالات بہرحال ایک حقیقت تھے.
"جن بزرگ کاانتقال ہوا وہ کون تھے؟"
"ان کا اس حویلی سےکیا تعلق ہے؟"
"بلی کا اس سارے قصے میں کیا کردار ہے؟"
سوالات کا ایک اژدھام تھا جو دماغ میں چکرا رہا تھا.
بمشکل خود کو سنبھالتے اور تمام باتوں کو ذہن سے جھٹکتے ہوئے میں حویلی کی طرف روانہ ہوا. چوکیدار نے قدرے حیرت سے مجھے دیکھتے چھوٹا دروازہ وا کیا تھا.
میں اندر داخل ہوا تو لان میں دادا جی بیٹھے چائے سے لطف اندوز ہو رہے تھے، مجھے دیکھتے ہی بولے
"آپ کہاں سے آ رہے ہیں ریان میاں ؟ ہمیں تو چوکیدار نے بتایا کہ آپ اندر ہیں"
ان کا اندازا، اتنا سادہ اور سچا تھا کہ میں انہیں دیکھتا رہ گیا
پے در پے حالات ایسے ہوگئے تھے کہ اب حیران ہو کہ بھی حیرت ہوتی تھی، وہ پراسرار بلی دادا جی کے قدموں میں محو استراحت تھی، پہلی بار اسے اتنے مطمئن حالت میں آنکھیں بند کیے دیکھا تھا.. مجھے اس گتھی کو سلجھانا تھا .. میں کرسی کھینچ کے وہیں دادا جی کے بالکل سامنے بیٹھ گیا .. کرم دین ریان میاں کے لیے چائے لے آؤ ..لگتا ہے بہت مسافت طے کر کے تھک کے آئے ہیں .. دادا جی کے معنی خیز انداز پہ میں چونکا تھا ..
دادا جی میں پیچھے جنگل میں گیا تھا .. اپنے طور سے میں انہیں چونکانا چاہا لیکن ان کا انداز بدستور نارمل تھا .. اچھا .. تو کیا دریافت کیا وہاں ..؟ چاۓ کی چسکی بھر کے معنی خیز انداز میں بولے ... میری شرٹ صبح پراسرار طور پہ غائب ہو گئی تھی، بس اسے ڈھونڈتا ہوا وہاں نکل گیا تھا .. کرم دین میری چائے لے آئے تھے میں نے کپ تھامتے ہوئے اپنا لہجہ حتی المکان نارمل رکھا تھا نظریں ہنوز دادا جی پہ ٹکی ہوئی تھیں ... وہ زیر لب مسکرا رہے تھے ... .مجھے ان کی مسکراہٹ بھی پراسرار لگی جیسے وہ سب جانتے ہیں .. جنگل میں ... کرم دین کی آواز پہ میں چونکا
ریان بابو ..جنگل میں کیا کرنےگئے تھے آپ ؟؟ کرم دین نے پریشانی سے پوچھا ... وہ شاید دادا جی کے ساتھ میری گفتگو نہیں سن سکے تھے ...
کیوں ..؟؟
کوئی خاص بات ہے کیا وہاں .. میں تفتیشی نظروں سے کبھی داداجی تو کبھی کرم دین کو دیکھ رہا تھا ... ریان بابو .. اس جنگل میں ... اس کے الفاظ ابھی منہ میں ہی تھے کہ اچانک سکوں سے سوئی ہوئی اس پراسرار بلی نے کرم دین پہ حملہ کر دیا .. اس اچانک حملے پہ کرم دین تو گرا ہی میں بھی بدحواس سا کرسی سے نیچے گر گیا ...
کرم دین کے منہ سے ایک خوفناک چیخ بلند ہوئی جس نے فضا میں ایک عجیب سا ارتعاش پیدا کیا بلی نے اپنے نوکیلے پنجوں سے کرم دین کا چہرہ لہولہان کر دیا اور اور یہ کام کرنے کے بعد وہ گھاس پر بیٹھی فاتحانہ نظروں سے دیکھ رہی تھی جیسے کوئی بہت بڑا کارنامہ سر انجام دے چکی ہو میرا تو وہ حال تھا کاٹو تو بدن میں لہو نہی، میں نے دھڑکتے دل سے ایک نظر دادا جی کو دیکھا مگر یہ کیا وہ کرسی تو بلکل خالی تھی وہاں کسی زی روح کا نام و نشان تک نہی تھا مجھے اچھی طرح یاد تھا کہ دادا جی میرے ساتھ چائے پی رہے تھے اور بلی ان کے قدموں میں ہی تو لیٹی تھی میں نے کرم دین کی طرف دیکھا وہ زمین پہ لیٹا نیم بیہوشی کی حالت میں تھا ڈر کی وجہ سے شاید اس کا یہ حال تھا میں نے دیکھا بلی بھی غائب تھی میں وہاں ایک لمحہ بھی ضائع کیئے بنا ہویلی کے اندرونی حصے کی طرف بھاگا میرے قدموں میں بجلی کی سی تیزی تھی میں جلد سے جلد اپنے کمرے میں پہنچنا چاہتا تھا مگر وہاں پہنچتےہی ایک اور ناقابل یقین منظر میرا منتظر تھا۔۔۔۔۔
