خاکے جب بھی لکھے گئے تو عموماً مشہور یا بڑی ہستیوں کے لکھے گئے۔۔ ایسا کم ہی ہوا ہے کہ ایک خاص تہذیب اور شہر کی ثقافت اور بود وباش کو بنیاد بنا کر اسی شہر کے عام لوگوں کو کسی مٹتی یا مٹ چکی تہزیب کے آخری چراغوں کو موضوع بنایا گیا ہو۔ دلی کی چند عجیب ہستیاں ۔۔۔۔ ایسی ہی کتاب ہے
۔
۔
خوجہ انیس سے شروع ہونے والی یہ داستان جب پرنانی پہ ختم ہوتی ہے تو آپ مرحوم دلی کے وہ وہ رنگ دیکھ چکے اور ایسی نادر ہستیوں سے مل چکے ہوتے ہیں کہ واہ سبحان اللہ.
۔
۔
گھمی کبابی، مٹھو بھٹیارا، لمن نائی، مرزا چپاتی، گنجے نہاری والے ، مرزا ٹوٹرو، پیر جی کوے ،سیدانی بی ، نیازی خانم اور پرنانی جیسے اور بہت سے کردار۔۔۔۔ ہر کردار اپنے آپ میں ایک الگ دنیا۔اور دنیا بھی ایسی کے آپ بس وہیں بسنا چاہیں۔ تزکرے ایسے کہ پڑھتے جائیں پر دل نہ بھرے
۔
۔
یہ کتاب ان کرداروں سے زیادہ دلی کی مٹ چکی تہذیب کو ڈاکومینٹ کرنے کی کوشش زیادہ لگتی ہے۔۔۔دلی کے رسم و رواج، کھابے، تہذیب و معاشرت، اٹھک بیٹھک، زبان و بیان غرض ہر ہر پہلو کا شاندار نمونہ آپ کے سامنے رکھ دیا گیا ہو جیسے۔۔۔ نثر و زبان اتنی شائستہ کہ پڑھئے تو منہ میں چاشنی سی گھلتی محسوس ہو۔۔۔۔ ایسی خوبصورت اور نستعلیق اردو، جس میں محاوروں اور ضرب الامثال کا کیا خوبصورت تڑکہ لگا ہے میں نے تو آج تک نہیں پڑھی۔یہ کتاب آپ کو اپنے وقتوں کی دلی کے چند چاول چکھا کہ دعوت فکر دیتی ہے کہ سوچ لیجئے بابو بھیا۔۔۔یکھئے کہ۔۔ مرحومہ دلی کس بلا کا نام تھا۔۔۔ چونکہ دلی کی تہذیب کے یہ نمائندہ کسی نہ کسی طرح مغلوں کے قلعے سے وابستہ تھے تو مصنف جاتے جاتے کہہ گئے
۔
۔
"افسوس قلعے کی یہ اینٹیں نکل نکل کر پہلے تو دلی کے روڑے بنےپھر یہ روڑے بھی نہ رہےایک ایک کر کے سب قبروں میں پٹ گئےچاور جو اکا دکا ٹھوکروں میں آرہےآگے پیچھے وہ بھی خاک میں مل جائیں گے"
۔
رہے نام اللہ کا