رضیہ بٹ کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں۔ وہ اپنے ناول "بانو" کی وجہ سے جانی جاتی ہے جس پر کسی زمانے میں ایک بےحد مقبول ڈرامہ بھی پیش کیا گیا تھا۔
رضیہ صاحبہ کی کتاب "باغی" کا تبصرھ اس وقت آپ کی خدمت میں پیش ہے اور میں اس تبصرے کو لکھتے ہوئے انتہائی پرجوش ہوں۔ میرے پسندیدہ مغل دور کی کہانی جو ہے اس میں۔ جی ہاں مجھے تاریخ بےحد پسند ہے اور اگر آپ بھی میری طرح تاریخ خصوصاً مغلیہ تاریخ کے دلدادہ ہیں تو یہ کتاب انتہائی کارآمد ثابت ہوگی۔
باغی مبنی ہے مغل شہنشاہت پر، شہزادہ سلیم کی بغاوت پر اور "نادر اور مہرتاج" کے عشق پر!
یہ کتاب مغلیہ دور کے دو محسنوں کے نام ہے۔ محبت اور وفاداری کی اعلیٰ مثال نادر اور مہرتاج کے نام ہے۔
شروع میں کتاب تین حصوں میں منقسم ہے۔
پہلا حصہ شہنشاہ جلال الدین اکبر کے متعلق ہے جو کہ فوج کے ہمراہ آگرہ سے ساموگڑہ باغیوں کی سرکوبی کے لیے روانہ ہوتے ہیں۔ اکبر اپنے دور میں ایک نیا قانون تشکیل دیتا ہے جس کے مطابق "باغی کی سزا موت ہے۔"
دوسرا حصہ شہزادہ سلیم پر مشتمل ہے۔ سلیم ہندو وزیروں کی چالوں کے سبب اکبر سے بدظن ہوجاتا ہے اور علم بغاوت بلند کردیتا ہے۔ وہ (شہنشاہ کی غیر موجودگی میں) اپنے ولی عہد ہونے کا اعلان کردیتا ہے اور اپنے نام کا سکہ بھی رائج کردیتا ہے۔ یوں باغی قرار دے دیا جاتا ہے۔
تیسرا اور اہم ترین حصہ مہرتاج اور نادر کا ہے۔ نادر ایک باغی ہے لیکن اپنی شکست کے بعد مغلیہ فوج سے چھپتا پھرتا ہے۔ مہرتاج محل کی ایک کنیز ہے۔ نادر اور مہرتاج ایک دوسرے سے بےپناہ محبت کرتے ہیں اور چھپ چھپ کر ملتے ہیں۔ اکبر یہ اعلان کرتا ہے کہ جو کوئی بھی نادر کو پکڑ کر لائے گا وہ اسے منہ مانگا انعام دے گا۔
اکبر سلیم کی بغاوت کے پیش نظر اسے قید کر دیتا ہے اور موت کا پروانہ جاری کرتا ہے۔
مہرتاج ہندوستان کے ولی عہد کی جان بچانے کی خاطر اپنی محبت نادر کو اکبر کے سامنے پیش کردیتی ہے اور انعام کے طور پر سلیم کی رہائی طلب کرتی ہے۔
اکبر پر مہرتاج اور نادر کی بےپناہ محبت کا انکشاف ہوتا ہے یوں وہ مہرتاج کے انعام کے پیشِ نظر سلیم کو رہا کردیتا ہے۔ اکبر مہرتاج کو اپنی بیٹی بنالیتا ہے اور اس کا عقد نادر سے کروا دیتا ہے۔
مغلیہ حکومت اور وہاں کے باسی ایک کنیز کے جذبہ وفاداری اور نادر کی مہرتاج سے بےپناہ محبت کو برسوں یاد رکھتے ہیں۔
کتاب میں نہایت خوبصورت اور شستہ الفاظ کا چناؤ کیا گیا ہے اور اسلوب بیان بھی کہانی کے مطابق زبردست ہے۔