**کتاب: پھلاں دے رنگ کالے**
**مصنفہ: فائزہ افتخار**
فائزہ افتخار کی کہانیوں میں ہمیشہ مزاح کی آمیزش ہوتی ہے، مگر "پھلاں دے رنگ کالے" ان تمام سے مختلف ہے۔ یہ مصنفہ کی پہلی سنجیدہ تحریر ہے، حالانکہ ان کی مزاح پر گرفت مضبوط ہے۔
اس کتاب میں دو کہانیاں شامل ہیں: "پھلاں دے رنگ کالے" اور "سارے گلاب لے آنا"۔
**پہلی کہانی: سارے گلاب لے آنا**
"سارے گلاب لے آنا" عاشر ملک کے نقطہ نظر سے لکھی گئی ہے، اور یہی ایک بڑی وجہ ہے کہ یہ کہانی مجھے زیادہ پسند آئی۔ عاشر ملک کو ہر چیز بہترین چاہیے، چاہے وہ گھر کے لوگ ہوں یا آفس میں رکھا ہوا ایک پودا۔ وہ مغرور اور چالباز ہے۔
جلد ہی قسمت (یعنی رائٹر) اسے ایک ایسی "عام" لڑکی سے ملا دیتی ہے جو بہت خاص ہوتی ہے۔ عاشر ملک نے یہ کہانی جس طرح سنائی، جیسے وہ خود سے لڑتا رہا، سامنے والے کو بغیر جھکے پانے کی کوشش کرتا رہا، اس حساب سے یہ کہانی گھسی پٹی نہیں تھی۔
چھوٹی چھوٹی چیزوں نے اس عام مگر منفرد اندازِ تحریر کی حامل کہانی کو میرے لیے بہت خاص بنا دیا۔ عاشر ملک کہانی کی جان تھا۔
**دوسری کہانی: پھلاں دے رنگ کالے**
"پھلاں دے رنگ کالے" ایک روایتی سی کہانی ہے جو کچھ مختلف انداز میں لکھی گئی ہے۔ کہانی میں ایک خوبرو خان صاحب ایک کلاش لڑکی سے دل ہار بیٹھتے ہیں، خاندان خلاف ہوتا ہے، دونوں جدا ہو جاتے ہیں، اور پیچھے بیٹی رُل جاتی ہے۔ کہانی کی رفتار سست تھی، اس لیے چھوڑ چھوڑ کر پڑھی۔ سب کچھ کافی پیش گوئی کے مطابق تھا، سو خاص پسند نہیں آئی۔ اینڈ ٹریجک ہے اور اس کا اثر نہیں ہوا، جس کا مجھے افسوس ہے۔
**اختتامیہ:**
"سارے گلاب لے آنا" ایک پڑھنے والی کہانی ہے، جبکہ "پھلاں دے رنگ کالے" پڑھیں نہ پڑھیں خیر ہے۔ فائزہ افتخار نے اپنی تحریر میں سنجیدہ موضوعات کو چھیڑا ہے، مگر ان کی مزاحیہ کہانیوں کی بات ہی کچھ اور ہے۔