Maseel novel Episode 45 by noor rajput

Maseel novel episode 45


مـــاثـیــــــل (قصہ بُت سازوں کا) Sulphite_2
قسط_نمبر_45
نور_راجپوت
سیاہ اور سفید کی ملاقات
”کوئی بھی لڑکی تم پر اپنا دل ہار سکتی ہے۔۔“
وہ اب حاد جبیل کی تصویر سے مخاطب تھا۔
”برو۔۔۔یو آر ہینڈسم۔۔۔ اس کا مطلب میں بھی ہوں۔۔۔“
اس نے سیٹی بجاتے ہوئے فرضی کالر جھاڑے۔
”بائے دا وے۔۔۔ میں بھی ایک راک سٹار ہوں۔۔۔اور تم سے کم مشہور نہیں ہوں۔۔“ اس نے حاد کو باور کرانا ضروری سمجھا۔
”چلو آج کے دن حاد بن کر دیکھتے ہیں۔۔۔اس احساس کو جیتے ہیں کہ میں ایمانے کی چاہت ہوں۔۔۔“
یہ احساس فرحت بخش تھا۔۔۔ وہ آئینے کے سامنے کھڑا خود سے باتیں کر رہا تھا۔۔۔ جبکہ ڈریسنگ پر پڑا اس کا فون کب سے بلنک کر رہا تھا۔۔۔
حاد اسے کب سے فون کر رہا تھا پر وہ سننے کے موڈ میں نہیں تھا۔ وہ باہر نکلنے ہی لگا تھا جب فون پھر سے بجنے لگا۔۔۔
”کیا مصیبت ہے؟؟؟ تم تیرہ سالوں سے عبدل بنے رہے ہو میں نے کچھ کہا۔۔۔؟؟ اگر ایک دن کے لیے میں حاد بن رہا ہوں تو تم سے برداشت نہیں ہورہا؟؟ بڑے ہی کم ظرف ہو یار۔۔۔“
وہ عبدل تھا اس کی زبان تلوار کا کام کرتی تھی۔
”عبدل میری بات غور سے سنو۔۔۔۔ تم حاد بن کر اجنبی لوگوں سے نہیں مل سکتے۔۔۔ اس میں بہت خطرہ ہے۔۔۔“
حاد نے پریشانی سے کہا۔۔۔ اس کے لب خشک ہوچکے تھے۔۔۔صرف وہی جانتا تھا عبدل کس خطرے سے کھیلنے جا رہا تھا۔
”مجھے خطروں سے کھیلنا آتا ہے۔۔ میں نے تم سے کہا تھا۔۔۔تم نے میری بات نہیں مانی۔۔۔“ عبدل کا ناک ابھی تک پھولا ہوا تھا۔
”میں تمہاری ساری باتیں مانوں گا۔۔۔پلیز ڈونٹ ڈو دز۔۔۔ ایسا مت کرو عبدل۔۔۔ رک جاؤ۔۔۔کہیں مت جاؤ۔۔۔۔“
وہ اسے روکنے کی پوری کوشش کر رہا تھا۔
”سوچوں گا۔۔۔“ اس نے فون بند کرکے بیڈ کی جانب اچھال دیا۔۔۔ وہ جان گیا تھا کہ حاد اس کے فون تک پہنچ چکا تھا تبھی اسے پتا چل گیا تھا۔۔۔ اب وہ فون ساتھ نہیں لے جا سکتا تھا۔۔۔
اس نے آئینے میں خود کو دیکھتے گہرا سانس لیا۔۔۔
”کیا حاد بننا اتنا خطرناک ہے؟؟ چلو بن کر دیکھ لیتے ہیں۔۔۔“ وہ خود پر آخری نظر ڈالتا کمرے سے باہر نکل گیا۔۔۔ اس بات سے بےخبر کہ میلوں دور بیٹھے حاد کی جان پر بن آئی تھی۔
✿••✿••✿••✿
حال سے منسوب۔۔۔۔۔
وہ نماز پڑھ رہی تھی جب ادھم کسی کام سے وہاں آیا۔۔۔ اس نے دائمہ کو دیکھا۔۔۔ وہ اب دعا مانگ رہی تھی۔۔ پہلے وہ پلٹنے لگا۔۔ پھر یک دم ہی اسے ایمان کا خیال آیا۔۔۔۔
وہ جب نماز پڑھتی تھی اسے خود سے کوسوں دور محسوس ہوتی تھی۔۔۔ جب دائمہ نے سلام پھیرا تو ادھم کو دروازے میں کھڑا پایا۔
”آپ اندر آ سکتے ہیں۔۔۔“
”مجھے نہیں پتا تھا تم بھی مذہبی ہو۔۔۔“ وہ ہنستے ہوئے بولا۔
”بھائی۔۔۔۔“ دائمہ نے احتجاجاً کہتے ہوئے خفگی سے اسے دیکھا۔
”مزاق کر رہا ہوں۔۔۔“ اس نے ہاتھ کھڑے کیے۔ ”تمہیں کوئی کام تھا؟؟“ وہ اب سیریس تھا۔
”مجھے اسلام آباد جانا ہے۔۔۔“ اس نے بتایا۔
”خیریت۔۔۔؟؟“
”ضروری کام ہے۔۔۔“ اس نے بس اتنا ہی بتایا۔
”کل۔۔۔۔“ دائمہ نے بس اتنا ہی بتایا۔
”اتنی جلدی؟؟ لگتا ہے کوئی خاص کام ہے؟؟“
”میں نے ہم دونوں کی ٹکٹس کروالی ہیں۔۔آپ بتائیں میرے ساتھ چل رہے ہیں یا نہیں۔۔۔؟؟“ وہ کافی سنجیدہ تھی۔
”میں جب سے آیا ہوں حویلی سے باہر نہیں نکلا۔۔۔“
