کہانی جس میں ایک لڑکی ابیہا مراد کا نکاح معیز احمد سے بڑے ہی عجیب حالات میں ہوجاتا ہے۔ ابیہا کی ماں صالحہ جس نے اپنے سابقہ منگیتر سے بےوفائی کی ہوتی ہے اور ایک برے آدمی کے چنگل میں پھنس جاتی ہے جو اپنی بیٹی کو بھی جوے میں بیجنا چاہتا ہے ، وہ اپنے سابقہ منگیتر امتیاز احمد کی منت کر کے اس کی شادی ان کے بیٹے سے کردیتی ہے۔
چونکہ شوہر کی ایکس منگیتر ہونے پر معیز کی امی یعنی سفینہ بیگم اس سے نفرت کرتی ہیں اور ہر وقت اپنے شوہر کو صالحہ کی حرکتوں کا طعنہ دیتی ہیں تو ظاھر ہے یہ نفرت معیز کے اندر بھی منتقل ہوگئی اور وہ بھی ابیہا سے نفرت کرتا ہے۔ کہانی میں ایک ٹریک معیز کے دوست عون اور اس کی بیوی ثانیہ کا بھی ہے جو رخصتی سے انکار کرتی ہے کیونکہ پہلے عون نے اس کا گندا سا حلیہ دیکھ کر انکار کردیا تھا۔
ایک کردار رباب کا بھی تھا جو معیز کی بہن کی نند ہوتی ہے مگر ایک بگڑی ہوئی لڑکی ہوتی ہے جو کہ معیز کی شخصیت سے متاثر ہوتی ہے جبکہ سیفی( ایک اور کردار) جیسے عیاش اور لڑکیوں کو بیچنے کا کاروبار کرنے والے شخص سے اس کی اصلیت جانے بغیر اس کے پیسے سے متاثر ہوتی ہے۔
کہانی کافی لبی ہے ، نہیں بھی سمجھ آئی تو بس اتنا سمجھ لیں کہ ایک 'rude' ہیرو اختتام تک لائن پر آ ہی جائے گا😂۔ کہانی ایک عام سی کہانی تھی مگر مصنفہ کا انداز کافی میچور ہے کہ پڑھتے وقت عام سی کہانی میں بھی مزا آجاتا ہے۔ ابیہا کے دکھوں کو ، معیز کے جذبات کے اتار چڑھائو کو جس انداز میں بیان کیا گیا ہے وہ خالی خولی الفاظ نہیں لگتے بلکہ وہ لفظ واقعی محسوس ہوتے ہیں۔ کہانی میں عمر کا کردار(معیز کا کزن) مجھے بہت پسند آیا۔ تھا تو چھوٹا سا مگر منفرد تھا کیونکہ اسے ولن بنا کر نہیں پیش کیا گیا بلکہ اسے مثبت طریقے سے لے گئے۔
کہانی میں جو چیز مجھے بری لگتی ہے وہ ہے عفت سحر کے 'گرے کیریکٹر' نہ لکھنے کی عادت۔ مطلب جو اچھا ہے تو اتنا اچھا ہے کہ بس جیسے کوئی فرشتہ۔ جیسے ابیہا! جس کی اچھائی اور معصومیت کی کوئی انتہا ہی نہیں تھی۔ جبکہ سفینہ بیگم اور رباب بری ہیں تو اتنی بری ہیں کہ شیطان کو بھی مات دے دیں۔ مطلب ان میں سرے سے کوئی اچھائی ہے ہی نہیں۔ تو یہ چیز پڑھنے میں تھوڑی عجیب لگتی ہے۔
مجموعی طور پر یہ ایک اچھا ناول تھا جسے پڑھ کر آپ ضرور لطف اندوز ہوں گے۔