راہداری نیم تاریک تھی۔ قیمتی دھات سے بنا وہ سنہری صندوق جو اس رات حویلی کے داخلی دروازے پر میں دیکھ چکا تھا وہ ایک مرتبہ پھر میرے سامنے تھا ۔ میں گھٹنوں کے بل وہیں بیٹھ گیا۔ راہداری کے آخری سرے پر بنی سیڑھیوں پر مدھم روشنی نمودار ہوئی۔ اس روشنی میں ایک اداس آنکھوں والی خوبصورت لڑکی نمودار ہوئی اور آہستہ آہستہ صندوق کی جانب بڑھنے لگی۔ جونہی اس نے صندوق کی طرف ہاتھ بڑھایا سارا منظر بدل گیا۔
اب میں اس راہداری میں نہیں تھا۔ بلکہ جھاڑیوں میں تھا۔ اور مجھ سے کچھ فاصلے پر اس خؤبصورت لڑکی کی ادھ جلی لاش پڑی تھی ۔۔ میں نے ایک جھٹکے سے اٹھنا چاہا مگر ۔۔۔۔
مجھے لمحہ بھر کو دادا جان بھی کوئی عجیب پراسرار کردار لگے تھے مگر وہ اتنے نائس پرسن تھےکہ میں ان کے لئے اپنے ذہن میں فی الحال کچھ سوچنا نہیں چاہتا تھا۔ وہ اچھے انسان تھے اور ان کا پراسرار ہونا شاید اس لئے لگا تھا کہ وہ اپنی بلی کو ڈی فنڈ کر رہے تھے چونکہ وہ بلی ان کو عزیز تھی۔ پالتو جانور کس قدر عزیز ہو سکتے ہیں مجھے اس کا اندازہ تھا کیونکہ میرا بھی ایک پالتو کتا تھا اور اس کا نام جو جو تھا جب سے میں یہاں منتقل ہوا تھا تب سے اکثر اماں فون پر بات کرتے ہوئے جو جو کی باتیں کرتی تھیں کہ وہ کس طرح مجھے مس کرتا تھا اور اماں کی بات سن کر میں نے ان کو مشورہ دیا تھا کہ جو جو کو کسی ملازم کے ساتھ یہاں بجھوا دیں۔ میں بھی جوجو کو اکثر یاد کرتا تھا ۔ وہ
Akita Breed
کا ایک بہت ہینڈسم کتا تھا اور میرے لڑکپن سے میرے ساتھ تھا۔
لمحہ بھر کو میرا دھیان جوجو کی طرف نکل گیا تھا۔ جہاں سبھی کچھ دیر قبل جو واقعہ ہوا تھا وہ کس کی بھی اوسان گم کو دینے والا واقعہ تھا میں ایسی صورتحال پر غیر جانبدار ہوکر سوچنا چاہتا تھا مگر فی الحال جیسے میرا دماغ مفلوج ہو چکا تھا اور میں کچھ سوچ اور سمجھ نہیں پا رہا تھا ۔
اس ماحول سے دھیان ہٹانے کو میں کافی شاپ آگیا تھا ۔
کافی کے سپ لیتے ہوئے میرے دماغ کو جیسے بہت سکون ملا تھا ۔
تبھی میری نظر سامنے میز پر بیٹھی اس لڑکی پر پڑی تھی، وہ اپنے دوستوں کے ساتھ غالبا اپنا برتھ ڈے سلیبریٹ کر رہی تھی۔
اس کے کی صبیح چہرے میں عجب رعنائی تھی اور میں جانے کیوں اس کی سمت دیکھتا گیا تھا۔ میرے مسلسل دیکھنے پر وہ یکدم چونکی تھی اور میری طرف دیکھا تھا۔
میں جیسے اسے جتانا نہیں چاہتا تھا کہ میں اس کی طرف متوجہ تھا، تبھی نگاہ ہٹا کر اجنبی بن جانا چاہا تھا مگر وہ جیسے میری چوری پکڑ چکی تھی تبھی اس نے کیک کا ایک بڑا سا پیس پلیٹ میں رکھا تھا اور ایک اعتماد سے چلتی ہوئی میری طرف آگئی تھی۔
میں اس کی آمد پر قدرے حیران ہوا تھا مگر اس نے کیک والی پلیٹ میرے سامنے رکھی تھی اور بنا اجازت مانگے خود بھی چئیر کھیچنے ہوئے بیٹھ گئی تھی۔ اس کا اعتماد حیران کن تھا میں جب سے یہاں آیا تھا عجیب عجیب واقعات کے تسلسل نے میرے سوچنے سمجھنے کی حسیات کو جیسے منجمد کر دیا تھا،
تبھی میں نارمل انداز اختیار نہیں کر پایا تھا اور عجیب جائزہ لیتی نظروں سے اسے دیکھا تھا اور تبھی وہ مسکرائی تھی ۔
"ہائے آئی ایم آئینہ حمزہ ۔
میں کافی دیر سے دیکھ رہی تھی آپ کو کافی خوفزدہ اور کھوئے کھوئے سے لگے آپ، ایکچوئیلی میں نہیں چاہتی کہ میرے برتھ ڈے کے دن کوئی اداس رہے سو میں رہ نہیں پائی اور یہ کیک لے کر آپ کی میز پر آگئی۔ "
وہ بہت دلکشی سے مسکرائی تھی۔
"I really don't know whether I should talk you more or not but I felt you needed someone to share something.
آپ کو آپ کی پریشانی کسی اپنے سے ضرور بانٹنا چاہئے ۔ "
اس لڑکی میں ایک خاص بات تھی اور وہ خاص بات کیا تھی فی الحال میں سمجھ نہیں پایا تھا مگر میں اسے ایک حیرت سے دیکھ رہا تھا وہ لڑکی بلاشبہ خوبصورت تھی اور بہت حیراں کن بھی۔
Post a Comment (0)
Previous Post Next Post