”کب تک قید ہو کر رہیں گے؟؟“ وہ بگڑی۔
”میرا ہونا جبیل خاندان کے لیے کسی بدنما داغ سے کم نہیں۔۔۔“ وہ پھیکا سا مسکا دیا۔
”بھائی۔۔۔۔ ایسا کیوں سوچتے ہیں آپ؟؟“
”یہی سچ ہے۔۔۔“
”آپ جائیں پیکنگ کریں۔۔۔ ہم کل جارہے ہیں۔۔“ دائمہ نے اسے بازو سے پکڑ کر اٹھایا۔
”ٹھیک ہے جا رہا ہوں۔۔۔“ وہ ہتھیار ڈالتے چلا گیا۔۔۔ جبکہ دائمہ کافی سنجیدہ تھی۔ جانے اس کے دماغ میں کیا چل رہا تھا۔
✿••✿••✿••✿
”زندگی کبھی کبھی عجیب موڑ لے لیتی ہے۔۔ میں نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ میری زندگی میں ماثیل جیسا کوئی شخص آئے گا۔۔۔ پتا ہے جب میں نے ماثیل کی محبت کو اپنایا تب میں یہی سوچتی تھی کہ ماں کو کیسے بتاؤں گی۔۔۔ وہ مان بھی جاتیں تو اللہ کو کیسے مناتی؟؟
مجھے ڈر تھا اللہ مجھ سے ناراض ہوجائے گا اور دیکھیں وہ مجھ سے ہوگیا نا۔۔
ایک ایمان بےایمان ہوگئی۔۔۔۔۔ اس سے بـڑی تکلیف کیا ہوگی؟؟“
وہ کاغذ ہاتھ میں تھامے بیٹھا۔۔۔یہ صرف کاغذ نہیں تھا خط تھا۔۔۔ ایمان کا حاد کو لکھا گیا خط۔۔۔۔
”ایک عورت ہونے کے ناطے میں نے بس اتنا ہی چاہا کہ مجھے ایک پرہیزگار مرد ملے۔۔۔۔ جس نے کبھی کسی کو نہ چھواء ہو۔۔۔کسی کو غلط نگاہ سے نہ دیکھا ہو۔۔۔جس کی تنہائیاں پاک ہوں۔۔۔جو مجھے حلال رزق کھلائے۔۔۔ مجھے ایسے مرد کی چاہ نہ ہوتی اگر میرا باپ عبداللہ شہاب نہ ہوتا، میں نے عبداللہ شہاب کی سیاہی کو بہت قریب سے دیکھا تھا۔۔۔ اس لیے میں نے ایک نیک شخص کا بت اپنے اندر بنایا لیا۔۔۔میں اس معیار سےنیچے نہیں اتر سکتی تھی۔۔ اترتی تو مر جاتی۔۔ جیسے اب مرگئی ہوں۔۔۔ ٹیرو نے کہا تھا روح کی موت سب سے خطرناک موت ہوتی ہے۔
یہ میری قسمت کہ مجھے ادھم جبیل جیسے شخص کی محبت قبول کرنا پڑی۔۔۔ وہ شخص جو مجھے حلال کھلا نہیں سکتا تھا۔۔۔۔ مجھے بتائیں میں کیسے صرف اس کی محبت کی خاطر اسے اپنائے رکھتی۔۔۔۔ کب تک؟؟؟اس نے خود کو نہیں بدلا۔ وہ شخص میری زندگی میں تو آگیا تھا پر دل تک کیسے پہنچتا؟؟؟
وہ میرا مزاق اڑاتا تھا کہ ”یہ کنسیپٹ پرانا ہوچکا ہے۔۔۔اپنے لیے نیک انسان ڈھونڈنا۔۔ جس نے کبھی کسی کو نہ چھوا ہو۔۔۔“ پر سچ تو یہی تھا۔ مجھے نیک انسان ہی چاہیے تھا۔
اور اس کی محبت دو پل میں اڑن چھو ہوگئی جب اسے لگا میں بےوفا ہوں۔۔۔۔اس نے میری بات تک نہ سنی۔۔۔
ہاں میں بےوفا ہوں۔۔ میں نے اپنے اللہ سے بےوفائی کی۔۔۔یہ سوچ کر کہ وہ سدھر جائے گا۔۔۔۔
اور میری بدقسمتی کہ مجھے مشارب جیسا شخص ملا۔۔۔۔ وہ جس کے لیے نکاح کسی کھیل سے کم نہیں تھا۔۔۔۔
کیا ایک پرہیزگار مرد کی چاہت کرنا اتنا بڑا گناہ ہے؟؟
اگر ہاں تو میں گنہگار ہوں۔۔۔۔ہاں میں سب سے بڑی گنگہار ہوں۔۔۔۔!!
ادھم اپنی جگہ ٹھیک ہوگا۔۔۔۔پر وہ میرے لیے نہیں تھا۔۔۔میں اس کے لیے نہیں تھی۔بیشک اللہ میری چاہتوں سے واقف ہے۔۔۔!!
اور پھر ہر محبت کا امتحان ہوتا ہے۔۔۔ وہ جس نے کہا تھا مجھے کبھی ہرٹ نہیں کرے گا اس نے میری بات کا یقین تک نہ کیا۔۔۔۔لیکن میں یہ بھول گئی تھی کہ جو شخص اپنے خدا سے اتنا بدگمان ہے اس کے نزدیک میری حثیت کیا ہوگی؟؟
کاش مجھے یہ بات پہلے سمجھ آجاتی۔۔۔۔ لیکن ہم لڑکیوں کی آنکھوں پر محبت کی پٹی باندھ دی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔!!
