کہانی ہے پانچ کرداروں کی
پانچ کردار اپنے اپنے حصے کی کہانی سمٹے۔۔۔
جو ملتے ہیں انجان راہوں میں اور بنتے ہیں دوست
ایسے دوست جن کے ملنے سے کھولتا ہے بابِ دہر
اور بابِ دہر کسی کے چاہ لینے سے بند نہیں ہو جاتے
روز گڑھ کے تہہ خانے کے وسط میں پانچ کرسیاں ہے
ان کرسیوں پر پانچ لوگ تھے۔۔۔زندہ لوگ۔۔۔
باب دہر
کمال کا پلاٹ، کمال کی لائنز، کمال کے کردار اور کمال کی منظر نگاری! مطلب سب کچھ ہی زبردست 💯
کہانی کا آغاز ہوتا ہے ایک پراسرار جگہ سے جہاں پر پانچ لوگوں کو قید کیا گیا تھا۔ملک کے پانچ طاقتور لوگ ۔جن کو قید کرنے کا کیا مقصد تھا یہ تو کہانی پڑھ کر ہی آپ اندازہ لگا سکتے ہیں۔
مہرالنسا شاہ میر کے فینز کے لیے تو عید کا ہی سماں تھا جب انہوں نے حسن سلطان کا نام پڑھا تھا۔جی ہاں بالکل ٹھیک سن رہے ہیں آپ بیرسٹر حسن سلطان فرام بخت اس ناول کا ایک باقاعدہ کردار ہے۔(یہاں یہ واضح کر دوں کہ یہ ناول بخت کا پارٹ ٹو نہیں ہے)حسن کی عادات میں تو کوئی فرق نہیں پڑا لیکن عمر حیات کا sarcasm اس میں کوٹ کوٹ کر بھر چکا ہے۔حسن سلطان کی جو mutual friendship کے لیے ایفرٹس ہیں وہ میرے لیے بہت ریلیٹیبل ہیں۔ایک بات کا دکھ ہے کہ حسن بھی تیس کا ہو گیا ہے کہیں وہ بھی ہاتھ سے نہ نکل جائے 🫠۔
اب آتے ہیں باقی کرداروں کی طرف۔سب سے پہلے
سید شادان شاہ● ،
صحافت کی دنیا کا بے تاج بادشاہ جو اگر جھوٹ بھی بولے تو سچ لگے
زلطان صفدر،●
ایک سیاسی خاندان کا سپوت جو نوجوان نسل میں مرشد کی سی حیثیت رکھتا ہے۔قائدانہ صلاحیت کا ماہر۔جو دوستوں کو خاندان کی طرح سینچ کر رکھتا ہے۔
زخرف وقار،●
ماہر ڈیفنس لائر-فیشن آئکن-چلتا پھرتا برینڈ-اور گروپ کی واحد لڑکی(جس کو آپ خاتون کے نام سے بھی جانتے ہیں )
زبرج،انجینر-activist-●
جو اگر حقائق بیان کرے تو دنیا سنتی ہے۔
جبل اجلال خان●
،میرا پسندیدہ کردار(پلیز زلطان کے پنکھے میرا سر نہ پھاڑ دیں) اور اس کا بھائی اور بہن بھی کسی سے کم نہیں۔بہرام کی مار کٹائی کہانی میں چار چاند لگا دیتی ہے۔ان سب کا کہانی میں کردار ہے وہ آپ پڑھ کر دیکھ لیں، تھوڑی محنت کریں اور رائٹر کی اعلی تحریر کو سراہیں۔
باب دہر کا سب سے خوبصورت پہلو:چار دوست ، چار ستون-اور ایک چھت۔
کہانی کا وسط خوشگوار ہے۔لندن کی گلیاں ہیں،سرمئی سڑکیں،بوڑھی عمارتیں ہیں اور دوستوں کی سنگت ہے۔محبتوں کی شروعاتیں ہیں۔کچھ پرنم الوداع کہتی آنکھیں ہیں۔
کہانی کے اختتام کو جاتی راہیں کٹھن ہیں۔دیس پرایا۔ہر گزرتے پل ہے خوف کا سایہ۔گولیوں کی آوازیں،جسم سے ابلتی خون کی برساتیں۔اس پہ ستم کہ آستين میں چھپی جفائیں۔وہ پانچ لوگ کس کس رنج کا ماتم منائیں۔؟
دہرنے کیسے کئے ستم۔ہوئے بند سب در رحم۔
یہ باب مگر ظالم ہے۔جفا کار ہے،دغا دار اور سیاہ کار ہے۔ملال یہ کہ سنگت ریا کار ہے۔
پانچ سانسیں کیا یونہی چلتی رہیں گی؟
کیا تہہ خانہ لاشیں اٹھائے گا؟
کیا دوست ایک بار پھر جدا ہوں گے؟
باب دہرجلد ہر راز کھولے گا۔یا پھر کوئی پہیلی پیچھے چھوڑے گا؟
باقی ہم کہانی کو ظاہر نہیں کریں گے، سسپنس کے لیے یہ کافی ہے۔ رائٹر کا قلم تعریف کے قابل ہے کہ اتنی خوبصورت اور قیمتی کہانی تحریر کی گئی ہے۔