شہر کی موت افراد کی موت سے مختلف ہوتی"
".ہے ان کا سانس یا یکدم نہیں ٹوٹ جاتا
شہر یکدم نہیں مرتے جیسے کسی بھی تہذیب اور معاشرے پر یکدم زوال نہیں آتا دھیرے دھیرے کئی وجوہات اور اسباب کی بنیاد پر وہ تہذیب وہ معاشرہ زوال کی جانب بڑھتا چلا جاتا ہے اور بالاخر اس نہج پر پہنچ جاتا جہاں سے اپنی گزشتہ رفعت کی طرف لوٹنا ناممکن سا ہو جاتا ہے۔
اسامہ صدیق کا یہ ناول روایتی ناولز کی طرح نہیں کہ جس میں کہانی کا آغاز واقعات کی ایک ترتیب اور اختتام ہوتا ہے۔قبرستان سے شروع ہونے والی یہ کہانی جب آہستہ آہستہ اگے بڑھنے لگتی ہے تو آپ کو ایک عجیب طرح کا تلخ احساس اور اداسی اپنی گرفت میں لے لیتی ہے جو ہر اگلے باب کے ساتھ بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔بظاہر یہ ایک خاص شہر کی سماجیات معاشرت معاشیات ماحولیات نظام تعلیم اور نظام انصاف کے بتدریج زوال اور انحطاط کی کہانی ہے لیکن حقیقت میں مجموعی طور پر یہ اس ملک کے سارے نظام کی زوال کی ایک داستان ہے۔
زوال کی اخری حدوں کو چھوتا نظام تعلیم جہاں اساتذہ کی اکثریتی تعداد جاوید ساقی جیسے اساتذہ پر مشتمل ہے جہاں ہر ادارے میں ڈاکٹر نوریز احسن جیسے پیر تسمہ پا پنجے گاڑے بیٹھے اور جس میں طیبہ خالہ جیسے ذہین اور روشن دماغ معاشرتی حالات اور رویوں کی وجہ سے اذیت اور کرب کا شکار رہتے ہیں۔جہاں قاضی الاول جیسے نوٹنکی کی روزانہ ایوان عدل میں سرکس لگا کے بیٹھتے ہیں ۔جہاں آج بھی ماحولیات درختوں صاف ہوا پرندوں اور جانوروں کی فلاح کی بات کرنے والا بیوقوف گردانہ جاتا ہے کہ جب زمین کا ایک ٹکڑا پلاٹ کی صورت میں آپ کی جیب بھر سکتا ہے تو پودوں پرندوں جانوروں اور ماحولیات کی کس کو پڑی۔
جہاں بجائے کوئی قانون بنانے اور عمل کروانے جیسے اقدام کرنے کے بجائے بسنت جیسے خوبصورت تہوار کا ہی خاتمہ کر دیا جاتا ہے جہاں پرانے درخت اور قدیم مکانات گرا کر بے ڈھبے اور انکھوں کو چبھنے والے مکانات کی تعمیر اب بھی عام سی بات ہے جہاں ڈنڈے والے اب بھی ہر قانون سے بالاتر ہیں افکار کموڈوی جیسے انسان ہر غلیظ حرکت اور ہر قسم کی کرپشن کرنے کے باوجود نظام کے چلتے پرزے بنے پھرتے ہیں
۔
اگر اپ بھی ناسٹلجیا کی ماری روح ہیں درخت پرندے جانور خوبصورت پرانی عمارتیں ایک پرانی تہذیب اور معاشرت کے دلدادہ انسانی عزت وقار اور عالی دماغی کے معترف ہیں تو یہ کتاب پڑھیں۔اگرچہ بقول مصنف یہ کوئی ہما وقت منطقی کڑیوں سے کڑیاں ملاتی باقاعدہ آغاز اور اختتام کی حامل کہانی تو نہیں لیکن یہ خوبصورت نثر میں گندھا ایک نوحہ ضرور ہے ۔یہ ناول پڑھ کے آپ کو سوچنے اور کڑھنے کو بہت کچھ ہے
This Book is only available in Hard Form.