✿••✿••✿••✿
دائمہ پورا پلان بنا کر مینٹل اسائلم تک پہنچی تھی۔۔۔۔ اس نے ہسپتال کا پتہ سعد سے نکلوایا تھا جس نے فوراً دے دیا تھا۔۔۔ وہ دونوں جب اندر داخل ہوئے تو دائمہ نے اپنا تعارف کروایا۔
”میں دائمہ جبیل ہوں۔۔۔ مجھے حاد جبیل اور ان کی پیشنٹ سے ملنا ہے۔۔۔آپ حاد کو اطلاع کردیں۔۔۔“ وہ کاؤنٹر پر کھڑی تھی جبکہ ادھم کے لیے یہ اسائلم دلچسپی کا مرکز تھا۔۔۔۔وہ دھیرے دھیرے قدم بڑھاتا آگے بڑھ رہا تھا۔۔۔
کاؤنٹر پر کھڑی لڑکی نے حاد کو فون کیا تھا۔۔۔یہ اسائلم بہت بڑا نہیں تھا۔۔ گنتی کے پیشنٹ تھے اور یہاں حاد کو سب جانتے تھے۔۔۔حاد نے انہیں آنے کی اجازت دے دی تھی۔
دائمہ نے جب پلٹ کر دیکھا تو ادھم وہاں نہیں تھا۔۔۔ وہ لڑکی کے بتائے گئے کمرہ نمبر کی جانب بڑھ گئی۔۔۔
وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا آگے بڑھ رہا تھا۔۔۔ کھلے کھلے کمرے تھے جہاں مریضوں کو رکھا گیا تھا۔۔۔سب کا پینٹ ایک جیسا تھا۔۔۔ گلاس ونڈو اتنی بڑی تھی کہ اندر کا پورا منظر نظر آتا تھا۔۔۔
وہ پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے آگے بڑھ رہا تھا۔۔۔ اور پھر ایک جگہ وہ ٹھٹک کر رک گیا۔۔۔۔۔ اسے لگا اسے وہم ہوا ہو۔۔۔۔اس نے گلاس ونڈو کے قریب جا کر دیکھا۔۔۔۔ اور پھر ساکت رہ گیا۔۔۔۔اسے لگا جیسے وہ پتھر کا ہوگیا ہو۔۔۔۔
”ایما۔۔۔۔“ اس کے لب پھڑپھڑائے۔۔۔
”اگر میں تمہیں کسی پاگل خانے میں نظر آئی تو جان لینا اس کی وجہ تم ہو گے۔۔۔“
اس کی سماعت سے ایک جملہ ٹکرایا تھا۔۔۔۔ اور وہ سانس نہ لے پایا۔۔۔ جیسے کسی نے مٹھی میں اس کا دل جکڑ لیا ہو۔۔۔۔۔۔
✿••✿••✿••✿
وہ تیزی سے راہداری سے گزرتا اندر آرہا تھا۔۔۔ اس کی جیکٹ اس کے بازو پر تھی۔۔۔ شرٹ کے کف اس نے فولڈ کر رکھے جبکہ آنکھوں پر چشمہ لگا تھا۔۔۔ اس کی اہم میٹنگ تھی۔۔ کل شام ہی سعد اسلام آباد آیا تھا۔ وہ دونوں میٹنگ سے واپس آرہے تھے۔ سعد گاڑی پارک کرنے گیا تھا جبکہ وہ اندر آگیا۔۔۔وہ سیدھا ایمان کے کمرے کی جانب بڑھ رہا تھا جب اچانک رک گیا۔۔۔سامنے ہی داہداری میں وہ کھڑی تھی۔
دائمہ جبیل۔۔۔ جو ادھر ادھر دیکھتی بار بار اپنا دوپٹہ سیٹ کرنے کی کوشش کر رہی تھی جو اس کے کھلے سیاہ سلکی بالوں سے پھسل رہا تھا۔۔۔
اور پھر اس کی نظر بھی حاد بھی پڑ گئی۔۔۔ یوں لگا جیسے کسی مورت میں جان پڑ گئی ہو۔۔۔ وہ پرجوش سی اس کی جانب بڑھی۔۔۔ اسے دیکھتے ہی وہ سارے شکوے گلے بھول گئی تھی۔
”السلام علیکم!“ وہ بھی چلتا ہوا اسی کی جانب آیا۔ وہ اس کی فیملی تھی۔ اور اپنی فیملی کو حاد جبیل بہت عزت دیتا تھا۔
”کیسے ہیں آپ؟ میں کب سے ویٹ کر رہی تھی“
حاد کو اندازہ نہیں تھا کہ سعد سے پتہ لینے کے بعد وہ اتنی جلدی یہاں پہنچ جائے گی۔
”خیریت؟؟“ وہ بس اتنا ہی پوچھ پایا۔
”وو۔۔۔وہ میں آپ سے ملنے آئی تھی۔۔۔“ دائمہ کو اپنے لب خشک ہوتے محسوس ہوئے۔۔۔ حاد کا لہجہ سرد تھا۔
”یہاں ہسپتال میں؟؟“ اس کا چہرہ کتنا بےتاثر تھا۔۔۔ دائمہ کو اپنا دل ڈوبٹا محسوس ہوا۔
”وہ آپ نے کال پر۔۔۔“
”مجھے لگتا ہے یہاں کھڑے رہنا ٹھیک نہیں ہے۔۔۔آؤ میرے ساتھ۔۔۔“ وہ اس کی بات کاٹتا آگے بڑھا۔۔۔دائمہ اس کے پیچھے لپکی۔ اسے حاد کا ساتھ دینے میں بھاگنا پڑا تھا۔۔ وہ کافی تیز چلتا تھا۔۔۔راہداری لمبی تھی۔۔ جیسے ہی حاد کو احساس ہوا وہ آہستہ چلنے لگا۔
وہ دائمہ جبیل جو حمدان صاحب کی کمپنی میں جی ایم تھی وہ اس کے سامنے کس قدر گھبرا گئی تھی۔
وہ دونوں اب چلتے ہوئے راہداری کے آخر میں بنی اس بالکونی میں آگئے تھے جہاں سے پورا شہر نظر آتا تھا۔۔۔۔یہ بالکونی کافی کھلی اور بڑی تھی جہاں گول میز کے گرد کرسیاں رکھی تھیں جن پر بیٹھ کر شہر کا خوبصورت نظارہ کیا جا سکتا تھا۔ شام کا منـظر حسین تھا۔۔۔ سورج آہستہ آہستہ غروب ہورہا تھا۔۔۔وہ دونوں کھڑے رہے۔
اس کی سرخ روشنی میں دائمہ کا سراپا مزید خوبصورت لگ رہا تھا۔۔۔اس کے کندھوں پر پڑی سیاہ شال اس سے سنبھل نہیں رہی تھی جبکہ دوپٹہ پھر سے پھسل گیا تھا۔
”اب بتاؤ کس کے ساتھ آئی ہو؟؟ کچھ کھایا پیا؟؟“
”نہیں ابھی کچھ نہیں کھایا۔۔۔وہ ادھم بھیاء کے ساتھ آئی تھی۔۔ پتا نہیں کہاں چلے گئے ہیں۔۔“
