Dare Dil Novel By Nabila Aziz - pdf download


dare dil by nabeela aziz

**ناول: در دل - ایک منفرد کہانی**


عام طور پر ناولوں میں ہیرو اور ہیروئن کی پہلی ملاقات پہلے ہی صفحے پر، تیسرے یا چوتھے سین میں، یا پہلی قسط کے آخر میں ہو جاتی ہے۔ لیکن نبیلہ عزیز کا ناول "دردل" ان سب سے مختلف ہے۔ اس میں ہیرو دلاور اور ہیروئن علیزے کی باقاعدہ ملاقات بارویں قسط میں ہوتی ہے۔ ان کی کہانی آدھے ناول تک نظر نہیں آتی، پھر اچانک دلاور علیزے کو اٹھا لیتا ہے، دلاور کو محبت ہو جاتی ہے اور علیزے کو نفرت، جو بعد میں محبت میں بدل جاتی ہے۔ اس تبدیلی سے قاری حیران رہ جاتا ہے۔ وقت، حالات اور جذبات سب بدل جاتے ہیں، قاری کے ساتھ ساتھ علیزے اور دلاور کے جذبات بھی بدل جاتے ہیں۔


ناول کی ایک بڑی کمزوری اس کا "پرپل پروس" ہے۔ پورا ناول شاعرانہ انداز میں لکھا گیا ہے، جس سے ناول کی جان نکل جاتی ہے۔ ہر کردار لمبی لمبی شاعرانہ باتیں کرتا ہے۔ حقیقت میں، کوئی شخص چوبیس گھنٹے شاعرانہ نہیں ہوتا۔ اگر ناول میں صرف ایک کردار شاعرانہ ہوتا تو شاید کہانی میں جان پڑ جاتی۔


ناول میں بہت زیادہ کردار اور کہانیاں ہیں۔  ایک ہی ناول میں اتنے زیادہ کردار، اتنی کہانیاں اور ان سب کی شادیوں کی تفصیلات بہت زیادہ ہیں۔ بیک سٹوریز اگر مرکزی کرداروں تک محدود رہتیں تو اچھا ہوتا۔


اب آتے ہیں مرکزی کردار دلاور کی طرف۔ دلاور، جو کہ کافی ٹاکسک ہے، علیزے کو اغوا کر کے بدلہ لیتا ہے۔ دلاور خود ترسی کا شکار ہے اور ہیروئن کو اتنے جھٹکے دیتا ہے کہ آخر میں ہیروئن کو بھی اس سے محبت ہو جاتی ہے۔ اس کی حرکتیں کبھی کبھار اتنی زیادہ ہوتی ہیں کہ قاری کو یقین کرنا مشکل ہوتا ہے۔


"در دل" ایک فیسبکی ناول ہے جس میں بے شمار کردار، بے شمار کہانیاں اور بے شمار متنازعہ سین ہیں۔ جب بڑے رائٹرز قابل اعتراض مواد لکھتے ہیں تو ان کے الفاظ میں پختگی ہوتی ہے، لیکن جب کوئی نیا لکھاری اپنی جذبات کا اظہار کرتا ہے تو لوگ اسے تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ یہ منافقت نہیں تو اور کیا ہے کہ نبیلہ عزیز کے کردار کی متنازعہ حرکتیں تعریف کے لائق سمجھی جاتی ہیں؟




  • fictionwithchocolate's profile picture

    عموما ناولوں میں ہیرو ہیروئن پہلے صفحے پر مل جاتے ہیں۔ یا تیسرے چوتھے سین میں یا پہلی قسط کے آخر میں۔ لیکن نہیں دردل ایک منفرد ناول تھا۔ اس میں ہیرو ہیروئن بارویں قسط پر باقاعدہ طور پر ملتے ہیں۔ یہ تھی علیزے اور دلاور کی شاندار کہانی۔ جو آدھے ناول میں تو آپ کو نظر ہی نہیں آتے۔ پھر اچانک سے ملتے ہیں۔ اچانک سے دلاور اسے اٹھا لیتا ہے۔ اچانک سے دلاور کو محبت ہوئی۔ اچانک سے علیزے کو نفرت ہوئی۔ پھر پیار ہوگیا۔ یک لخت وہ پیار سچے عشق میں بدل جاتا ہے کہ قاری کو سمجھ نہیں آتا۔ وقت بدل گیا۔ حالات بدل گئے۔ جذبات بدل گئے۔ حقیقتا قاری، علیزے اور دلاور کے جزبات بدل گئے۔

    ناول میں پرپل پروس کا مسلئہ تھا۔ پورا ناول بڑا شاعرانہ قسم کا تھا۔ اگر ناول میں صرف ایک کردار شاعرانہ ہو تو ناول میں جان پڑ جاتی ہے۔ پر ہر کردار ہی شاعر تھا۔ لمبی لمبی چھوڑ رہا تھا۔یوں ناول کی جان نکل جاتی ہے اور قاری کی بھی جان نکل جاتی ہے۔ اتنی گہری گہری باتیں پڑھ پڑھ کر۔ کون اصل زندگی میں اتنا ڈرامائی ہوتا ہے۔ آپ کے دوستوں میں کوئی ایک نمونہ ایسا ہوگا۔ وہ بھی چوبیس گھنٹے شاعرانہ نہیں ہوگا۔

    رائٹر دو ناول لکھ لیتی تو بہتر تھا۔ ایک ہی ناول میں اتنے کردار۔ اتنی کہانیاں اور ان سب کا سین چل رہا ہے۔ سب کی شادیاں ہورہی ہیں۔ تفصیلات بہت زیادہ تھیں۔ جو بیک سٹوریز تھیں وہ مرکزی کردار سے متعلق رہتیں تو اچھا تھا۔

    اب ہم مرکزی کرداروں پر آتے ہیں۔ دلاور کہوں یا دلاورے یا ڈرائیور؟ ہمارا ڈرائیور کافی ٹاکسک تھا۔ اس کے ساتھ برا ہوا اسی لیے اس نے سوچا کیوں نا علیزے کو اٹھا کر بدلہ لیا جائے۔ ڈرائیور خود ترسی کا شکار تھا۔ اس نے ہیروئن کو اتنے جھٹکے دیے کہ آخر میں ہیروئن کو بھی اس سے محبت ہوگئی۔ اب اچھے بھلے بندے کو آپ بار بار کندھے پکڑ کر جھنجھوڑی جائیں گے تو اس کا دماغی توازن نہیں الٹ جائے گا؟

    در دل ایک فیسبکی ناول تھا۔ جس میں ان گنت کردار۔ ان کی ان گنت کہانیاں۔ ان گنت استغفرللہ سینز تھے۔ پتا ہے کیا، جب بڑے رائٹرز قابل اعتراض چیز لکھتے ہیں تو ہم ان کو نہیں پکڑتے۔ کیونکہ ان کے الفاظ میں پختگی ہوتی ہے۔ لیکن جب کوئی ہمارے جیسا سکول کالج کا بچہ اپنے دلی جذبات صفحہ قرطاس پر اتارتا ہے، تو ہم کہتے ہیں، نہ بیٹا ایسے کیسے۔ تم پر تو حرام حرام کا فتوی لگائیں گے۔ لیکن جب نبیلہ عزیز کا دلاورے پلس ڈرائیور ہیروئن کو اغواء کرے، تھپڑ مارے، استغفرللہ سینز کرے تو ہم کہیں کہ واہ واہ کیا شاہکار لکھا ہے نبیلہ عزیز نے۔ مجھے منافقت کی بو آرہی ہے۔

Post a Comment (0)
Previous Post Next Post