Anarkali by Syed Imtiaz Ali Taj - pdf download

Anarkali by Syed Imtiaz Ali Taj

 

 انار کلی

**مصنف:** سید امتیاز علی تاج


آج جس داستانِ عشق کے بارے میں بات ہونے جا رہی ہے، تاریخ اُس معصوم مقتولہ کو "انار کلی" کے نام سے یاد کرتی ہے۔ انار کلی عشق، محبت اور وفا کی تصویر ہے اور مقبرہ انارکلی زندہ محبت کی علامت قرار دیا جاتا ہے۔ برصغیر میں عشقیہ و رزمیہ داستانوں میں انارکلی کے کردار کو مثالی کردار گردانا جاتا ہے۔ معروف ڈرامہ نگار، سید امتیاز علی تاج نے ۱۹۲۲ میں کلاسیک ڈرامہ "انار کلی" لکھا لیکن دس سال تک یہ کتابی شکل میں شائع نہ ہو سکا۔ ۱۹۳۳ میں پہلی بار یہ ڈرامہ منظرِ عام پر آیا۔ اس بات کا تعین کرنا خاصا دشوار ہے کہ آیا یہ داستان حقیقت پر مبنی ہے یا کوئی افسانوی فلسفہ ہے۔ اس بارے میں تاریخ دانوں اور عوام کی آراء مختلف ہیں۔


انار کلی کی کہانی 16ویں صدی کی ایک مغل یادگار ہے۔ انار کلی جس کا نام تاریخی کتابوں میں نادرہ بیگم ملتا ہے، عام روایت کے مطابق دربارِ اکبری کی ایک حسین رقاصہ تھی، جس کو بے پناہ حُسن اور فن کی بنا پر مغل بادشاہ اکبر کی طرف سے انارکلی کا خطاب ملا۔ قیاس آرائی کے مطابق، شہنشاہ اکبر کا بیٹا، شہزادہ سیلم (جہانگیر)، انار کلی کی محبت میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ وہ انارکلی سے شادی کرنا چاہتا ہے اور دل ہی دل میں اُسے ملکہِ ہند بنانے کی چاہ رکھتا ہے۔ دوسری طرف، "دلارام" جو (انارکلی سے پہلے اکبر کی منظورِ نظر کنیز) تھی اور شہزادہ سیلم کی محبت میں مبتلا بھی تھی۔


دلارام پر جب انارکلی اور شہزادہ سیلم کی محبت کا راز افشا ہوتا ہے تو وہ ایک سازش کے تحت شہنشاہِ ہند مغل بادشاہ اکبر پر انارکلی کے لیے شہزادہ سیلم کے شہوت انگیز اشاروں کو آشکار کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے، جس کی بنا پر مغل بادشاہ انارکلی کو زندہ دیوار میں چنوا دینے کا حکم صادر کرتا ہے۔


ڈرامہ انار کلی کی کہانی کی بنیاد محبت اور سلطنت کے درمیان تصادم اور کشمکش پر مبنی ہے۔ انار کلی کے کرداروں میں ایسے اوصاف پائے جاتے ہیں جو اپنی خصوصیات کی بناء پر فن کے پیمانے پر بدرجہ اتم پورے اترتے ہیں۔ مصنف داد کے حقدار ہیں جنہوں نے اپنے طاقتور قلم کے بل بوتے پر ڈرامہ انار کلی کو شاندار بنا کر پیش کیا ہے۔ مختلف النوع خیالات و قیاس آرائیوں کی وجہ سے یہ کہنا مشکل ہے کہ اس المناک محبت کی کہانی کا اختتام حقیقت پر مبنی ہے یا افسانوی حیثیت رکھتا ہے۔ بہرحال، یہ ایک بہترین کتاب اور داستان ہے۔


تبصرے کے اختتام پر اس شعر کا ذکر کرنا چاہوں گی جو مجھے ذاتی طور پر بہت پسند آیا ہے:


تاقیامت شکر گویم کردگار ِ خویش را

آہ گرمن باز بینم روۓِیار خویش را

(مجنون سیلم)



Post a Comment (0)
Previous Post Next Post