دائمہ نے چاروں جانب نظر دوڑائی۔۔۔ ادھم کے نام پر حاد کے کان کھڑے ہوئے۔۔۔
”ٹھیک ہے تم بیٹھو میں کچھ منگواتا ہوں۔۔“ اس نے فون نکالا اور سعد کا نمبر ملایا۔۔۔
”ہیلو سعد۔۔۔ میں یہاں بیک سائیڈ پر بالکونی میں ہوں۔۔۔آتے ہوئے کچھ کھانے کو لے آنا۔۔۔ میری کزن آئی ہیں ان کے لیے۔۔۔“ فون بند کرکے وہ اس کی جانب متوجہ ہوا۔ وہ اب بیٹھ چکی تھی۔۔۔دوپٹہ پھر سے سر پر جمایا۔۔۔
”ہاں اب بولو۔۔۔۔ کوئی ضروری بات تھی نا۔۔۔“ اس نے اپنی جیکٹ کرسی کے بازو پر ٹکادی اور اس کی جانب متوجہ ہوگیا۔۔۔
”وو۔۔۔وہ۔۔۔“ دائمہ نے خشک لبوں پر زبان پھیری۔۔۔ کتنا مشکل تھا نا اس کا سامنا کرنا۔۔۔فون اور میسج پر وہ کچھ بھی بول دیتی تھی۔
”ہاں میں سن رہا ہوں۔۔۔“ وہ اس کی جانب متوجہ تھا۔۔دائمہ کی گھبراہٹ اس سے مخفی نہیں تھی۔
”آپ نے اس دن کہا تھا آپ کسی سے محبت۔۔۔۔“
”کیوں یقین نہیں آیا تھا؟؟“ وہ کافی سنجیدہ تھا۔
”مجھے لگا آپ مزاق۔۔۔“
”دائمہ۔۔۔پہلے میں نے کتنی بار تم سے مزاق کیا ہے؟؟“
اس نے فوراً کہتے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔۔ وہ کرسی پر بیٹھی تھی جبکہ حاد سامنے کھڑا تھا۔ دائمہ کا رنگ پھیکا پڑا۔۔۔ ایک موہوم سی امید تھی۔۔۔ وہ بھی توڑ رہا تھا وہ شخص۔۔۔
”میرے ساتھ آؤ“ وہ پلٹا۔۔۔ اور تیزی سے دائیں جانب بڑھا۔۔۔ جہاں قطار میں کافی کمرے تھے۔ وہ فوراً اٹھ کر اس کے پیچھے چلی۔۔ کچھ قدم کے فاصلے پر وہ ایک کمرے کے سامنے رکا۔۔۔ لوہے کا آٹومیٹک دروازہ بند تھا جسے لاکڈ کیا گیا تھا۔ وہ اب گلاس ونڈو کے سامنے کھڑا تھا۔۔۔ دائمہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی اس کے قریب آکر کھڑی ہوگئی۔۔ وہ اس سے ایک قدم پیچھے تھی۔۔۔ سامنے ہی بیڈ پر وہ سوئی ہوئی تھی۔۔۔ آج کل ڈاکٹر اسے زیادہ سلارہے تھے۔۔۔سکون آور دوا کے زیر اثر۔۔۔ جتنا وہ سوتی اتنا اس کا دماغ ریلیکس ہوتا۔
”کبھی کبھی ہماری دنیا ایک شخص پر آکر ختم ہوجاتی ہے۔۔۔“ وہ اسے دیکھتے کہہ رہا تھا۔ جبکہ دائمہ حیرت سے ایمان کو دیکھ رہی تھی جس کا چہرہ اتنا واضح نہیں تھا۔۔۔ اس کا دل رک گیا تھا۔۔۔ یعنی اس نے کال پر جو کہا تھا سچ کہا تھا۔
”یہ نہ بھی ہوتی میری زندگی میں تب بھی تم میرے لیے قابل احترام ہی رہتی۔۔۔۔ تم میرے بھائی کی منگیتر ہو۔۔۔“ وہ سینے پر بازو باندھے کھڑا تھا۔۔۔ جبکہ نگاہیں ایمان پر جمی تھیں۔ وہ اس سے ایک قدم پیچھے کھڑی تھی۔۔۔وہ اس کی آنکھوں میں ابھرنے والے بےساختہ آنسوؤں کو نہیں دیکھ سکتا تھا۔
”لیکن میں آپ سے محب۔۔۔۔۔“ کپکپاتے الفاظ اس کے لبوں سے نکلے تھے۔
“میں چاہتا ہوں تم ان جذبوں کی یوں توہین مت کرو۔۔۔ تمہیں یقیناً ایک اچھا ہمسفر ملے گا۔۔۔ جو تمہیں ہمیشہ خوش رکھے گا۔ کچھ چیزیں ہمارے بس میں نہیں ہوتیں دائمہ۔۔۔“
وہ منہ پر ہاتھ رکھتی پلٹ گئی۔۔۔ بھاگنے کے انداز میں وہ بالکونی تک پہنچی تھی۔۔۔اور پھر اسی کرسی پر گرنے کے انداز میں بیٹھ گئی۔
یعنی اس کا سفر فضول تھا۔۔۔ اس کی کوششیں فضول تھیں۔ وہ ہاتھوں میں منہ چھپا کر روپڑی تھی۔۔۔
✿••✿••✿••✿
سعد ہاتھ میں کھانا کا بڑا سا پیکٹ پکڑے وہاں پہنچا تو ایک لڑکی کو بےطرح روتے پایا۔۔ وہ گھٹنوں پر سر رکھے رو رہی تھی۔۔۔حاد کی جیکٹ وہیں پڑی تھی۔۔۔ وہ خود وہاں نہیں تھا۔۔۔ سعد کو سمجھ نہ آیا کیا کرے۔۔۔ اس نے وہ پیک میز پر رکھے اور تذبذب کا شکار ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔۔
وہ ایسے ہی رو رہی تھی جیسے اپنے کمرے میں ہو۔
”ہیلو۔۔۔“ اس نے دائمہ کو پکارہ لیکن دائمہ نے سر اٹھا کر اسے نہیں دیکھا۔
”ایکسکیوز می مس! آپ حاد بھائی کی کزن ہیں۔۔“ اس نے ذرا سا جھکتے ہوئے آہستہ سے پوچھا۔
اور تبھی دائمہ نے چہرہ اٹھایا۔۔۔ کسی کو دیکھ کر سانس رکنا کیسا ہوتا ہے یہ سعد کو آج پتا چلا تھا۔۔۔
شفق کی روشنی میں اس کا چہرہ اتنا ہی سرخ تھا۔۔۔اور آنکھیں۔۔۔۔ اف۔۔ وہ آنکھیں جیسے ابھی کسی پہاڑ سے لاوہ اتنا ہو۔۔۔ ان میں اتنی جلن تھی۔۔۔ جیسے ساری دنیا جلا کر راکھ کردیں گی۔
”کیا ہے؟؟“ وہ غصے سے پھنکاری۔۔۔ یعنی اب اپنی مرضی سے رو بھی نہیں سکتی تھی۔۔۔ وہ کچھ بول ہی نہ پایا۔۔۔
