کہانی شروع ہوتی ہے مری میں ایک لمبا چوڑا خاندان سے۔ بہت بڑا بھی نہیں پر کافی سارے کزنز وغیرہ والا جس میں ایک عدد خوفناک داجی بھی ہیں۔ کرپٹ خاندان ہے۔ کزنز معصوم سے ہیں۔ سب کا کسی نا کسی کے ساتھ سین چل رہا ہے۔(یہ بس ناولوں میں ہی ہوتا ہے)۔
مخالفت میں ایک وکیل ہے، شہرذاد جو کہ لندن سے اپنی بہن کے بلانے پر آتی ہے۔ ٹوٹا ہوا خاندان ہے۔ جس میں امی جان کا بیوٹی سالون ہے۔ بہن لاپرواہ اور باپ فوت ہوچکا ہے(اس کا بھی ایک ٹوسٹ آتا ہے آگے۔)
پورے ناول میں سب سے دل چسپ اور انوئنگ حصہ ہم ذاد کا تھا۔ ایک بندہ ہے جس نے شہرذاد پر کیمرے(اصل میں نہیں) لگوائے ہوئے ہیں۔ اسے ہر بات کا پتا ہے۔ شہرذاد پر کرش ہے۔ لیکن فون سے باہر نہیں نکلتا مطلب آمنے سامنے نہیں ملتا۔ جب تک ہم ذاد کا راز نہیں کھلا تھا ناول کافی دل چسپ تھا۔
دیمک ذدہ محبت اور چپکے چپکے بہت اچھا لگا تھا مجھے اسی لیے اچھی امیدیں تھیں۔ پر ایسا نہیں ہوا۔ اندازہ بیان پسند نہیں آیا۔ کرداروں میں صرف ہادی کا دوست سعد تک کا تھا۔ باقی سب تو کسی اور ہی دنیا کی مخلوقات معلوم ہورہے تھے۔ شہرذاد وکیل تھی۔ پر اس میں وہ طنطنہ نہیں تھا۔ اس کی باتیں لاجواب کرنے والی نہیں تھیں۔ لیکن باقی کردار لاجواب ہو رہے تھے۔ جو کہ مجھے بہت عجیب لگا۔
پھر ہم ذاد کو ہر بات کیسے پتا تھی۔ وہ ہر بار تبھی فون کرتا جب شہرذاد پریشان ہوتی۔ مطلب کہ ہر بار!! ہم ذاد ہی سارے کام کر رہا تھا۔ درشہوار کا کردار بہت اچھا ہوسکتا تھا۔ مجھے بڑی امیدیں تھیں۔ پر نہیں۔ کتے سے بچانے کے جرم میں وہ ہادی کے پیچھے پڑ گئی۔ اغواء کار سے محبت والا حصہ تو ناقابل برداشت تھا۔ جس طرح ہر چیز ہی آخر میں جڑ گئی۔ وہ بھی عجیب تھا۔