بہاؤ" از مستنصر حسین تارڑ - تبصرہ
مستنصر حسین تارڑ نے اپنے ناول "بہاؤ" میں ناممکن کو ممکن کر دکھایا ہے۔ ہزاروں سال قبل کی تہذیب کو انہی الفاظ اور اسی ماحول میں بیان کرنا، اور وہ بھی ایسے جیسے تارڑ کو اس زمانے کا لکھا کوئی مخطوطہ ملا ہو جسے انہوں نے شائع کیا ہو، ایک حیران کن کارنامہ ہے۔ ظاہر ہے ایسا نہیں ہوا، لیکن ناول پڑھتے وقت قاری یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اس تہذیب کو سمجھنے اور بیان کرنے کے لیے تارڑ کو کتنی محنت کرنی پڑی ہوگی۔
"بہاؤ" میں ہمیں ایک مدر سری معاشرے کی جھلک ملتی ہے، جس میں عورت اپنی مرضی سے ایک سے زیادہ مردوں کے ساتھ تعلق قائم رکھ سکتی ہے۔ اس معاشرے میں عورت کا کردار مرد پر حاوی ہے اور مرد ایک معاون اداکار کے طور پر نظر آتا ہے۔
تارڑ کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے ڈورگا جیسے کردار کو تخلیق کر کے یہ دکھایا کہ کیسے اس کے آباؤ اجداد ہزاروں سال قبل کسی اینٹیں بنانے والے مالک کے کہنے پر اپنی زمینیں چھوڑ کر بھٹہ میں اینٹیں بنانے کے کام پر لگ جاتے ہیں اور پھر ہزاروں سال تک اس بھٹے سے باہر نہیں نکل سکتے۔ یہ بنیادی طور پر ایک استحصالی نظام کی طرف اشارہ ہے جو اس وقت بھی کسی نہ کسی طور رائج تھا۔
موہنجو میں ورچن اور وہاں کے ایک باشندے سے اس کی بحث کے ذریعے ہمیں مہاجر اور مقامی کے نظریات کا تصادم نظر آتا ہے۔ یہ بحث آج بھی شاید کہیں نہ کہیں موزوں ہے۔
گھاگرا کنارے بسنے والوں کی زندگیوں کا محور اور دار و مدار پانی ہے، یہی پانی ان کا خدا ہے۔ جب پانی نہیں آتا تو توہم پرستی وجود میں آتی ہے، اور اس طرح ہمیں اکثر مذاہب کی ابتداء کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ خوف کے عالم میں وجود میں آتے ہیں۔
مستنصر حسین تارڑ کا ایک اور کمال "بہاؤ" میں قدیم زبان کا استعمال ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ہزاروں سال قبل کون سی زبان بولی جاتی تھی، مگر تارڑ نے "بہاؤ" میں ایسی زبان استعمال کی ہے جو اردو ہونے کے باوجود قدیم لگتی ہے۔ پورا ایک منظرنامہ ہمارے سامنے آ جاتا ہے کہ قدیم تہذیب کے لوگ کیسے رہتے تھے اور کیا باتیں کرتے تھے۔ یوں لگتا ہے کہ یہ ناول اسی وقت میں لکھا گیا تھا اور ہم اسی عہد میں بیٹھے اسے پڑھ رہے ہیں۔
"بہاؤ" ایک شاہکار ہے جو نہ صرف تاریخ اور تہذیب کا عکاس ہے بلکہ قاری کو اس میں مدغم کر کے وقت کے سفر پر لے جاتا ہے۔