دائمہ نے اسے خاموش دیکھ کر ہتھیلی کی پشت سے آنسوں رگڑے اور دوپٹہ سر پر لینے کی کوشش کی۔۔۔۔
اس کی کلائی میں موجود دو کڑوں کے آپس میں ٹکرانے سے ارتعاش پیدا ہوا تھا اور سعد کسی سحر سے آزاد ہوا۔۔
وہ جھٹکے سے پیچھے ہوا۔۔ حاد جبیل کی کزن اس کے لیے قابل احترام تھی۔
”وہ۔۔۔آپ رو کیوں رہی ہیں۔۔۔“ وہ اب ادب سے کھڑا پوچھ رہا تھا۔۔۔ نگاہیں جھکالیں تھیں۔۔۔ دائمہ نے کھا جانے والی نظروں سے اسے گھورا۔۔۔ پھر اسے میز پر رکھا کھانے کا پیک نظر آیا۔۔۔ یقیناً وہ حاد کا ساتھی تھا۔
”کیوں میں رو نہیں سکتی۔۔۔؟؟“ وہ اب جھنجھلاتے ہوئے بالوں کو فولڈ کر رہی تھی۔
”بالکل رو سکتی ہیں پر یہاں۔۔۔“ اس نے نظریں اٹھائیں۔۔۔دائمہ نے گھور کر اسے دیکھا۔۔وہ سٹپٹا کر نظریں جھکا گیا۔ یہ صرف حاد جبیل تھا جس کے سامنے وہ موم ہوجاتی تھی ورنہ اپنے آفس میں کافی نک چڑی مشہور تھی۔
”رونے کے لیے بھی اب جگہ دیکھوں۔۔۔؟؟“
وہ غصے میں بڑبڑارہی تھی۔ پھر جھٹکے سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
”بتا دینا اپنے حاد بھائی کو کہ جارہی ہوں میں۔۔۔“
وہ اب شال درست کرتی آگے بڑھی۔
”لیکن کھانا۔۔۔“ وہ فوراً بولا۔
”تم کھا لو اپنے اور حاد بھائی کو کھلا دو“ اس نے ”اپنے حاد بھائی“ پر زور دیا تھا۔ سعد کا دل ابھی تک ترتیب پر نہیں آیا تھا۔ وہ کچھ کہنا چاہتا تھا پر وہ تیز تیز قدم اٹھاتی وہاں سے نکلتی چلی گئی۔۔۔ سعد نے اسے دور تک جاتے دیکھا تھا۔۔ اور پھر وہ گہرا سانس خارج کرتا وہیں بیٹھ گیا۔
✿••✿••✿••✿
وہ تیز تیز چلتی ادھم کا نمبر ملا رہی تھی لیکن اس کا نمبر نہیں لگ رہا تھا۔۔ وہ اب جھنجھلاتی ہوئی کاؤنٹر تک پہنچی تو سامنے کھڑے حاد کو دیکھ کر ٹھٹک گئی۔۔ وہ کاؤنٹر پر موجود لڑکی سے کچھ سوال جواب کر رہا تھا۔
”کدھر۔۔؟؟“ اس نے آنکھوں سے ابرو اچکاتے پوچھا۔ دائمہ کا چہرہ ستا ہوا تھا۔۔۔یقیناً وہ ناراض تھی۔
”واپس جا رہی ہوں۔۔۔“
”کس کے ساتھ؟؟“ وہ اس کے سامنے آیا۔
”اپنے بھائی کے ساتھ۔۔۔“ وہ اسے دیکھنے سے گریز کر رہی تھی۔
”مجھے تو وہ یہاں نظر نہیں آرہا۔۔۔“
”باہر گئے ہوں گے۔۔۔“
جبکہ حاد جانتا تھا اگر تو وہ یہاں ایمان کو دیکھ چکا تھا اس کے بعد نارمل تو یقیناً نہیں ہوگا۔۔۔
”واپس چلو سعد تمہیں چھوڑ آئے گا۔۔“ حاد نے نرم لہجے میں کہا۔
”کہاں چھوڑ آئے گا۔۔۔؟؟“ وہ چونکی۔
”جب تک ادھم نہیں آجاتا تب تک میرے اپارٹمنٹ میں رہو۔۔۔“ اس نے جیسے حکم دیا تھا۔
”مجھے اپنے گھر جانا ہے۔۔۔دوسروں کے گھروں میں نہیں رہتی میں۔۔“ وہ خفگی سے بولی۔
”چلی جانا گھر بھی۔۔ ابھی واپس جاؤ۔۔ وہیں جا کر بیٹھو۔۔۔“ اس کا انداز ایسا تھا کہ دائمہ واپس پلٹ گئی۔
”پاگل۔۔۔“ حاد نے اسے تیز تیز چلتے دیکھ کر کہا تھا۔
✿••✿••✿••✿
”تم مستقبل میں کس بات کو لے کر خوفزدہ ہو؟؟“
”پاگل ہوجانے سے۔۔۔ مجھے خوف آتا ہے مجھے ڈر لگتا ہے۔ کبھی کبھی۔۔۔۔ کبھی کبھی خود کو کسی پاگل خانے میں پاتی ہوں۔۔۔ یہ خوف میرا پیچھا نہیں چھوڑتا۔۔۔“
ایمان کے الفاظ اس کی سماعت میں رپیٹ پر گھوم رہے تھے۔۔۔ اسے سانس لینے میں مشکل ہورہی تھی۔۔۔جانے کب سے وہ یوں پیدل چل رہا تھا۔۔۔ اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا وہ اسے واقعی کسی پاگل خانے میں ملے گی۔۔۔ سینے کے مقام پر اتنی جلن تھی جس نے اس کی سانسیں تک روک لی تھیں۔۔۔ وہ تھک گیا تو ایک جگہ بیٹھ گیا۔۔۔ بیٹھا رہا۔۔۔جانے کتنی دیر۔۔۔ یوں جیسے ہوش میں نہ ہو۔۔۔۔اس نے ایسا تو نہیں چاہا تھا۔۔۔
”میں تمہیں کسی پاگل خانے میں نظر آئی تو اس کی وجہ تم ہوگے۔۔۔“ الفاظ اس کا پیچھا نہیں چھوڑ رہے تھے۔۔۔
وہ بیٹھا رہا۔۔۔شام رات میں ڈھل گئی۔۔۔ وہ وہاں سے نہیں اٹھا۔۔۔۔ وہ شدت سے خواہش سے کر رہا تھا کہ یہ کوئی خواب ہو۔۔۔کوئی برا خواب۔۔۔۔جو چھن سے ٹوٹ جائے۔۔۔لیکن ایسا نہیں ہوا۔۔ یہ حقیقت تھی خوفناک حقیقت۔۔۔
وہ برداشت نہیں کر پا رہا تھا۔۔۔اسے اس وقت شدت سے کسی چیز کی طلب ہوئی تھی۔۔۔ڈرگز کی طلب۔۔۔۔
وہ سب بھول جانا چاہتا تھا۔۔۔ سب کچھ۔۔۔۔ اس کی آنکھیں سرخ ہوچکی تھیں۔۔۔
