کتاب: دہلی کا ایک یادگار مشاعرہ
مصنف: مرزا فرحت اللّہ بیگ دہلوی
مرزا فرحت اللّہ بیگ دہلی میں پیدا ہوئے۔ اس زمانے میں مغل حکومت کا تختہ الٹ چکا تھا اور برصغیر پاک و ہند میں انگریز سرکار کا راج تھا۔ مرزا کو واقعہ تراشی اور سُخَن آفْرِینی میں کمال حاصل تھا۔ ان کے مضامین میں ادبی ظرافت اور متین مزاح کا اسلوب نظر آتا ہے۔ ان کا انداز بیان شگفتہ اور شوخ ہے۔ وہ اردو کے پہلے خاکہ نگار بھی مانے جاتے ہیں۔
"دہلی کا ایک یادگار مشاعرہ" ان کی ایک اعلیٰ تصنیف ہے جس میں دہلی کے عالی شان شاعروں کی قلمی تصویریں پیش کی گئی ہیں جس کا مقصد یہ ہے کہ لوگ ان کے اَنْدازِ شعر گوئی اور طرزِ شعر خوانی کو اچھی طرح سمجھ سکیں۔ یہ کتاب ایک بڑے عرصے تک نصاب میں پڑھائی جاتی رہی اور اس پر اورنگ آباد میں ایک کامیاب سٹیج ڈرامہ بھی پیش کیا گیا۔
یہ مشاعرہ اس زمانے میں ہوا جب ریختہ کا استعمال عام نہیں تھا اور فارسی رائج تھی۔ اس لیے مشاعرے میں بہت سے ایسے شاعر حضرات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جن کا رجحان فارسی کی طرف زیادہ تھا۔ اس مشاعرے میں دہلی کی ادبی اور تہذیبی زندگی کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ دلی کی بربادی کے بعد شاعروں کا بھی عجیب حال تھا۔ ان کی جسمانی اور دماغی قُویٰ میں اِنْحِطاط پیدا ہوگیا تھا۔ ایسے میں انھیں ایک جگہ پر اکٹھا کرنا مشکل کام تھا لیکن کریم الدین اور نواب زین العابدین خاں عارف کی کوششوں سے اس مشاعر کا اہتمام کیا گیا جس میں غالب، ذوق، مومن خان مومن، داغ، سالک، شیفتہ، بسمل اور آزاد سمیت اور بھی کئی گوہر نایاب شامل تھے۔
مرزا صاحب کی اس تحریر میں خوش طبعی اور ادبی مزاح کے عناصر بدرجۂ اتم پائے جاتے ہیں۔ جس طرح وہ تمام شعراء پر تنقید کرتے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک بہترین نقاد بھی تھے۔ (یہاں تنقید کا لفظ برے معنوں میں استعمال نہیں کیا گیا۔)
اس زمانے میں شعراء کا انداز کیسا تھا، کس طرح اشعار پر داد دی جاتی تھی، کس طرح نوجوان شعراء کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی، شعراء کی حرکات و سکنات، ان کی آواز کی کیفیت، نشست و برخاست کے طریقے، ان کا مزاج، ان کا لباس اور وضع قطع یہ سب مصنف نے بڑے دلکش انداز میں بیان کیا ہے۔
اس کتاب کی ذریعے بآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آج کل کے مشاعروں اور اس زمانے کے مشاعروں میں کیا فرق تھا۔