کتاب: انسان اور دیوتا مصنف: نسیم حجازی
نسیم حجازی سے میرا تعارف اپنے ہاتھ میں لی جانے والی پہلی کتاب "خاک اور خون" نے کروایا تھا۔۔۔۔۔۔۔✨ "انسان اور دیوتا " کا تعلق بڑا پرانا ہے۔ انسان نے ذاتی عداوت کی آڑ اور اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے ذات پات کے بت تراشے تھے۔
ہندو مذہب بھی اپنے ماننے والوں کی چار قسموں میں درجہ بندی کرتا ہے۔ ان میں سب سے کم تر " شودر" مانے جاتے ہیں۔ انھیں اچھوت گردان کر تمام ضروریات زندگی سے محروم کردیا جاتا ہے۔ سماج کا یہ قابل نفرت گروه عام لوگوں کی آبادیوں سے دور حسرت بھری نگاہیں لیے ویرانوں تک محدود کیا جاتا ہے۔ جن کے آزاد بدن غلام ذہن کی پرورش صدیوں سے کرتے آئے ہیں۔ دیوتا سے اپنی آرزوئیں منوانے کے لیے نیچ ذات والوں کو قربان کیا جاتا رہا ہے۔۔۔۔۔
اس کہانی کی بنت میں بہت سے کردار شامل ہیں لیکن در حقیقت یہ داستان عکاس ہے روز ازل سے ترقی پسند اور مہذب سماج کے بنائے گئے ناانصاف قوانین کی۔ یہ کہانی بتلاتی ہے کہ طاقتور جب زور بازو سے رعایا کا سر جھکا نہ پائے،تلواروں کی جھنکار جب انہیں آزادی کے نغمے نہ بھلا پائے تو وہ ذہنی غلامی کا حربہ آزماتا ہے۔ وہ ظلمت کے چہرے پر انسانی ہمدردی اور فلاح کا نقاب چڑھاتا ہے۔ اس طرح وہ خون کا ایک قطرہ بہائے بغیر نسل در نسل پیدا ہونے والے غلام حاصل کر لیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤
کہانی کا آغاز ایک لشکر کا سپہ سالار "سکھدیو" کرتا ہے جو طوفان میں بھی دریا عبور کرنے کا پختہ ارادہ کیے ہوئے ہے۔ وہ دریا پار کرکے شودروں کا خون بہا کر زمین کو پاک کرنا چاہتا ہے۔ مگر قسمت انسان کے عظم کی تابع نہیں۔ اس کے فاتح بننے کے عظم کے ساتھ کشتی زندگی کی رمق بھی لے ڈوبتی ہے۔ وہی شودر اُسے بچا کر عزت وتکریم عطا کرتے ہیں۔ کنول نامی لڑکی اپنی نسوانی ہمدردی کے تحت اُس زخمی کا خیال کرتی ہے۔ اچانک ایک دن بادشاہ کی فوجیں وہاں پہنچ کر لوگوں کا قتل عام شروع کرتی ہیں۔ اپنے محسنوں کا یہ حال سکھدیو کے دل سے تمام نسلی امتیازات کو بھلا دیتا ہے ۔ شجاعت و عزم کا پیکر وہ سپاہی کہانی کو کیا رخ دیتا ہے کتاب کو پڑھ کر جانیں۔۔۔۔۔۔۔✨