اس نے آس پاس دیکھا۔۔۔ ایک دو جگہیں وہ جانتا تھا۔۔۔پھر بھی اس نے فون نکالا اور کچھ سرچ کیا۔۔۔
وہ اپنے حواسوں میں نہیں تھا۔۔۔ کچھ دیر بعد وہ ایک گاڑی میں بیٹھا کہیں جارہا تھا۔۔۔ایک ایسی جگہ جہاں وہ اپنا غم بھلا سکے۔۔۔
کوئی گھنٹے بعد وہ ایک پرائیویٹ فارم ہاؤس پر تھا۔۔۔ سارا پیسوں کا کھیل تھا اس نے اپنا کارڈ کاؤنٹر پر دیا تھا جہاں سے آگے اسے آسانی سے جانے دیا جاتا۔۔۔ ویسے بھی حلیے سے وہ کوئی غریب آدمی تو لگ نہیں رہا تھا۔۔
اور پھر کچھ دیر بعد وہ سوئمنگ پھول کے کنارے پر رکھے ایک میز کے گرد بیٹھا تھا۔۔۔ یہ بڑا سا میز تھا جس کے گرد چند کرسیاں لگی تھیں اور وہاں دو لڑکے بیٹھے، میز پر رکھے سفید سفوف کو سر جھکائے سونگھ رہے تھے۔۔۔
اس کے ہاتھ تیزی سے حرکت کر رہے تھے۔۔۔ہاتھ میں ایک کارڈ پکڑے اس کے کنارے سے وہ اس سفوف کی ڈھیری کو مکس کر رہا تھا۔۔۔۔ پھر اس نے پاس ہی پڑے ایک کاغذ کو فولڈ کیا، اس کا پائپ بنایا اور جھک کر سفوف ایک گہرا سانس لیتے اندر کھینچا۔۔۔ اس نے یہ عمل دو سے تین بار دہرایا۔۔۔۔ اور پھر اس نے پیچھے کرسی سے ٹیک لگا دیا۔۔۔۔
اس کی آنکھیں بند تھیں۔۔۔ وہ سب بھول جانا چاہتا تھا۔۔۔ سب کچھ۔۔۔۔۔ایمان کا خیال۔۔۔۔اس کا حال۔۔۔۔
لیکن وہ ابھی تک اپنے حواسوں میں تھا۔۔۔ وہ پھر سے سیدھا ہوا۔۔۔ اور پھر سے میز پر جھک گیا۔۔۔۔اس بار اس کی آنکھوں میں پانی تھا۔۔۔ اور یہ پانی نشے کے سرور کا نہیں تھا بلکہ آنسوں تھے۔۔۔ جو بہہ نہیں سکتے تھے۔۔۔
چاروں جانب میوزک کا شور تھا۔۔۔تیز میوزک۔۔۔۔لوگوں کے ہنسنے بولنے کی آوازیں۔۔۔ پھر بھی وہ اس ایک آواز سے پیچھا نہیں چھڑا پارہا تھا۔
”ارے ارے وہ دیکھو۔۔۔ پہچانا اسے۔۔۔۔“
کچھ فاصلے پر کھڑی ایک لڑکی نے اپنے گروپ سے کہا۔
”کافی ہینڈسم ہے۔۔۔تم جانتی ہو اسے۔۔۔۔“
گروپ کی دوسری لڑکی نے پوچھا۔
”جی ہاں۔۔۔ جبیل خاندان کا سپوت ہے۔۔۔باہر سے لوٹا ہے۔۔۔پکا نشئی ہے۔۔ گھر میں علاج چل رہا تھا لیکن نواب صاحب نے بند کروادیا۔۔۔ میں اس کی نرسنگ کر رہی تھی۔۔۔۔“
وہ اب اپنے گروپ کے لڑکے لڑکیوں کو بتا رہی تھی۔
”تم تو بڑی چھپی رستم نکلی بتایا تک نہیں۔۔۔۔“
لڑکیاں اسے چھیڑنے لگیں۔
”جبیل خاندان کا پریشر ہی اتنا تھا کہ اگر یہ بات باہر نکلی تو ہماری خیر نہیں۔۔۔“
”لو بیٹا اب خود ہی گھر سے باہر نکل آیا ہے۔۔۔“
وہ اب ہنس رہے تھے۔
”اور اب یہ پوری دنیا دیکھے گی۔۔۔“ ایک لڑکے نے اپنا فون نکال کر ویڈیو بنانا شروع کی۔
”اگر ہم پکڑے گئے تو پھر؟؟“ وہ نرس اب ڈر گئی تھی۔
”نہیں پکڑے جاتے۔۔۔“ وہ سب ہنس رہے تھے۔۔۔
وہ ویڈیو بناتے رہے جب تک وہ بےسدھ نہیں ہوگیا تھا۔
✿••✿••✿••✿
وہ خاموشی سے گاڑی چلا رہا تھا۔۔۔ ساتھ والی سیٹ پر وہ اب تک خراب موڈ کے ساتھ بیٹھی تھی۔۔۔
حاد نے اس کی زمہداری لگائی تھی وہ دائمہ کو صحیح سلامت اپارٹمنٹ تک لے کر جائے۔۔۔ جب تک ادھم نہ آجاتا وہ وہیں رہتی۔۔۔
”ایم سوری۔۔۔“ سعد نے ہی گفتگو کا آغاز کیا۔
”تم کیوں سوری بول رہے ہو۔۔۔“ وہ گاڑی کے شیشے سے باہر دیکھ رہی تھی اور اب رہ رہ کر ادھم پر غصہ آرہا تھا جو ناجانے کہاں غائب ہوگیا تھا۔ اس کا فون بند جارہا تھا۔
”تم کیوں سوری کر رہے ہو؟؟“ وہ سنجیدہ لہجے میں بولی۔
”بس ایسے ہی۔۔۔“ وہ اتنا ہی کہہ پایا۔
”تم اس لڑکی کو کب سے جانتے ہو؟؟“
اس کا اشارہ ایمان کی جانب تھا۔
”کل ہی آیا ہوں یہاں۔۔۔ ابھی پتا چلا ہے۔۔۔“
وہ صاف گوئی سے کہہ رہا تھا۔
”اور حاد کب سے جانتے ہیں اسے؟؟“ وہ ابھی تک الجھی ہوئی تھی۔
”وہ بچپن سے۔۔۔“ وہ کہتا کہتا رک گیا۔ جبکہ دائمہ کی تیوری چڑھی۔
”مجھے کیسے پتا نہ چلا؟؟“ اس کا دل پھر سے کرلانے لگا تھا۔ آنکھیں پھر سے لباب بھرنے لگیں۔۔۔ وہ اب دوسری جانب منہ کیے سوں سوں کر رہی تھیں۔
”پلیز آپ روئیں مت۔۔۔“
”کیوں تمہیں میرے رونے پر بل آرہا ہے؟؟“
وہ فوراً بگڑی۔۔۔ اس نے سعد کو باقاعدہ گھورا تھا۔
وہ خاموش ہوگیا۔۔۔۔اس نے دائمہ کو اس کے حال پر چھوڑ دیا۔۔۔ دائمہ نے سیٹ سے سر ٹکایا۔۔۔ وہ صبح سے کافی تھک گئی تھی۔۔۔ رونے کے باعث اس کا سر درد کر رہا تھا۔۔۔
کچھ دیر بعد وہ سوگئی۔۔۔ سعد نے اسے سوتے دیکھ کر سکون کا سانس بھرا۔
✿••✿••✿••✿
