کیا یہ صرف ولی خان کی موت کی کہانی ہے جو ایک جندر پہ آئی آخری چونگ آنے کے پینتالیس دنوں بعد تک دھیرے دھیرے موت کی آغوش میں جاتے ہوئے یہ سوچ رہا کہ اس کی موت کے بعد سب سے پہلے کون ہو گا وہ شخص جو اس کی موت کی کھوج لگا پائے گا؟ اور اسی دوران وہ بیتے سمے ، رسموں،محبتوں اور رواجوں بارے سوچی جا رہا ہے
۔
مجھے تو یہ جندر اور جندروئی کی تہذیب کے ساتھ ہر اس قدیم روایت اور رسم کے خاتمے کی کہانی بھی لگتی جنہوں نے انسانوں کو آپس میں جوڑ رکھا تھا اور ان کے خاتمے کے ساتھ انسان ایک دوسرے سے نامعلوم اور غیر محسوس انداز میں دور ہوتے جارہے۔ مادیت انہیں گھیرتی جا رہی اور سارے کے سارے اپنی ذات کے دائروں میں سمٹتے جا رہے ہیں۔
جیسے بجلی سے چلنے والی چکی جندر کے خاتمے کا باعث بنی، یا جس طرح ٹریکٹر کے آنے سے لیتری اور گاہ جیسے سالانہ مل ملاپ کے رواج اپنے انجام تک پہنچے وہیں اور بھی کئی خوبصورت ریتی رواج ایسے ہیں جو دھیرے دھیرے اس ماڈرن ازم کے ہاتھوں مٹتے چلے جا رہے۔ ولی خان اور جندر کا تعلق اور ان کا خاتمہ تو ایک استعارہ ہے کہ کیسے جدیدیت پرانے نظام کی موت بن کے دھیرے دھیرے ہر اس چیز کو کھاتی جارہی ہے جو ایک زمانے میں بنی آدم کی جڑت ، ساتھ اور مل جل کے رہنے کی وجہ تھی۔
سادہ بیان کا حامل یہ ناول انتہائی دلنشین انداز میں واقعات کو بیان کرتا چلا جاتا ہے۔ ایک سو بیس صفحات میں جانے کتنی کہانیوں کا کولاژ ایک بھاری پن کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچتا۔ مجھے شاید یہ ناولٹ اس لئے بھی زیادہ پسند ہے اور میرے دل میں اداسی کی ایک کسک جگاتا کہ میری یاداشت میں وہ زمانے اب بھی ہیں جب لیتری(ہمارے ہاں اسے ونگار بولتے) ، گھروں کی اجتماعی تعمیر(جہاں مزدوری صرف مستری لیتا) گاہ( جانوروں کے ذریعے غلے کی صفائی) وغیرہ جیسے اجتماعی کام لوگوں کو آپس میں جوڑے ہوئے تھے اور اب ہمارے لوگ مادیت پرستی کے ہاتھوں کہیں زیادہ ایک دوسرے سے دور ہو گئے جتنے اور کسی جگہ ہوئے ہوں گے