کتاب: بن پاکھی
ریٹنگ: 5/5
کل صفحات: 239
یہ کتاب جو کہانیوں پر مشتمل ہے۔ سب سے پہلے بن پاکھی کی بات کرتے ہیں۔ کہانیاں لکھی جاتی ہیں، ریڈرز پڑھتے ہیں، تعریف و تنقید کی جاتی ہے اور پھر لوگ بھول جاتے ہیں۔ ان بنتی بگڑتی کہانیوں کے منظر تراشنے میں رائٹرز کو دانتوں تلے پسینہ آ جاتا ہے۔ راتوں کی نیندیں قربان ہوتی ہیں۔ کئی کئی بار ری رائٹ کیا جاتا ہے۔ پھر جا کر شاہکار وجود میں آتے ہیں
بن پاکھی کہانی تھی، منظر نگاری تھی یا پھر سفر نامہ تھا؟ جو بھی تھا اس کہانی نے مجھے فرح بخاری سے متعارف کروایا۔ لیکن حیران کرنے والی بات یہ ہے کہ اب تک ادبی حلقوں میں اس ناول کا نام نہیں آیا۔ بن پاکھی کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اس کتاب میں مصباح سید اور حمیرا نوشین نے پیش لفظ لکھے ہیں۔ اس سے اندازہ کر لیں یہ کہانی کیسی ہو گی۔ سندربن کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ میرے لیے بھی سندربن بنگلہ دیش کا ایک جنگل تھا۔ فرح بخاری نے ایک منفرد طرز اور نئے انداز میں ناول لکھ کر کمال کر دیا۔ اس ناول میں جو منظر کشی کی گئی ہے وہ بہت ہی زیادہ کمال کی ہے۔
منظر کشی اتنی بھیانک قسم کی مطلب لوشے قسم کی تھی کہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہم بھی اُسی جگہ ہر ہیں۔ ناول کا ٹائٹل اور سر ورق اتنا پرکشش اور جازب نظر تھا کہ کتاب پر سے نگاہیں ہٹتی نہ تھیں۔ بہت مشکل سے وقفے وقفے کے ساتھ پڑھا کیونکہ ہم اپنے بڈی کے ساتھ جو پڑھ رہے تھے۔ سندربن جس کا چالیس فیصد حصہ انڈیا میں ہے اور ساٹھ فیصد بنگلہ دیش کا حصہ ہے۔ سندربن دنیا کا سب سے بڑا مینگرو جنگل۔ جو باگھ (ٹائیگرز اور نایاب جانوروں کی وجہ سے بھی مشہور ہے)
جی تو کہانی شروع ہوئی اکڑو گائیڈ سے جو اپنے آپکو ہنٹر کہلانا پسند نہیں کرتا تھا۔ اب آتے ہیں انڈیا اور ملتے ہیں یہاں کی ویملا رانی سے۔ جو باپ کے رویے سے پریشان ہو کر پرُسکون زندگی گزارنے کی خاطر اپنے باپ کے گھر سے بھاگ جاتی ہے۔ تو لیکن راستے میں اسکو اغواء کر لیا جاتا ہے۔ جبکہ اس واقعے کے بارے میں اُسے پہلے سے علم ہوتا ہے۔
یوں کہانی جان پکڑتی ہے۔ ابو صالح اور دھرمیشور شکلا کا سندربن سے نایاب جانور کی اسمگلنگ یا غیر قانونی کاروبار، ویملا کا کڈنیپ، رافع محمد اور ویملا کی محبت۔ کہانی کا دوسرا حصہ ( شامِ خزاں طویل سہی )ایک عام گھریلو زندگی پر مشتمل ہے۔ جس میں گھریلو زندگی کا موضوع بنا کر کہانی لکھی گئی۔ میرے لیے یہ اضافی کہانی تھی