وہ اگلے دن شام کو واپس ہسپتال آیا تھا۔۔۔۔ اس وقت وہ ہوش میں تھا۔۔۔اسے یاد تھا تو اتنا کہ وہ مدہوشی میں بھی اسے نہیں بھول پایا تھا۔
”ام ایمان کس کے ریفرنس سے یہاں ایڈمٹ ہیں۔۔۔؟؟“ اس نے کاؤنٹر سے ڈیٹیل مانگی۔
” سوری سر۔۔۔ ہم ڈیٹیلز نہیں دے سکتے۔۔۔“
”تم جانتی ہو میں کون ہوں؟؟“ وہ پہلی بار اتنے غصے میں آیا تھا۔
”ادھم جبیل نام ہے میرا۔۔۔ آپ مجھے ریفرنس دیں گی یا میں نکلواؤں۔۔۔؟؟“ اس نے گویا دھمکی دی۔۔۔ اس کا نام سن کر لڑکی کے چہرے پر الجھن ابھری۔
”سر آپ کو ریفرنس کی کیا ضرورت ہے؟؟ آپ کی ہی فیملی کا ریفرنس ہے۔۔۔“ وہ ساکت ہوا۔۔۔ پہلا خیال عبدل کا آیا تھا۔۔پر وہ یہاں نہیں تھا۔۔۔ وہ مزید الجھ گیا۔
”اوکے۔۔۔“ وہ تیزی سے راہداری کی جانب بڑھا۔۔۔یقیناً اب اسے کوئی نہ روکتا۔۔۔ وہ ایمان کے کمرے کی طرف جا رہا تھا۔۔ اس کے جاتے ہی کاؤنٹر پر موجود لڑکی نے حاد کا نمبر ملایا۔
”ہیلو سر۔۔۔مسٹر ادھم جبیل پیشنٹ سے ملنے آئے ہیں۔۔۔“ دوسری جانب سے اس نے کچھ کہا تھا۔۔۔ اور پھر فون رکھ دیا۔۔۔ تو وہ وقت آہی گیا تھا جب وہ دونوں براہ راست مقابل آنے والے تھے۔۔۔
وہ جس سیاہ اور سفید سے خوفزدہ تھی وہ دونوں آج ملنے والے تھے۔
✿••✿••✿••✿
”او کم آن ایمان۔۔۔ تم بہت اسٹرونگ ہو۔۔۔تمہیں خود پر پورا کنٹرول ہے۔۔۔تم پاگل نہیں ہو سکتی۔۔۔“
وہ گلاس ونڈو کے سامنے کھڑا تھا۔۔۔۔ اندر سے باہر کا منظر نظر نہیں آتا تھا۔۔۔شاید اسی لیے ایمان اسے نہیں دیکھ سکتی تھی۔۔۔وہ بیڈ کراؤں سے ٹیک لگائے کسی غیر مرئی نقطے کو گھور رہی تھی۔۔۔
کچھ یاد کرکے وہ کبھی ہنس دیتی تو کبھی خاموش ہوجاتی۔۔۔ اس کی حالت ادھم کے دل کو آری سے چیر رہی تھی۔۔۔ وہ کتنی دیر اسے دیکھتا رہا۔۔۔آس پاس کوئی نظر نہیں آرہا تھا۔۔ اکا دکا نرس گزر جاتی تھی۔۔
وہ کھڑا تھا جب کوئی خاموشی کے ساتھ آکر اس کے عین برابر کھڑا ہوا۔۔۔قد کاٹھ دونوں کا ایک جتنا تھا۔۔۔
فرق تھا تو صرف اتنا کہ ادھم کے وجود میں اس وقت کوئی طاقت نہیں تھی جبکہ مقابل پورے اعتماد سے کھڑا تھا۔
”کیوں آئے ہو اب یہاں؟؟“
آواز پر وہ چونکا۔۔۔ دائیں جانب دیکھا تو حاد کھڑا تھا۔۔ اس نے سید حویلی میں اس کی تصویر دیکھی تھی۔۔۔ہر کسی سے اس کی تعریف سنی تھی۔۔۔۔
لیکن وہ اسے وہاں دیکھ کر حیران ہوا۔
”تم یہاں کیا کر رہے ہو؟؟“ اس نے الٹا سوال کیا۔
”ام ایمان کا علاج کروا رہا ہوں۔۔۔“ حاد نے ایک مرتبہ بھی اس کی جانب نہیں دیکھا تھا۔
”تم اسے کیسے جانتے ہو؟؟“ ادھم کا موڈ بگڑا۔ اس کی تیوری چڑھ چکی تھی۔۔۔ ویلنسیا میں عبدل اس کے ساتھ تھا۔۔۔اور یہاں حاد۔۔۔ وہ الجھ گیا تھا۔
”میں تو اسے بچپن سے جانتا ہوں پر مجھے حیرت ہے تم نے سچ کیوں نہیں جانا؟؟“ اس نے پہلی بار ادھم کی جانب دیکھا۔۔۔
گرے آنکھیں سرمئی آنکھوں سے ٹکرائیں۔۔۔ گرے آنکھوں میں بہت کچھ تھا۔۔ جبکہ سرمئی آنکھیں سرخ تھیں۔۔۔۔ بےتحاشہ سرخ۔۔۔۔
”کونسا سچ؟؟“
”کمال ہے۔۔۔جس سے محبت کی اس کا سچ نہیں جانا۔۔۔ اس کا اعتبار بھی نہیں کیا۔۔۔“
”تم کیسے جانتے ہو میں ایمان سے محبت کرتا ہوں؟؟“
ادھم الجھ چکا تھا۔۔۔۔
”محبت کرتے تھے۔۔۔اب نہیں کر سکتے۔۔۔“
“کیوں نہیں کر سکتا؟؟ اور تم کون ہوتے ہو یہ پوچھنے یا کہنے والے؟؟ تم ہو کون؟؟“ وہ غصے سے پھنکارا۔
”یہاں سے چلے جاؤ۔۔۔ میں نہیں چاہتا تم اس کے سامنے جاؤ۔۔۔“ وہ وہاں سے پلٹ گیا۔
”مجھے اس سے ملنا ہے۔۔۔“ اس نے جیسے حکم دیا۔
”وہ نفرت کرتی ہے سیاہی سے۔۔۔“ حاد نے پلٹ کر جواب دیا۔۔۔ ”خوفزدہ ہے وہ۔۔۔ہم سے۔۔۔ہم سب سے۔۔۔جبیل خاندان سے۔۔۔“ آخر میں اس کے لہجے میں بےبسی گھل گئی۔۔۔لیکن اس نے خود کو بکھرنے نہیں دیا تھا۔
”تم نے کیا کِیا اس کے ساتھ؟؟؟“ ادھم کو کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا۔
”محبت کی ہے۔۔۔“ جواب اتنا برجستہ تھا کہ ادھم کو اپنے چاروں جانب آگ بھڑکتی محسوس ہوئی۔
”کیا بکواس کر رہے ہو۔۔۔؟؟“ وہ دبی دبی آواز میں چلایا۔
جبکہ وہ ویسے ہی پراعتماد کھڑا تھا۔
”عبدل کہتا ہے کہ میں بچپن سے ایمانے سے محبت کرتا ہوں۔۔ آئی تھنک عبدل ٹھیک کہتا ہے۔۔۔“ اس کا انداز سراسر آگ لگانے والا تھا۔
"She Choose Me.."
