جہاں یہ ناول ایک طرف اشرافیہ کے اللے تللے دیکھاتا ہے جو چھوٹی چھوٹی باتوں پہ ہزاروں روپے اڑا دیتے ہیں وہی اسی معاشرے میں ھوری رام ،گوبر،م اور دھنیا جیسے لوگوں پہ مشتمل ایک کسان طبقہ بھی ہے۔
وہ کسان کہ جو خود سارا سال کولہو کے بیل کی طرح دن رات کام کرتا ہے تو فصل کے اختتام پہ کبھی اس کا استحصال کنے سرکاری نمائندہ آ پہنچتا ہے۔ کبھی لگان کے نام پہ اس کو دبایا ہو جاتا ہے تو کبھی ماما دین جیسے ساھوکار مذھب کا لبادہ اوڑھے پہنچ جاتے ہیں۔۔۔وہ کسان کہ جس کو اپنی سانسوں ک رشتہ جوڑے رکھنے کے لئے ۔۔۔۔ اور ۔۔۔ اپنے بچوں کا دوزخ دو وقت اناج سے بھرنے کے لئے قرض لینا پڑتا ہے۔۔۔۔ اور اسی قرض ۔۔۔ اور ۔۔۔ اس کے سود کو ادا کرنے میں اس کی نسلیں اور زندگیاں گزر جاتی ہیں
پریم چند کے اس شاھکار میں ھندوستان میں زات پات اور سماجی تفریق کو بہت خوبصورت اور حقیقت کے قریب ترین انداز میں دکھایا گیا ہے۔ کبھی اس سماج کے کسی رخ کو دیکھ کے اپ کراھت محسوس کریں گے تو کبھی کسی کردار کی بے بسی آپ ک دل توڑ کے رکھ دے گی۔۔۔۔ بہت سے کردار۔۔۔ ہر کردار کا اپنا دکھ اور المیہ۔۔۔ سوائے کسان کے کہ کسان کسی بھی دھرتی کا ہو ان کے دکھ ،سکھ اور دن رات ایک سے ہوتے ہیں
اگر اب سنجیدہ ادب کے رسیا ہیں تو آپ ضرور پڑھیں یہ ناول