ادھم جبیل عرف ماثیل نے گردن اکڑا کر کہا۔۔۔
اور اس کی بات سن کر حاد کا قہقہہ ابھرا تھا۔۔۔۔وہ پہلی بار ایسے ہنسا تھا۔۔۔ اگلے ہی پل اس کا چہرہ سپاٹ تھا۔۔۔ وہ دو قدم بڑھاتا اس کے قریب آیا۔۔۔۔
"Did she..??"
گرے آنکھوں کی چمک مزید بڑھ گئی۔
”وہ میری ہے! میں اسکی زندگی میں آنے والا پہلا مرد ہوں۔۔“ ادھم اب بگڑ گیا تھا۔۔۔ ایمان کو اس حالت میں دیکھ کر وہ جیسے سب بھول گیا۔۔۔یاد رہا تو اتنا کہ وہ اسے چاہتا ہے۔
”وہ تمہاری کبھی نہیں ہو سکتی۔۔ کسی بھی قیمت پر نہیں۔۔“ حاد نے ادھم کی بات سن کر جواب دیا۔ لہجہ اٹل تھا۔ اسکی بات پر ادھم مسکرادیا۔
”وہ سیاہ ہوچکی ہے۔۔ وہ میری ہوچکی ہے۔۔۔ میں اسے اپناؤں یا نہ اپناؤں وہ میری ہی رہے گی۔۔“ کتنا یقین تھا اسے کو خود پر۔ وہ اب ایمان کو دیکھ رہا تھا۔
”تم کچھ بھی کرلو وہ تمہیں کبھی نہیں مل سکتی۔۔“ حاد نے پھر اسکے یقین کی دھجیاں اڑائیں۔ ادھم نے ضبط سے جبڑے بھینچے۔
”کیوں۔۔۔ کیوں نہیں ہو سکتی؟؟“
”شی از مائی وائف!!“ حاد نے گویا دھماکہ کیا اور ادھم نے اسے گردن موڑ کر اسے یوں دیکھا جیسے اس نے کوئی انہونی بات کردی ہو۔ وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا جس کا چہرہ جذبات سے عاری تھا۔
”اُم حانم ایسے ہی نہیں مل جاتی۔۔ ام حانم کے لیے روحان جبیل بننا پڑتا ہے!“ حاد نے سینے پر بندھے ہاتھ اب پینٹ کی جیبوں میں ڈالے اور رخ موڑ کر ادھم کو دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ دونوں کی نظریں پل بھر کو پھر سے ٹکرائیں۔
”وہ جب تمہارے پاس اس لیے تھی کہ میں نے ایسا چاہا تھا۔۔ اب میں نہیں چاہتا کہ تم ایمان کے آس پاس بھی نظر آؤ!!“ اس کی آنکھوں میں، اسکے لہجے میں کیا کچھ نہیں تھا۔۔ ادھم کو اپنا وجود بھسم ہوتا نظر آیا۔
”مسٹر جبیل آئیے ہمیں آپ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔۔“ اس سے پہلے کہ ادھم کوئی جواب دیتا اچانک وہاں ایک ڈاکٹر آئی۔ اور سفید اسے وہیں چھوڑ کر چلا گیا۔۔ ادھم نے بےیقینی سے گلاس ونڈو کے پار دیکھا۔
”اگر میں کبھی تمہیں کسی پاگل خانے میں قید نظر آئی تو اس کی وجہ تم ہوگے!“ اسکی سماعت سے چند الفاظ ٹکرائے اور اپنا وجود ریت کی طرح اڑتا محسوس ہوا۔۔۔
یہ سب کیا ہورہا تھا؟؟ کیا ایمان کی شادی حاد سے ہوئی تھی؟؟ وہ جانتا تھا اس کی شادی ہوگئی تھی۔۔۔ اس نے تو پلٹ کر کبھی ایمان کی خبر نہیں لی تھی۔۔۔۔ وہ تو اپنے غم سے باہر ہی نہیں نکلا۔۔۔بلکہ اس نے سلمی بیگم کو کال کرکے ایمان کا کردار ہی مشکوک بنادیا تھا۔۔۔۔
کیا کردیا تھا اس نے؟؟ خود اپنے پیروں پر کلہاڑی ماری تھی۔
حاد نے راہداری سے مڑتے ہوئے پلٹ کر ادھم کو دیکھا تھا۔۔۔ وہ یہ سب نہ کرتا لیکن وہ ایمان کے سارے خطوط پڑھ چکا تھا۔۔۔وہ اب ادھم کا سایہ بھی اس پر نہیں پڑنے دے سکتا تھا۔

6 Comments

  1. buhtt kamal ...

    ReplyDelete
  2. Please next episode jldi upload kary can't wait

    ReplyDelete
  3. Amazing speachless kamal kardiya apny

    ReplyDelete
  4. Mind blowing.. waiting for the next one

    ReplyDelete
  5. I'm just amazed ap bhot acha likhti hain..Noor..me apse pochna Chahti Hun kya ap sulphite hai...?

    ReplyDelete
Post a Comment
Previous Post Next Post